ایران کو کنٹرول کرنے کے لئے اسرائیل و سعودی عرب کی مشترکہ حکمت عملی کے آٹھ اہم نکات

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: الجزیرہ کے مطالعاتی مرکز نے ان آٹھ نکات کو پیش کیا ہے جن سے سعودی ذہنوں میں اسرائیل ایران کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، الجزیرہ کے مطالعاتی مرکز نے اپنے تجزیہ میں سعد سلمان المشہدانی کے قلم سے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ سعودی مفکرین کے سیاسی تفکر میں ایران و اسرائیل کہاں کھڑے ہیں، ایرانی نیوز ایجنسی انتخاب نے الجزیرہ کی جانب سے پیش کیے گئے تجزیہ کے اہم نکات کو یوں بیان کیا ہے ۔
۱۔ سعودی مبصرین و تجزیہ نگاروں نے اپنا مکمل طور پر رخ اس بات پر مرکوز کر رکھا ہے کہ عربوں کے پاس اسرائیل سے صلح کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں ہے انکا مکمل فوکس اس بات پر ہے کہ ایک جامع صلح کے سمجھوتہ پر دستخط کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اسرائیل کے ساتھ ایک جامع صلح کا معاہدہ انکی بنیادی ضرورت ہے اس معاہدے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ سعودی عرب کو وقت درکار ہے کہ آگے چل کر علاقے میں ایران سے مقابلہ کیا جا سکے لہذا سعودیوں کو اتنی فرصت چاہیَے کہ وہ ایران کے سلسلہ سے چارہ اندیشی کر سکیں کیوں کہ انکے مطابق ایران عربوں کے لئے اسرائیل سے زیادہ خطرناک ہے ۔
۲۔ سعودی ذرائع ابلاغ ، فلسطینی مزاحمت کے سلسلہ سے کی جانے والی ایرانی حمایت کو ایران کی ایک ایسی اسٹریٹجی سمجھتے ہیں جسے ایران نے ان گروہوں اور تنظیموں کو تہران کے خلاف اسرائیلی نقل و حرکت کے مقابل سپر کے طور پر استعمال کرنے کے تحت اختیار کیا ہوا ہے ۔
۳۔ سعودی سیاسی مفکرین نے اپنی ساری توجہ کو ان اداروں اور تنظیموں سے مقابلہ میں صرف کر رکھا ہے جو اسرائیل کے مخالف ہیں ، جیسے حزب اللہ ، حماس، اور انصار اللہ ، اور وہ تنظیمیں جو ایران کے شام و لبنان اور عراق میں کردار ادا کرنے کا سبب ہیں۔
۴.۔ ۲۰۱۸ ءکے دوران سعودی عرب کے زیادہ تر مضمون نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے اپنی تحریروں میں اسرائیل و سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو موضوع گفتگو قرار دیتے ہوئے انکے بارے میں لکھا اور بیان کیا، اور ایک دوسرے سے قربت کا سبب دونوں ہی ممالک کی ایران کے سلسلہ سے مشترکہ پریشانی کو بیان کرتے ہوئے دو طرفہ اسٹراٹیجی کی پیروی بیان کی جسکے چلتے ایران کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے سعودی عرب کے ان حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جو بقول ان کے عربی بہار کی تحریک کی بنا پر بعض مزاحمتوں کے چلتے مکدر ہو گئے تھے اور سعودی عرب میں تحفظ و سکیورٹی کو لیکر خدشات سامنے آئے تھے ۔
۵۔ سعودی عرب کے بزرگ سیاسی متفکرین ایران کی ایک منفی تصویر پیش کرنے کے درپے ہیں جسکا شام ، یمن ، عراق اور لبنان میں رسوخ و نفوذ ہے۔
۶۔ سعودی عرب یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور رنج وپریشانی میں گزر بسر کر رہے ہیں ہیں۔ سعودی عرب ایسا اس لئے کر رہا ہے کہ اسکی یہ سیاست خود اسکے اپنے اقتصادی حالات پر راست طور پر اثر انداز ہونے کا سبب ہے ۔
۷۔ سعودی متفکرین کا ماننا ہے کہ ایران کی دنیا سے مشکل ان کے جوہری توانائی کے پروگرام کو لیکر نہیں ہے بلکہ اصلی مشکل ایران کا طرز عمل ہے، ایران کا طرز عمل انکے بقول ایسا ہے کہ جس سے بین الاقوامی برادری تقاضوں کی رعایت خاص کر عربی خطے کے تحفظات نیز انکے درمیان اعتماد کی فضا اور انکے مابین دوستی ، کی تصویر سامنے نہیں آتی ہے ۔{اسکے برخلاف یہ نظر آتا ہے کہ باہمی اعتماد متزلزل ہے ،اور ایران بین الاقوامی برادری کے بر خلاف چل رہا ہے خاص کر عرب ملکوں کو اس سے خطرہ لاحق ہے} ۔
۸۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک (Cooperation Council for the Arab States of the Gulf)
یا خلیج تعاون کونسل (Gulf Cooperation Council – GCC) کو سب سے زیادہ نقصان ایران کے طرز عمل سے ہے اور مشرق وسطی اور خلیج فارس ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پر ہے جو پھٹنا ہی چاہتا ہے جو ایران کی سیاست کی وجہ سے متحرک ہو چکا ہے اور روس و امریکہ کے ذریعہ اسکو آکسیجن و غذا فراہم ہو رہی ہے یہ کبھی بھی پھٹ سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کرونا کی وبا کے درمیان ہندوستانی فوج کی جانب سے لاکھوں ڈالر کی ڈیل کے بارے میں سوچ بچار

  • ۳۷۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کرونا کی خطرناک وبا سے جوجھتے ہندوستان میں امریکہ سے اسلحوں کی خریداری کی  خبر نے ہر ایک صاحب فکر محب وطن کو چونکا دیا ہے کہ ایسے حالات میں جب کرونا تیزی کے ساتھ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے  آخر فوج کو ضرورت کیا ہے کہ وہ امریکہ سے اسلحوں کی خریداری پر غور کرے، خبروں کے مطابق ہندوستانی فوج امریکہ سے 72 ہزار سِگ 716 اسالٹ رائفلز خریدنے پر غور کر رہی ہے۔
 بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق "ان سِگ (ایس آئی جی) اسالٹ رائفلز کی پہلی کھیپ انڈیا کو جنوری میں دی گئی تھی اور یہ شمالی کمانڈ اور دیگر آپریشنل علاقوں کی تعینات فوجیوں کو دے دی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رائفلز کشمیر اور دیگر سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو بھی دی گئیں ہیں"۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے بتایا: 'ہم سکیورٹی فورسز کو دیے گئے معاشی اختیارات کے تحت مزید 72 ہزار رائفلز کا آرڈر دینے جا رہے ہیں' اور کہا جا رہا ہے کہ یہ خریداری فاسٹ ٹریک پرچیز (ایف ٹی پی) پروگرام کے تحت کی جائے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خریداری ایسے میں ہو رہی ہے جب ہندوستانی معیشت اپنے نہایت ہی خطرناک بحران سے گزر رہی ہے اور ہندوستان کو صنعت و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں میں شدید طور پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ معیشتی بحران زیادہ بڑا ہے یا وہ کاذب بحران جسے میڈیا نے ہندوستان مقابلہ چین کے طور پر کھڑا کیا ہے اگر ہندوستانی نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو انکا موقف یہ ہے :
'اگر چہ ہر فوج چاہتی ہے کہ لڑائی کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن ایک جمہوریت اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ترقی اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور فوج کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی کمی ہوتی ہے تو ہنگامی صورت حال میں اس قسم کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ ہر فوج کرتی ہے، صرف  ہندوستانی  فوج کی بات نہیں ہے۔'
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ میں تیار کی جانے والی یہ اسالٹ رائفلز فی الوقت انڈین فوج میں استعمال ہونے والی انڈین اسمال آرمس سسٹم (انساس) رائفل کی جگہ لیں گی جو کہ ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اگر دفاعی تجزیہ کاروں کی بات کو تسلیم کیا جائے تو وہ بھی اسے ہندوستان کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ : 'نئی رائفلز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت گذشتہ آٹھ نو سالوں سے ہے۔ 'ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل بنائی تھی جسے انساس رائفل کہتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
 دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ وہ عملی طور پر موثر نہیں ہیں یعنی اسے چلانے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں ہمیں دوسرے قسم کا اسلحہ چاہیے۔ اس وقت سے ہی نئی رائفل کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
فوج کے پاس نئے اسلحوں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن جس وقت اور جن حالات میں اس ڈیل پر گفتگو ہو رہی ہے وہ بہت عجیب ہے جبکہ  ہندوستان کی صلاحیت و توانائیوں کے پیش نظر دیکھا جائے تو خود بھی وہ ان معمولی اسلحوں کو بنا سکتا ہے جنکی فوج کو ضرورت ہے، اور یہی سوال دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے  بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف انڈین حکومت خود کفیل ہونے کی بات کرتی ہے دوسری طرف آپ درآمد کرتے ہیں۔ یہاں قدرے تضاد ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے آنے والی اسالٹ رائفل بہت اچھی ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ درآمد کی جاتی ہیں اور دوسری یہ کہ وہ مہنگی ہیں۔ ان کے مطابق جنوری میں موصول ہونے والی 72 ہزار 400 سِگ 716 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریبا آٹھ کروڑ ڈالر آئی تھی۔ان کے بقول مودی کا 'میک ان انڈیا مکمل طور پر ناکام ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسے جتنا چاہیں اچھالیں لیکن اس کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو درآمد شدہ ہتھیاروں سے لڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'آپ ہوائی جہاز کو لیں، اپنا فائٹر دیکھیں، ہیلی کاپٹر دیکھیں، ٹینک دیکھیں، سب درآمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے آبدوز، طیارہ بردار بحری جہاز، ایئر کرافٹ کیریئر سب درآمد کیا جاتا ہے۔'
در حقیقت سن 2014 سے 2018 کے درمیان انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق انڈیا دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 10 فیصد خرید رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خود پر انحصار کی صلاحیت بہت ہی ناقص ہے۔ 'پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کوئی ہتھیار بنانے کا نظام نہیں بنایا ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ مشرق وسطی میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ایران جیسا ملک  ٹینک سے لیکر جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ٹینک بھی خود بنا رہا ہو اور ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک  اپنے اسلحوں کے لئے اب بھی امریکہ کے اوپر منحصر ہو؟۔۔۔

 

عالمی سامراج کے شاطرانہ منصوبے اور حشد الشعبی کی حالیہ کامیابی

  • ۳۷۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی سامراج نے عراق کو شام میں بدل دینے کے جو منصوبے بنائے تھے یک بعد دیگرے وہ ناکام ہوتے جا رہے ہیں، اور عراق کی مرجعیت کے ذریعہ حشد الشعبی کے قیام کا حکمت آمیز قدم بحمد اللہ اپنے اثرات دکھا رہا ہے، ایک طرف صہیونی لابیوں اور عالمی سامراج کے گرگوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ حشد الشعبی اور عراق کی بہادر قوم کے درمیان اختلافات پیدا کر کے دونوں کو ایک دوسرے سے دور کیا جاسکے اور اس کے لئے مسلسل یہ دباو بنایا گیا کہ اب تو حشد الشعبی کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے اسے ختم ہو جانا چاہیے ، دوسری طرف یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عراق کی فوج کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن صاحبان فکر و نظر جانتے ہیں کہ عراق کی فورسز کو ٹرینڈ کرنے والے یہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلے عراق کو برباد کیا تھا اور اب عراق میں بنے رہے کا کوئی نہ کوئی بہانا تلاش کر رہے ہیں جبکہ عراقی فورسز میں بہت سے ایسے افسران موجود ہیں جو لیبرل طرز فکر کے حامل اور ان طاقتوں کے ہمنوا ہیں، یہی وجہ ہے کہ تکفیری عناصر سے مقابلہ میں گرچہ عراق کی فوج کی خدمات کو نہیں بھلایا جا سکتا  لیکن اتنا ضرور ہے کہ جو کام حشد الشعبی نے کیا ہے وہ عراقی فوج سے نہیں ہو سکا اور اب بھی بچے کھچے داعشی ٹولے سے حشد الشعبی ہی کا مقابلہ ہو رہا ہے جبکہ تکفیری ٹولوں کو مالی و عسکری تعاون کے ذریعہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والی طاقتیں اب بھی اس تاک میں ہیں کہ تکفیریوں کی خاکستر سے چنگاریوں کو چن کر دوبارہ شعلہ ور آگ میں تبدیل کر دیا جائے لیکن انکے اس عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ حشد الشعبی کی فورسز ہیں ، فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی رپورٹ  کے مطابق حال ہی میں دیالی کے علاقے میں حشد الشعبی کی فورسز نے تکفیریوں کے خلاف زبردست کامیابی حاصل کی ہے ، حشد الشعبی کے فوجی آپریشنز کے رسمی ترجمان صادق  الحسینی کے بقول حال ہی میں عراقی فضائیہ کی مدد کے چلتے حشد الشعبی کی فورسز نے داعش کے اہم مراکز پر حملہ کر کے ان جگہوں کو زمیں بوس کر دیا ہے جہاں تک ۲۰۰۳ سے اب تک عراق فورسز نہیں پہنچ سکی تھیں   
تفصیلات کے مطابق  حشد الشعبی فورسز نے مسلسل چوتھی مرتبہ ابطال العراق نامی آپریشن میں داعش کے سات مراکز کو المقدادیہ و حوض حمرین کے شمالی علاقوں اور نہر دیالی کے اطراف میں اپنے حملوں سے منہدم کر دیا ہے۔   
 الحسینی نے مزید بتایا کہ حشد العشبی کی فورسز نے داعش کے تین مخفی ٹھکانوں کو بھی مسمار کر دیا یہ ایسے مخفی ٹھکانے تھے جہاں سے داعش کو دھماکہ خیز مواد اور کھانے پینے کی اشیاء کو فراہم کیا جاتا تھا، الحسینی نے مزید کہا کہ دیالی کے رہائشی باشندوں کی مدد اور انکے تعاون سے یہ کام ممکن ہو سکا، کچھ دنوں قبل سے ایران سے عراق کی لگی ہوئی مشرقی سرحد میں چھپے ہوئے داعشی عناصر کو ڈھونڈنے کا کام زور وشور سے جاری تھا ، عراق کی حشد الشعبی فورسز نے ابطال العراق نامی اس آپریشن کے ذریعہ کوشش کی کہ اس علاقے میں اپنے گھر بار کو داعش کے ڈر سے چھوڑ کر دوسری جگہوں پر پناہ لینے والے مقامی باشندوں کو اپنے گھروں کی طرف واپس بھیجا جا سکے اور بحمد اللہ یہ مشن تیزی کے ساتھ جاری ہے  دوسری طرف مسلسل عالمی سامراج کی کوشش ہے کہ عراق کی سرزمین پر کسی نہ کسی طرح تکفیریوں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے تاکہ عراق کو آپس میں الجھا کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، عالمی سامراج کا یہ خواب یقینا اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک عراق کے عوام مرجعیت کے حصار میں محفوظ ہیں یہی وجہ ہے کہ حشد الشعبی کے خلاف مسلسل سازشوں کے بعد بھی مرجعیت کی حمایت و پشت پناہی کے چلتے دشمن کے شاطرانہ منصوبے ابھی تک پورے نہیں ہو سکے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی پورے نہیں ہو سکیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ٹرمپ اور نیتن یاہو ایران پر فتح کے خواب دیکھ رہے ہیں!

  • ۳۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام ان اداروں اور تنظیموں پر مبنی ہے جو رہبر انقلاب اور مفکرین کے زیر انتظام ہیں۔ نہ صرف یہ ادارے دشمن اور اس کی سازشوں اور منصوبوں کو ہلکا نہیں سمجھتے ہیں ، بلکہ دشمن کی ہر نقل و حرکت پر بھی کڑی نگرانی رکھتے ہیں اور اس کی کسی بھی ممکنہ نقل و حرکت کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد آپشنز پر غور کرتے ہیں۔ اگر انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے مفادات کے دفاع میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس نے گذشتہ چار دہائیوں سے ایران کو برقرار رکھا ہے اور اس کی ترقی کا باعث بنی ہے، اور اس دوران میں، دشمنوں کو شکست اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں نصیب نہیں ہوا۔
آج ، عالمی استکبار، جس کی سربراہی میں امریکہ اور صیہونی حکومت اور ان سے وابستہ رجعت پسند عرب عناصر ، ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کے لئے اپنے تمام پروپیگنڈے اور سیاسی ذرائع استعمال کررہے ہیں اور کسی بھی قیمت پر ایران کو اپنے حملے کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاکہ ہوسکتا ہے کہ جھوٹ اور فراڈ پر مبنی خبروں کو فروغ دے کر ٹرمپ اور نیتن یاہو اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔
رجعت پسند امریکی ، اسرائیلی اور عرب میڈیا کی طرف سے رپورٹ کیے جانے والے تمام جعلی واقعات اور خبروں میں سے صرف ایک سچ ہے، اور وہ صوبہ اصفہان میں نطنز ایٹمی مرکز میں ہونے والا دھماکہ ہے۔ ایران نے فوری طور پر دھماکے کا اعلان کیا اور واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز شائع کر دیں۔ یہ واقعہ ایک ہال میں پیش آیا جو ابھی زیر تعمیر تھا اور اس واقعے کی وجوہات اور عوامل کی نشاندہی بھی  کر دی گئی ، لیکن ایران نے حفاظتی وجوہات کی بناء پر اس کا اعلان نہیں کیا۔
اس واقعے کے علاوہ ، دیگر تمام واقعات جنہیں وابستہ میڈیا نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کی خوشحالی کے لیے پھیلایا وہ صرف فضلہ خوار ذرائع ابلاغ کے خیالی تصورات تھے۔ بظاہر ، یہ میڈیا ان دونوں افراد کے لئے مقبولیت پیدا کرنے اور انہیں تباہی کے دہانے سے واپس لانے کے لئے افواہوں اور جھوٹ کو پھیلانا بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ نیویارک ٹائمز نے اس بار ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑنے کی پوری کوشش کی۔ اس اخبار نے گذشتہ جمعہ کو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے "ہالی ووڈ کے منصوبوں" پر سینئر فوجی کمانڈروں کے قتل اور ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ، یہ دونوں افراد بظاہر "اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پرعزم ہیں۔"
ہمارا یہاں اس رپورٹ کا جواب دینے کا ارادہ نہیں ہے۔ تاہم ، ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ریاستہائے متحدہ ، صیہونی حکومت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رجعت پسندوں سے وابستہ میڈیا میں شائع ہونے والی تمام اطلاعات اور خبریں نفسیاتی جنگ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس طرح کے ذرائع ابلاغ محض پچھلے چار سالوں میں ایران اور اس کی خرافاتی مزاحمت کے خلاف دیوالیہ ہوئی امریکی انتظامیہ کے لئے خیالی فتوحات پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ وہ صہیونی ریاست کے کرپٹ وزیر اعظم نیتن یاہو کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر ٹرمپ واقعا ایران پر حملہ کرنے کی جرئت رکھتے تو وہ اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو کبھی برطرف نہ کرتے۔ بولٹن نے اپنی یادداشتوں میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں شامل ہونے کا ان کا واحد مقصد ایران پر حملہ کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ، "اگر بولٹن اپنے عہدے پر رہتے تو ہم ابھی تک چار جنگیں شروع کر چکے ہوتے۔"

اگر ٹرمپ میں ایران پر حملہ کرنے کی جرئت ہوتی تو وہ پچھلے چار سالوں سے وہ حملہ کر چکے ہوتے اس لیے کہ ان کے پاس حملے کے مختلف بہانے موجود تھے جیسے ایران نے امریکہ کے ایک بڑے ڈرون کو مار گرایا تھا، یا عراق میں امریکی اڈے عین الاسد کو تہس نہس کر دیا تھا یا ابھی حالیہ دنوں تمام امریکی پابندیوں کو توڑتے ہوئے کئی آئل ٹینکر وینزویلا پہنچا دیے یا اس کے علاوہ شام اور عراق میں امریکہ کو کھلی شکست سے دوچار کیا تھا۔
اگر ٹرمپ میں ایران پر حملہ کرنے کی ہمت ہوتی تو وہ خود کی نفسیاتی جنگ اور خالی دھمکیوں پر راضی نہ کرتے اور وہ یہ بہانہ نہ کرتے کہ وہ اور ان کے ساتھی نیتن یاہو ایران میں قدرتی اور حادثاتی واقعات میں ملوث ہیں۔
ایران آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ، اور امریکہ  جو دنیا کی سپر پاور ہونے کا دعوی کرتا ہے ، اس حقیقت کو جانتا ہے۔ صہیونی حکومت ، جو ایک ناقابل تسخیر فوج رکھنے کا دعوی کرتی ہے ، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور یہی حقیقت ہے جس نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے دل میں ایران پر حقیقی فتح کی حسرت پیدا کر دی ہے اور وہ اب خیالی فتوحات کے بارے میں خیالی تصور کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بقلم؛ الف،عین،جعفری

 

امریکہ ابھی تک زوال پذیر کیوں نہیں ہوا ہے؟

  • ۳۲۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ ہی میں شائع ہونے والی معلومات اور اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ معاشی لحاظ سے “عدم واپسی کے نقطے” (Point Of No Return) کو عبور کرچکا ہے اور عملی طور دیوالیہ شمار ہوتا ہے۔ آئس لینڈ، یونان، اسپین اور اٹلی سمیت کچھ دوسرے مغربی ممالک بھی دیوالیہ پن کی سرحد تک پہنچ چکے تھے یا ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی اور حکومتوں نے مل کر بحران سے نمٹنے کے لئے اچھے خاصے منصوبے بنائے ہیں، گوکہ ان منصوبوں کا بھی کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ ان منصوبہ بندیوں کے ذریعے سود اور صارفیت (Consumerism) کی بنیاد پر قائم معیشتوں کی ویراں شدہ بنیادوں کی مرمت ممکن نہیں ہے۔ لیکن امریکہ میں ـ گوکہ حالات کی خرابی کا سب کو اندازہ ہے ـ حکومت، کانگریس اور سینٹ کسی صورت میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ حالات بحران زدہ ہیں چنانچہ وہ ان خرابیوں سے نمٹنے کے لئے بھی کوئی چارہ تلاش نہیں کررہے ہیں۔
بہت سوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ اس کے باوجود کہ معاشی حالت بہت خراب ہے اور حکمران اشرافیہ خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے، امریکی نظام حکومت شکست و ریخت اور زوال کا شکار کیوں نہیں ہوا؟
امریکہ کے اندر کے حکمران اور امریکہ کے باہر کے لبرل ازم اور معاشی آزاد مشربی سے متاثر سوچوں کے مالک لوگ ـ بالخصوص لبرل ازم کو بطور فیشن اپنانے والے مسلم دنیا کے مقتدر بھنئے یا منفعل سیاستدان ـ جو امریکی زوال کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اعداد و شمار جعلی ہیں اور امریکہ خود ہی ایسی معلومات دنیا کو دے رہا ہے تا کہ اس کے حریفوں کو معاشی نقصان پہنچا سکے؛ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ بطور مثال ہزاروں ارب ڈالر کی چینی مصنوعات درآمد کرتا ہے اور اس کے عوض چینیوں کو قومی بانڈز (National bonds) دیتا ہے اور یوں امریکہ مقروض ہوجاتا ہے؛ اور جب قرضے کی رقم چین میں امریکی سرمائے سے کئی گنا زیادہ ہوجائے تو وہ ان بانڈز کو کالعدم قرار دیتا ہے اور امریکہ میں موجود چینی سرمایوں کو قومیا دیتا ہے۔۔۔ [گوکہ ایسا ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن] اس طرح کی تجاویز امریکہ میں سامنے آیا کرتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ کبھی ایسا کرے بھی؛ جیسا کہ کانگریس نے ۱۱ ستمبر کے واقعے میں سعودی کردار پر بحث و تمحیص کی اجازت دے کر امریکہ میں سعودیوں کا ۱۰۰۰ ڈالر کا سرمایہ بلاک کرنے کا بہانہ تلاش کرنے کا راستہ ہموار کیا۔
لیکن فریق ثانی چین ہو تو یقینا امریکہ کا کوئی ایسا اقدام چین کی جوابی کاروائی کا باعث بنے گا اور امریکی معیشت ایسے اقدامات کے انجام کو برداشت نہیں کرسکتی۔ امریکہ کی تیل اور دوسری مصنوعات کی خریداریوں کا بڑا حصہ مالی اسناد (Financial credentials) کی بنیاد پر ہے اور ان کے اخراجات کو عرصہ بعد ادا کیا جاتا ہے یا پھر قومی بانڈز کے ذریعے بےباق کیا جاتا ہے۔ اگر امریکہ دوسرے ممالک کے سرمایوں کو قومیا دے تو دوسرے ممالک اس نظام کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ لین دین کرنے سے گریز کریں گے اور مصنوعات کے تبادلے (Bartering) کی طرف مائل ہونگے اور یہی مسئلہ روئے زمین سے امریکی معیشت کے محو ہونے کے لئے کافی ہے۔

 

کیا نیتن یاہو وادی اردن کے الحاق سے دستبردار ہو گئے؟

  • ۳۶۱

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ وادی اردن سمیت 30 فیصد فلسطینی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کریں گے ، لیکن اب اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ اس منصوبے سے دستبردار ہو رہے ہیں اور چند ایک بستیوں کو ہی مغربی اردن میں واقع صہیونی قصبوں سے جوڑ سکیں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، جنہوں نے حالیہ عرصے تک وزیر جنگ بنی گانٹز کی مخالفتوں کے باوجود مغربی کنارے کو اسرائیل سے ملحق کرنے پر اصرار کیا اور بنی گانٹز کو دھمکی دی کہ یا مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر رضامندی کا اظہار کریں یا ملک میں دوبارہ انتخابات کی تیاری کریں۔
گانٹز اس بات کے قائل تھے کہ مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کی حساسیت کی وجہ سے، اس منصوبے پر فوری عمل درآمد نہیں کیا جانا چاہئے۔ اختلاف رائے کے بعد نیتن یاہو نے گانٹز کو متنبہ کیا کہ وہ یا تو مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر راضی ہوجائیں یا نئے انتخابات کی تیاری کریں۔
نیتن یاھو نے ایسے حال میں یہ دھمکی دی کہ نیتن یاہو اور بنی گانٹز کا اتحاد کافی مشکلات کے بعد انجام پایا اور موجودہ صہیونی کابینہ تشکیل دی گئی۔
اب صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس کو ایک پیغام بھیجا ہے، جس میں انہیں بتایا ہے کہ مغربی کنارے کو الحاق کرنے کے منصوبے میں وادی اردن کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
فلسطینی معا نیوز ایب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ پیغام موساد کے سربراہ ’یوسی کوہن‘ کے ذریعے محمود عباس تک پہنچا ہے .
رپورٹ کے مطابق ، الحاق دو یا تین بستیوں تک محدود رہے گا ، جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
اس خبر کے بارے میں دو اہم نکات ہیں ، ایک یہ کہ نیتن یاھو واقعا بین الاقوامی انتباہات خصوصا یورپین یونین، اسلامی ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے دباؤ کی وجہ سے مغربی کنارے کے 30 فیصد اراضی کو الحاق کرنے کے انتہا پسندانہ منصوبے سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گوالان کی پہاڑیوں کو صہیونی ریاست سے ملحق کرنے میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا چونکہ انہیں امریکہ کی گرم جوشی اور پشت پناہی حاصل تھی اگر چہ بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین مخالفت کرتی رہی۔
صیہونی وزیر اعظم کے طرز عمل کے تجزیہ کے بارے میں دوسرا نکتہ ، جو حقیقت کے قریب ہے ، یہ ہے کہ اس منصوبے پر پہلے مرحلے میں محدود انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا اور اس کے بعد مستقبل میں اس کا مکمل نفاذ کیا جائے گا۔ مستقبل میں ضروری مواقع کے حصول کے لئے فلسطین اتھارٹی کو مجبور کیا جائے گا۔
اس دعوے کا ثبوت رواں سال 28 جون کو عبرانی زبان کے اخبار "اسرائیل الیوم" کی وہ رپورٹ ہے ، جس میں لکھا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو دو مراحل میں مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ،مغربی کنارے سے باہر واقع صہیونیوں کی بڑی بستیوں پر "اسرائیلی خودمختاری" کو وسعت دی جائے گی اور تقریبا ۱۰ فیصد مغربی کنارے کی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کیا جائے گا۔
اس صہیونی اخبار کے مطابق ، الحاق منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے بعد ، تل ابیب دوسرے مرحلے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف رخ موڑے گا اور اس تنظیم کو مذاکرات کی میز پر مدعو کرے گا ، اور اگر فلسطینی اتھارٹی اس کارروائی کی مخالفت کرتی ہے تو ، الحاق کا منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ دوسرا مرحلہ وادی اردن سمیت مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر قبضہ ہوگا۔
صہیونی ریاست کا بنیادی منصوبہ امریکی حکومت کی حمایت سے مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر سرکاری طور پر قبضہ کرنا ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین مخالف منصوبے کا حصہ ہے جسے صدی کی ڈیل کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

بے شرم ریاست کا “شرمناک” تصور

  • ۳۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، یہ خبر میڈیا میں عام ہونے سے پہلے ہی غائب ہو گئی جسکے مطابق وقتی طور پر رہائش کا انتطام کرنے والی ایک امریکن کمپنی نے مقبوضہ اردن میں قائم اسرائیلی بستیوں کے گھروں کو اپنی سائٹ سے یہ کہتے ہوئے خارج کرنے کا فیصلہ لیا تھا  کہ یہ  بستیاں متنازعہ ہیں ۔ اپنے آپ میں خبر خود قابل تامل تھی کہ وہ  آخر کونسی کمپنی ہے جو امریکہ میں ہے لیکن اسکے باوجود  پانی کے بہاو کے خلاف اس نے چلنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جتنی بھی یہودی بستیاں اسرائیل میں بسائی گئی ہیں ہر ایک میں کہیں نہ کہیں امریکہ کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے ۔ایسے میں اگر کوئی امریکن کمپنی اسرائیل کے مفادات کے خلاف قدم اٹھاتی ہے تو یہ ایک قابل غور بات ہے، اگر اس میں سچائی ہے تو کم از کم اتنا ضرور ہے کہ اب امریکہ میں  رہنے والے ایک طبقہ کو احساس ہو رہا ہے کہ و ہ اسرائیل کے ساتھ بلا وجہ تنازعہ کا شکار ہو رہے ہیں اور اسی لئے انکی کوشش ہے کہ متنازعہ مسائل سے دور رہیں ۔
تفصیلات کے مطابق عارضی رہائش حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرنے والی امریکی کمپنی ایئر بی این بی کا کہنا بھی یہی تھا کہ وہ مقبوضہ اردن میں اسرائیلی بستیوں کے تمام گھروں کو اپنی ویب سائٹ سے خارج کر دے گی اس لئے کہ وہ کسی تنازعہ کا شکار نہیں ہونا چاہتی ۔بی بی سی کے مطابق “ایئر بی این بی کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یہ بستیاں ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کی جڑ‘[۱] ہیں۔اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد متوقع دو رد عمل سامنے آئے ایک فلسطینیوں کی طرف سے اور ایک  اسرائیل کی جانب سے ۔فلسطینیوں نے جہاں  اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے  وہیں  اسرائیل نے نہ صرف ’شرم ناک‘ قرار دیا بلکہ  قانونی چارہ جوئی کی دھمکی  بھی دے ڈالی۔  یہ قانونی چارہ جوئی کی دھمکی ان حالات میں دی جا رہی ہے کہ  بی بی سی ہی کی رپورٹ کے مطابق “غربِ اردن میں قائم یہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہیں ”[۲]۔صہیونی حکومت کی یہ ڈھٹائی  اور بے غیرتی کو برملا کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ  آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا ۱۶ فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے ۴۲ فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبوں پر مکمل عمل درآمد ہوچکا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے۱۵۰ میٹر کے فاصلے پر ” معالیہ ازیتیم“ کے نام سے قائم کالونی میں ۱۳۲ رہائشی اپارٹمنٹس ہیں ، جبکہ ۲۶ بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں اور رملہ اور البریح ضلع میں ۲۴ یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ [۳] علاوہ از ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ  اسرائیل نے نوف صیہون نامی بستی کے تحت نئے گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا جسے  صہیونی اتھارٹی نے منظور بھی کر لیا تھا  چنانچہ اس فیصلے کو منظوری ملتے ہی یہ خبر میڈیا میں آئی تھی کہ ” اسرائیلی حکام نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی ایک بڑی بستی میں ایک توسیعی منصوبے کے تحت مزید پونے دو سو سے زائد نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ اس یہودی بستی کا نام ’نوف صیہون‘ہے۔[۴]اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق نوف صیہون (Nof Zion) نامی یہ بستی  نئی منظور شدہ توسیع کے بعد یہ یہودی بستی یروشلم شہر کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑی اسرائیلی بستی بن جائے گی۔ اے ایف پی ایجنسی کے مطابق یہ یہودی بستی اسرائیل کی طرف سے اپنے ریاستی علاقے میں زبردستی شامل کر لیے جانے والے یروشلم شہر کے مشرقی حصے میں اس جگہ پر قائم ہے، جو اکثریتی طور پر فلسطینی آبادی والا علاقہ ہے اور جبل المکبر کہلاتا ہے۔۔ اسرائیل کی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم ’پِیس ناؤ‘ (Peace Now) نے کہا ہے کہ مجوزہ توسیع کے بعد نوف صیہون نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ مغربی اردن کے کنارے میں بھی کسی بھی فلسطینی رہائشی علاقے میں قائم سب سے بڑی یہودی بستی بن جائے گی۔ یاد رہے کہ مغربی اردن کے علاقے میں اکثر یہودی بستیاں فلسطینی رہائشی علاقوں سے باہر قائم ہیں اور وہ بالعموم وہاں مقیم یہودی آبادکاروں کی تعداد کے اعتبار  سے نوف صیہون سے بڑی ہیں۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔[۵] اسرائیل کی جانب سے مسلسل نئی بستیوں کی تعمیر ایسے میں ہو رہی ہے کہ جب یورپی یونین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر لازمی طور پر بند کرے۔ یونین کے مطابق ان نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیام امن کو خطرہ ہے۔چنانچہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے بدھ اٹھارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یونین کے خارجہ امور کے شعبے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کے لیے جو نئے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، وہ تمام منصوبے فوری طور پر روکے جانا چاہییں۔
یورپی یونین نے اسرائیل سے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔برسلز میں یورپی یونین کے خارجہ سروس نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہودی آبادکاری کے منصوبوں سے فلسطینیوں کیساتھ مستقبل میں کسی امن معاہدے کے امکانات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیامِ امن کو خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی ہر قسم کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں۔ مسئلہ کے ۲ ریاستی حل کے قابل قبول ہونے کی بھی نفی ہو رہی ہےجبکہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ۱۳۰۰ سے زائد نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔[۶]  ان حالات میں ایک امریکن کمپنی اگر بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی ہے تو اسرائیل کو یہ گوارا نہیں ہے اور اپنے غیر قانونی کاموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صہیونی حکومت نے اس کمپنی ہی کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے ڈالی ہے جو  کم از کم اس ایک مقام پر قانونی اور اخلاقی قدر کی پاسداری کا سوچ رہی ہے  جبکہ صاف طور پر اسرائیل کی جانب سے ان بستیوں کا بسایا جانا چوری اور سینہ زوری کے تحت آتا ہے  کہ یہ بستیاں نہ صرف غیر قانونی ہیں  بلکہ یہ کام  فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری  کے مطابق جنگی جرائم کی فہرست میں مندرج ہے   چنانچہ فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل صائب اریقات نے واضح طور پر  کہا ہے کہ یہ ’ایئر بی این بی کے لیے اہم تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے کہ اسرائیل ایک مقبوضہ طاقت ہے اور غرب اردن میں اسرائیلی آبادکاری، بشمول مشرقی یروشلم، تمام غیر قانونی ہیں اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔‘ اب چوری اور اس پر سینہ زوری ہی کا مصداق ہے کہ  جہاں  خود امریکن کمپنی تنازعات سے دامن جھاڑنا چا رہی ہے وہیں  صہیونی حکومت اسے شرمناک کہہ رہی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیرسیاحت یاریف لیفین نے تو یہاں تک کہہ دیا  کہ اسرائیل اس کے جواب میں امریکی عدالتوں میں ایئر بی این بی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں ان بستیوں میں کرائے کے لیے جگہ فراہم کرنے والوں کی مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف  اسرائیلی آبادکاروں کی نمائندگی کرنے والی یشا کونسل نے ایئربی این بی پر ’ایک سیاسی سائٹ‘ کا الزام عائد کہا ہے کہ اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’یا تو یہودی مخالفت یا دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے یا ان دونوں کا نتیجہ ہے۔‘
کس قدر ڈھٹائی کی بات ہے کہ ایک طرف جہاں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسی بسیتاں بسائی جاتی ہیں جن کے بارے میں خود امریکہ جیسے حلیف ممالک کی کمپنیاں خود کو مطمئن نہیں کر پاتیں اور جب وہ عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں اور تو انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف غیر قانونی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاست کی جانب سے  المجدل شہر میں ایک تاریخی جامع مسجد کو شراب خانے اور عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز جسارت کی جاتی ہے  جس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر فلسطینی مقامات سے چھیڑ چھاڑ کیوں ؟چنانچہ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سنہ ۱۹۴۸ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر کفر کنا کے قریب المجدل کے مقام پرواقع صلاح الدین ایوبی دور کی مسجد کو پہلے میوزیم میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ پھر مسجد کو مے خانےمیں تبدیل کر دیا جاتا ہے جسکے بارے میں یوں تفصیل تو  کہیں سامنے نہ آسکی  کہ اس بات کی تصدیق یا تکذیب ہو سکے لیکن ۔’اپنا وطن پہچانیے’ کےنام سے قائم کردہ ایک گروپ  کی جانب سے  سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر ایک ویڈیو پوسٹ کو اگر صحیح مان لیا جائے جو  کہ اسرائیل کی اسلام او ر مسلمانوں سے دشمنی کے چلتے صہیونیوں سے  بعید بھی نہیں ہے تو اس مسجد کے مناظر بہت ہی عجیب  ہونے کے ساتھ صہیونی کی مسلمانوں سے دیرینہ  عداوت کے بیان گر ہیں    ویڈیو کے مطابق  جامع مسجد المجدل کے اندرونی ہال اور دیواریں دکھائی گئی ہیں جن پر جانوروں اور انسانوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے اندر انسانی مجسمے، مورتیاں اور فن پاروں کی آڑ میں دیگر توہین آمیز چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مسجد کے ایک طرف شراب کی بوتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔فلسطینی کارکنوں کا کہنا ہے کہ المجد جامع مسجد صلاح الدین ایوبی کے دور میں فلسطین کی صلیبیوں سے آزادی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد ممالک کے طرز تعمیر پر ڈیزائن کی گئی تھی۔فلسطینی قانون دان خالد زبارقہ نے اس فوٹیج کےبارے میں بات کرتے ہوئے تصدیق کی یہ جامع مسجد المجدل ہی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجد کی مسجد فلسطین کی تاریخی اور قدیم مساجد میں سے ایک اور فلسطین کے تاریخی وثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ اس کے منبرو اسکی محراب  اپنی مخصوص طرز تعمیر کی وجہ سے تاریخی فن پاروں کی حیثیت رکھتے تھے  اور اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار تھے  لیکن اسرائیل نے انہیں بھی نہ چھوڑا دوسری طرف اب ان لوگوں کو بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے جو زبردستی یہودی بستیوں کو بسانے والے اس کے غیر قانونی کاموں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے  ظاہری طور پر ہی سہی لیکن یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں اور غیر قانونی کام نہیں کر سکتے  اس لئے ہم غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستیوں کو اپنی سائٹ پر نہیں دیں گے جسکے جواب میں صہیونی حکومت انکے اس عمل کو نہ صرف شرمناک بتا رہی ہے بلکہ انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دے رہی ہے کتنا مضحکہ خیز ہے وہ ریاست قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے رہی ہے جو پوری کی پوری غیر قانونی ہے ۔ایسے میں صہیونی  حکومت کی جانب سے امریکن کمپنی کو دی گئی دھمکی کو دیکھ کر عام انسان تو کیا ایرئیل شیرون  جیسا سفاک بھی ہنس رہا ہوگا کہ بے شرم ریاست کا ،تصو ر شرمناک  لاجواب ہے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۲]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۳] مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو ۔ https://www.urdupoint.com/daily/article/flasteen-me-yahoodi-bastiyoo-ki-tameer-aman-ki-rahh-me-barii-rkawat-8049.html
[۴]  ۔ https://www.dw.com/ur/-
[۵]  ۔ https://www.dw.com/ur/
[۶]  ۔ http://www.urdunews.com/node/142281/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونی حکومت کی جانب سے داعشی عناصر کی خدمات کے حصول کا پردہ فاش

  • ۳۱۶

خیبرتحقیقاتی ٹیم  
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مزاحمتی محاذ کو چوٹ پہنچانے کے لئے صہیونی حکومت نے داعشی عناصر کی خدمات حاصل کی ہیں۔
 فارس بین الاقوامی نیوز ایجنسی  کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت داخلہ نے ایک اعلان شائع کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ صہیونی حکومت سے متعلق ایک دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث گروہ کو دھر دبوچا گیا ہے جس نے مزاحمتی محاذ کے خلاف تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، غزہ کی وزارت داخلہ کی جانب سے شائع ہونے والے اس اعلان کے مطابق اس تخریبی کاروائی کے سلسلہ سے کچھ دن قبل چند لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن سے حاصل ہونے والی معلومات سے پتا چلا ہے کہ ان لوگوں نے تل ابیب سے اپنے اس کام کے سلسلہ سے انعامات حاصل کئے تھے، ان لوگوں سے تفتیش کے دوران واضح ہوا ہے کہ صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی ان لوگوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے منصوبے کے پیچھے تھی اور اسی کی پشت پناہی میں یہ منصوبہ بندی کی گئی  ۔
روزنامہ الاخبار  نے اس آپریشن کی تفصیلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ پٹی میں علاقے کی سیکورٹی فورسز کے ذریعہ سلفی و تکفیری عناصر کا مہینوں پیچھا کئے جانے اور انکی حرکات و سکنات پر نطر رکھنے کی بنا پر داعشی عناصر کے ذریعہ مزاحمتی محاذ پر ضرب لگانے کی خطرناک منصوبہ بندی کا پردہ فاش ہوا ہے۔
داعش کے ان عناصر کا مقصد فلسطین کے حکومتی اور عسکری اداروں پر خفیہ حملہ کرنا تھا، تحفظ و سلامتی سے متعلق اراکین نے الاخبار روزنامے کو بتایا کہ داعش سے وابستہ یہ عناصر صہیونی حکومت کی پشت پناہی میں اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ غزہ پٹی میں دھماکوں کے ذریعہ محکمہ انصاف سے جڑے کچھ اداروں اور وزارت خانوں کو نشانہ بنائیں۔
 غزہ کے سیکورٹی اہلکاروں نے داعش سے وابستہ ان عناصروں سے تفتیش کے بعد واضح کیا کہ انکی منصوبہ بندی کے کچھ حصے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری تھا جبکہ کچھ منصوبہ بندی آگے چل کر عملی ہونا تھی ان کا قصد تھا کہ مزاحمتی محاذ کے اسلحوں  کے اسٹراٹیجک سسٹم کو نشانہ بنایا جائے ۔
ان داعشی عناصر سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ صہیونی حکومت سے وابستہ ایک بکے ہوئے  ضمیر فروش نے اس دہشت گردانہ کاروائی کرنے والی ٹیم کی خدمات حاصل کی تھیں اور داعش سے متعلق ایک فرد کی حیثیت سے یہ شخص مزاحمتی محاذ کے سلسلہ سے معلومات فراہم کر رہا تھا تاکہ مزاحمتی محاذ سے وابستہ بعض گروہوں پر حملہ کیا جاسکے ۔
تفتیش کے دوران اس ٹیم کو لیڈ کرنے والے فرد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سالوں پہلے سے وہ صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی کے جاسوسی کرنے والے شعبے سے وابستہ رہا ہے اور اس منصوبہ بندی کو مہینوں پہلے انجام دیا گیا تھا، طے یہ پایا تھا کہ غزہ کی مختلف عدالتوں میں دھماکہ خیز مواد مواد رکھ ان جکہوں کو اڑا دیا جائے اور  تحفظ و سلامتی سے متعلق مراکز اور چیک پوائٹنس پر بھی مختلف دھماکے کئے جائیں، اس رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی خفیہ ایجنسی منحرف افکار رکھنے والے لوگوں کے انحراف سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ حکومتی اداروں، اور فلسطینی مزاحمت سے متعلق مراکز کو نشانہ بنایا جا سکے، اس منصوبہ بندی کو عملی کرنے کی آخری واقعہ، غزہ کے جنوب میں چیک پوائنٹ پر تو خود کش حملوں کی کوشش تھی جس میں تین لوگوں کو اپنی جان گنوانا پڑی، اس خود کش حملہ کے بعد یہ پتہ چلا کہ یہ دونوں لوگ  انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے دو اسرائیلی افسروں کے جال میں پھنس کر انکے ہتھے چڑھ گئے تھے جنہوں نے خود کو داعش سے جڑے ہوئے عناصر کے طور پر پیش کیا تھا
 

 

ہندوستان کی اسرائیل دوستی کے اثرات

  • ۳۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وزیر اعظم نریندر مودی عوام کو سبز باغ دکھلانے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں ۔عوام ان کے وعدوں اور دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی قیادت پر عوام کا اندھا اعتبار ان کی بے پناہ مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے ۔مہنگائی کے اس دور میں بھی عوام ان کی قیادت کی تنقید کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔بی جے پی کی حریف جماعتوں کے لئے عوام کی یہی ’اندھ بھکتی‘ بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے جس کا نقصان انہیں بہار اور بنگال کے انتخابات میں بھی ہوگا۔ عوام بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کی ناتجربہ کاری ، لاعلمیت اور نااہلی سے اچھی طرح واقف ہے مگر بی جے پی نے عوام کومنافرانہ سیاست اور فرقہ پرستی کے جس دام فریب میں الجھایاہے اس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے پاس حکومت کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے اس کی ناتجربہ کاری نے ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔داخلی سیاست پرنفرت اور فرقہ پرستی کو مسلط کردیا گیا اور خارجہ پالیسی استعمار کی خوشنودی کے حصول کے لئے یکسر بدل دی گئی ۔ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے فرقہ پرستی اور اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کا سہارا لینا ،بی جے پی کا ذاتی خیال نہیں تھا ۔بلکہ اسی گھنائونی سیاست کے سہارے ایک عرصے تک عیسائیت نےمسلمانوں کے خلاف تخریب کاریاں سرانجام دی تھیں اور آج یہودیت اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔استعمار کے حلیف اس کے ہتھکنڈوں اور سیاسی چالوںسے آزادنہیں ہوسکتے ،یہی وجہ ہے کہ آرایس ایس جیسی جماعت نے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ان تمام حربوں کو استعمال کیا جن سے ہمارے ملک کی سیاست بے خبر تھی ۔یہ کامیابی ایک بار میں ہاتھ نہیں لگی بلکہ آزادی سے پہلے اور فوراََ بعد ہیڈگوار اور ساورکر جیسے لیڈروں کی رہنمائی میں یہ کوشش جاری رہی ۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں سے نجات اور ان کے خاتمے کے لئے کھل عام باتیں ہورہی ہیں اورگزشتہ دس سالوں میں سیاست کا رخ اس قدر تبدیل ہوگیاکہ اقلیتی طبقہ انگشت بدنداں ہے ۔اس کی بڑی وجہ اقلیتی طبقہ کی غیر منظم سیاسی سوچ اور مرکزی قیادت کا فقدان ہے ۔ملک کی سیاست کی باگ ڈور استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور مسلمان سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا،یہ ایک المیہ ہے ۔ہندوئوں کو جب تک اس گھنائونی سیاست کا صحیح اندازہ ہوگا ،صورتحال بے قابو ہوچکی ہوگی اور پھر ملک کی سیاست کے نفرت آمیز دھارے کو بدلنا ممکن نہیں ہوگا۔اس وقت ملک کے عوام کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ہماری سرکار استعمار پر اس قدر فریفتہ کیوں ہے؟۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جس وقت امریکی دباؤ میں ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت منسوخ کی تھی ،اس وقت امریکہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہندوستان کو کم قیمت پر تیل فراہم کرے گا ۔مگر جیسے ہی ہندوستان نے ایران سے تیل کی تجارت ختم کی ،امریکی مؤقف بدل گیا۔امریکہ نے واضح الفاظ میں ہندوستانی سرکار سے کہاکہ وہ بازار سے کم قیمت پر تیل فراہم نہیں کرسکتا۔ ہندوستان نے سعودی عرب سےاضافی تیل کی فراہمی کے سلسلے میں مذاکرات کئے مگر نتیجہ بے سود رہا ۔کیونکہ سعودی عرب کی تیل ریفائنریز کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسروں ملکوں سے تجارتی تعلقات کو بحال رکھتے ہوئے ہندوستان کو اضافی تیل فروخت کرسکیں۔ اس وقت ہندوستان سب سے زیادہ عراق اور سعودی عرب سے تیل برآمد کر رہاہے ۔مگر عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے عوام کو سستا تیل مہیا نہیں کر پا رہاہے ۔اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت پر پڑ رہاہے جو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی بدحالی کا شکارہے ۔تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عام ضروریات کی چیزوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔مہنگائی دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور عام آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ایسے حالات میں ہندوستان اگر اپنے پرانے دوستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا تو حالات مزید بدتر ہوں گے ۔

جس وقت نریندر مودی پہلی بار بر سر اقتدار آئے تھے ،اس وقت تیل کی قیمتیں عالمی بازار میں عروج پر تھیں۔اس کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ عوام کو سستا تیل دستیاب ہونا چاہئے ۔انہوں نے تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کو لیکر کانگریس سرکار کے خلاف محاذ کھول دیا تھا ۔مگر جب سے نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں اس کے بعد سے تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہواہے ۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب بھی ان کے وزیروں سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں ان کے اختیار میں نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جس وقت بی جے پی کانگریس کے خلاف مہنگائی کو لیکر مظاہرے کررہی تھی ،کیا اس وقت بی جے پی کو یہ معلوم نہیں تھاکہ مہنگائی پر سرکار کا قابو نہیں ہوتاہے؟ اور اگر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی کو مہنگائی کی حقیقت کا علم ہواہے تو پھر انہیں اپنے تمام ان سابقہ مظاہروں اور احتجاجات پر ملک سے معافی مانگنی چاہئے ،جو انہوں نے کانگریس سرکار میں مہنگائی کے خلاف کئے تھے ۔مگر جناب !سیاست کا کھیل نرالاہے ۔یہاں سچ کی کوئی اہمیت نہیں ،جھوٹ کا بول بالاہے ۔آج بھی بی جے پی مہنگائی ،کورونا وائرس،چین سے تنازع اور دیگر مسائل کے سلسلے میں سفید جھوٹ بول رہی ہے مگر ’گودی میڈیا‘ اور ’بھکت‘ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔

نریندر مودی اپنے عجلت پسندانہ فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔ان کے غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی اور عوام پر فاقوں کی نوبت آچکی ہے مگر اب بھی ان کے یہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور عام آدمی مہنگائی سے پریشان ہے ۔اس کی آمدنی کا سلسلہ تو پہلے لاک ڈائون کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا ،اس پر مہنگائی کی مار نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔سرکار غریبوں کو جتنا راشن مہیا کرارہی ہے وہ ان کی گذر بسر کے لئے کافی نہیں ہے ۔بے روزگاری عروج پر ہے اور مزدور طبقہ جو پہلے بڑے شہروں میں روزی روٹی کمارہا تھا ،آج اپنے گھروں پر بیکار بیٹھا ہواہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں بھی سرکار کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔اس کی بڑی وجہ ہندوستان کی اسرائیل دوستی ہے ۔مودی سرکار کو اب تک اس حقیقت کا علم نہیں ہوسکاہے کہ اسرائیل دوستی میں وہ ملک کا بیڑا غرق کررہے ہیں ۔اگربھارت سرکار ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ روابط کو امریکہ و اسرائیل کی محبت میں بلی نہ چڑھاتی تو تیل کی قیمتیں آسمان نہ چھورہی ہوتیں۔ہندوستان کو دنیا میں سب سے سستا تیل ایران سے ملتا تھا مگر امریکی دبائو میں بی جے پی سرکار نے ایران کے ساتھ تیل کی تجارت ختم کردی ۔اب جبکہ ہندوستان دوبارہ ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ پر غوروخو ض کررہاہے اور کئی اشیاء کی خریدوفروخت پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے مگر تیل کا مسئلہ ابھی بھی زیر غور نہیں ہے ۔اگر ایران برے وقت میں وینزوئیلا کا ساتھ دیکر اس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتاہے تو پھر وہ ہندوستان کی مدد سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔مگر اس کے لئے بھارت سرکار کو اپنی خارجہ پالیسی میں بدلائو لانا ہوگا ۔

بھارت سرکار اگر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے ان ممالک سے دوبارہ تعلقات ہموار کرنا ہوں گے جو امریکہ اور اسرائیل کے دبائو میں سرد مہری کا شکار ہیں۔چین اور پاکستان کو مہار کرنے کے لئے بھی ایران جیسے طاقتور ملکوں سے دوستی بہت ضروری ہے ۔چین اور ایران کے تعلقات کی گہرائی سے ہندوستان بخوبی واقف ہے ،اسی طرح روس اور ایران کی دوستی بھی کسی سے صیغہ ٔ راز میں نہیں ہے ۔روس کبھی ہندوستان کا سب سے گہرا دوست ہوا کرتا تھا مگر امریکی اور اسرائیلی دبائو میں بی جے پی سرکار نے روس کے ساتھ بھی تجارتی معاملات محدود کرلیے تھے ۔اس کا واضح اثر ہماری داخلی اور خارجی سیاست پر بہت صاف نظر آرہاہے ۔چین کے ساتھ حالیہ تنازعات کے بعد سرکار ہوش میں ضرور آئی ہے اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے روس کا سفر کرکے خوش آئند اشارے دیے ہیں۔ہندوستان ہتھیاروں کی خرید کے سلسلے میں سب سےزیادہ روس پر منحصر تھا مگر اسرائیل دوستی میں یہ معاہدہ بھی محدودیت کا شکارہے ۔راج ناتھ سنگھ کے حالیہ روس دورے میں پرانے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان کے استقرار سے صورتحال بدلنے کی امید نظر آتی ہے ۔

ہندوستان کو سمجھنا ہوگاکہ امریکہ اور اسرائیل کی دوستی ظاہری طورپر بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے مگر اس کے برے اثرات دیر پا ہیں۔استعمار ہر حال میں اپنے مفاد کی تکمیل کو ترجیح دیتاہے۔وہ کبھی اپنے مفادات پر ہندوستان کے مفاد کو ترجیح نہیں دے سکتا۔وہیںبی جے پی سرکار کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جو بھی استعمارکا منظور نظر رہاہے ،اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔تاریخ اس کی گواہ ہے ۔یہ بات استعمار کی منظور نظر جماعت آرایس ایس کو بھی سمجھ لینی چاہئے ۔

بقلم عادل فراز

 

امریکی سلطنت کا قطعی زوال عنقریب

  • ۴۱۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، فوکویاما کا کہنا ہے: “ہم نے افغانستان، عراق اور ان کی طرح کے ممالک سے کم از کم ایک یہ سبق سیکھا ہوگا کہ امریکہ کے پاس مشرق وسطی کے ممالک میں جمہوریت بحال کرنے کی طاقت، وسائل اور ضروری سوچ موجود نہیں ہے؛ حتی وہ شام جیسے ملک میں موجودہ بحران کے حل سے عاجز ہے۔ اس وقت جو کچھ ہمیں کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم ان افراد کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیں جو ہمارے لئے اہمیت رکھتے ہیں، اور ہمیں بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آخری نتیجہ کسی پر مسلط کریں” [اور اپنی مرضی کا نتیجہ اخذ کریں]۔
مذکورہ بالا اہم اعتراف اس شخص کا ہے جس نے آج سے تین دہائیاں قبل، اختتام تاریخ کا نظریہ پیش کیا تھا اور اسی نظریئے کی بنیاد پر عالمی شھرت حاصل کرچکے تھے۔ فرانسس فوکویاما (Yoshihiro Francis Fukuyama) جاپانی نژاد محقق، تاریخ نگار، ماہر سیاسیات و معاشیات ہیں جو امریکی سیکورٹی ادارے میں کام کرچکے ہیں، امریکی وزارت دفاع “پینٹاگون” سے وابستہ رینڈ (RAND) کارپوریشن کے تجزیہ نگار کے طور پر مصروف کار ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۹ع‍ میں ” تاریخ کا اختتام اور آخری انسان (The End of History and the Last Man)” نامی مضمون لکھا جسے انھوں نے تفصیل کے ساتھ کتاب کی صورت دے کر اسی عنوان سے ۱۹۹۱ع‍ میں شائع کیا۔ یوں فوکویاما نے عالمی شہرت پائی۔ انھوں نے ان دو نوشتوں میں صراحت کے ساتھ مغربی اقدار کی تاریخی وکالت کرتے ہوئے استدلال کیا کہ “لبرل جمہوریت کے حق میں عالمی اجماع حاصل ہوچکا ہے” [اور اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے؛ یہ دعوی شاید انھوں نے سوویت روس کے خاتمے کی بنیاد پر کیا تھا]۔
اسی نظریئے کی بنیاد پر ہی تھا کہ امریکیوں نے مغربی لبرل جمہوریت کی علمبرداری کا دعوی کرتے ہوئے پوری دنیا پر امریکی اقدار کی حکمرانی کا تقاضا (!) کیا اور اکیسویں صدی میں بین الاقوامی انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کو اپنا حق قرار دیا؛ لیکن تقریبا تیس برس گذرنے کے بعد لبرل جمہوریت کے ذاتی نقائص کی بنا پر بھی اور امریکی کی طرف سے عجز و بےبسی نیز لبرل جمہوریت کے منافی امریکی رویوں کی بنا پر بھی، ان کا نظریہ ثابت نہیں ہوسکا اور یہ نیم فلسفی ـ نیم سیاسی تاریخی محقق اپنے نظریئے سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اب امریکہ کے انحطاط و زوال کی پیشنگوئیاں کرنے لگا ہے۔
فوکویاما لکھتے ہیں: “میں اپنی کتاب «سیاسی نظام اور سیاسی زوال» (۱) نامی کتاب میں سیاسی انحطاط کے لئے جو سب سے بڑی مثال پیش کرتا ہوں وہ امریکی نظام کی مثال ہے۔ دنیا کے تمام نظام ہائے حکومت رو بہ زوال ہیں، خواہ ان کے زوال کا سبب فکری جمود ہو خواہ افراد کا اپنے اختیارات سے غلط فائدہ اٹھانا ہو”۔  
جی ہاں! حالیہ برسوں میں عالمی تبدیلیوں کا عمل نہ صرف امریکی حاویّت اور مغربی اقدار کی توسیع کے حق میں نہیں رہا ہے بلکہ ان اقدار کے زوال اور امریکی طاقت کے انحطاط کی صورت میں آگے بڑھا ہے۔ اگر ہم قبول کریں کہ گذشتہ چالیس برسوں کے اہم ترین عالمی تنازعہ، انقلاب اسلامی اور امریکہ کے درمیان تھا تو دنیا کو بھی، مغربی ایشیا کو بھی، ملت ایران کو بھی اور ولائی مسلمانوں کو بھی ایک نہایت خوبصورت اور روشن افق نظر آئے گا۔ اس قابل مطالعہ موضوع کی بنیاد پر، دنیا میں امریکہ کا انحطاط و زوال قطعی اور حتمی اور الہی اقدار کی قیادت میں، انسانی فطرت کے عین مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح کی نو ظہور قوتوں کا معرض وجود میں آنا ایک زمینی حقیقت ہے۔
اسلامی انقلاب کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مُدَّ ظِلُّہُ العالی) نے مورخہ ۳ نومبر ۲۰۱۸ع‍ کو [۴ نومبر، یوم استکبار کے خلاف جدوجہد کی آمد کے سلسلے میں] اسکولوں کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “جب ہم ایک وسیع نگاہ سے امریکی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس کی طاقت، استحکام اور غلبہ نیز اس کا عالمی دبدبہ دنیا میں رو بہ زوال اور رو بہ انحطاط ہے۔ برسوں کے دوران یہ طاقت مسلسل کم سے کمتر ہورہی ہے”۔
جب ہم تاریخی لحاظ سے نظام ہائے حکومت، مکاتب، حکومتوں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی بات کرتے ہیں تو اس بحث میں بنیادی معیار “طاقت” ہے۔ طاقت سے مراد وہی ہے جس کو سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں زیر بحث لایا جاتا ہے اور اس سے مراد ” فریق مقابل یا دوسرے فریقوں پر اثر انداز ہونے، اپنی مرضی اور مطالبات و تقاضے مسلط کرنے کی صلاحیت” ہے۔ طاقت مختلف مادی اور معنوی [سخت اور نرم] اجزاء کا مجموعہ اور اس مجموعے کا نتیجہ ہے۔ آج کی جامعاتی لغت میں اور سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے ہاں، طاقت کو دو قسموں “نرم طاقت” اور “سخت طاقت” میں تبدیل کیا جاتا ہے؛ اور آج کے دن امریکہ “نرم طاقت” کے لحاظ سے بھی اور “سخت طاقت” کے لحاظ سے بھی گھِساؤ، فرسودگی اور بےبسی کا شکار ہوچکا ہے۔
نرم طاقت اور سخت طاقت کے لحاظ سے  امریکی طاقت کے زوال کا جائزہ لینے کے لئے مختلف معیاروں کو سامنے رکھا جاسکتا ہے اور مختلف نشانیوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے؛ جیسے:
الف: نرم طاقت
امام خامنہ ای نے مذکورہ بالا خطاب کے ضمن میں اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “دنیا کے بہت سے معتبر ماہرین سیاسیات اور بہت سے معتبر ماہرین عمرانیات کی رائے ہے کہ امریکہ کی نرم طاقت فرسودہ اور بہت زیادہ ضرر رسیدہ ہوچکی ہے، اور مکمل طور پر زائل ہونے کو ہے۔ نرم طاقت کیا ہے؟ نرم طاقت یہ ہے کہ ایک حکومت اپنے فیصلوں، اپنی رائے و نظر اور اپنا عقیدہ دوسروں فریقوں کو منوا سکے اور انہیں قائل اور آمادہ کرسکے کہ اس کے فیصلے کو قبول کرے۔ یہ طاقت امریکہ میں مکمل ضعف اور مکمل فرسودگی کا شکار ہے اور زائل ہورہی ہے”۔  
امریکی نرم طاقت کی فرسودگی کی بعض نشانیاں:
۱۔ امریکہ کی اندرونی صورت حال بتا رہی ہے کہ لبرل جمہوریت اور سرمایہ دارانہ سیاسی نظام بے آبرو ہوچکا ہے۔ سماجی دراڑیں، سماجی انصاف کا ناپید ہونا، نسلی امتیازات کا غلبہ، خاندانی نظام کا فنا ہوجانا اور وسیع البنیاد اخلاقی برائیوں کا رواج، وغیرہ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے اقدار پر مبنی کسی قسم کا کوئی پیغام نہیں ہے اور اس کے القائات کسی کے لئے بھی کوئی تعمیری پہلو نہیں رکھتے۔ بلکہ یہ ملک اندرونی طور پر سماجی اور اخلاقی شکست و ریخت کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔
۲۔ دنیا کی بہت سی اقوام ـ بالخصوص عالم اسلامی کی متعدد اقوام ـ امریکہ سے نفرت کرتی ہیں۔ امریکہ سے یہ نفرت عراق، شام، افغانستان، پاکستان، لبنان، فلسطین سمیت مقبوضہ سرزمینوں، بحرین، یمن اور حتی کہ امریکہ کے حلیف اسلامی ممالک، نیز جنوبی امریکہ اور پورے براعظم افریقہ کے ممالک میں بہت نمایاں ہے۔
۳۔ بہت سی حکومتیں [بالخصوص امریکہ کی حلیف حکومتیں] امریکی رویوں اور طرز سلوک سے پر تنقید کررہی ہیں اور امریکہ سے منہ پھیرے ہوئے ہیں یا پھیر رہے ہیں۔ ۴۔ امریکہ نے اپنی نرم طاقت اور اثرو رسوخ کی صلاحیت کھو جانے کے بعد اپنے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے گذشتہ سترہ برسوں کے دوران فوجی لشکر کشیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کا سہارا لیا ہے۔ افغانستان اور عراق پر فوجی چڑھائی، داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں بنا کر نیابتی جنگوں (Proxy wars) کا آغاز اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ امریکہ نرم طاقوت اور اثر و رسوخ کی قوت کھو چکا ہے۔
۵۔ یورپ، روس، چین اور کچھ دوسرے ممالک کے خلاف معاشی جنگ بھی امریکہ کی نرم طاقت کی گھِساؤ اور فرسودگی کا ثبوت ہے اور اس جنگ سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مزید کسی کو اپنے ساتھ ملانے سے عاجز ہوچکا ہے۔  
ب: سخت طاقت
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امریکہ کی سخت طاقت کو بھی بہت شدید نقصان پہنچا ہے؛ سخت طاقت یعنی عسکریت پسندی کی طاقت، معاشی طاقت، یہ سخت طاقت کے زمرے میں آتا ہے؛ اور ہاں! امریکہ کے پاس فوجی اوزار موجود ہیں لیکن اس کی فوجی طاقت اداس، الجھن کا شکار، ششدر اور متذبذب وحیران ہے۔
اسی بنا پر ہی جن جن ملکوں میں امریکی موجود ہیں، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بلیک واٹر جیسی جرائم پیشہ تنظیموں کو استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی سپاہی امریکی منصوبے کے نفاذ کی صلاحیت سے عاجز و قاصر ہے”۔
امریکی سخت طاقت کی فرسودگی کی بعض نشانیاں کچھ یوں ہیں:
۱۔ امریکی حکومت کا ۲۰ ٹریلین ڈالر (۲) مقروض ہونا اور اسے بہت بڑے بجٹ خسارے کا سامنا ہونا؛
۲۔ غربت، بےروزگاری اور امریکی صنعتوں کے ایک بڑے حصے اور بڑے بڑے بینکوں کا دیوالیہ ہوجانا؛
۳ـ بیرونی تجارت کے توازن میں زبردست خسارہ؛
۴ـ چین جیسے برتر معاشی طاقتوں کا ظہور پذیر ہوجانا؛
۵۔ فوجی سازوسامان کا فرسودہ اور افواج کا افسردہ، ناامید اور اداس ہوجانا؛
۶۔ افغانستان، عراق اور شام میں فوجی شکستوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوجانا؛
۷۔ دنیا کے بہت سے علاقوں ـ بالخصوص مغربی ایشیا ـ میں عسکری اور معاشی قوت کے بل پر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بے بسی اور ناکامی؛
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ جملہ ان تمام نشانیوں کی تصدیق کے لئے کافی ہے کہ “امریکہ نے ۱۷ سال قبل مشرق وسطی میں سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے لیکن وہ کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے”۔
جی ہاں! امریکہ کا زوال اور اس کی طاقت کا زوال ایک زمینی حقیقت ہے۔ لیکن ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کی حامی و مدافع قوتیں ہی شیطان اکبر کی جہنمی طاقت کو فنا سے دوچار کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: بریگیڈیئر جنرل ڈاکٹر یداللہ جوانی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Political Order and Political Decay: From the Industrial Revolution to the Globalization of Democracy
۲۔ ایک ٹریلیئن = دَس کھَرب = (۱۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰)؛ اور اس حساب سے ۲۰ ٹریلیئن ڈالر = ۲۰۰ کھرب ڈالر یا بیس ہزار ارب ڈالر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔