-
Sunday, 12 July 2020، 11:59 PM
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاھو نے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کا اعلان کیا تھا کہ وہ وادی اردن سمیت 30 فیصد فلسطینی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کریں گے ، لیکن اب اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ وہ اس منصوبے سے دستبردار ہو رہے ہیں اور چند ایک بستیوں کو ہی مغربی اردن میں واقع صہیونی قصبوں سے جوڑ سکیں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، جنہوں نے حالیہ عرصے تک وزیر جنگ بنی گانٹز کی مخالفتوں کے باوجود مغربی کنارے کو اسرائیل سے ملحق کرنے پر اصرار کیا اور بنی گانٹز کو دھمکی دی کہ یا مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر رضامندی کا اظہار کریں یا ملک میں دوبارہ انتخابات کی تیاری کریں۔
گانٹز اس بات کے قائل تھے کہ مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کی حساسیت کی وجہ سے، اس منصوبے پر فوری عمل درآمد نہیں کیا جانا چاہئے۔ اختلاف رائے کے بعد نیتن یاہو نے گانٹز کو متنبہ کیا کہ وہ یا تو مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر راضی ہوجائیں یا نئے انتخابات کی تیاری کریں۔
نیتن یاھو نے ایسے حال میں یہ دھمکی دی کہ نیتن یاہو اور بنی گانٹز کا اتحاد کافی مشکلات کے بعد انجام پایا اور موجودہ صہیونی کابینہ تشکیل دی گئی۔
اب صیہونی حکومت کے چینل 12 نے اطلاع دی ہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ، محمود عباس کو ایک پیغام بھیجا ہے، جس میں انہیں بتایا ہے کہ مغربی کنارے کو الحاق کرنے کے منصوبے میں وادی اردن کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
فلسطینی معا نیوز ایب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ پیغام موساد کے سربراہ ’یوسی کوہن‘ کے ذریعے محمود عباس تک پہنچا ہے .
رپورٹ کے مطابق ، الحاق دو یا تین بستیوں تک محدود رہے گا ، جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
اس خبر کے بارے میں دو اہم نکات ہیں ، ایک یہ کہ نیتن یاھو واقعا بین الاقوامی انتباہات خصوصا یورپین یونین، اسلامی ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے دباؤ کی وجہ سے مغربی کنارے کے 30 فیصد اراضی کو الحاق کرنے کے انتہا پسندانہ منصوبے سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گوالان کی پہاڑیوں کو صہیونی ریاست سے ملحق کرنے میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا تھا چونکہ انہیں امریکہ کی گرم جوشی اور پشت پناہی حاصل تھی اگر چہ بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین مخالفت کرتی رہی۔
صیہونی وزیر اعظم کے طرز عمل کے تجزیہ کے بارے میں دوسرا نکتہ ، جو حقیقت کے قریب ہے ، یہ ہے کہ اس منصوبے پر پہلے مرحلے میں محدود انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا اور اس کے بعد مستقبل میں اس کا مکمل نفاذ کیا جائے گا۔ مستقبل میں ضروری مواقع کے حصول کے لئے فلسطین اتھارٹی کو مجبور کیا جائے گا۔
اس دعوے کا ثبوت رواں سال 28 جون کو عبرانی زبان کے اخبار "اسرائیل الیوم" کی وہ رپورٹ ہے ، جس میں لکھا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو دو مراحل میں مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ،مغربی کنارے سے باہر واقع صہیونیوں کی بڑی بستیوں پر "اسرائیلی خودمختاری" کو وسعت دی جائے گی اور تقریبا ۱۰ فیصد مغربی کنارے کی اراضی کو اسرائیل سے ملحق کیا جائے گا۔
اس صہیونی اخبار کے مطابق ، الحاق منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے بعد ، تل ابیب دوسرے مرحلے میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف رخ موڑے گا اور اس تنظیم کو مذاکرات کی میز پر مدعو کرے گا ، اور اگر فلسطینی اتھارٹی اس کارروائی کی مخالفت کرتی ہے تو ، الحاق کا منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ دوسرا مرحلہ وادی اردن سمیت مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر قبضہ ہوگا۔
صہیونی ریاست کا بنیادی منصوبہ امریکی حکومت کی حمایت سے مغربی کنارے کے 30 فیصد حصے پر سرکاری طور پر قبضہ کرنا ہے ، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین مخالف منصوبے کا حصہ ہے جسے صدی کی ڈیل کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔