عطوان: تہران نہ تو سر تسلیم خم کرے گا، نہ پسپا ہوگا اور نہ ہی پابندیوں کے دباؤ سے متاثر ہوگا

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنی یادداشت بعنوان “ان دنوں علاقے کے عرب ملکوں میں امریکی اڈوں پر ایران کی گہری نگرانی کی خبریں منظر عام پر کیوں نہیں آتیں؟”، میں لکھا ہے کہ ایران ہر قیمت پر ایٹمی معاہدے میں نہیں رہے گا اور جنگ کے سائے علاقے پر منڈلارہے ہیں۔
یادداشت کے اہم نکات:
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر ایران دفاعی رد عمل چھوڑ کر گذشتہ چند روز سے حملے کی پوزیشن میں منتقل ہوا ہے، اور یہ نیا اور پہلے سے منصوبہ بند تزویری قدم ان سات شرطوں میں مجسم ہوا ہے جو انقلاب اسلامی کے قائد اعلی آیت اللہ [امام] خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کی نسبت اپنے ملک کی پابندی کے لئے یورپی ممالک کے سامنے رکھی ہیں۔
ادھر ایرانی افواج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے بھی براہ راست اور اعلانیہ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران کو امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو چار عرب ممالک ـ یعنی اردن، سعودی عرب، امارات اور قطر ـ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ایران کے قائد تین یورپی ملکوں، “برطانیہ، جرمنی اور فرانس” کو موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی پر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کھیل کے دورانیے کے تعین کو ان کے سپرد نہیں کرنا چاہتے۔ اسی بنا پر آیت اللہ [امام] خامنہ ای کی طرف سے سات شرطیں متعین ہوئیں جنہیں نائب وزیر خارجہ، عباس عراقچی ویانا کی نشست میں لے گئے۔ یہ نشست گذشتہ جمعرات اور جمعہ کو امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کی فراہمی کے مقصد سے منعقد ہوئی تھی۔
یہاں ہم اہم ترین شرطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک اور چین اور روس کا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد ۲۲۳۱ کے تحت منعقدہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس سے علیحدگی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے امریکہ کی مذمت میں ایک قرار داد جاری ہونا چاہئے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کے سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لےگا کیونکہ بیلسٹک میزائل ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی بات سرخ لکیر سمجھی جاتی ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارتی لین دین ـ منجملہ بھارت، چین اور جاپان کو ایران کے تیل کی برآمدات، اور متعلقہ بینکاری کے معاملات ـ کے سلسلے میں یورپ کو مکمل ضمانت دینا پڑے گی۔
عطوان مزید لکھتے ہیں:
اگر یورپ اور تین دیگر اصلی ممالک نے مختصر سی مدت میں ـ جو چند ہی ہفتوں پر مشتمل ہوگی ـ معاہدے کی پابندی کا عملی ثبوت نہیں دیا تو ایران بھی اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا اور یہ ملک یورینیم کی اعلی درجے کی افزودگی کا فورا آغاز کرے گا۔
ایران کی یورینیم کی افزودگی کی طرف واپسی امریکہ کے ساتھ تناؤ میں شدت آنے کا سبب بنے گی اور یہ تناؤ ایسے مرحلے میں داخل ہوگا جو علاقے کو جنگ میں دھکیل دے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران امریکہ کے آگے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور شدید پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا، ایسی پابندیاں جو در حقیقت ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی تمہید کے طور پر وضع کی جارہی ہیں۔
جنرل پوردستان ایران کے عسکری انٹیلجنس کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان کا ماتحت ادارہ اردن اور خلیح فارس کی ساحلی ریاستوں میں امریکی اڈوں کی نگرانی پر مامور ہے، اور یہ ادارہ خلیح فارس اور اردن میں امریکی نقل و حرکت کی پوری معلومات رکھتا ہے چنانچہ ان کی دھمکی اس نظریئے کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف کوئی جارحیت کی تو مذکورہ ممالک میں موجود امریکی اڈے ایران کے ابتدائی جوابی حملوں کا نشانہ ہونگے۔
یہ وہ پیغامات ہیں جو یک جہت طور پر بھی اور الگ الگ بھی، ایران سے مل رہے ہیں، اور ان سب پیغامات کا لب لباب یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں یا اسرائیل کی طرف شام میں ایران کے فوجی اہداف پر امریکی حملوں جیسے اشتعال انگیز اقدامات کے آگے ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور ایرانی قیادت ایک خاص روش سے ان اقدامات کا جواب دے گی اور وہ بھی بہت محدود مدت میں اور یہ جوابی اقدامات اپنے بچاؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ کے زمرے میں شمار ہونگے۔
شام میں ایران کے فوجی اہداف پر اسرائیلی میزائل حملے تقریبا روز کا معمول بن چکے ہیں، اور تازہ ترین حملے میں حمص میں واقع الضبعہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا اور اس موضوع نے نہ صرف ایرانی قیادت کو غضبناک کردیا ہے بلکہ اس کے حلیف روس کے لئے بھی درد سر بن چکا ہے، یہاں تک کہ روس نے حال ہی میں اس کے حوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام کو ایس ۳۰۰ فضائی دفاعی سسٹم کی حوالگی پر زور دیا ہے گوکہ یہ موقف نیم سرکاری ماہرین کے زبانی بیان ہوا ہے۔
گذشتہ منگل کو سعودی عرب کے جنوب میں ابہا ایئرپورٹ کی طرف ڈرون بھجوانا اور اس سے پہلے یمن کے شہر صعدہ سے جیزان پر میزائل حملے بھی ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشانیاں ہوسکتی ہیں؛ بےشک حوثی مجاہدین کے پاس اس قسم کے ڈرونز بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اور اگر ان کے پاس یہ ڈرون بنانے کی صلاحیت ہو تو اس کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی ہے اور اس کی تربیت دینے والا دماغ بھی ایران ہے، خواہ یہ ڈرونز اور وہ میزائل ایرانیوں نے خود نہ ہی بھیجے ہوں۔
ہم نے دیکھا کہ ایک ۳۵۰ ڈالر کی لاگت سے بنے ڈرون نے جنوبی سعودی عرب کے مرکزی ہوائی اڈے کو کس طرح سراسیمگی سے دوچار کردیا اور سعودیوں کو اسے گرانے کے لئے لاکھوں ڈالر دے کر خریدے جانے والے پیٹریاٹ میزائل استعمال کرنا پڑے۔
بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک ـ بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں ـ میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں، یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اٹھی تو یہ تباہی اور بربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی، سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہم عرب ممالک میں سے کئی ممالک پہلی بار اسرائیل کے مترادف سمجھے جائیں گے اور اس جنگ سے ہمیں جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑیں گے، اور یہ ہماری مصیبت کا عروج ہے۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970306001105/

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی