-
Thursday, 5 November 2020، 02:01 AM
گزشتہ سے پیوستہ
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج تک درجنوں نامور یورپی مؤرخین اور سینکڑوں مشہور اور ماہر پروفیسروں نے تاریخی دستاویزات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی دستاویزات فراہم کی ہیں جنہیں کوئی بھی تجزیہ نگار اور مؤرخ ان کی درستی اور صداقت میں شک نہیں کرسکتا۔ انھوں نے بالکل علمی روش سے ثابت کردیا ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل ایک جھوٹا افسانہ ہے؛ انسان سوزی کی بھٹیوں کا وجود تک نہیں تھا؛ انسانوں کے جلانے کے لئے بنائے گئے گیس چیمبرز کا وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب جھوٹے یہودی افسانوں کا حصہ اور صہیونیوں کی داستانیں ہیں، خالصتاً جھوٹی داستانیں، جعلی افسانے، جن کے مقصد [عالمی جنگ کے آٹھ کروڑ مقتولین کے قتل پر پردہ ڈالنے] سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ یہ افسانے عالمی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے بےگناہ انسانوں کی حق تلفی اور نہایت مجرمانہ فعل ہے۔ ان عظیم محققین میں سے پروفیسر راجر گارودی، (اور بعد از قبول اسلام رجا گارودی Roger Garaudy یا Ragaa Garaudy)، پروفیسر ڈآکٹر رابرٹ فاریسن (Robert Faurisson)، پروفیسر اور کتاب " آؤشوِٹس کا جھوٹ (The Auschwitz Lie) کے مصنف پروفیسر تھائیز کرسٹوفرسین (Thies Christophersen) شامل ہیں۔ البتہ راجر گارودی اور رابرٹ فوریسن دونوں فرانسیسی ہیں، دونوں جدیدترین ہیں اور دونوں سب سے زیادہ عبرت آموز ہیں۔
4۔ پروفیسر رابرٹ فوریسون فرانس کی مشہور لیون یونیورسٹی (University of León) کے استاد اور عالمی تاریخی دستاویزات کے ماہرترین تجزیہ نگار کے طور پر عالمی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور مستند تحقیقات کو اپنی کتاب "گیس چیمبرز کا مسئلہ" (The Problem of the Gas Chambers) میں مرتب کیا ہے۔
انھوں نے ہزاروں دستاویزات کا جائزہ لیا ہے، اور تحقیق کے ان برسوں کے دوران تمام صہیونیوں کے افسانوں میں مذکورہ تمام مقامات - بشمول گیس چیمبرز، انسان سوزی کی جعلی بھٹیوں کا میوزیم، میونخ کے جعلی ڈاخاؤ حراستی کیمپ (Dachau concentration camp) وغیرہ - کا معائنہ کیا ہے اور سینکڑوں عینی شاہدین کے ساتھ بیٹھ کر نہایت باریک بینانہ روشوں سے، بات چیت کی ہے اور آخر کار بغیر کسی ذاتی رائے یا تجزیئے کے بغیر، اور صرف اور صرف دستاویزات کے زبانی، واضح کردیا ہے کہ نازی جرمنی میں یہودیوں کا قتل عام ایک عظیم تاریخی جھوٹ اور رائے عامہ کو دیا جانے والا شرمناک فریب ہے؛ اور اس طرح کا جھوٹ اور فریب وحشی صہیونیوں اور مکار یہودیوں سے بالکل بعید نہیں ہے اور وہ ان روشوں کو پوری تاریخ میں دہراتے رہے ہیں۔
بطور مثال فوریسن گیس چیمبرز کی جعلی تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس دعوے کے مسترد کرتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات سے استناد کرکے، حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں: اگر یہ تصویریں حقیقت پر مبنی ہیں تو جرمن سپاہی مبینہ مہلک گیسوں سے بھرے ہوئے ہالوں میں ماسک اور کسی بھی قسم کی حفاظتی تدابیر اور منہ، ناک اور آنکھوں کے بچاؤ کے لئے کوئی اقدام کیئے بغیر، کھڑے نظر آرہے ہیں اور جن کیسوں سے وہ یہودیوں کو ہلاک کررہے ہیں وہ گیسیں ان کو ہلاک نہیں کررہی ہیں اور وہ بڑی تسلی کے ساتھ یہودیوں کی جان کنی کے مناظر کا نظارہ کررہے ہیں؟؟؟ انھوں نے کچھ صہیونی-یہودیوں کے دعوے کے موافق کچھ یہودیوں کا محاصرہ کرنے والے ٹینکوں کی حامل تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ناقابل انکار دستاویزات کے سہارے کہتے ہیں کہ یہ ٹینک جرمن نہیں بلکہ برطانوی ہیں!!!
5۔ امام خامنہ ای مذکورہ سوال اٹھا کر ایک طرف سے فرانس اور دوسری یورپی حکومتوں کے ہاں کے آزادی بیان کے دعوے کو مضحک قرار دیتے ہوئے یورپی رائے عامہ - اور بطور خاص یورپی نوجوانوں کو - ہالوکاسٹ کے افسانے کا جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں؛ کہ یقینا اس قسم کی تحقیقات کا فیصلہ کن نتیجہ یہ ہوگا کہ اس افسانے کی حقیقت فاش ہوجائے گی اور اس کا جعلی پن طشت از بام ہوجائے گا۔ البتہ امام خامنہ ای کا سوال ہالوکاسٹ کے جعلی پن پر ہی نہیں رکتا بلکہ آپ فرانسیسی حکومت سمیت یورپی حکومتوں کی سیاسی خودمختاری پر بھی سوال اٹھاتے ہیں، جہاں حتی کہ ہالوکاسٹ کے بارے میں شک و تردد بھی ایک جرم ہے۔