-
Sunday, 18 October 2020، 12:50 AM
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
ہمارا ملک ایک متلاطم دور سے گزر رہا ہے ، ایسے دور سے جہاں چیخوں کے دوران حق بات کو دبانے کی کوشش کرنے والے کچھ بہروپیے شور شرابہ کے ذریعہ ہنگامہ آرائی کےذریعہ یہ چاہتے ہیں ایک ترقی پذیر ملک کو ایک پچھڑے ملک میں بدل دیں ،لیکن یاد رکھیں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ شور شرابہ ہنگامہ آرائی کچھ دیر ہی رہ سکتی ہے ہمیشہ نہیں دوسری بات حق کی اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ سر ضرور اٹھاتا ہے ، اسے دبایا نہیں جا سکتا اسے کچلا نہیں جا سکتا ،ہمارے سامنے ہاتھرس کا دل دہلانے والا واقعہ اور اس پر ناعاقبت اندیشوں کی سیاست بھی ہے اور ہمارے سامنے بابری مسجد کی کیس کی شنوائی کے بعد آنے والا فیصلہ بھی، ہاتھرس کے واقعہ کے سلسلہ سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں جو بھی ہے سب کے سامنے ہے ہمیں ایسے میں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا دین اس قسم کے حوادث کے پیش نظر ہم پر کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے ہمیں ان حالات میں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے دین کا مطالبہ ہم سے کیا ہے ؟
جب ہم اپنے دین کی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ دین واضح الفاظ میں یہی کہتا ہے کہ کہیں ظلم ہو تو خبردار تم ایسی جگہ نظر نہ آنا جہاں ظالموں کا مسکن ہو ، ہمیشہ مظلوموں کی حمایت میں کھڑے نظر آنا اور انشاء اللہ ہم ہرگز اپنے دین کی تعلیمات کو فراموش نہیں کریں گے ، ان مظلوموں کے ساتھ ہر جگہ کھڑے رہیں گے جو اپنے حق کے لئے لڑ رہے ہیں چاہے وہ جہاں بھی ہوں ، اب جہاں تک بات مسلسل ہمارے خلاف بنتی ہوئی فضا کی بات ہے ، اور خاص کر بابری مسجد کے کیس کا مسئلہ تو یہ بھی سب پر واضح ہے کہ فیصلہ کے پیچھے یقینا ایک فیصلہ رہا ہوگا تبھی اس انداز میں عدالت نے اپنا موقف پیش کیا ہے یہاں پر یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ ہمیں اپنی جوان نسل کو نئی پیڑی کو جگائے رکھنا ہوگا اسے بتانا ہوگا کہ ہم نے اس ملک کے لئے کیا قربانیاں دی ہیں ، گاندھی جی کے اصول کیا تھے اور یہ ملک کہاں جا رہا ہے اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم خود ایک پختہ سیاسی تجزیہ کے حامل ہوں ، صرف نیوز چینلوں کی خبروں میں گم نہ ہو جائیں خود سمجھیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے.
کتنی عجیب بات ہے کہ بعض اپنے ہی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ چلو ایک عرصہ کا جھگڑا ختم ہوا فیصلہ تو آیا، یہ لوگ ہر بات میں ملک کی بہتری کی بات کرتے ہیں کہ لڑنے جھگڑنے سے کیا فائدہ؟ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ لڑائی جھگڑے سے کیا فائدہ لیکن لڑائی جھگڑا الگ بات ہے حق کو حق کہنا ایک الگ معاملہ ہے ۔
بابری مسجد کے کیس کے حالیہ فیصلہ کو لیکر جو سوال ذہنوں میں آ رہے ہیں اسکا تعلق کسی مذہب یا خاص ذات سے نہیں ہے بلکہ ہر بیدار انسان سوال کر رہا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک مسجد کو گرانے کے سلسلہ سے عدالت کو کوئی ثبوت بھی نہیں ملتا جب کہ واضح ہے کہ مسجد کو توڑا گیا وہ اپنے آپ نہیں گری ، ایک طرف لبراہن کمیشن کی رپورٹ ہے جو کہہ رہی ہے سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہوا دوسری طرف اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عدالت کا فیصلہ ہے ، کتنا عجیب ہے جہاں یہ نعرے لگ رہے ہو ں ایک دھکہ اور دو بابری مسجد توڑ دو اور نعرے لگانے والوں کی تصاویر انکی ویڈیو موجود ہوں اسکے باوجود عدالت کا فیصلہ انہیں کے حق میں آئے جو نعرے لگا رہے تھے تو ایسے میں سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ کیا ہے اور ہمارا ملک اب کس ڈھرے پر چل پڑا ہے ، ایسے میں ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے جاگنے کی ضرورت ہے اس بات کے احساس کی ضرور ت ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور آگے کی ہو سکتا ہے ، ہمیں بیدار رہتے ہوئے اپنے اطراف و اکناف کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جس ملک کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں کچھ لوگ اگر وہاں انصاف کا خون کرکے اپنی جیت کا پرچم لہرا رہے ہیں تو یہ محض ہماری ہار یا انکی جیت کا معاملہ نہیں ہے یہ ایک ملک کی بقا اور اسکی سالمیت کا معاملہ ہے لہذا ہمیں بغیر مشتعل ہوئے بغیر آپے سے باہر ہوئے اپنا ایک تجزیہ کرنا ہوگا کہ آج ہم اس مقام پر کیسے پہنچے کے کچھ لوگ ہمارے ہی ملک میں ہمارے خلاف فضا بنا کر جس طرف چاہیں ملک کو لے کر چل دیں ، یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں ہم اہلبیت اطہار علیھم السلام کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اگر ہم اپنے وطن و ملک کی تعمیر و ترقی کی فکر نہ کریں گے تو کون کرے گا ؟