-
Sunday, 26 July 2020، 03:00 PM
بقلم افتخار جعفری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہشت گردی کسی بھی ایسے دشمنانہ اقدام سے عبارت ہے جو کسی شخص یا قوم کے لیے دھشت اور خوف کا سبب بنے یا جسمانی یا نفسیاتی اذیت و آزار کا باعث بنے۔ لیکن ریاستی دہشت گردی سے مراد ایسی کوئی بھی کارروائی ہے جو حکومتیں اپنے شہریوں کے خلاف یا غیر ملکی گروہوں اور ریاستوں کے خلاف اپنے ملک میں یا پرائے ملک میں کسی خاص مقصد کے پیش نظر انجام دیتی ہیں۔
اگر ہم اس تعریف کو ریاستہائے متحدہ امریکہ پر لاگو کرنا چاہیں تو ہمیں واشنگٹن کی اس پالیسی کی متعدد مثالیں ملیں گی جو بیرونی ممالک ، اداروں اور جماعتوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا حقیقی ترجمان ہیں، لیکن کیا امریکی لڑاکا طیاروں کے ذریعے لبنان جانے والے ایرانی مسافر بردار طیارے کو ہراساں کیا جانا امریکہ کی ریاستی دھشتگردی کا حصہ ہے؟ درج ذیل موارد پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو سکتا ہے؛
- ایرانی طیارہ ایک مسافر بردار طیارہ تھا نہ کہ ایک فوجی طیارہ ، اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ امریکہ نے ماہان ایئر لائن کو بھی اپنی پابندیوں کا حصہ بنا رکھا ہے اور اس وجہ سے ماہان ایئرلائن کے جہاز کو ہراساں کرنے یا اسے دھشتگردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ ایسا کرنا امریکہ کے لیے بالکل قانونی اقدام نہیں تھا چونکہ امریکی پابندیاں صرف اور صرف امریکہ کے لیے قانونی ہیں کسی دوسرے ملک کا ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے چونکہ دنیا کے دیگر ممالک بالکل امریکی قوانین کے پابند نہیں ہیں، امریکی پابندیاں سوفیصد امریکی مفاد میں ہیں نہ کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے مفاد میں۔
- ایرانی مسافر بردار طیارہ شام کے اوپر پرواز کر رہا تھا ، جس کا مطلب ہے کہ یہ ریاستہائے متحدہ کے آسمان پر نہیں اڑ رہا تھا ، اور اس پرواز کو ملکی ایئرلائنز ادارے سے متعلقہ تمام بین الاقوامی تنظیموں کے اتفاق رائے کے مطابق انجام دیا گیا تھا۔ تاہم ، شام کی فضائی حدود میں امریکی لڑاکا طیاروں کی موجودگی بین الاقوامی قوانین اور ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور مسافر طیارے پر اس کا حملہ ریاستی دہشت گردی کے تناظر سے باہر نہیں ہے۔ چونکہ امریکہ اپنے اس اقدام کی توجیہ میں کہتا ہے کہ اس کے جنگی طیارے شام میں داعش کے خلاف اتحاد میں شمولیت کی غرض سے موجود ہیں جبکہ اس اتحاد کو نہ تو عالمی برادری کی نظر میں قانونی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی نظر میں۔
۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ایرانی مسافر طیارے پر حملے کے بارے میں لبنان میں شام کے سفیر نے کہا ہے کہ میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ شام کا دفاعی سسٹم کبھی دھوکہ سے اس جہاز کو دشمن کا طیارہ سمجھ کر اس پر فائر نہ کر دیتا۔ اس وجہ سے امریکہ لڑاکا طیاروں نے اس کی حفاظت کے لیے اس کے اطراف کو گھیر لیا!۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ وہ طیارہ جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے مشخص اور معلوم رووٹ پر چل رہا ہو اسے شام کا دفاعی سسٹم دشمن کا طیارہ سمجھ سکتا ہے اور جو امریکی طیارے غیر قانونی طور پر شام کے آسمان پر پروازیں کرتے ہیں انہیں شام کا دفاعی سسٹم دشمن کا طیارہ نہیں سمجھتا؟۔
بہر حال یہ فعل بین الاقوامی قوانین کی نظر میں ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور ذمہ دار شخص کو بین الاقوامی فوجداری قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہئے ۔ جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے زور دیا ہے کہ قانون شکنی کرنے والوں کو کسی تباہی کا سبب بننے سے پہلے روکنا ہو گا۔
مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں ، مسافر بردار طیارے پر حملہ ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں ہے ، اور یہ امریکہ کی خصلت ہے جو کئی دہائیوں سے ایران کے خلاف ہر طرح کی دہشت گردی ، خصوصا معاشی ، سیاسی اور عسکری دھشتگردی کرتا آیا ہے۔
۔ یہ فطرتی بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ، اپنی داخلی پریشانیوں اور چیلنجوں کے باوجود، علاقے میں تناؤ پیدا کرنے، انتشار پھیلانے اور دوسرے ممالک کو مشتعل کرنے کے در پہ ہے۔
- یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ امریکہ وہی پلان اور منصوبہ جو سمندری حدود میں لاگو کرتا تھا وہی فضائی حدود پر بھی لاگو کرے، یعنی ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ امریکہ سمندری حدود میں ایرانی کشتیوں کو ہراساں کرتا تھا اور انہیں دھشتگردانہ کاروائیوں کا نشانہ بناتا تھا ویسے ہی اب فضائی حدود میں بھی ایرانی جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ایران کو کسی نئی حکمت عملی پر عمل کر کے عالمی دھشتگرد سے اپنی جان چھڑانی ہو گی۔
بہر کیف، ایسے اقدامات کا نتیجہ بہت ہی بدتر ہو سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں ، دونوں ممالک کے مابین تناؤ ریاستی دہشت گردی کی سطح تک نہیں پہنچنا چاہئے اور عام شہریوں کو اس دھشتگردی کا نشانہ نہیں بننا چاہیے ورنہ امریکی مسافر بردار طیارے بھی ایران کی قریبی فضائی حدود سے گزرتے ہیں تو ایران کے لیے بھی جوابی کاروائی کرنا اور امریکی طیاروں کا نشانہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان عوام کا ہے اور مسافروں کی جانوں کو خطرہ ہے چاہے ایرانی طیارے ہوں یا امریکی طیارے دونوں پر عام لوگ سوار ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں ذمہ داری امریکہ پر عائد ہو گی لہذا عالمی برادری کو بین الاقوامی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے امریکہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا ہو گا۔ ورنہ نتائج بہت برے ثابت ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔