-
Wednesday, 15 July 2020، 11:11 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کرونا کی خطرناک وبا سے جوجھتے ہندوستان میں امریکہ سے اسلحوں کی خریداری کی خبر نے ہر ایک صاحب فکر محب وطن کو چونکا دیا ہے کہ ایسے حالات میں جب کرونا تیزی کے ساتھ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے آخر فوج کو ضرورت کیا ہے کہ وہ امریکہ سے اسلحوں کی خریداری پر غور کرے، خبروں کے مطابق ہندوستانی فوج امریکہ سے 72 ہزار سِگ 716 اسالٹ رائفلز خریدنے پر غور کر رہی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق "ان سِگ (ایس آئی جی) اسالٹ رائفلز کی پہلی کھیپ انڈیا کو جنوری میں دی گئی تھی اور یہ شمالی کمانڈ اور دیگر آپریشنل علاقوں کی تعینات فوجیوں کو دے دی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رائفلز کشمیر اور دیگر سرحدی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو بھی دی گئیں ہیں"۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے بتایا: 'ہم سکیورٹی فورسز کو دیے گئے معاشی اختیارات کے تحت مزید 72 ہزار رائفلز کا آرڈر دینے جا رہے ہیں' اور کہا جا رہا ہے کہ یہ خریداری فاسٹ ٹریک پرچیز (ایف ٹی پی) پروگرام کے تحت کی جائے گی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خریداری ایسے میں ہو رہی ہے جب ہندوستانی معیشت اپنے نہایت ہی خطرناک بحران سے گزر رہی ہے اور ہندوستان کو صنعت و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں میں شدید طور پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ معیشتی بحران زیادہ بڑا ہے یا وہ کاذب بحران جسے میڈیا نے ہندوستان مقابلہ چین کے طور پر کھڑا کیا ہے اگر ہندوستانی نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو انکا موقف یہ ہے :
'اگر چہ ہر فوج چاہتی ہے کہ لڑائی کے لیے اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن ایک جمہوریت اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ترقی اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور فوج کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور کوئی کمی ہوتی ہے تو ہنگامی صورت حال میں اس قسم کی خریداری کی جاتی ہے۔ یہ ہر فوج کرتی ہے، صرف ہندوستانی فوج کی بات نہیں ہے۔'
قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ میں تیار کی جانے والی یہ اسالٹ رائفلز فی الوقت انڈین فوج میں استعمال ہونے والی انڈین اسمال آرمس سسٹم (انساس) رائفل کی جگہ لیں گی جو کہ ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اگر دفاعی تجزیہ کاروں کی بات کو تسلیم کیا جائے تو وہ بھی اسے ہندوستان کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ : 'نئی رائفلز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت گذشتہ آٹھ نو سالوں سے ہے۔ 'ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے سنہ 1990 کی دہائی میں ایک دیسی اسالٹ رائفل بنائی تھی جسے انساس رائفل کہتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق سنہ 2010-2011 میں فوج نے کہا تھا کہ وہ عملی طور پر موثر نہیں ہیں یعنی اسے چلانے میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں اور فوج نے یہ کہتے ہوئے انساس رائفل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کے بدلے میں ہمیں دوسرے قسم کا اسلحہ چاہیے۔ اس وقت سے ہی نئی رائفل کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
فوج کے پاس نئے اسلحوں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن جس وقت اور جن حالات میں اس ڈیل پر گفتگو ہو رہی ہے وہ بہت عجیب ہے جبکہ ہندوستان کی صلاحیت و توانائیوں کے پیش نظر دیکھا جائے تو خود بھی وہ ان معمولی اسلحوں کو بنا سکتا ہے جنکی فوج کو ضرورت ہے، اور یہی سوال دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی نے بھی اٹھایا ہے کہ ایک طرف انڈین حکومت خود کفیل ہونے کی بات کرتی ہے دوسری طرف آپ درآمد کرتے ہیں۔ یہاں قدرے تضاد ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے آنے والی اسالٹ رائفل بہت اچھی ہے۔ لیکن پہلی بات یہ ہے کہ وہ درآمد کی جاتی ہیں اور دوسری یہ کہ وہ مہنگی ہیں۔ ان کے مطابق جنوری میں موصول ہونے والی 72 ہزار 400 سِگ 716 اسالٹ رائفل کی قیمت تقریبا آٹھ کروڑ ڈالر آئی تھی۔ان کے بقول مودی کا 'میک ان انڈیا مکمل طور پر ناکام ہے۔ سیاسی لحاظ سے اسے جتنا چاہیں اچھالیں لیکن اس کا کوئی جواز نہیں۔ انڈیا ایک ایسا ملک ہے جو درآمد شدہ ہتھیاروں سے لڑتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'آپ ہوائی جہاز کو لیں، اپنا فائٹر دیکھیں، ہیلی کاپٹر دیکھیں، ٹینک دیکھیں، سب درآمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے آبدوز، طیارہ بردار بحری جہاز، ایئر کرافٹ کیریئر سب درآمد کیا جاتا ہے۔'
در حقیقت سن 2014 سے 2018 کے درمیان انڈیا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فوجی اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق انڈیا دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے کا 10 فیصد خرید رہا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خود پر انحصار کی صلاحیت بہت ہی ناقص ہے۔ 'پچھلے 65 سالوں میں ہم نے کوئی ہتھیار بنانے کا نظام نہیں بنایا ہے۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ مشرق وسطی میں چاروں طرف سے گھرا ہوا ایران جیسا ملک ٹینک سے لیکر جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ٹینک بھی خود بنا رہا ہو اور ہندوستان جیسا ترقی پذیر ملک اپنے اسلحوں کے لئے اب بھی امریکہ کے اوپر منحصر ہو؟۔۔۔