بے شرم ریاست کا “شرمناک” تصور

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، یہ خبر میڈیا میں عام ہونے سے پہلے ہی غائب ہو گئی جسکے مطابق وقتی طور پر رہائش کا انتطام کرنے والی ایک امریکن کمپنی نے مقبوضہ اردن میں قائم اسرائیلی بستیوں کے گھروں کو اپنی سائٹ سے یہ کہتے ہوئے خارج کرنے کا فیصلہ لیا تھا  کہ یہ  بستیاں متنازعہ ہیں ۔ اپنے آپ میں خبر خود قابل تامل تھی کہ وہ  آخر کونسی کمپنی ہے جو امریکہ میں ہے لیکن اسکے باوجود  پانی کے بہاو کے خلاف اس نے چلنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جتنی بھی یہودی بستیاں اسرائیل میں بسائی گئی ہیں ہر ایک میں کہیں نہ کہیں امریکہ کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے ۔ایسے میں اگر کوئی امریکن کمپنی اسرائیل کے مفادات کے خلاف قدم اٹھاتی ہے تو یہ ایک قابل غور بات ہے، اگر اس میں سچائی ہے تو کم از کم اتنا ضرور ہے کہ اب امریکہ میں  رہنے والے ایک طبقہ کو احساس ہو رہا ہے کہ و ہ اسرائیل کے ساتھ بلا وجہ تنازعہ کا شکار ہو رہے ہیں اور اسی لئے انکی کوشش ہے کہ متنازعہ مسائل سے دور رہیں ۔
تفصیلات کے مطابق عارضی رہائش حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرنے والی امریکی کمپنی ایئر بی این بی کا کہنا بھی یہی تھا کہ وہ مقبوضہ اردن میں اسرائیلی بستیوں کے تمام گھروں کو اپنی ویب سائٹ سے خارج کر دے گی اس لئے کہ وہ کسی تنازعہ کا شکار نہیں ہونا چاہتی ۔بی بی سی کے مطابق “ایئر بی این بی کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ یہ بستیاں ’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کی جڑ‘[۱] ہیں۔اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد متوقع دو رد عمل سامنے آئے ایک فلسطینیوں کی طرف سے اور ایک  اسرائیل کی جانب سے ۔فلسطینیوں نے جہاں  اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے  وہیں  اسرائیل نے نہ صرف ’شرم ناک‘ قرار دیا بلکہ  قانونی چارہ جوئی کی دھمکی  بھی دے ڈالی۔  یہ قانونی چارہ جوئی کی دھمکی ان حالات میں دی جا رہی ہے کہ  بی بی سی ہی کی رپورٹ کے مطابق “غربِ اردن میں قائم یہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہیں ”[۲]۔صہیونی حکومت کی یہ ڈھٹائی  اور بے غیرتی کو برملا کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ  آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا ۱۶ فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے ۴۲ فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبوں پر مکمل عمل درآمد ہوچکا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے۱۵۰ میٹر کے فاصلے پر ” معالیہ ازیتیم“ کے نام سے قائم کالونی میں ۱۳۲ رہائشی اپارٹمنٹس ہیں ، جبکہ ۲۶ بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں اور رملہ اور البریح ضلع میں ۲۴ یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ [۳] علاوہ از ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ  اسرائیل نے نوف صیہون نامی بستی کے تحت نئے گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا جسے  صہیونی اتھارٹی نے منظور بھی کر لیا تھا  چنانچہ اس فیصلے کو منظوری ملتے ہی یہ خبر میڈیا میں آئی تھی کہ ” اسرائیلی حکام نے مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی ایک بڑی بستی میں ایک توسیعی منصوبے کے تحت مزید پونے دو سو سے زائد نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ اس یہودی بستی کا نام ’نوف صیہون‘ہے۔[۴]اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کے منصوبوں کی مخالفت کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق نوف صیہون (Nof Zion) نامی یہ بستی  نئی منظور شدہ توسیع کے بعد یہ یہودی بستی یروشلم شہر کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑی اسرائیلی بستی بن جائے گی۔ اے ایف پی ایجنسی کے مطابق یہ یہودی بستی اسرائیل کی طرف سے اپنے ریاستی علاقے میں زبردستی شامل کر لیے جانے والے یروشلم شہر کے مشرقی حصے میں اس جگہ پر قائم ہے، جو اکثریتی طور پر فلسطینی آبادی والا علاقہ ہے اور جبل المکبر کہلاتا ہے۔۔ اسرائیل کی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم ’پِیس ناؤ‘ (Peace Now) نے کہا ہے کہ مجوزہ توسیع کے بعد نوف صیہون نہ صرف مشرقی یروشلم بلکہ مقبوضہ مغربی اردن کے کنارے میں بھی کسی بھی فلسطینی رہائشی علاقے میں قائم سب سے بڑی یہودی بستی بن جائے گی۔ یاد رہے کہ مغربی اردن کے علاقے میں اکثر یہودی بستیاں فلسطینی رہائشی علاقوں سے باہر قائم ہیں اور وہ بالعموم وہاں مقیم یہودی آبادکاروں کی تعداد کے اعتبار  سے نوف صیہون سے بڑی ہیں۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا اور بعد ازاں اسے اپنے ریاستی علاقے میں شامل کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔[۵] اسرائیل کی جانب سے مسلسل نئی بستیوں کی تعمیر ایسے میں ہو رہی ہے کہ جب یورپی یونین نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر لازمی طور پر بند کرے۔ یونین کے مطابق ان نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیام امن کو خطرہ ہے۔چنانچہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے بدھ اٹھارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یونین کے خارجہ امور کے شعبے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ویسٹ بینک کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کے لیے جو نئے گھر تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، وہ تمام منصوبے فوری طور پر روکے جانا چاہییں۔
یورپی یونین نے اسرائیل سے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔برسلز میں یورپی یونین کے خارجہ سروس نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہودی آبادکاری کے منصوبوں سے فلسطینیوں کیساتھ مستقبل میں کسی امن معاہدے کے امکانات ختم ہوکر رہ جائیں گے۔نئے آباد کاری منصوبوں سے فلسطینیوں کے ساتھ ممکنہ قیامِ امن کو خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کی ہر قسم کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں۔ مسئلہ کے ۲ ریاستی حل کے قابل قبول ہونے کی بھی نفی ہو رہی ہےجبکہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ۱۳۰۰ سے زائد نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔[۶]  ان حالات میں ایک امریکن کمپنی اگر بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی ہے تو اسرائیل کو یہ گوارا نہیں ہے اور اپنے غیر قانونی کاموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صہیونی حکومت نے اس کمپنی ہی کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے ڈالی ہے جو  کم از کم اس ایک مقام پر قانونی اور اخلاقی قدر کی پاسداری کا سوچ رہی ہے  جبکہ صاف طور پر اسرائیل کی جانب سے ان بستیوں کا بسایا جانا چوری اور سینہ زوری کے تحت آتا ہے  کہ یہ بستیاں نہ صرف غیر قانونی ہیں  بلکہ یہ کام  فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری  کے مطابق جنگی جرائم کی فہرست میں مندرج ہے   چنانچہ فلسطین لبریشن آگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل صائب اریقات نے واضح طور پر  کہا ہے کہ یہ ’ایئر بی این بی کے لیے اہم تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے کہ اسرائیل ایک مقبوضہ طاقت ہے اور غرب اردن میں اسرائیلی آبادکاری، بشمول مشرقی یروشلم، تمام غیر قانونی ہیں اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔‘ اب چوری اور اس پر سینہ زوری ہی کا مصداق ہے کہ  جہاں  خود امریکن کمپنی تنازعات سے دامن جھاڑنا چا رہی ہے وہیں  صہیونی حکومت اسے شرمناک کہہ رہی ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیرسیاحت یاریف لیفین نے تو یہاں تک کہہ دیا  کہ اسرائیل اس کے جواب میں امریکی عدالتوں میں ایئر بی این بی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں ان بستیوں میں کرائے کے لیے جگہ فراہم کرنے والوں کی مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف  اسرائیلی آبادکاروں کی نمائندگی کرنے والی یشا کونسل نے ایئربی این بی پر ’ایک سیاسی سائٹ‘ کا الزام عائد کہا ہے کہ اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’یا تو یہودی مخالفت یا دہشت گردی کے آگے ہتھیار ڈالنے یا ان دونوں کا نتیجہ ہے۔‘
کس قدر ڈھٹائی کی بات ہے کہ ایک طرف جہاں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایسی بسیتاں بسائی جاتی ہیں جن کے بارے میں خود امریکہ جیسے حلیف ممالک کی کمپنیاں خود کو مطمئن نہیں کر پاتیں اور جب وہ عدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں اور تو انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف غیر قانونی مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاست کی جانب سے  المجدل شہر میں ایک تاریخی جامع مسجد کو شراب خانے اور عجائب گھر میں تبدیل کرنے کی اشتعال انگیز جسارت کی جاتی ہے  جس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر فلسطینی مقامات سے چھیڑ چھاڑ کیوں ؟چنانچہ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سنہ ۱۹۴۸ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر کفر کنا کے قریب المجدل کے مقام پرواقع صلاح الدین ایوبی دور کی مسجد کو پہلے میوزیم میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ پھر مسجد کو مے خانےمیں تبدیل کر دیا جاتا ہے جسکے بارے میں یوں تفصیل تو  کہیں سامنے نہ آسکی  کہ اس بات کی تصدیق یا تکذیب ہو سکے لیکن ۔’اپنا وطن پہچانیے’ کےنام سے قائم کردہ ایک گروپ  کی جانب سے  سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر ایک ویڈیو پوسٹ کو اگر صحیح مان لیا جائے جو  کہ اسرائیل کی اسلام او ر مسلمانوں سے دشمنی کے چلتے صہیونیوں سے  بعید بھی نہیں ہے تو اس مسجد کے مناظر بہت ہی عجیب  ہونے کے ساتھ صہیونی کی مسلمانوں سے دیرینہ  عداوت کے بیان گر ہیں    ویڈیو کے مطابق  جامع مسجد المجدل کے اندرونی ہال اور دیواریں دکھائی گئی ہیں جن پر جانوروں اور انسانوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسجد کے اندر انسانی مجسمے، مورتیاں اور فن پاروں کی آڑ میں دیگر توہین آمیز چیزیں رکھی گئی ہیں۔ مسجد کے ایک طرف شراب کی بوتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔فلسطینی کارکنوں کا کہنا ہے کہ المجد جامع مسجد صلاح الدین ایوبی کے دور میں فلسطین کی صلیبیوں سے آزادی کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد ممالک کے طرز تعمیر پر ڈیزائن کی گئی تھی۔فلسطینی قانون دان خالد زبارقہ نے اس فوٹیج کےبارے میں بات کرتے ہوئے تصدیق کی یہ جامع مسجد المجدل ہی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجد کی مسجد فلسطین کی تاریخی اور قدیم مساجد میں سے ایک اور فلسطین کے تاریخی وثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ اس کے منبرو اسکی محراب  اپنی مخصوص طرز تعمیر کی وجہ سے تاریخی فن پاروں کی حیثیت رکھتے تھے  اور اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار تھے  لیکن اسرائیل نے انہیں بھی نہ چھوڑا دوسری طرف اب ان لوگوں کو بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے جو زبردستی یہودی بستیوں کو بسانے والے اس کے غیر قانونی کاموں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے  ظاہری طور پر ہی سہی لیکن یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں اور غیر قانونی کام نہیں کر سکتے  اس لئے ہم غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستیوں کو اپنی سائٹ پر نہیں دیں گے جسکے جواب میں صہیونی حکومت انکے اس عمل کو نہ صرف شرمناک بتا رہی ہے بلکہ انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دے رہی ہے کتنا مضحکہ خیز ہے وہ ریاست قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے رہی ہے جو پوری کی پوری غیر قانونی ہے ۔ایسے میں صہیونی  حکومت کی جانب سے امریکن کمپنی کو دی گئی دھمکی کو دیکھ کر عام انسان تو کیا ایرئیل شیرون  جیسا سفاک بھی ہنس رہا ہوگا کہ بے شرم ریاست کا ،تصو ر شرمناک  لاجواب ہے ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۲]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46270026
[۳] مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو ۔ https://www.urdupoint.com/daily/article/flasteen-me-yahoodi-bastiyoo-ki-tameer-aman-ki-rahh-me-barii-rkawat-8049.html
[۴]  ۔ https://www.dw.com/ur/-
[۵]  ۔ https://www.dw.com/ur/
[۶]  ۔ http://www.urdunews.com/node/142281/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی