علی (ع) اور قرآن کی مظلومیت

  • ۵۶۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں ان کا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔

لیکن افسوس! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہو کر آواز دے رہی ہے کہ دیکھو کس طرح مجھے ہی میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کر دیا … میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آواز حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کماک کی انتہا پر پہچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گیا ہے ۔

علی تاریخ بشریت کی مظلوم ترین شخصیت، اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیا ں گزر جانے کے بعد بھی آج وہیں اکیلا کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے تھا اس انتظار میں کے شاید اسے کچھ وہ لوگ مل جائیں جو اس کے دل میں موجزن دریائے معرفت کے گوہروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتے ہوں، آج بھی علی تنہا ہے اسی طرح جیسے پہلے تنہا تھا۔ علی کی تنہائی تو کیا دور ہوتی بلکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے علی کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے بالکل قرآن کی طرح ۔
علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔

کتنا عجیب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیے ملے لیکن دونوں مظلوم ، دونوں تنہا ، دونوں درد کے مارے دونوں ستائے ہوئے لیکن آپس میں ہم آہنگ آپس میں ایک جاں دو قالب ہم آہنگ اس جہت سے کہ دونوں کا وجود رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ دونوں کا وجود مقدس، دونوں پاکیزہ، دونوں علم و معرفت کے بند ریچوں کو کھولنے والے، دونوں حقیقتوں سے روشناس کرانے والے دونوں صادق، دونوں خالق کے عظیم شاہکار حتی دونوں کا درد ایک دونوں کا غم بھی اس جہت سے ایک ہے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خود ان کے اپنے ہی ماننے والے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انکی عظمتوں کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو دونوں کو ہر وقت ورد کرتے نہیں تھکتے۔
 جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح شام قرآن کا ورد کرتے نظر آتے ہیں ، قرآن کا تعویذ گلے میں ڈالے گھومتے ہیں قرآن کی آیتوں سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حل کرتے ہیں قرآن کی شفا بخش آیتوں سے اپنے امراض کو دور کرتے ہیں ،چھوٹی سی دکان سے لیکر بڑے بڑے مالوں تک میں قرآن کی آیات سجی رہتی ہیں کہ ان سے کاروبار میں برکت ہوتی ہے بڑی بڑی فیکٹریوں میں قرآنی آیات سے مزین طغرے سجے نظر آتے ہیں کہ حوادث روزگار اور بلائیں اس عمل سے دور ہوتی ہیں۔
 لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ قرآن کیوں آیا تھا ؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کتنے لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنائی ہے کتنے لوگ اس کے مفاہیم سے واقف ہیں؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ قرآن ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ کتنے لوگ …
 اسی طرح علی کی ذات بھی ہے لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیں ان کی محفلوں میں علی کا نام ہے ، مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچا ہے ، نشستوں میں علی علی خلوت کدوں میں علی کا ورد ہے جلوت میں علی ہی علی کی دھوم ہے لیکن ان میں کتنے ہیں وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عظیم اساطیری شخصیت کن اسرار کی حامل ہے؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی کی جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو علی کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ بھی تو نہیں علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے؟
علی کی ذات کو نہ سمجھنا ایک مسئلہ ہے علی ع کے درد سے ناواقفیت اور بات ہے کیا ہم نے سوچا علی کا درد کیا تھا ؟ علی کو کون سا غم کھائے جا رہا تھا علی کیوں مار گزیدہ کی طرح تڑپا کرتے تھے؟ علی کی ریش مبارک کیوں آنسووں میں تر ہو جاتی تھی علی نخلستانوں میں جا کر اپنا کون سا غم بیان کرتے تھے؟ علی کنویں میں منھ ڈال کر کیوں روتے تھے؟ آج جس ضربت نے سر علی کو دوپارہ کر دیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کر دیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا۔ وہ نشتر جو دل علی کے آر پار ہو گئے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتے ہیں ان پر رونے والا کون ہے؟
 کیا ہمیں علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب نظر آتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کیا کہ آخر وہ کون سی مصیبت تھی وہ کون سا جانکاہ غم تھا جسکی وجہ سے راتوں کو علی کنویں میں سر ڈال کر رویا کرتے تھے ،کاش ہم اس راز کو سمجھ پاتے جسے علی اپنے گریہ کے ذریعہ بنی نوع بشر تک منتقل کرنا چاہتے تھے واقعی عاشقان علی کو جہاں علی کی مصیبتوں کا غم ہے وہیں ان کا دل یہ سوچ سوچ کر بھی پاش پاش ہونا چاہیے کہ علی ہم سے کیا کہنا چاہتے تھے ؟ وہ کون سی بات تھی جو علی اپنے چاہنے والوں سے کہنا چاہتے تھے کیا علی اپنے حق کی غصب ہو جانے کی وجہ سے گریہ کناں تھے یا علی کو اپنی شریک حیات فاطمہ زہرا سلام للہ علیھا پر پڑنے والی مصبیتں رلا رہی تھیں اور بعد فاطمہ علی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا کے غموں کو یاد کر کے روتے تھے؟ علی کو اپنی تنہائی کا غم تھا یا علی کو فراق رسول رونے پر مجبور کر رہا تھا ۔ آخر علی کیوں روتے تھے؟ ۔۔۔۔

 

یمن کی جنگ میں اسرائیل کا کردار

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کا یمن کی جنگ میں کوئی کردار نہیں اور وہ صرف علاقے کے حالات کا جائزہ لینے پر اکتفا کرتا ہے۔
اسرائیل اخبار نے یہ دعویٰ ایسے حال میں کیا ہے کہ ’’باحث‘‘ تحقیقاتی سنٹر نے یمن پر سعودیہ کی سرکردگی میں جاری یلغار میں صہیونی ریاست کے کردار کو مختلف دستاویزات اور قرآئن کے ذریعے ثابت کیا ہے۔
اس مقالے میں تحریر کیا گیا ہے کہ یمن کی جنگ میں صہیونی ریاست کا کردار امکانات کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ صہیونی ریاست ۱۹۶۰ کی دہائی سے اب تک یمن میں مداخلت کر رہی ہے۔ برطانوی اور امریکی دستاویزات جو خفیہ ذرائع سے سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست یمن کی جنگ میں سعودی اتحاد کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔
صہیونیوں کا یمن کے لیے ایک طویل المدۃ منصوبہ تھا جو کبھی یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے، کبھی یمن میں اپنے جاسوس چھوڑ کر اور کبھی اپنے آلہ کار سعودیہ کے ذریعے نیابتی جنگ کی صورت میں عملی جامہ پہن رہا ہے۔
یمن کے سکیورٹی ادارے نے صوبہ ذمار سے کچھ عرصہ قبل ۱۷ افراد پر مشتمل ایک جاسوسی ٹولہ گرفتار کیا جس کے افراد کا تعلق صومالیہ اور ایتھوپیا سے تھا۔ اس ٹولے سے ہاتھ لگی سی ڈیوں اور دیگر معلومات سے پتا چلا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے اس ملک میں جاسوسی پر مامور تھے سی ڈیوں میں یمن کے مختلف اہم مراکز اور سکیورٹی اداروں کی معلومات ضبط کی ہوئی تھیں۔
اس سے قبل بھی یمنی فورس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا تھا جس کا تعلق اسرائیل سے تھا۔ ۲۰۰۹ میں یمن کی عدالت نے اس ملک کے ایک شہری کو صہیونی ریاست کے لیے جاسوسی کے جرم میں پھانسی کا حکم دیا جبکہ دیگر دو افراد کو جیل میں بند کیا۔
ستمبر ۲۰۱۲ میں ایک اسرائیلی شہری کو یمن سے گرفتار کیا گیا یہ شخص موساد کے لیے کام کیا کرتا تھا اور یمن میں ایک جاسوسی چینل کو چلا رہا تھا۔ اس کے دو نام تھے ایک ’’علی عبد اللہ الحمیمی السیاغی‘‘ اور دوسرا ’’ابراھام درعی‘‘۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ صہیونی جاسوس ہے اور یمن سے بچوں کی اسرائیل اسمگلنگ کرتا ہے۔
یہ بچے اسرائیل میں موساد کے ذریعے ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں یعنی انہیں یمن یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اور وہاں وہ اسلامی حکومتوں اور اداروں میں اپنا نفوذ پیدا کرتے ہیں۔

 

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۲)

  • ۳۹۸

گزشتہ سے پیوستہ

آیت اللہ طائب:

۲۔ نفسیاتی جنگ؛ اس جنگ میں کسی ظاہری ہتھیار کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ فلموں، ڈراموں، میڈیا، سوشل میڈیا، شبہات اور جھوٹ فراڈ وغیرہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ و فراڈ کی ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ انسان خود بخود منفعل ہو جاتا ہے اور کسی اقدام کی اس میں توانائی نہیں رہتی۔ فلموں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کی سوچ کو چھین کو اپنی سوچ دی جاتی ہے۔ اسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ میں دشمن بہت آگے نکل چکا ہے پورا میڈیا دشمن کے پاس ہے، تمام ذرائع ابلاغ دشمن کے قبضے میں ہیں، جو وہ چاہتے ہیں وہ لوگوں تک پہنچ پاتا ہے تو ایسی صورت میں تقریبا نفسیاتی جنگ میں اس وقت دشمن جیت چکا ہے اور ہم مسلمان ہار چکے ہیں۔ اس لیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں، جوانوں، عورتوں سب کی فکروں پر دشمن کی سوچ حاوی ہو چکی ہے۔
۳۔  کیمیائی جنگ؛ کیمیائی جنگ سے مراد کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے کی جانے والی جنگ نہیں ہے وہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ کے ذمرے میں آ جاتی ہے یہاں پر کیمیائی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو زہریلے مواد کے ذریعے اپنے دشمن کو پسپا کرنے کے لیے کی جاتی ہے مثال کے طور پر گزشتہ دور میں جس بستی یا گاؤں کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اس بستی کے پانی کو زہر آلود کر دیا جاتا تھا، اور آج مثلا اس بستی کی فضا کو زہرآلود کر دیا جاتا ہے۔
۴۔ حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار؛ کسی بیماری کو کسی علاقے میں پھیلا کر یہ جنگ لڑی جاتی ہے گزشتہ دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ دشمن اپنے حریف کی کسی بستی میں متعدی بیماری پھیلا دیتا تھا اور جس سے بستی کی بستیاں اجڑ جاتی تھیں۔
تاریخ میں طاعون کی بیماری کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس کے ذریعے بہت سارے لوگ لقمہ اجل بن جاتے رہے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی یہ بیماری موجود تھی اور بعد اسلام بھی حالیہ سالوں تک موجود رہی ہے، ۱۸ ھجری قمری کو دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے بہت سارے اصحاب رسول جیسے معاذ بن جبل موت کا شکار ہو گئے۔ ۸۷ ہجری میں بھی عبد اللہ بن زبیر کے دور حکومت میں پھیلی اور کئی بستیوں کو اجاڑ دیا۔
لیکن ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور اس طرح کی مسری اور متعدی بیماریاں کیسے وجود پاتی ہیں۔ لیکن طول تاریخ میں مسلمانوں کو جس قوم پر شک رہا ہے وہ یہودی قوم ہے۔ چونکہ گزشتہ دور میں بھی اکثر یہ بیماری مسلمان بستیوں یا عیسائی بستیوں میں پھیلتی تھی اور یہودی اس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ شام میں یہودی بھی ان علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے جہاں طاعون کی بیماری پھیلی تھی مگر یہودی بہت کم اس بیماری کا شکار ہوئے۔ یوریشیا کے علاقے میں یہ بیماری پھیلی لیکن یہودی وہاں صحیح و سالم بچ گئے اسی وجہ سے یہودی ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ کہیں یہ انہی کی کارستانیاں تو نہیں۔
انیسویں صدی میں اس وائرس کا انکشاف ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد طاعون کے وائرس کو طاقتور ملکوں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جاپان نے طاعون کے وائرس سے تیار کیے بم اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے۔ لہذا اس طرح کی جنگ کو حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیک وار کہتے ہیں۔

جاری

 

کرونا وائرس کیا بائیولوجیکل وار ہے؟

  • ۴۱۵

بقلم نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج بین الاقوامی سطح پر ہم سب جس بڑی پرشانی سے جوجھ رہے ہیں وہ کرونا وائرس ہے ، ساری دنیا میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے چین کے بعد سب سے زیادہ اس وائرس کی زد میں آنے والا ملک پہلے تو اٹلی تھا، یورپ کے حالات میں کم برے نہیں تھے  امریکہ کی تو بات ہی الگ ہے دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تباہی اس وائرس نے  امریکہ میں مچائی ہوئی ہے با این ہمہ عجیب بات یہ ہے کہ منظم طور پر اسلامی جمہوریہ  ایران کو  اس بیماری سے متاثر ہونے ہونے والے ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جہاں پر گویا دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے، اور مختلف تجزیہ کار اس بات کو بیان کر رہے ہیں جو صورت حال امریکہ و یورپ کی ہے اس وقت اتنی بدتر صورت حال کہیں نہیں ہے ،انسانی معاشرہ کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر سب کو مل جل کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس سے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسی صورت میں بھی کچھ لوگ سیاست کر رہے ہیں ، اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنی خطرناک وبا کے ہوتے ہوئے دنیا کی تسلط پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقت  نہ صرف اپنی ٹکنالوجی اور اپنی طاقت کو اس بیماری سے روکنے پر صرف نہیں کر رہی ہے بلکہ انسانی بنیادوں پر جہاں جہاں اس نے پابندی لگائی ہوئی ہے ان ممالک میں دوائی و میڈیکل سے متعلق سازوسامان کی ارسال و ترسیل کے کام کو بھی نہیں ہونے دے رہی ہے، اسی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والی بڑی طاقتوں کو کس قدر انسانیت کی فکر ہے، اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا یہ عراق کی سرزمین پردنیا میں موجودہ افراتفری کے باوجود الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر  بمباری کرتے؟ اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا کربلا کے زیر تعمیر ائر پورٹ کو نشانہ بناتے، یا پھر انکی کوشش ہوتی کہ اپنے وسائل کو انسانیت کے تحفظ کی راہ میں استعمال کریں ۔
اور کیوں نہ ہو مختلف تجزیہ کار اس خدشہ کا مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں کہ یہ ایک بائیولوجیکل جنگ ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے چین کی ابھرتی معیشت کو روکنے کے لئے چھیڑا ہے، یہ اور بات ہے کہ دوسروں کے لئے گھڑہا کھودنے والا زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا اور اپنے کھودے گھڑے میں خود ہی گرتا ہے جو کہ آج ہو رہا ہے اور جتنی ہا ہا کار امریکہ میں مچی ہے کہیں یہ صورت حال نہیں ہے ، جہاں تک اس وائرس کے پیچھے امریکہ کے ہاتھ کی بات ہے تو اگر بات صرف  دنیا کے سپر پاور کے مخالفین کی جانب سے ہوتی تو یہ یقینا کہا جا سکتا تھا کہ بلا وجہ کے ازلی عناد کی وجہ سے کچھ لوگ مخالفت میں یہ بات کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے چنانچہ ایک امریکی مصنف ’کیون بیرٹ‘ کے تجزیہ پر اگر غور کریں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یقینا یہ کرونا وائرس محض ایک بلا یا بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک تخریبی سیاست کارفرما ہے ، چنانچہ اس تجزیہ کے کچھ اہم نکات کو ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین کے سیاسی اہلکاروں نے واضح طور پر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے  جسکے بعد  امریکہ میں مختلف خفیہ میٹنگیں ہوئی ہیں جنکی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے،کیااس بات کا احتمال نہیں ہے کہ امریکی مقتدرہ سے ہٹ کر اسکی بعض خفیہ ایجنسیوں نے من مانے طریقے سے اس وائرس کو چین سے مقابلہ کے لئے وہان میں پھیلا دیا ہو  اور اگر حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو تو یہ واضح طور پر تیسری عالمی جنگ کی آہٹ ہے ۔
۲۔ آپ اگر غور کریں تو پائیں گے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کی تجارت ٹھپ ہو گئی ہے  چین و امریکہ کی معیشتی مراکز کو الگ الگ کیا جا رہا ہے ، اور اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہے کہ اٹلی میں موجود چینی بندرگاہوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور اٹلی کو چین کے ایک بڑے پروجیکٹ  بیلٹ اینڈ روڈ کے لئے مجرم قرار دے کر اسے اسکے کئے کی سزا دی گئی ہے ،
۳۔  جہاں تک ایران کی بات ہے تو ایرانی قیادت  کی فرنٹ لائن کو نشانہ بنایا گیا ہے  جبکہ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب سے وابستہ عہدہ داروں اور دیگر انقلابی اداروں کی جانب سے پہلے ہی اس بات کا اندیشہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ ایران میں بری طرح اس وائرس کا پھیلنا ایک بایولوجیکل جنگ کا حصہ ہو سکتا ہے ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں بلکہ امریکہ ہی کے ایک تجزیہ کار و مصنف نے بیان کی ہیں ،کیا ان باتوں کے پیش نظر یہ مقام غور نہیں ہے کہ ہم جس مصیبت میں پھنسے ہیں ، وہ مصیبت دنیا کی اس بڑی طاقت کی جانب سے ایجاد کی ہوئی ہے جس نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے پوری دنیا کو ایک کھلونا بنا دیا ہے ۔
اگر چین کے بڑھتے عالمی رسوخ اور اسکی تیز رفتار ترقی کرتی معیشت کو دیکھا جائے  اور اس بات پر غور کیا جائے کہ دنیا کی بڑی طاقت اس سے مقابلہ کے لئے کیا کر سکتی تھی تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں  کس طرح وہان شہر میں امریکی فوجی مشقیں ہوئیں اور پھر امریکی فوج جیسے ہی واپس پہنچی وہان شہر میں ہر طرف کرونا وائرس نے ہا ہاکار مچا دی ۔
اس موجودہ وائرس کی وجہ کوئی بھی ہو  فی الحال ہم سب کو مل کر اسکا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ملک میں اس بات کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وائرس پر جلد از جلد کنڑول ہو یہ ہم سب کی قومی اور شرعی ذمہ داری ہے ۔
     

 

 

یہودی اور بائیولوجیکل وار (۱)

  • ۴۱۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں ظاہری ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ایسے جراثیم استعمال کیے جاتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف بڑھ سکتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں، سانس کے ذریعے پھیل سکتے ہوں یا ایک دوسرے کو چھونے کے ذریعے۔ گزشتہ دور سے دشمن ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کی مثالیں کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں پھیلی یا پھیلائی گئی اس بیماری کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک قسم کی حیاتیاتی جنگ ہے۔ اس حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب نے اپنے فقہ کے درس کے دوران ایک تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے جس کو مختلف حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے؛
کتاب و سنت کی روشنی میں کسی بھی چیز کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں مکمل طور پر آشنائی حاصل کر لیں۔ اگر ہم جنگ کے احکام معلوم کرنا چاہیں، جہاد اور دفاع کے احکامات معلوم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے دشمن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی قسموں کو پہچانیں پھر ان کا مقابلہ کرنے کے راستوں کو جان سکتے ہیں اور اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں؛ ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔
ابتدائی جہاد کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام کی دعوت دینا اور عدالت برقرار کرنا کے معنی میں ہے جس میں جنگ کے آغاز گر مسلمان ہوتے ہیں اور مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کی گسترش ہوتی ہے، یہ جہاد اہل تشیع کے نزدیک امام معصوم کے عصر غیبت میں منتفی ہے چونکہ ابتدائی جہاد کے لیے نبی یا امام معصوم کا حکم ضروری ہے۔
لیکن دفاعی جہاد مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں موجود ہے اور ہر انسان پر فرض ہے۔ دشمن کے حملے کے مقابلے میں اپنے جان و مال اور اپنے دین و وطن کی حفاظت کرنا ایسا مسئلہ ہے جو عقلی اعتبار سے ثابت ہے اور آیات و روایات میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن دفاعی جہاد کرنے سے پہلے دشمن کے حملوں کو پہچانا ضروری ہے کہ دشمن کتنے طریقے سے ہمارے اوپر حملہ ور ہو سکتا ہے۔ بطور کلی اگر دیکھا جائے تو دشمن نے ابھی تک چار طرح کی جنگیں کی ہیں؛
۱۔ ہتھیاروں کی جنگ؛ ہتھیاروں کی جنگ ہر دور میں متعارف ہے اور زمانہ قدیم سے آج تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے ہی لڑی گئی ہیں صرف فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیر و کمان تھے لیکن آج میزائل اور ایٹم بم ہے۔ گزشتہ دور کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو آپس میں لڑنے کے لیے میدان جنگ کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن آج گھر بیٹھے بیٹھے شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کو اتنے ہی قوی ہتھیار بنانے پڑتے ہیں جتنے اس کے دشمن کے پاس ہیں اور یہ چیز متعارف ہے اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے وہ ایسے ہتھیار بنا اور استعمال کر سکتا ہے جن سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے لیکن ایسے ہتھیار بنانے اور ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا جن سے اجتماعی قتل و بربادی ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔

جاری

 

عطوان: تہران نہ تو سر تسلیم خم کرے گا، نہ پسپا ہوگا اور نہ ہی پابندیوں کے دباؤ سے متاثر ہوگا

  • ۴۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنی یادداشت بعنوان “ان دنوں علاقے کے عرب ملکوں میں امریکی اڈوں پر ایران کی گہری نگرانی کی خبریں منظر عام پر کیوں نہیں آتیں؟”، میں لکھا ہے کہ ایران ہر قیمت پر ایٹمی معاہدے میں نہیں رہے گا اور جنگ کے سائے علاقے پر منڈلارہے ہیں۔
یادداشت کے اہم نکات:
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر ایران دفاعی رد عمل چھوڑ کر گذشتہ چند روز سے حملے کی پوزیشن میں منتقل ہوا ہے، اور یہ نیا اور پہلے سے منصوبہ بند تزویری قدم ان سات شرطوں میں مجسم ہوا ہے جو انقلاب اسلامی کے قائد اعلی آیت اللہ [امام] خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کی نسبت اپنے ملک کی پابندی کے لئے یورپی ممالک کے سامنے رکھی ہیں۔
ادھر ایرانی افواج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے بھی براہ راست اور اعلانیہ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران کو امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو چار عرب ممالک ـ یعنی اردن، سعودی عرب، امارات اور قطر ـ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ایران کے قائد تین یورپی ملکوں، “برطانیہ، جرمنی اور فرانس” کو موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی پر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کھیل کے دورانیے کے تعین کو ان کے سپرد نہیں کرنا چاہتے۔ اسی بنا پر آیت اللہ [امام] خامنہ ای کی طرف سے سات شرطیں متعین ہوئیں جنہیں نائب وزیر خارجہ، عباس عراقچی ویانا کی نشست میں لے گئے۔ یہ نشست گذشتہ جمعرات اور جمعہ کو امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کی فراہمی کے مقصد سے منعقد ہوئی تھی۔
یہاں ہم اہم ترین شرطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک اور چین اور روس کا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد ۲۲۳۱ کے تحت منعقدہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس سے علیحدگی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے امریکہ کی مذمت میں ایک قرار داد جاری ہونا چاہئے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کے سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لےگا کیونکہ بیلسٹک میزائل ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی بات سرخ لکیر سمجھی جاتی ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارتی لین دین ـ منجملہ بھارت، چین اور جاپان کو ایران کے تیل کی برآمدات، اور متعلقہ بینکاری کے معاملات ـ کے سلسلے میں یورپ کو مکمل ضمانت دینا پڑے گی۔
عطوان مزید لکھتے ہیں:
اگر یورپ اور تین دیگر اصلی ممالک نے مختصر سی مدت میں ـ جو چند ہی ہفتوں پر مشتمل ہوگی ـ معاہدے کی پابندی کا عملی ثبوت نہیں دیا تو ایران بھی اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا اور یہ ملک یورینیم کی اعلی درجے کی افزودگی کا فورا آغاز کرے گا۔
ایران کی یورینیم کی افزودگی کی طرف واپسی امریکہ کے ساتھ تناؤ میں شدت آنے کا سبب بنے گی اور یہ تناؤ ایسے مرحلے میں داخل ہوگا جو علاقے کو جنگ میں دھکیل دے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران امریکہ کے آگے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور شدید پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا، ایسی پابندیاں جو در حقیقت ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی تمہید کے طور پر وضع کی جارہی ہیں۔
جنرل پوردستان ایران کے عسکری انٹیلجنس کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان کا ماتحت ادارہ اردن اور خلیح فارس کی ساحلی ریاستوں میں امریکی اڈوں کی نگرانی پر مامور ہے، اور یہ ادارہ خلیح فارس اور اردن میں امریکی نقل و حرکت کی پوری معلومات رکھتا ہے چنانچہ ان کی دھمکی اس نظریئے کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف کوئی جارحیت کی تو مذکورہ ممالک میں موجود امریکی اڈے ایران کے ابتدائی جوابی حملوں کا نشانہ ہونگے۔
یہ وہ پیغامات ہیں جو یک جہت طور پر بھی اور الگ الگ بھی، ایران سے مل رہے ہیں، اور ان سب پیغامات کا لب لباب یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں یا اسرائیل کی طرف شام میں ایران کے فوجی اہداف پر امریکی حملوں جیسے اشتعال انگیز اقدامات کے آگے ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور ایرانی قیادت ایک خاص روش سے ان اقدامات کا جواب دے گی اور وہ بھی بہت محدود مدت میں اور یہ جوابی اقدامات اپنے بچاؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ کے زمرے میں شمار ہونگے۔
شام میں ایران کے فوجی اہداف پر اسرائیلی میزائل حملے تقریبا روز کا معمول بن چکے ہیں، اور تازہ ترین حملے میں حمص میں واقع الضبعہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا اور اس موضوع نے نہ صرف ایرانی قیادت کو غضبناک کردیا ہے بلکہ اس کے حلیف روس کے لئے بھی درد سر بن چکا ہے، یہاں تک کہ روس نے حال ہی میں اس کے حوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام کو ایس ۳۰۰ فضائی دفاعی سسٹم کی حوالگی پر زور دیا ہے گوکہ یہ موقف نیم سرکاری ماہرین کے زبانی بیان ہوا ہے۔
گذشتہ منگل کو سعودی عرب کے جنوب میں ابہا ایئرپورٹ کی طرف ڈرون بھجوانا اور اس سے پہلے یمن کے شہر صعدہ سے جیزان پر میزائل حملے بھی ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشانیاں ہوسکتی ہیں؛ بےشک حوثی مجاہدین کے پاس اس قسم کے ڈرونز بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اور اگر ان کے پاس یہ ڈرون بنانے کی صلاحیت ہو تو اس کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی ہے اور اس کی تربیت دینے والا دماغ بھی ایران ہے، خواہ یہ ڈرونز اور وہ میزائل ایرانیوں نے خود نہ ہی بھیجے ہوں۔
ہم نے دیکھا کہ ایک ۳۵۰ ڈالر کی لاگت سے بنے ڈرون نے جنوبی سعودی عرب کے مرکزی ہوائی اڈے کو کس طرح سراسیمگی سے دوچار کردیا اور سعودیوں کو اسے گرانے کے لئے لاکھوں ڈالر دے کر خریدے جانے والے پیٹریاٹ میزائل استعمال کرنا پڑے۔
بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک ـ بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں ـ میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں، یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اٹھی تو یہ تباہی اور بربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی، سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہم عرب ممالک میں سے کئی ممالک پہلی بار اسرائیل کے مترادف سمجھے جائیں گے اور اس جنگ سے ہمیں جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑیں گے، اور یہ ہماری مصیبت کا عروج ہے۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970306001105/

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور متاثرین کی بازآبادکاری

  • ۳۹۸

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
  دہلی کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اسکی تلافی جلد اور آسانی سے ممکن نہیں ہے،  جس ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے جس بیوہ نے اپنا سہاگ کھویا ہے جس بہن نے اپنا بھائی کھویا ہے اسکے زخم زندگی بھر کے ہو گئے  ،جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے تنکا تنکا اکھٹاکر کے آشیانہ بنانا کتنا کٹھن اور سخت ہوتا ہے  اور اسکے  بعد آشیانہ کو اپنے سامنے دھوں دھوں جلتے دیکھنا کتنا سخت ہوتا ہے  یہ وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اپنے گھر کو اپنے سامنے آگ کی لپٹوں میں جلتے دیکھا ہو ،خدا ہی ان لوگوں کو صبر دے جنکا گھر بار لٹا یا جنکے کسی عزیز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا  ،لیکن ایک چیز جس پر ہم سب کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان دہلی کے فسادات نے ہم سب کو یہ سبق بھی دے دیا کہ ہم خدا کے علاوہ کسی کی ذات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی باز آباد کاری کے ساتھ ہمی جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اپنی حفاظت ہے  ہمیں اپنی  حفاظت کا انتظام خود  ہی کرنا ہوگا ، اس لئے کہ واضح ہے پولیس جس کے ہاتھ میں ہے اسی کے اشاروں پر کام بھی کرے گی پولیس سے امید لگانا یا کسی حکومتی ادارے سے آس لگانا بے سود ہے حتی  خود اپنے ہی قومی لیڈروں سے بھی امید باندھنا فضول ہے خدا سے ہی لو لگانا ہے اسی سے امید باندھنا ہے اسی پر بھروسہ کرنا  وحدہ لاشریک  کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اب  جو دوسری چیز ہے وہ یہ ہے محکمہ انصاف میں چاہے جتنے بھی حالات خراب ہوں ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا ہے کہ  پکے ثبوتوں کے ساتھ ان لوگوں کو انصاف کے کٹگھرے میں لا کھڑا کریں جو ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ،اگر سب مل جل کر ایک فیصلہ لیں اور فسادات کے اصلی مجرموں کے بارے میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کریں تو یقینا یہ ایک مثبت قدم ہوگا ۔
امید کے ہم ان فسادات سے سبق لے کر آگے بڑھیں گے اور ہرگز ان باتوں میں نہیں آئیں گے جنکے ذریعہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ آپ سبھی کے لئے کر رہی ہے آپ سبھی ملک کے باشندے ہو آپ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہم سبھی مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے والے ہیں ، اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو یقینا نہ دہلی میں اتنے بھیانک فساد ہوتے اور نہ مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگتی اور نہ ہی آج ہماری مائیں بہنیں مختلف جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی ہوتیں ،
کونسی بڑی بات تھی پولیس کے لئے دنگائیوں کو لگام دینا جو پولیس چند طلباء کو پکڑنے کے لئے جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر آنسو گیس کے گولے داغ سکتی ہے لاٹھی چارج کر سکتی ہے وہ پولیس دنگائیوں کے سامنے بے بس کیونکر ہو جاتی ہے یہ وہ سوال ہے جسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جواب نہ ہونا ہی یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں تباہ کر دینے میں پولیس کے رول کا جواب نہیں ہے ان کے پاس کل یقینا مسلمانوں کی شہریت کے سلب کئے جانے کا بھی جواب نہیں ہوگا ۔لہذا ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے مل جل کر آگے آنے کی ضرورت ہے جنکا سب کچھ ان فسادات کی نذر ہو گیا ، ہم مشکل کشا کے ماننے والے ہیں مشکلوں سے گھرے لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہمدردانہ و دلسوزانہ نہ ہوگا تو کس کا ہوگا ، امید کہ ہم سب سے جو بھی بن پڑے گا ان لوگوں کے لئے کریں گے جنہیں ان فسادات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یقینا اگر ہم خلق خدا کی مدد کریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا انشاء اللہ ۔

 

سامراج کے ہاتھوں قیدی و بے بس میڈیا

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی عربی کے ایک رسالہ  میں ایک کہاوت پڑھی تھی  کہ ایک مصور دیوار پر نقش ونگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو  ایک نظر دیکھا۔ مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں!  تصویر اچھی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ میاں! اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہو منظر کشی کرو، ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا  ہے ۔ ابلاغ کے تمام تر ذرائع پرمغرب کا کنٹرول ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔ متعصب یہودی کا دماغ اورسیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہوچکے ہیں۔
سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہوکر مذہب کا راستہ روکنے کے لئے سیاست، معیشت، میڈیا لابنگ اور تحریف و تحریص کے تمام ذرائع استعمال کررہی ہیں اور عیسائی دنیا کے مذہبی لوگ بھی خود کو میڈیا کے آگے سرینڈر کر کے لادینت کا راگ الاپ رہے ہیں ،مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کےتلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات (آسمانی وحی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تعلیمات وسیرت) اصلی حالت میں موجود ومحفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے اسلام منطقی طور دنیا کے مستقبل کی واحد امید بنتا جارہاہے۔ چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی  صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہورہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کردی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کے متوقع بازگشت میں رکاوٹ بن سکے۔
اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار انسانی حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں جھوٹ کا یہ سبق اچھی طرح رٹایا جا رہا ہے  کہ “جھوٹ بولو!اور اتنی بار بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں”چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے عورتوں،اقلیتوں،اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جارہا ہے، دنیا میں اگر میراث و حجاب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک میں طلاق اور جہاد کی باتوں کو ایشو بنا کر گھنٹوں ٹی وی شو ہوتے ہیں جن میں لاحاصل بحث ہوتی ہے جبکہ کوئی ملکی ترقی کی بات نہیں کرتا کہ ملک کہاں تھا اور کہاں جا رہا ہے۔
آج آزادی کے چوتھے ستون میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ آپ تمام حضرات کے پیش نظر ہے  یہ کہیں مجرم کو منصنف تو کہیں منصف کو مجرم بنا کر پیش کر رہا ہے تو کہیں قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل ۔  ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تو انکا تو شیوہ ہی یہی ہے انکے اپنے مفادات ہیں ان کا  لحاظ نہیں کریں گے تو انہیں بجٹ کی فراہمی سے لیکر دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  لہذا وہ تو سچ اور جھوٹ کے پالے کو  درہم و دینار کی کھنک کے ساتھ تبدیل کریں گے ہی لیکن  یہ اب ہم پر ہے کہ اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو اتنا بڑھائیں کہ میڈیا کی خبروں کے درمیان اصل و نقل پہچان سکیں یہ جان سکیں کہ ذرائع ابلاغ کے پیچھے کونسی لابی کام کر رہی ہے اور دن بھر چلنے والی بریکنگ نیوز کے پیچھے کیا سیاست ہے ؟
میڈیا تو خیر میڈیا ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی پیسوں پر تل رہاہے تو اوروں کی تو بات ہی کیا  کون بھول سکتا ہے کہ پچھلے سال کس طرح اقوام متحدہ نے سعودی عرب کو بلیک لیسٹ میں قرار دیا پھر جب یہ دھمکی دی گئی کہ بجٹ کی فراہمی روک دی جائے گی تو اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے افسوس کے ساتھ اپنی مجبوری کی دہائی دیتے ہوئے اسے بلیک لیسٹ  سے نکال دیا  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے اور دولت کے بل پر کس طرح حق کو ناحق کیا جا رہا ہے۔
یہ تو دنیا کی  موجودہ  صورت حال ہے جبکہ اس صورت حال سے کہیں بدتر معاملہ ہندوستان کا ہے جہاں وہ سب کچھ تو ہے ہی جو اوپر بیان کیا گیا ،علاوہ از ایں مقامی میڈیا ہر چیز کو زعفرانی رنگ میں دیکھ رہا ہے اور چند گنے چنے منصف صحافیوں اور چند گنے گنے منصف چینلوں کے سوا ہر طرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف چوطرفہ زہر اگلا جا رہا ہے ،کہیں اشتعال انگیز تقریریں کرنے میں مشہور بعض مسلم عمائدین کو ٹی وی شو میں سجا کر پیش کیا جا رہاہے تو کہیں میدان سیاست سے بے خبر سیدھے سادے مولویوں کو سیاست کے تپتے اکھاڑے میں ہاتھ پیر باندھ کر ماہرین سیاست، و سیاسی مبصرین کے چبھتے سوالوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے جسکا لازمی نتیجہ عوام میں اس بات کا القاء ہے کہ انکے پاس کہنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے، انہیں جو کرنا تھا یہ اپنی تقریبا سات سو سالہ حکومت میں کر چکے اب ہمیں کچھ کرنا ہے اور ہندوستان کو بچانا ہے، ملک کی تخریب ہو چکی اب تعمیر کرنا ہے دوسری طرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اور بعض لوکل چینلز پر ڈھکے چپھے انداز میں مسلمانوں کو ایک خوفناک موجود کی صورت پیش کیا جا رہا ہےاور ان سے مقابلہ کے لئے گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ووٹوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
 ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے  انصاف کی آواز بلند کریں اور کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک اتنا جاگ جائیں کہ وہ کام نہ کریں جو دشمن ہم سے لینا چاہتا ہے اور کم سے کم اسکی سجائی دکان سے سامان نہ خریدیں اور اسکی مصنوعات کی مارکیٹنگ نہ کریں ۔اس دور میں جب کہ میڈیا سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر حق بیانی سے نہ صرف کترا رہا ہے بلکہ کھلم کھلا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور ملک میں شدت پسندانہ طرز فکر کی ترویج کر رہا ہے ایسے میں ہمارا کمترین وظیفہ یہ ہے کہ اگر خود میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والی خبروں کا تجزیہ نہیں کر سکتے  تو صاحبان فکر و نظر کی طرف  رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام یا کلپ فارورڈ کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کہیں دشمن کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فلسطین کی حمایت میں اردوگان کا منافقانہ کردار

  • ۴۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسلم امہ کا وفادار سمجھا جانے والا ترکی وہ پہلا مسلمان اکثریتی ملک تھا جس نے ۱۹۴۹ میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا یعنی فلسطینیوں کے گھروں اور سرزمین پر صہیونیوں کے قبضے کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس دردناک حقیقت پر راضی ہوا کہ فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزین اور تیسرے درجے سے بھی کم تر کے شہری بنا دئے گئے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان فوجی، اسٹریٹیجک اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ اسرائیل میں ترکی کا سفارت خانہ ہے اور ترکی میں اسرائیل کا سفارت خانہ موجود ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کو بدل دیں۔
اردگان نے ۲۰۰۵ میں باقاعدہ اسرائیل کا دورہ کیا لیکن بعد میں کچھ عرصے بعد ایسا تاثر دیا گیا کہ ترکی اسرائیل کے خلاف ہے اور فلسطین کا حامی ہے۔
اگر ترکی اتنا ہی فلسطین کا حامی ہے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ یہ نری منافقت ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور منافقت کا مقصد مسلم امہ کو ایک جعلی لیڈرشپ فراہم کرنا ہے جو اصل اور حقیقی اسلامی قیادت سے منحرف کر دے۔ اس وقت نظامِ ولایت کے سائے میں ایران، حزب اللہ اور دیگر ولائی قوتیں اسلام اور فلسطین کی اصل ناصر و حامی ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے فلسطین کی مدد کرتی ہیں۔ اس مدد میں صرف راشن پہنچانا نہیں کہ پہلے اسرائیل کو کھل کر بمباری کرنے دو اور اس کے بعد امت کو دھوکہ دینے کیلئے دو آنسو بہاو اور آٹے کے تھیلے فلسطین بھیج کر سرخ رو ہو جاؤ۔ تم اس وقت کہاں ہوتے ہو جب فلسطین میں آتش و آہن برس رہا ہوتا؟ اگر فلسطین کا دفاع نہیں کر سکتے تو کم از کم اسرائیل سے سفارتی تعلقات تو ختم کر سکتے ہو؟ اسے تسلیم کرنے سے انکار تو کر سکتے ہو!
اس وقت صرف ایران اور حزب اللہ وہ قوتیں ہیں جو فلسطین کو مالی، فوجی اور اخلاقی مدد فراہم کر رہی ہیں جس کا اعتراف خود حماس اور اسلامی جہاد نے کیا ہے۔
پوری عرب دنیا کے حکمران اپنی عوام کی امنگوں کے برعکس اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی ہیں اور اس طرح اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کیا جسے عرب دنیا نے گوشۂ گمنامی میں ڈال دیا تھا حالانکہ امام خمینی نہ عربی تھے اور نہ ہی سنی مسلمان کیوں کہ غزہ کے مسلمان عربی اور اہل سنت ہیں۔ امام خمینی ایک حقیقی مسلمان تھے جنہوں نے عرب و عجم اور شیعہ و سنی کی تقسیم سے بالاتر ہو کر اپنے اسلامی اور اخلاقی فریضے کو پہچانا اور مسلم امہ کو بھی بیدار کیا۔ فلسطین کی حمایت دراصل تمام دنیا کی مظلومین کی حمایت ہے کیوں کہ فلسطین مظلومیت کی علامت بن چکاہے اور اسرائیل تمام فتنوں کی جڑ ہے۔ فتنے کی شاخیں کاٹںے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے۔
ترکی کی منافقت سے ہوشیار رہیں اور موسیٰ کو چھوڑ کر سامری کے بنائے ہوئے گوسالوں کے پیچھے نہ چلیں!
………………

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور محکمہ انصاف کا خون

  • ۴۷۵

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہلی کے حالیہ فسادات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ایک سوچہ سمجھا منصوبہ تھا ان فسادات کے ذریعہ ایک واضح  پیغام یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہماری ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی اور اپنے اختیار کا استعمال ہمارے خلاف کیا تو تمہاری زندگی کو کیڑوں مکوڑوں کی زندگی میں بدل دیں گے ، ہم حق حیات بھی چھین سکتے ہیں اور اگر یہ حق دیں گے بھی تو زندگی کے حقوق کو سلب کر کے اور تمہیں اسی طرح جینا ہوگا  کہ اپنے کسی حق کے لئے کھڑے ہونے کے بارے  میں نہ سوچ سکو اور ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں انصاف مل سکے گا اس لئے کہ اگر کوئی انصاف کرنے  کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اقتدار میں  ہیں اس سے اسکا منصب چھین کر اسے شہر بدر بھی کر سکتے ہیں۔
 غرض منصف بھی تبھی تک منصف ہوگا جب تک ہم چاہیں گے اور جب تک وہ ہماری منشاء کے مطابق بولے تبھی تک عدالت میں اسکی بات معتبر ہوگی لیکن ہماری منشاء کے خلاف اگر کچھ کہا اور ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کیا تو ہمارا فیصلہ اسکے خلاف ہوگا جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت میں اسکی دسترس کو ہی ختم کر دیا جائے گا  ایسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں کی دنیا ہی الگ ہو معاملات ہی الگ ہوں ۔
یقینا دہلی کے فسادات دل دہلانے والے ایسے مناظر پیش کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان بے چین ہو جاتا ہے اور ایک ایسا کرب و اضطراب پورے وجود پر طاری ہو جاتا ہے کہ راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے بے ساختہ ظالموں اور قاتلوں کے لئے بدعاء کے جملے نکتے ہیں بے ساختہ مظلوموں کے لئے دعاء نکلتی ہے پروردگار ان لوگوں پر رحم فرما جو تیرے دین کی خاطر سخت ترین صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن تیرے دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں انہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ۔
جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے وہ قابل غور بھی ہے مقام عبرت بھی لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے  پاس اس جمہوری ملک میں  جو ایک آسرا محکمہ انصاف و عدالت کا تھا اب وہ بھی ان سے چھنتا جا رہا ہے  چنانچہ اگر آپ غور کریں گے تو  واضح ہوگا کہ دہلی کے حالیہ فسادات میں جہاں مسلمانوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا انکی پراپرٹی و انکے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا وہیں محکمہ انصاف کا بھی خون ہوا ہے ، اس عدالت  کی روح کو بھی تار تار کیا گیا ہے جس پر ملک کے حریت پسند یقین رکھتے ہیں اور اس کی دلیل  اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کو صاف طور پر بچا لے جانا ہے  اور الزامات کا نشانہ مخصوص انداز میں انہیں پر سادھنا  ہے جنہیں بلی کا بکرا بنا کر خود ہی از قبل تیار کیا جا چکا تھا ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا کل کتنا بھیانک اور خطرناک ہوگا اگر انہوں نے مل جل کر اپنی  تدبیر سے اپنے مستبقل کے بارے میں نہ سوچا تو   جو تباہی انکا مقدر ہوگی شاید وہ اس سے بھی بری ہو جو تقسیم کے وقت تھی ۔