ایران کے خلاف پابندیوں کی منظوری میں صیہونی لابی کا کردار

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں اسرائیلی حکومت اور یہودی لابی کی پالیسیوں کے گہرے اثر و رسوخ کے تناظر میں ، ایران کی طاقت کو محدود کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کی غرض سے ’’ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا منصوبہ‘‘ بہترین آپشن سمجھا جاتا تھا جسے امریکہ کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔  
اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایران کے خطرے کو بڑھاوا دینے اور ایران کے اقتدار کو محدود کرنے کی پالیسی کے بعد صہیونی لابی نے امریکہ کے اندر ایران کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا چاہا، اس مقصد کے پیش نظر آخری نتیجہ جو 76 صفحات پر مشتمل رپورٹ کی شکل میں سامنے آیا اور جس کا عنوان ہی "ایران پر جامع امریکی پابندیاں: ایکشن پلان" تھا کو کانگریس کے ممبروں کو پیش کیا گیا۔ اس کے بعد ، امریکی یہودی لابی نے ، سینیٹر ’الفونسو دماتو‘ [1] کو استعمال کرتے ہوئے ، امریکی کانگریس میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے،  ایران کے خلاف پابندیوں کا بل پاس کرانے میں کامیاب حاصل کی۔ یہ قانون "دماتو" کے نام سے مشہور ہوا۔

25 جنوری ، 1995 کو ، امریکی سینیٹر ، الفونسو دماتو ، جس نے ہمیشہ ایران پر تجارتی پابندیوں کی وکالت کی اور اسے صہیونی لابی کی حمایت حاصل تھی ، نے "AIPAC لابی" کے ذریعے ’’ایران کے خلاف جامع امریکی پابندیاں ، ایکشن پلان‘‘ کے عنوان سے اپنا منصوبہ شائع کیا۔ جس کے مطابق ، کوئی غیر ملکی شخص یا کمپنی اگر کوئی سامان یا ٹکنالوجی ایران کو برآمد کرتی ہے ، وہ 1979 کے منظور شدہ امریکی برآمدات انتظامیہ ایکٹ میں طے شدہ شقوں کے تحت امریکی پابندیوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔

16 مارچ 1995 کو ، ڈی اماتو بل پر سینیٹ کی سماعت کے دوران ، صہیونی لابی کے دباؤ نے ایران پابندیوں کے بل کو آگے بڑھانا جاری رکھا۔ اجلاس میں صہیونی لابی کے نمائندے "پیٹرک کلاؤسن" [2] نے استدلال کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کو کم از کم دسیوں ملین ڈالر کا سالانہ نقصان ہو سکتا ہے اور ایرانی معیشت میں زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔

10 اپریل 1995 کو "یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے امور قومی سلامتی " [3] ، نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد پیش کی۔ اسی سال 30 اپریل کو، کلنٹن نے ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ پھر ، 6 مئی 1995 کو ، اس نے ایران میں تمام تجارتی اور سرمایہ کاری سرگرمیوں کو معطل کرنے کے لئے 12959 کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا۔
کلنٹن نے 30 اپریل 1995 کو ، اس حال میں کہ اس کے سر پر یہودی ٹوپی تھی، نیو یارک میں منعقدہ "ورلڈ یہودی کانگریس" [4] میں شرکت کے دوران کہا: "ایران مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میری انتظامیہ کے آغاز سے ہی ہم نے ایران کے واسطے کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ "میں سرکاری طور پر اعلان کرتا ہوں کہ ہم ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تمام تعلقات منقطع کرتے ہیں ۔" بالآخر ، کلنٹن نے دوسرا ایگزیکٹو آرڈر ، نمبر 12959 جاری کیا  اور 6 مئی 1995 کو ، ایران کے ساتھ  کچھ مخصوص معاہدوں پر پابندی عائد کر دی۔
ریاستہائے متحدہ میں سب سے طاقتور صہیونی لابی آیپیک ’دماتو‘ منصوبے کی منظوری کے عمل میں ہمیشہ پیش پیش تھی۔ ’آئیپیک‘ کے ترجمان کا کہنا تھا: "کانگریس کے ممبران نے ایران کے خلاف پابندیوں کے بل کا ایک ایک بند ہمیں لکھ کر دیا‘‘۔
لہذا ، کھلے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں سب سے زیادہ کردار صہیونی لابیوں کا ہے اور ان کا مقصد ایران کی طاقت کو محدود کر کے صہیونی ریاست کو تحفظ بخشنا ہے۔  

 حواشی
1-فرمانروایان پنهان، حسین جعفری موحد، صص ۳۰۵ تا ۳۱۷.
2- «لابی یهودیان آمریکا، کارگزار تحریم ایران»، سید علی طباطبایی، صفحات 44-46 و 62-63 و 68.
3- «تحریم ایران، شکست یک سیاست»، حسین علیخانی، صفحات ۱۷۲و۱۷۶ و ۱۷۸ تا ۱۸۰.
4- «قانون داماتو، ایران یا اروپا»، سعید تائب، ص۳۰.

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی