اسرائیل کا سیاسی نفوذ

  • ۳۲۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کا علاقے میں چونکہ کوئی سیاسی مقام نہیں ہے، حکومت کے لیے زمین بھی اس کے پاس پہلے تو غصبی ہے اور جو ہے وہ بھی وسعت کے اعتبار سے بہت کم ہے اور ہمیشہ جراحت پذیر اور مشکلات کا شکار ہے اس وجہ سے اسرائیل اپنی سکیورٹی اور سالمیت کو پہلی ترجیح دیتا ہے۔ اس کے سیاسی انحصار، بایو ٹکنالوجی اور مزاحمتی گروہوں کی نو حاصل توانائی کی وجہ سے اسرائیل کے لیے فوجی نفوذ کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ مذہبی اعتبار سے بھی یہودیوں کے نسل پرست ہونے کی بنا پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں تبلیغ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ البتہ جاسوسی کے راستے سے اسرائیل دوسرے ملکوں میں نفوذ پیدا کرتا ہے جو تقریبا تمام ملکوں کا رائج طریقہ ہے۔(۱)
ان مشکلات کے پیش نظر جن سے اسرائیل دوچار ہے اس کے لیے واحد راہ حل اپنی اقتصادی اور انرجی ڈپلومیسی کو تقویت پہنچانا ہے۔ صہیونی ریاست امریکہ جیسی طاقت کی پشت پناہی میں، صنعتی اور علمی بنیادوں کو مضبوط کر کے ان ممالک کی تلاش میں جاتا ہے جن کے نزدیک اسرائیل کا ناجائز ریاست ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ در حقیقت اس طریقے سے اسرائیل سیاسی میدان میں اترنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی معیشت کو رونق دیتا اور اپنے لیے اقتصادی اور سیاسی حامی تلاش کرتا ہے۔
اسرائیل کافی عرصے تک اپنی حاکمیت کے تحفظ کے لیے امریکہ اور دیگر ایٹمی طاقتوں کی حمایت کا محتاج ہے۔ دوسری طرف سے صہیونی ریاست خام تیل اور گیس کی کمی کا شکار ہے اور ان ذخائر کی نسبت اس کی ضرورت دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کے پاس تنہا راستہ ’انرجی ڈیپلومیسی‘ (Energy diplomacy) کی تقویت ہے۔
خام تیل اور گیس کے ذخائر اس قدر آج دنیا والوں کے لیے اہم ہو چکے ہیں کہ ان کے لیے ریڈ لائن شمار ہوتی ہے اور وہ اس کی وجہ سے تمام اجتماعی سیاستوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپی یونین نے روس کے ساتھ گیس کی وابستگی کو کم کرنے کا ارادہ کیا تو جرمنی نے کھلے عام اس کی مخالفت کی۔
اسرائیل میں انرجی ڈپلومیسی(Energy diplomacy)
اسرائیل میں خام تیل اور گیس کے ذخائر بہت ہی محدود ہیں۔ خام تیل کا ایکسپورٹ اس وقت روک دیا گیا ہے لیکن گیس کا ایکسپورٹ ابھی جاری ہے۔ اس ریاست میں توانائی کا استعمال اور اس کی ڈیمانڈ، پیداوار سے کہیں زیادہ ہے لہذا اسرائیل مجبور ہے کہ توانائی کے ذخائر کو امپورٹ کرے۔ در حقیقت قومی سلامتی کا مسئلہ اور توانائی کا فقدان اس بات کا باعث بنا ہے کہ اسرائیل انرجی ڈپلومیسی کو فعال کرے اور اسے حیاتی بنائے۔ اسی وجہ سے اس رژیم نے خام تیل اور گیس کے میدان میں اپنی سرگرمیوں کو مشرق وسطیٰ کے تین علاقوں قطر، بحیرہ روم (قبرص اور یونان) اور یوروشیا (روس، قزاقستان اور آذربائیجان) میں شروع کر دیا ہے۔ اندرونی توانائی کی پیداوار کے علاوہ ان سرگرمیوں کی کچھ اہم وجوہات ہیں؛ ان میں سے ایک وجہ اسرائیل کا تنہائی سے خود کو نکالنا ہے اور عالمی مارکیٹ میں داخلے کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ البتہ اس چیز کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ڈپلومیسی اقتصادی نفوذ کے بغیر محال ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے لیے گیس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ایک اہم ملک آذربائیجان ہے اس کی وجہ سے آج سوول( (sovil سے مربوط کمپنیاں آذربائیجان میں موجود ہیں۔(۲)
حواشی
۱ – جغرافیای سیاسی اسرائیل، حمیدی نیا، حسین، علوم سیاسی: مطالعات منطقه ای، زمستان۱۳۹۰، شماره ۴۲و۴۳، ص ۴۲-۱۷٫
۲- دیپلماسی انرژی اسرائیل: مبانی و اهداف منطقه ای، نیاکوئی، سید امیر، کریمی پور، داود، فصلنامه علوم سیاسی: تحقیقات سیاسی و بین المللی، بهار۹۴، شماره ۲۲، ص ۵۸-۲۷٫
۳- استراتژی اسرائیل در منطقه خاورمیانه و تاثیرات آن بر جمهوری اسلامی ایران، ملکی، محمد رضا، فصلنامه علوم سیاسی، تابستان۸۶، شماره۶، ص ۶۶-۲۳٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قرآن کریم کی توہین تمام انبیاء کی توہین ہے

  • ۴۱۵

بقلم مرتضیٰ نجفی قدسی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: افسوس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر بعض بظاہر متمدن ممالک میں قرآن کریم اور پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخیاں ہونا شروع ہو گئی ہیں جس کی ایک مثال سویڈن میں قرآن کریم کو جلایا جانا اور فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام کا کارٹون چھاپا جانا ہے اس توہین آمیز اقدام نے تمام اہل توحید اور انبیاء الہی کے ماننے والوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے جبکہ ایسا جاہلانہ اقدام کسی بھی متمدن معاشرے کے شایان شان نہیں ہے۔

اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ بعض اسلام مخالف ایجنسیاں اس طرح کے پروپیگنڈے کرواتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دیگر ادیان کے پیروکار قرآن کریم کی نسبت شناخت اور معرفت بھی نہیں رکھتے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس جاہلانہ اقدام کے سامنے خاموشی اختیار کریں اور کوئی عکس العمل ظاہر نہ کریں۔
اگر عیسائی اور یہودی جان لیں کہ ان کے پیغمبروں کی سب سے اچھی تعریف قرآن کریم نے بیان کی ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دسیوں بار، تو یقینا قرآن کا احترام کریں گے۔
ان کے لیے یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ قرآن کریم میں ۲۶ پیغمبروں کے نام ذکر ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ جناب موسی کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ ۱۳۶ مرتبہ آپ کا نام قرآن کے ۳۶ سوروں میں ذکر ہوا ہے جو مجموعی طور پر ۴۲۰ آیات ہیں۔
حضرت موسیٰ (ع) کا قصہ، ان کی ولادت اور زندگی کے نشیب و فراز کو تفصیلی طور پر قرآن میں بیان کیا گیا ہے اور فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کے افسوسناک حالات یہاں تک کہ جناب موسیٰ(ع) کا مصر سے نکلنا اور جناب شعیب کی بیٹی سے شادی کرنا، پھر جناب موسی کی جناب خضر (علہیما السلام) سے ملاقات، کوہ طور پر اپنے پروردگار سے گفتگو اور نور الہی کو دیکھنا اور پھر مقام رسالت پر فائز ہونا اس کے بعد لوگوں کو دعوت توحید دینا، فرعون کا مقابلہ کرنا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و تشدد سے نجات دلانا، اور پھر عصائے موسیٰ کا معجزہ اور ساحروں کا ایمان لانا، بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا اور دریائے نیل کا عصائے موسیٰ کے ذریعے شگافتہ ہونا، اور بنی اسرائیل کا دریا سے عبور کرنا اور فرعونیوں کا دریائے نیل میں غرق ہونا اور دسیوں واقعات دیگر جو قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کئے ہیں۔
اسی طرح حضرت عیسی کا اسم مبارک ۲۵ مرتبہ عیسی کے نام سے اور ۱۳ مرتبہ مسیح کے نام سے ذکر ہوا ہے حضرت مریم (س) کا قصہ، جناب عیسی (ع) کی ولادت کا واقعہ اور ان سے متعلق دیگر تمام حالات قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ خود حضرت مریم (س) کے نام سے ۹۸ آیتوں پر مشتمل ایک مکمل سورہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ جس میں اس پاکیزہ خاتون کے حالات اور جناب عیسی کی ولادت اور گہوارے میں ان کا گفتگو کرنا بیان ہوا ہے؛«قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّهِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا (۳۰) وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا»  حضرت عیسی نے گہوارے میں کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر بنایا ہے۔
ان دو بزرگ اور اولوالعزم نبیوں کے واقعات جس طریقے سے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں توریت و انجیل میں بیان نہیں ہوئے چونکہ وہ تحریف کا شکار ہو گئیں اور حقائق کو موڑ توڑ کر ان میں بیان کیا گیا ہے حتیٰ کہ ان دو کتابوں میں انبیاء کو خطاکار اور گناہ گار بھی کہا گیا ہے جبکہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا ہے خاص طور پر اولوالعزم انبیاء یعنی حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسی علیہم السلام، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں خصوصی گفتگو کی ہے اور ان کی شخصیت کو پہچنوایا ہے۔
اس کے علاوہ، قرآن کریم میں ۴۳ بار جناب نوح، ۶۸ مرتبہ حضرت ابراہیم، ۲۷ مرتبہ جناب لوط، ۲۵ مرتبہ حضرت آدم، ۲۷ بار حضرت یوسف، ۱۲ مرتبہ جناب اسماعیل، ۱۷ مرتبہ جناب اسحاق، ۱۱ مرتبہ حضرت شعیب، ۱۷ مرتبہ حضرت سلیمان، ۱۶ بار حضرت یعقوب، ۵ بار حضرت یحییٰ، ۴ بار حضرت ایوب، ۹ بار جناب صالح، ۷ مرتبہ حضرت ہود، ۴ مرتبہ جناب یونس، ۱۶ مرتبہ حضرت داوود، ۲۰ مرتبہ جناب ہارون، ایک مرتبہ جناب عزیر، دو مرتبہ جناب ادریس، الیاس، الیسع اور ذوالکفل کا تذکرہ ہوا ہے۔
جبکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کا نام گرامی صرف ۴ بار قرآن میں آیا ہے اور ایک مرتبہ ’احمد‘ کے نام سے بیان ہوا ہے، البتہ دیگر القاب جیسے رسول اللہ، الرسول، النبی، اور امی متعدد آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ گزشتہ انبیاء کے حالات پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم دراصل کتاب توحید ہے کتاب معرفت پروردگار ہے، جو انبیاء کی دعوت کے ڈھانچے میں بیان ہوئی ہے البتہ معاد اور قیامت پر عقیدہ جو انبیاء کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے بھی قرآن کے بیشتر حصے کو تشکیل دیتا ہے قرآن کریم کی صرف پانچ سو آیتیں ایسی ہیں جن میں شرعی احکام بیان ہوئے ہیں باقی سارا قرآن اخلاقیات و عقائد پر مبنی ہے۔ البتہ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ انبیاء کا ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ، عدالت اور انصاف کے نفاذ کے لیے جد و جہد، انسانی حقوق کا دفاع اور ظلم و تعدی کا مقابلہ کرنے کی تاکید جیسے موضوعات جو انبیا کی زندگی کا حصہ رہے ہیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں۔
اگر کوئی صحیح معنی میں گزشتہ انبیاء کو پہچاننا چاہتا ہے، حضرت عیسی، حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء، نیز حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے جانشینوں کو پہچاننا چاہتا ہے تو اسے ادھر اودھر بھٹکنے کے بجائے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن کریم اللہ کا پیغام ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کے لیے نازل ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : «اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ...»
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ وہ کتاب جو مجسمہ ہدایت ہو، جو نور کا پیکر ہو جو انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہو، اس کی توہین کرنا انسانیت کے حق میں کس قدر ظلم ہے یہ شیطانوں کا کام ہے جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انسانیت ہمیشہ ظلمت اور تاریکی میں ڈوبی رہے تاکہ وہ ان پر آسانی سے اپنی ظالمانہ حکومتوں کو جاری رکھ سکیں، لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا وعدہ ہے کہ آخر کار روئے زمین پر صالح اور نیک لوگوں کی حکومت قائم ہو گی اور اس حقیقت کو نہ صرف قرآن بلکہ توریت اور زبور میں بھی بیان کیا گیا ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ» (انبیاء، ۱۰۵)  ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔ ظالم، جابر، ستمگر اور مستکبر حکمران جان لیں کہ قرآن کریم انہیں پانی کے بلبلوں سے تعبیر کرتا ہے کہ جو ایک پھونک سے نابود ہو جاتے ہیں یہ بیہودہ تلاش و کوشش کسی نتیجے تک نہیں پہنچے گی۔
«وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ».

یہودیوں کا فلسطین کے اموال عامہ پر ڈاکہ

  • ۳۷۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، فلسطین کے اٹلس(ATLAS) میں “عمومی زمین” اور “حکومتی زمین” کی اصطلاحیں ان زمینوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو مقاصد عامہ کے لیے مخصوص ہوتی تھیں یا حکومت کی نگرانی میں لوگوں کے استعمال کے لیے آمادہ کی جاتی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ زمینیں بطور کلی عوام الناس کی جائیداد شمار ہوتی تھیں۔
برطانوی پارلیمنٹ رکن اور پہلے یہودی کیبنٹ وزیر”ہربرٹ ساموئل” کہ چرچیل نے انہیں شاہ ساموئل کا خطاب دیا کو ۱۹۲۰ء میں برطانوی حکومت کی جانب سے فلسطین کے نظام حکومت میں نفوذ پیدا کرنے اور یہودی ریاست تشکیل دینے میں ان کی مدد کرنے پر مامور کیا گیا۔
یہودیوں کو بڑے پیمانے پر زمین کی منتقلی
ہربرٹ ساموئل نے فلسطین میں داخل ہوتے ہی، ۱۹۲۰ میں “زمین کمیٹی” تشکیل دی تاکہ وہ زمینیں جو حکومت کے اختیار میں تھیں یا عمومی زمینیں تھیں اور عوام الناس کے استعمال میں تھیں ان کے رقبے اور دیگر خصوصیات حاصل کرے۔ اس کمیٹی سے کہا گیا کہ وہ ان زمینوں کے بارے میں رپورٹ تیار کرے جو با آسانی یہودیوں کے حوالے کی جا سکتی ہیں اس طریقے سے دھیرے دھیرے برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کا تسلط جمانے کے لیے مقدمات فراہم کرنا شروع کئے۔ (۱)
زمین کی خریداری کے اسباب
اس کمیٹی کا اصلی محرکین اور اس کے پشت پردہ عوامل میں سے ایک ” حیم مارگوس کلواریسکی” (۲) ہیں جو روس کے ایک یہودی تاجر تھے اور فلسطین کی زمیںیں خریدنے کے لیے اپنا سرمایہ استعمال کرتے تھے۔
اس کمیٹی کے سربراہ سرگرڈ آبرامسن نامی ایک برطانوی سرکاری عہدیدار تھے اور کمیٹی کی رپورٹ تیار کرنے والے کلواریسکی تھے۔ ساموئل نے ‘زمین کمیٹی’ کے ذریعے تیار کردہ رپورٹ کی بنیاد پر فلسطین کی تمام عمومی زمینوں کو یہودیوں کے حوالے کر دیا۔
حواشی
۱ – stein, supra note 25,p.61
۲ – Haim Margois Kalvariski
………..

 

یورپ کے مالی ذخائر میں یہودیوں کا کردار

  • ۳۵۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، یہودیوں کے مغربی حکمرانوں سے گہرے تعلقات نویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئے جب مقدس رومی سلطنت معرض وجود میں آئی۔ دسویں اور گیارہویں صدی عیسویں میں، مغربی حکمران یہودیوں کے لیے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے اور یہودی اس دور میں قومی اور دھیرے دھیرے بین الاقوامی سطح کے معروف تاجر بن گئے۔ (۱)
روم کے بادشاہ ’ہینری چہارم‘ نے صلیبی جنگیں شروع ہونے سے چھے سال قبل سنہ ۱۰۹۰ میں ایک حکم کے تحت جرمنی کے مغربی شہروں میں رہنے والے یہودیوں کو تجارت کے میدان میں وسیع سہولیات فراہم کیں۔
جرمنی کے شہر ’ورمز‘ میں رہنے والے یہودیوں کو ایسے حیرت انگیز امتیازات دئے گئے تھے جو حتی عیسائیوں کو بھی حاصل نہیں تھے وہ سلطنت کی تمام حدود میں پوری آزادی کے ساتھ سفر کر سکتے تھے۔ ٹیکس اور کسٹم سے معاف تھے، پیسے کا لین دین اور منافع کا تعین سب انہیں کے ہاتھوں انجام پاتا تھا۔ دوسرے شہروں اور گاوں سے اشیاء خریدتے تھے اور اپنے نام سے بیچتے تھے۔ (۲)
مغربی حکمرانوں اور یہودیوں کا تال میل
یورپ کے مقامی بادشاہ اور حکمران یہودیوں کی سودخوری کو اپنی درآمدوں کا اصلی ذریعہ سمجھتے تھے اور کھلے عام یا خفیہ طور پر وہ یہودیوں کے اس کام کو میدان دیتے تھے۔ جرمنی کے ایک حکمران کے بقول یہودی، بادشاہوں کے خزانے ہوتے تھے۔(۳)۔ تاریخ عیسائیت کے طاقتور ترین پاپ ’اینوسن سوم‘ نے مغربی حکمرانوں کے نام اپنے ایک خصوصی خط میں ان کے کارناموں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا:
’’تمہیں سودخوری کرنے سے شرم نہیں آتی، یہودیوں کو اپنے شہروں میں دعوت دیتے ہو اور انہیں سودخوری کے آلہ کار بناتے ہو‘‘۔ (۴)
تیرہویں صدی عیسوی سے پیسے کے تبادلے میں یہودیوں کی سودخوری ایک رائج عمل بن گیا تھا۔ چودہویں صدی عیسویں کے پہلے حصے میں یہودیوں نے ۶۱ ہزار فلورین گولڈ شاہ انگلستان ’ایڈوارڈ سوم‘ کو قرضے کے طور پر دیا۔ (۵)
یہودیوں کو کلیسا کی سخت مخالفت کا سامنا
تیرہویں صدی میں، سودخواری کی بنا پر اقتصادی میدان میں یہودیوں کی سلسلہ وار سرگرمیاں یورپ کے اندر اس قدر پھیل چکی تھیں کہ ۱۲۳۰ میں کلیسا نے سخت مخالفت کرتے ہوئے سود خوری کے خلاف محاذ آرائی کی۔
کلیسا کی مخالفت کی وجہ سے ’شاہ سیسیل‘ نے ۱۲۳۱ میں، یہودیوں کے لیے حد اکثر دس فیصد سود کا اعلان کیا (۶) بعد از آں، فرانس کے بادشاہ ’لویی نہم‘ نے ۱۲۳۹ میں بطور کلی سودخوری کو ممنوع قرار دے دیا۔ (۷)
۱۲۴۴ میں آسٹریا کے بادشاہ نے اپنے احکامات کے تحت یہودیوں کے لیے سودخوری کی ایک حد معین کر دی۔ اطالوی بادشاہ جو یہودیوں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے انہوں نے یہودیوں کے لیے ۲۰ فیصد منافع قرار دیا لیکن عملی طور پر ۳۳ سے ۴۳ فیصد تک سود یہودیوں کی جیبوں میں جاتا تھا۔(۸) یہ سلسلہ بھی اس قدر پھیل گیا تھا کہ ۱۳۴۸ میں پاپ نے مجبور ہو کر بالکل سود کو ممنوع قرار دے دیا۔ لیکن تمام جد وجہد اور محاذ آرائیاں بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور کچھ ہی عرصے کے بعد یعنی ۱۳۵۱ میں پاپ کا حکم نظر انداز کر دیا گیا(۹) اس لیے کہ یورپ کے حکمرانوں نے پاپ کے خلاف مہم چلا دی اور بعد از آن یورپ کا معیشتی نظام بطور کلی یہودی ہاتھوں میں چلا گیا اور انہوں نے سود خوری کے مختلف طریقے اپنا کر پوری دنیا کی معیشت پر قبضہ کر لیا آج پوری دنیا کا اقتصاد گیند کی طرح یہودیوں کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔ (۱۰)
حواشی
[۱] Judaica vol. 8, p. 662
[۲] Judaica vol. 15, p. 644
[۳] Judaica, vol. 16, p. 1289.
[۴] Judaica p. 1290
[۵] Judaica vol. 4, p. 167
[۶]Judaica vol. 16, p. 1290
[۷] Judaica p. 474
[۸]Judaica vol. 16, p. 1290
[۹] Judaica vol 2, p. 605
[۱۰] Ben-Sasson Judaica, pp. 469-475.
منبع: شهبازی، عبدالله؛ (۱۳۷۷)، زرسالاران یهودی و پارسی استعمار بریتانیا و ایران، تهران: مؤسسه مطالعات و پژوهشهای سیاسی، چاپ دوم (پائیز ۱۳۹۰)

 

اسرائیل فوج میں یہودی لڑکیوں کی جنسی خدمات

  • ۴۱۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پوری دنیا میں فوج ملکوں کی حفاظت اور ان کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے فوج کی سیاسی امور میں نہ دخل اندازی ہوتی ہے اور نہ ہی مختلف حکومتوں میں ان کا نفوذ ہوتا ہے۔
لیکن صہیونی ریاست میں کچھ صورتحال دوسری ہے، اس لیے کہ اس ریاست پر حاکم نظام عسکریت پسند اور فوجی نظام ہے حتیٰ کہ اس کے سیاستدان بھی فوجی سبکدوش افراد میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فوج کی طرف خاص توجہ سیاستدانوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس چیز کے باوجود اسرائیل کے فوجی ڈھانچے پر غور کرنے سے اس کے حالات کچھ مناسب اور سازگار نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملے کا دعویٰ ایک قسم کا کھوکھلا دعویٰ ہے۔
ریٹائرڈ فوجی افسر “اسحاق بریک” نے سن ۲۰۱۷ میں کسی ممکنہ جنگ میں فوج کی آمادگی کو نامطلوب اور حتیٰ کہ ناممکن قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں فوج کے اندر پائی جانے والی ۶ کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا:
۔ جنگی ساز و سامان کا آمادہ نہ ہونا
۔ مشقوں کی نامطلوب کیفیت
۔ جنگ کی نسبت بے رغبتی
۔ فوج کی تعداد میں کمی
۔ شکایتوں کے حجم میں اضافہ
۔ وہ ڈاکٹر اور دیگر گروہ جو فوج سے نکلنا چاہتے ہیں (۱)
یہ ایسے حال میں ہے کہ اسرائیل کے چیف اسٹاف جنرل “گاڈی آیزنکوٹ” نے “بریک” کے بیانات کو غلط قرار دیا اور اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج جنگ کی تمام تر صلاحیتوں کی حامل ہے۔ دو افسروں کے متناقض بیانات اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ نگران “ایلان ہراری” نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں تحقیق کا آغاز کیا۔ ان تحقیقات کا نتیجہ یہ بتایا گیا کہ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج کی حالت نامناسب ہے۔
سپاہیوں کا سروس سے فرار
اسرائیلی فوج مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار ہے ان مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی نوجوان فوج میں سروس کرنے سے بھاگتے ہیں حتیٰ کہ فوج میں بھرتی اسرائیلی جوان نوکری چھوڑ کر فرار کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال عبرانی زبان کے ایک اخبار نے خبر دی کہ اسرائیل کے ۱۱ سپاہی فوجی مشقوں کے درمیان سے بھاگ گئے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ فوجیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی مالی مشکلات کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ اور حتیٰ اس سے بھی بالاتر ستم یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی ابتدائی ضروریات حتیٰ مناسب غذا بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ (۲)
فوجیوں کی خود کشی کا مسئلہ
ایک دوسرا اہم مسئلہ جو اسرائیلی فوج کے دامنگیر ہے وہ سپاہیوں کی خود کشی یا جان بوجھ کر خود کو زخمی کرنا ہے۔ بعض صہیونی ذرائع ابلاغ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض سپاہی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی غرض سے خودکشی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا خود کو زخمی کر دیتے ہیں اور نفسیاتی حالات اس قدر بحران کا شکار ہیں کہ ۵۴ فیصد فوجی اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے ہیروین کا استعمال کرتے ہیں۔ (۳)
اسرائیل میں آبادی کی کمی، مہاجرین کی اسرائیل سے واپسی اور پھر جنگی صورتحال جو ہمیشہ رہتی ہے ایسے مسائل ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کو ایسی فوج کی ضرورت ہے جو ہمیشہ خدمت رسانی کے لیے تیار رہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اخبار “یدیعوت احارونوت” نے ۲۰۱۷ میں لکھا کہ اسرائیل میں ۶۷ فیصد یونٹس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ حتیٰ بعض فوجی ذرائع کے مطابق ۲۰۰۴ میں ۷۷ فیصد سپاہی مرد تھے لیکن ۲۰۱۶ میں یہ تعداد کم ہو کر ۷۲ فیصد ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین سے ایک چوتھائی فوجی مرد فوج سے فرار کر گئے ہیں۔ (۴)
فوجی نقائص کو برطرف کرنا
اسرائیل کے فوجی سسٹم میں پائی جانے والی بحرانی کیفیت کے باوجود، اس کے عہدہ داروں نے بعض نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے تین امور پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:
۔ فوج میں سروس کرنے والے نوجوانوں کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسکالر شپ کی سہولت
۔ تنخواہوں میں اضافہ اور سروس کی مدت میں کمی
۔ خواتین کی فوج میں زبردستی بھرتی، دوسرے لفظوں میں اسرائیل میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے فوج میں بھرتی کا قانون مساوی کر دیا گیا۔
فوج میں جنسی خدمات رسانی کے لیے لڑکیوں کی بھرتی
صہیونی ریاست کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ فوج میں لڑکیوں کی موجودگی مرد سپاہیوں کے جذبات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اور ان سے جنسی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔(۵) یہاں تک کہ بعض رپورٹوں میں آیا ہے کہ سپاہی لڑکیاں غزہ پر جنگ کے دوران اپنی فوج کے جذبات بڑھانے کے لیے خود کو برہنہ کر دیتی ہیں۔ (۶)
اسرائیلی فوج سے عوام کی نفرت کی وجہ
یہ وہ مشکلات ہیں اسرائیلی فوج جن کے روبرو ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز باعث بنی ہے کہ اسرائیلی نوجوان اور جوان فوج میں بھرتی ہونے اور سروس کرنے سے بے زار ہو جائیں؟
پہلی وجہ؛ فوج کا ہمیشہ جنگی حالت میں رہنا ہے؛ اس طریقے سے کہ جو نوجوان اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں وہ تقریبا چھٹی سے محروم ہو جاتے ہیں یا انہیں بہت کم ٹائم کے لیے چھٹی ملتی ہے۔
دوسری وجہ؛ اپنے سیاسی رہنماوں کی نسبت بے اعتمادی ہے؛ چونکہ ان کا سیاست کے میدان میں طرز عمل ایسا ہے کہ گویا اسرائیل کے حالات کو بہتر بنانے اور جنگ کو خاتمہ دینے کے لیے کوئی تلاش و کوشش نہیں کرتے۔ گویا یہ ایسی جنگ ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ ان کے سر پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے کب کہاں سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا گولا ان کے سر پر آن پڑے اور وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں۔
نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنی گیدڑ بھبھکیوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جنگ کی توانائی نہیں رکھتا اور ان کے سیاسی عہدیداروں کے ایران مخالف بیانات صرف سیاسی کھیل ہے جو صرف اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ (۷)

بقلم میلاد پور عسگری
حواشی
۱ – https://www.tasnimnews.com/fa/news/1397/07/07/1839458
۲- http://www.magiran.com/npview.asp?ID=2337421
۳ – http://kayhan.ir/fa/news/135732
https://www.seratnews.com/fa/news/306267
۴ – https://www.mashreghnews.ir/news/770929
۵ – https://www.mashreghnews.ir/news/770929
۶ – https://www.seratnews.com/fa/news/306267
۷ – http://qodsna.com/fa/326732
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جو کچھ اسرائیلی امریکی یہودیوں کے بارے میں سوچتے ہیں

  • ۵۳۹

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ کتاب ” جو کچھ اسرائیلی امریکی یہودیوں کے بارے میں سوچتے ہیں” (Kesef temurat dam= with Friends like you: what Israeilis really think about American Jews) ایک اسرائیل مولف “میٹی گولن” جو اسرائیل کے ایک معروف نامہ نگار ہیں اور “ہاآرتض” اور “گلوبس” جیسے اخبارات میں چیف ایڈیٹر کی حثیت سے کام کر چکے ہیں نیز کینیڈا میں اسرائیلی سفارت میں بھی امور عامہ کے عہدہ پر سرگرمیاں انجام دے چکے ہیں، کی تصنیف ہے۔ ان کی ایک کتاب “ہنری کسینجر کے خفیہ مذاکرات” بھی کافی معروف ہوئی جسے کافی سنسر کے بعد اسرائیل میں منظر عام پر لانے کی اجازت ملی۔
جو چیز قارئین کو اس کتاب کے مطالعہ کے لیے ترغیب دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ “میٹی گولن” ایک متعصب اسرائیلی یہودی ہے اور اس کے برخلاف جو اکثر لوگ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان ملکوں کے روابط جیسا کہ میڈیا دکھاتا ہے اندرونی طور پر بھی ویسے ہی دوستانہ ہیں، اس کتاب میں ان کے درمیان پائی جانے والی دراڑوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ در حقیقت اس کتاب کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل کے دو یہودی معاشروں کا موازنہ اور مقایسہ کیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان میں کون اصل ہیں اور کون فرع؟۔  
یہ کتاب چار حصوں اور دو مقدموں پر مشتمل ہے۔ اور چونکہ کتاب کا طرز تحریر گفتگو محور ہے لہذا گولن اس کے مقدمے میں کتاب کی تصنیف کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ گولن قدس شہر کے ایک ہوٹل “ملک داوود” میں ایک امریکی یہودی خاخام (ربی) “الی ویزل” جو سخت ہولوکاسٹ کے حامی ہوتے ہیں سے ملاقات کرتے ہیں اور موجودہ کتاب ان دو شخصیات کی گفتگو کا ماحصل ہے۔ اس گفتگو کے بارے میں جو اہم نکتہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ دونوں افراد اپنا نام بدل کر ایک دوسرے کو پہچنوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے اصلی نام سے ایک دوسرے کو آگاہ نہیں کرتے گولان اپنا نام ‘اسرائیل’ اور ویزل اپنا نام ‘یہودا’ بتاتے ہیں۔
پہلا حصہ: دشمن کون ہے؟
اس حصے کے ابتدا میں اسرائیل کے حامی امریکی یہودیوں کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسرائیل کو مالی امداد پہنچاتے ہیں اور حتیٰ اسرائیلی مقررین کی تقریروں کو سننے کے لیے اسرائیل تک جاتے ہیں۔ دوسری طرف سے اسرائیلی یہودیوں کی مشکلات جیسے ان کی ہجرت کا مسئلہ، فری فوجی سروس، ماہانہ درآمد، ٹیکس کی ادائیگی اور سکیورٹی وغیرہ جیسے مسائل کی وضاحت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کی زندگیوں میں پائے جانے والے اختلافات کی منظر کشی کریں۔
گولن اپنی گفتگو میں یہودا کو دشمن خطاب کرتے ہیں اور اس کی وجوہات امریکی تنقید، اسرائیل کے اندرونی اور بیرونی امور میں دخالت اور اس کے لیے ‘کیا کرنا چاہیے’ اور ‘کیا نہیں کرنا چاہیے’ کو متعین کرنا، پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر خود کو بڑا دکھانے کے لیے اسرائیل کی نسبت دوپہلو کردار پیش کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گولن یہودا پر اعتراض کرتے ہوئے جنگوں کے دوران اسرائیلی معاشرے کو پیش آنے والی مشکلات پر آنسو بہاتےہیں اور امریکی یہودیوں کی عیش و عشرت والی زندگی پر حسرت کھاتے ہیں۔
دوسرا حصہ؛ پیسے کی مشین
“پیسے کی مشین” وہ عنوان ہے جس میں امریکہ کی یہودی فلاحی تنظیموں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ان تنظیموں کی ذمہ داری اسرائیل کے لیے صرف مالی امداد کی فراہمی ہے۔ گولن نے ان فلاحی تنظیموں کی مذمت کرتے ہوئے ان تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ اسرائیل کے داخلی امور میں مداخلت کرتی ہیں اور اس سے اپنے مفاد کے لیے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
گولن کا کہنا ہے کہ اس امداد کا ایک اہم حصہ اسرائیل کو نہیں ملتا بطور مثال ۱۹۸۹ میں ۷۵۰ ملین ڈالر اسرائیل کے نام پر اکٹھا ہوئے جس میں سے صرف ۲۴۴ ملین ڈالر اسرائیل تک پہنچے۔ نیز اس گفتگو میں تنطیم (UJA) اور اس کے ذریعے اکٹھا کی جانے والی امداد اور اسرائیل میں اس کے نفوذ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ گولن یہودا کو طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں امریکی یہودیوں میں صرف ایک تہائی لوگ ہمیشہ اسرائیل کی مدد کرتے ہیں اور باقی یا بالکل مدد نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو اس سے ان کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ “والٹر اٹنبرگ، جک لینسکی، اور میلٹن پٹری” کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جو کئی کئی ملین ڈالر امریکی اداروں کی امداد کرتے ہیں لیکن اسرائیل کی نہیں۔
تیسرا حصہ؛ امریکی یہودیوں کے لیے ناقابل بیان انتخاب
اس حصے میں یہودی تشخص اور یہودی روایتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہودا اپنی گفتگو میں کوشش کرتے ہیں کہ یہودیت کو قدیمی روایت سے گرہ لگائیں لیکن گولن مختلف مثالوں کے ذریعے ان کے اس دعوے کو رد کرتے ہیں اور کچھ عوامل جیسے دنیا میں پائی جانے والی سام دشمنی اور یہودیوں کی مظلوم نمائی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں یہودیت کو روایت کے تابع نہ ماننے کا ثبوت پیش کریں۔
گولن کہتے ہیں کہ امریکی یہودی، یہودی شریعت کی نسبت مفاد پرستانہ دید رکھتے ہیں جب ان کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو وہ دین و شریعت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
چوتھا حصہ؛ خاموشی اور دھوکے کی سازش
آخری حصے میں گولن واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اور غیر یہودی اسرائیل میں سکونت اختیار کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ جبکہ وہ اسرائیل ہجرت کر کے بہت سارے اندرونی حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ گولن صرف اسی چیز کو ہی مشکل نہیں سمجھتے بلکہ قائل ہیں کہ یہودا اور ان کے جیسے دیگر افراد امریکہ میں یہودیوں کی ہجرت کے شرائط فراہم کر کے اسرائیل کے حق میں سب سے بڑا ظلم کر رہے ہیں۔
کتاب کے آخر میں ان دو افراد کی گفتگو اس موضوع پر ختم ہوتی ہے کہ گولن یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکی یہودی اسرائیل میں ہجرت کے حامی ہیں۔ وہ امریکی یہودیوں کی اسرائیل کی نسبت خیانت کی منظر کشی کرتے ہوئے مختلف مثالیں پیش کرتے ہیں جو قابل توجہ اور پڑھنے کے لائق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بن سلمان کی مکھیاں فلسطینیوں کے لیے وبال جان بن گئیں

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بن سلمان کی مکھیوں نے سوشل میڈیا پر ھیشٹیگ چلا کر صہیونی ریاست کے ساتھ صلح کے منصوبے کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔
بن سلمان کی مکھیوں نے ان ھیشٹیگ میں فلسطین کے حامیوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا کر فلسطنیوں پر قدر ناشناس اور ناشکرے ہونے کا الزام عائد کر دیا ہے۔
خلیج فارس کے سرکاری حلقوں کی حمایت سے اس منظم حملے میں، خاص طور پر سعودی عرب میں، فلسطینی مقاصد کے حوالے سے لوگوں کی حساسیت کو کم کرنے کے لئے تیز رفتار عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس بڑے پیمانے پر منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کے حقوق، ان کی حرمت اور زمین کو فروخت کرنے کے لئے ایک خطرناک اور خوفناک اتحاد وجود میں لانا ہے۔ اس طریقہ کار کا سہارا لیتے ہوئے، وہ فلسطینی مسئلے میں عوام کی دلچسپی کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کے حقائق کی توہین کرنے یا تعلقات کو معمول پر لانے کی کسی بھی مزاحمت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بن سلمان: فلسطینی کاز ہماری ترجیح نہیں ہے
فلسطینی مقصد کی نابودی بن سلمان کے سیاسی مقاصد میں سے ایک ہے۔ انہوں نے بارہا کہا تھا کہ فلسطینی کاز سعودی حکومت کے لئے ترجیح نہیں ہے اور پچھلے دنوں کے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ فلسطینی کاز واقعی میں سعودی عرب کے نزدیک کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس ملک نے صہیونی طیاروں کے لیے امارات اور دیگر ممالک کی طرف رفت و آمد کرنے والی پروازوں کے لیے اپنا آسمان کھول دیا ہے۔  اس کے علاوہ ، انہوں نے فلسطینی رہنماؤں اور سربراہان کے لیے تہدید آمیز پیغامات بھی بھیجے ہیں۔
اعلی سطح کے ذرائع کے مطابق، بن سلمان نے حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو فون کیا اور ان سے صہیونی حکومت کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات اور ان کے مابین ہونے والے معاہدے پر تنقید سے باز رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ اس اقدام پر کسی بھی قسم کے اعتراض کو روکنا ہو گا۔
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بن سلمان نے "عرب ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کا منصوبہ" کے عنوان سے ایک نیا سناریو تیار کیا ہے اور وہ اسے عرب امن منصوبے کی جگہ پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس نئے منصوبے پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جارہا ہے اور اس میں فلسطین کو بھی شامل ہونا چاہئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مشترکہ عرب امریکی اور صیہونی منصوبہ - جسے سعودی عرب پیش کرے گا - پر مختلف جہتوں پر عمل کیا جائے گا اور اس پر عمل درآمد کے لئے وسیع اور گہری تحریکیں اور مشاورت کی جائے گی۔
چنانچہ ، بن سلمان کے الیکٹرانک حملے کے تیر کی نوک نے عرب دنیا میں سمجھوتے نامی منصوبے کے مخالفین کو نشانہ بنایا ہے۔ فلسطینی کاز کے خلاف تباہ کن سناریو  کے حوالے سے لیک ہونے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ عرب دنیا، اسلامی مقدسات اور فلسطین کے حالات میں ایک عظیم تبدیلی آنے والی ہے۔ اس تمام منصوبوں اور سازشوں اور پروپیگنڈوں کا اصلی فائدہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کو ہونے والا ہے تاکہ نیتن یاہو خود کو مالی بدعنوانیوں سے بچا سکیں اور ٹرمپ آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ پھر آخر میں بن سلمان کو بادشاہت کا تاج پہنا ان کی زحمتوں کا صلہ دے سکیں۔

 

امریکہ، عرب ممالک اور اسرائیل

  • ۴۱۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دو برس قبل امریکہ نے مسئلہ فلسطین کے عنوان سے ایک امن منصوبہ متعارف کرواتے ہوئے فلسطین کے دارالحکومت یروشلم (القدس) کی طرف امریکی سفارتخانہ کو منتقل کرنے کا اعلان کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی فلسطینی دارالحکومت کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان پر اگرچہ دنیا بھر کی اقوام اور حکومتوں نے امریکی صدر کے فیصلوں کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی واضح اکثریت سے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا گیا۔ امریکہ جو کہ دو سو سالہ ایسی تاریخ کا حامل ہے کہ جس میں صرف اور صرف ہمیں دنیا کی دیگر اقوام کے خلاف امریکی جارحیت ہی ملتی ہے۔ کبھی فوجی چڑھائی کے ذریعے تو کبھی ممالک پر مہلک اور خطرناک جان لیوا ہتھیاروں کے استعمال سے ہزاروں بے گناہوں کی جانیں ضائع ہوتی نظر آتی ہیں۔ چیدہ چیدہ ممالک میں پاکستان بھی سرفہرست رہا ہے کہ جہاں امریکی ڈرون حملوں نے متعدد بے گناہوں کو بھی قتل کیا ہے۔ اس کے علاوہ عراق، افغانستان، شام، لبنان، ویتنام، ہیروشیما، ناگا ساکی سمیت افریقی ممالک کی فہرست موجود ہے کہ جہاں امریکی ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہیں۔

ظلم و جبر کی دو سو سالہ تاریخ رکھنے والی امریکی حکومت فلسطین کے مسئلہ میں بھی صہیونیوں کی مددگار اور دنیا کے مختلف ممالک سے لاکر بسائے جانے والے صہیونیوں کی پشت پناہ رہی ہے۔ فلسطین پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کی بھرپور حمایت کرنے والی امریکی حکومت ہی تھی۔ آج یہی امریکی سامراجی نظام ایک امن منصوبہ بنام "صدی کی ڈیل" کے ذریعے صہیونی غاصبوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس منصوبہ کے تحت امریکی حکومت کی یہ خواہش ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کو دنیا کی سیاست سے ختم کر دیا جائے اور فلسطین میں لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فلسطین سے نواز دیا جائے اور بدلہ میں خطے میں امریکی مفادات اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے اسرائیل جیسی خونخوار ریاست کا استعمال بروئے کار لایا جائے۔

دراصل امریکی سامراجی نظام نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ اپنی ماضی کی ان تمام تر کوششوں اور منصوبوں کی ناکامی کے بعد متعارف کروایا ہے کہ جن میں پہلے جنگیں مسلط کی گئیں، بعد میں فلسطین اور گرد و نواح کے پڑوسی ممالک پر قبضہ کیا گیا اور اس میں بھی ناکامی کے بعد داعش جیسے منصوبہ کو متعارف کیا، تاہم بعد ازاں یہ داعش نامی منصوبہ بھی خطے میں موجود اسلامی مزاحمت کے بلاک نے نابود کر دیا ہے۔ اب فلسطین سمیت خطے پر مکمل تسلط کے خواب کو پورا کرنے کے لئے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ سامنے لایا گیا ہے۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد کرنے کے لئے امریکہ نے عرب ممالک کے کردار کو بھی اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ رکھا ہے اور اس عنوان سے محمد بن سلمان اور جیرڈ کشنر دونوں ہی نہایت سرگرم رہے ہیں اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عرب دنیا کے ممالک صدی کی ڈیل کو تسلیم کر لیں۔

یہاں پر ایک بات جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل کسی بھی جانب سے پیش کیا جائے، اس میں یہ بات ضرور مدنظر رکھنی چاہیئے کہ آیا فلسطین کے عوام اس منصوبہ پر کس قدر اعتماد کرتے ہیں اور آخر فلسطینیوں کی رائے کیا ہے۔؟ کوئی بھی ایسا منصوبہ جو فلسطینیوں کی رائے اور ان کی اعتماد سازی کے بغیر کسی بھی جانب سے پیش کیا جائے گا، وہ کارآمد نہیں ہوسکتا ہے۔ لہذا امریکی حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ یعنی صدی کی ڈیل بھی ردی کی ٹوکری میں رکھنے کے لئے ہے، کیونکہ فلسطینی عوام نے یک زبان ہو کر صدی کی ڈیل کو فلسطین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش قرار دیا ہے اور اس منصوبہ کو ایک سو سال قبل بالفور اعلامیہ جیسے خطرناک منصوبہ سے تشبیہ دی ہے۔ بالفور اعلامیہ نے 1917ء میں فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا اور اب صدی کی ڈیل نامی یہ منصوبہ امریکی اور عرب ممالک کی جانب سے فلسطین کے مسئلہ اور فلسطین کو دنیا کی سیاست سے نابود کرنے کے مترادف ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک جو امریکہ کے اس منصوبہ میں امریکی سامراجی نظام کا ساتھ دے رہے ہیں، وہ ایک لمحہ کے لئے بھی فلسطینیوں کے حقوق کی پرواہ نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ اور چند عرب ممالک مل کر فلسطین کا سودا کر رہے ہیں اور اس سودے کا خریدار کوئی اور نہیں، پہلے سے ہی فلسطین کی سرزمین پر غاصب و قابض اسرائیل ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اب مسلسل اسرائیل اور عرب امارات کے عہدیداران کی ملاقاتوں کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے والوں کو کیا حاصل ہوا ہے، جو اب متحدہ عرب امارات حاصل کرے گا۔؟

دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ جب اسرائیل تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر آپہنچا ہے کہ جب وہ اپنے وسیع تر اسرائیل کے خواب کو مکمل نہیں کر پا رہا بلکہ اس سے الٹ اپنے ہی گرد دیواروں کا جال بچھا کر خود کو محدود کر رہا ہے تو ایسے حالات میں متحدہ عرب امارات جیسے ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا اور تعلقات قائم کرنا کیا اسرئیل کو سہارا دینے اور خطے میں اسرائیلی دہشت گردی کو توسیع دینے کے لئے تو نہیں ہے۔؟ تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نے خلیج اور عرب دنیا کی سکیورٹی کو مزید خطرات میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ نہ صرف خلیج بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے اہم ملک کے لئے مزید خطرات جنم لیں گے۔ امریکہ اور عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے لئے راستے ہموار کرنے کے بارے میں خود غاصب اور جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی کہا ہے کہ اگر امریکہ اور عرب ممالک اسرائیل کی اس وقت میں حمایت نہ کرتے تو اسرائیل بہت پیچھے چلا جاتا اور فلسطینی تحریک آزادی عنقریب اسرائیل کو نابود کر ڈالتی۔ یہ بات نیتن یاہو نے امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اسرائیل کے لئے راستہ فراہم کر دیا ہے کہ وہ دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرے اور عالمی سطح پر 1967ء تک اسرائیل کی واپسی کے مطالبہ کو بھی دفن کر دیا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر متحدہ عرب امارات اس وقت اسرائیل کا ساتھ نہ دیتا تو فلسطینیوں کی تحریک اسرائیل کے لئے سنگین خطرہ بنتی اور اسرائیل کا وجود باقی رہنا مشکل تھا۔ لہذا عرب امارات نے اسرائیل کو بچا لیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے نہ صرف فلسطین کے ساتھ بلکہ تحریک آزادی فلسطین کے ہزاروں شہداء کے خون کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے دنیا بھر کی مسلمان اقوام کے ساتھ خیانت کی ہے اور خود اپنے ماتھے پر ایک ایسے سیاہ کلنک کو لگایا ہے کہ جو کبھی بھی ان کے چہرے سے دور نہیں ہوگا۔ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صہیونیوں کی ایک جعلی ریاست ہے، جسے آج نہیں تو کل آخر کار نابود ہونا ہی ہے۔

بقلم صابر ابومریم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مسئلہ فلسطین کے بنیادی فقہی اصول امام خامنہ ای کی نگاہ میں

  • ۳۸۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسئلۂ فلسطین بنی نوع انسان ـ بالخصوص مسلمین ـ کے لئے ایک المناک مسئلہ ہے، جو جرم یہودی ریاست نے اس ملک پر روا رکھا اس کے روحانی، نفسیاتی، فکری، معاشی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی اثرات برسوں تک ناقابل تلافی ہیں اور انسانیت کے ہمدردوں اور مسلمین کے حافظے سے کبھی محو نہ ہوسکیں گے۔ پہلوی شہنشاہیت کے زمانے میں [ایران میں] فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں کوئی خطبہ یا بیان وغیرہ نہیں دیا جاتا تھا اور اگر جب بھی کہیں کسی خطبے یا تقریر کا آغاز ہوتا تھا؛ خفیہ ایجنسی “ساواک” مجلس پر حملہ آور ہوجاتی تھی اور تقریر کا پروگرام منسوخ ہوجاتا تھا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (قدس سرہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان مسلسل زیر بحث اہم موضوع میں تبدیل کیا۔ چالیس سال سے مسئلۂ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور اس ملک کے عوام اور اہل فکر و دانش کے ساتھ ساتھ بیرونی مفکرین کے لئے بھی مسئلۂ فلسطین کے فلسفے کی کافی شافی تشریح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن اس اس یادداشت میں مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں “اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای کی نظر میں مسئلۂ فلسطین کے بنیادی فقہی اصولوں” کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں ایک نیا قدم اٹھایا جاسکے۔
سرزمین کا دفاع
فقہ میں جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔ زیادہ تر فقہاء نے ابتدائی جہاد کو معصوم کے لئے مختص کردیا ہے اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ ولی فقیہ بھی ابتدائی جہاد کا فرمان جاری کرسکتا ہے۔ جبکہ تمام شیعہ اور سنی فقہاء دفاعی جہاد کے وجود پر تاکید کرتے ہیں۔ دفاعی جہاد یعنی سرزمین کا دفاع اور مسلم ممالک کا دفاع، ایسے حال میں کہ اسلامی سرزمین اور اسلامی ممالک پر دشمنوں کی یلغار ہوئی ہو۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ * الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ ۔۔۔؛
اجازت دی جاتی ہے انہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے، اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے * وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے”۔ (۱)
چنانچہ قرآن کریم کی آیات شریفہ کے مطابق ہی ہے کہ امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “ہمارے لئے مسئلۂ فلسطین ـ جیسا کہ میں نے کہا ـ ایک انسانی مسئلہ اور ایک اسلامی مسئلہ ہے”۔
اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم ان سرزمینوں کا دفا کریں جہاں مسلمان سکونت پذیر ہیں۔ اسلام نے ہم پر واجب کیا ہے کہ ہم مظلومین، ستمزہ لوگوں اور مستضعفین کے حقوق انہیں دلوا دیں؛ اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم اپنے مال سے بھی اور اپنی جان سے بھی ان لوگوں کی مدد کو لپکیں جو “یا للمسلمین” (۲) کی آواز اٹھاتے ہیں”۔ (۳)
امام خامنہ ای اس فقہی حکم کے بارے میں فرماتے ہیں:
“مسلمانوں میں سے کوئی بھی فلسطین پر منطبق [شرعی] حکم کے اطلاق میں تذبذب اور تردد کا شکار نہیں ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے جو تمام فقہی کتب میں ـ جہاں جہاد کی بحث پیش کی گئی ہے ـ آیا ہے۔ اگر کفار آ کر مسلم ممالک پر قبضہ کریں یا انہیں محاصرہ کرلیں، جدید اور قدیم مسلم فقہاء میں سے کوئی بھی اس سلسلے میں جہاد کے واجب عینی (یا فرض عین) ہونے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تمام اسلامی مذاہب اس سلسلے میں ہم فکر اور متفق القول ہیں۔ ابتدائی جہاد واجب کفائی (یا واجب بالکفایہ) ہے؛ لیکن یہ اس موضوع [مسئلۂ فلسطین] کے بغیر دوسرے مسائل میں ہے۔ دفاعی جہاد ـ جو دفاع کا آشکارترین مصداق بھی ہے ـ عینی واجب ہے”۔ (۴)
عقیدے کا مسئلہ نہ کہ ایک سیاسی مسئلہ
اسلامی جمہوریہ ہمیشہ سے کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کا علمبردار ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “قوم پرستوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہمارا ہدف غربت اور بھوک بھری دنیا میں اسلام کے عالمی قوانین کا نفاذ ہے؛ ہم کہتے ہیں کہ جب تک شرک اور کفر ہے، جہاد بھی ہے اور جب تک کہ جہاد ہے ہم بھی میدان میں ہیں”۔ (۵) لیکن انسانوں کی مظلومیت اور کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ، مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی اور ایمانی مسئلہ بھی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: “الَّذِینَ آمَنُوا یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ” (۶) (جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں)؛ چنانچہ امام خامنہ ای مظلوم کے دفاع و تحفظ کو ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اعتقادی اور ایمانی مسئلہ گردانتے ہیں اور فرماتے ہیں: “اسلامی جمہوریہ میں مسئلۂ فلسطین ہمارے لئے ایک تدبیری (Tactical) مسئلہ نہیں ہے، ایک سیاسی تزویر (Political Strategy) بھی نہیں ہے، عقیدے کا مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے، ایمان کا مسئلہ ہے”۔ (۷)
توحیدی تصورِ آفاق
فلسطین کی مدد کا ایک فقہی پہلو توحیدی تصورِ آفاق (Monotheistic worldview) ہے۔ توحید عربی لغت میں ” وَحَّدَ، یُوَحِّدُ” کا مصدر ہے اور اگر انسان اللہ کو ذات یکتا کے طور پر مانے اور اس کو ذات اور صفات میں ہر قسم کے شریک اور شبیہ سے منزہ جانے اس کو موحد اور یکتا پرست کہا جاتا ہے۔ (۸) امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “جتنی بھی بلائیں اور مصیبتیں آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر نازل ہورہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان توحید کے سائے میں زندگی کا راستہ کھو چکے ہیں”۔ (۹)
توحیدی تصورِ آفاق میں انسان سمجھتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی ہے اور وہ اللہ کی کامل بندی کا اہتمام کرتا ہے۔ دولت، طاقت، شہرت وغیرہ کی ایسے انسان کی نگاہ میں ـ جو توحیدی نظریۂ آفاق کا مالک ہے ـ کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ وہ ان ساری چیزوں کو اللہ کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی پورے عالم وجود کا مالک ہے اور تمام تر اشیاء اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ اس انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ پوری دنیا خدا کے قوانین اور اسی کی تدبیر و حکمت سے آگے بڑھ رہی ہے چنانچہ اسے اللہ کے سوا کسی غیر کی پرستش نہیں کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای فلسطین سے متعلق موقف کے سلسلے میں فرماتے ہیں: “اس موقف، اس تجزیئے اور اور اس نگاہ کا سرچشمہ کیا ہے؟ اگر یہ بندہ اور اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی جمہوریہ کے اندر فیصلہ ساز ادارے یہ موقف اپناتے اور ان کا اعلان کرتے ہیں، تو ان کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیا اس کا سرچشمہ ایک محض سیاسی تصور ہے؟ نہیں! اس رائے اور اس موقف کا سرچشمہ دین [اسلام] ہے۔ ایک بیّن اور روشن معرفت، ایمان سے جنم والی شادابی اور طراوت، معرفت سے جنم والی حرکت، عقلمندی کی روح کو بروئے کار لانا اور بالآخر دنیا کے تمام موجودات کے بارے میں واضح اور شفاف تصورِ آفاق، یہ دین کی بنیاد ہے۔ دین پہلے درجے میں ایک معرفت اور ایک شناخت ہے؛ عالم اور انسان کی معرفت، اپنے فرائض کی معرفت، اپنے راستے اور اپنے ہدف کی معرفت، ان سب معرفتوں کا مجموعہ دین ہے۔ دین، انسان کو کائنات کا محور، اور دنیا کو اللہ کی خلقت، لطف و عنایت اور رحمت کا مجموعہ اور مظہر سمجھتا ہے؛ [یعنی توحید]؛ اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی اساس اور عالم وجود کی عظیم نقشہ کشی میں اللہ کے دست قدرت و صُنع کا کردار ہے اور تمام امور کا فعالِ ما یشاء وہی ہے”۔ (۱۰)
نیز آپ قرآن کریم کو راہ نجات گردانتے ہوئے فرماتے ہیں: “ملت ایران جس قدر کے قرآن کے نزدیک پہنچی ہی اتنی ہی عزت کے قریب پہنچی ہے؛ نجات کے قریب پہنچی ہے؛ فلاح اور بہتری قریب پہنچی ہے؛ نصرت و کامیابی کے قریب پہنچی ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کی نجات کا راستہ اسلام اور قرآن کی قربت کا حصول ہے۔ فلسطین کی نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔ آپ دیکھ لیں؛ ایک غاصب ریاست مملکت فلسطین میں قائم ہوئی ہے۔ اس عرصے میں جدوجہد بھی ہوئی، لیکن کوئی جدوجہد آخر تک نہیں پہنچ سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس جدوجہد میں دین خدا، اسلامی ایمان اور قرآنی حکم کو معیار قرار نہیں دیا گیا تھا۔ آج فلسطینی قوم اسلام کے نام پر دشمن کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور اس جدوجہد نے دشمن کے بنیادی ستونوں پر لرزہ طاری کیا ہے”۔ (۱۱)
مستضعفین کی حمایت
مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا بھر کے مستضعفین سے منسلک ہے۔ جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کی مستضعف قوموں کے تمام طبقے متحد ہوجائیں۔ اس تحریک کو ـ جو کہ استکبار کے مد مقابل مستضعفین کی تحریک ہے ـ پوری دنیا میں پھیل جانا چاہئے؛ ایران کو تمام مستضعف اقوام کے لئے نقطۂ آغاز، نقطۂ اول اور نمونۂ عمل ہونا چاہئے۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۲) چنانچہ فلسطینیوں کی مدد و حمایت کا ایک فقہی اور قرآنی پہلو مستضعفین کی راہ میں جہاد سے عبارت ہے جس کا اعلان سورہ نساء کی آیت ۷۵ میں ہوا ہے۔
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امام خمینی (قدس سرہ) کی حیات مبارکہ سے آج تک اسلامی ایران کے ساتھ [دشمنان اسلام کی] دشمنی کا سبب یہ ہے کہ یہاں تمام تر پالیسیوں کو اسلامی معیاروں پر پرکھا جاتا ہے اور پھر اختیار یا مسترد کیا جاتا ہے۔ [اسلامی جمہوری نظام] فلسطینی، بوسنیائی، تاجک، افغان، کشمیری، چیچن، آذربائی جانی اقوام سمیت تمام مظلوم اقوام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ مستضعفین کی حمایت کو لازمی قرار دیا ہے؛ اور ارشاد فرمایا ہے:
“وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیراً؛
اور تم آخر کیوں نہیں جنگ کرتے اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی [نجات کی] راہ میں جو کہتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں اس بستی سے کہ جس کے باشندے ظالم ہیں، باہر نکال دے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی سرپرست قرار دے اور اپنی جانب سے کسی کو مدد گار بنا دے۔ (۱۳)
[ہماری] اس [پالیسی] کے بموجب، ہی استکباری محاذ کے سرغنے صہیونی سازشیوں کی دلالی اور خناسی سے، اسلامی ایران کو اپنا پہلے درجے کا دشمن سمجھتے ہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ دشمنی برتتے ہیں”۔ (۱۴)
شیطان کا منصوبہ کمزور ہے
چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ تمام دشمنیوں، بغاوتوں، خانہ جنگیوں، عراق کی نمائندگی میں بہت ساری بیرونی مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دھمکیوں، رنگین بغاوتوں، فتنوں، دہشت گردیوں وغیرہ کا سامنا کرنے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ حالیہ برسوں میں مصر کا انقلاب اور بعض دوسرے ممالک کے انقلابات بہت تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ چالیس برسوں سے پورے فخر و اعزاز کے ساتھ سربلند ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ شیطان صاحب ایمان افراد کے آگے کمزور ہے۔ امام خمینی (قدس سرہ) نے انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کی ان تمام کامیابیوں کا سبب ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: “۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۵) (۱۶)
امام خامنہ ای بھی ایران، لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی کامیابیوں کو شیاطین کی کمزوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: “مسلمین تعاون اور قرآن و سنت کے متعین کردہ مشترکہ اصولوں کے سہارے اتنی طاقت پا سکیں گے کہ اس کثیر جہتی اہرمن [بدی کی قوت] کے آگے ڈٹ جائیں اور اس کو اپنے عزم اور ایمان کے آگے مغلوب کردیں۔ اسلامی ایران امام خمینی کبیر (قدس سرہ) کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اس کامیاب مزاحمت و استقامت کی نمایاں مثال ہے۔ وہ اسلامی ایران میں شکست کھا چکے ہیں اور آیت کریمہ “إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛ [۱۷] (شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا کرتا ہے)”، ایک بار پھر ایرانیوں کی آنکھوں کے سامنے مجسّم ہوئی۔ ہر دوسرے مقام پر جب عزم و ایمان پر استوار استقامت نے اقوام کو گھَمَنڈی طاقتوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے وہاں فتح مؤمنوں کو ملی ہے اور شکست و رسوائی ظالموں اور جابروں کا حتمی مقدر ٹہری ہے۔ لبنان کی ۳۳ روزہ نمایاں فتح اور حالیہ تین برسوں میں غزہ کا سربلند اور فاتحانہ جہاد، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے”۔ (۱۸)
اللہ کی نصرت
اللہ نے مؤمنین کو مسلسل وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں خالصانہ جہاد کریں، تو اللہ کی نصرت سے، کامیابی ان کے قدم چومے گی اور اگر وہ کامیاب نہ ہوں تو انہیں اپنے ایمان میں شک کرنا چاہئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: “مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّهِ قَوِیَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ؛ جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب کو تیز کر دیتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے”۔ (۱۹) نیز قرآن کریم میں خداوند حکیم ارشاد فرماتا ہے:
“وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ؛ اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتری رکھتے ہوا اگر تم ایمان رکھتے ہو”؛ (۲۰) چنانچہ صاحب ایمان ہونا جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی شرط ہے۔ امام خامنہ ای جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “ہم جو کچھ قضیۂ فلسطین میں دیکھ رہے ہیں ـ کہ یہ پیشرفت قابل انکار نہیں ہے ـ وہ استکبار اور کفر کے محاذ کے مد مقابل محاذ مزاحمت کی روزافزوں طاقت ہے جو ایک واضح اور مشہور امر ہے۔ جو کچھ اس سلسلے میں دکھائی دے رہا ہے، اس کا سرچشمہ خدا پر ایمان اور جدوجہد میں معنویت کے عنصر کا شمول ہے۔
اگر ایک جدوجہد ایمان کے ہمراہ نہ ہو، وہ زدپذیر ہوجاتی ہے۔ صرف اس وقت جدوجہد کامیاب ہوگی جب اس میں اللہ پر ایمان اور اللہ پر توکل شامل ہو۔ دین کے جذبے اور اللہ کے وعدوں پر حقیقی ایمان اور اللہ پر توکل کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچائیں؛ خداوند متعال اور اس کے وعدوں پر حسن ظن [اور اعتماد] کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچانا چاہئے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ؛ (اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس [کے دین] کی مدد کرے) (۲۱) وہ ہمیں یہ تلقین فرماتا ہے اور واضح فرماتا ہے، خداوند متعال سچا ہے۔ اگر ہم اس راہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھائیں، خدا کے لئے حرکت کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو اپنا نصب العین قرار دیں، تو بےشک کامیابی ہمارے قدم چومے گی”۔ (۲۲)
استقامت فتح و کامیابی کی شرط
قرآن کریم میں متعدد مرتبہ استقامت اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین ہوئی ہے۔ قرآنی مفہوم میں “استقامت” قرآنی مفہوم میں ایک اصطلاح ہے دین اور حق کے راستے میں کجیوں، بگاڑ اور ٹیڑھے پن اور انحراف کے مقابلے میں پامردی اور ثابت قدمی کے لئے۔ (۲۳) اہل عراف کے نزدیک “اہل استقامت” اور “منزل استقامت” جیسی عبارتیں بروئے کار لائی گئی ہیں جو سلوک الی اللہ کے مراحل میں شامل ہیں۔ (۲۴) مفسرین اور فقہاء نے استقامت کو فتح و کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی(رح) مجمع البیان میں سورہ شوری کی پندرہویں آیت (۲۵) کے ذیل میں استقامت کے بارے میں لکھتے ہیں: “اللہ کے فرمان کی تکمیل میں استقامت کرو، اور اس کو ترک نہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرو”۔ (۲۶)
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (رح) اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: “خداوند متعال نے جملہ انبیاء کے لئے ایک ہی دین قرار دیا، لیکن امتیں دو جماعتوں میں منقسم ہوئیں: آباء و اجداد جو علم بھی رکھتے تھے اور باخبر بھی تھے لیکن انھوں نے دین میں اختلاف ڈال دیا اور دوسری جماعت نسلوں کی تھی جو حیرت سے دوچار ہوئیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام امور کو تمہارے لئے قرار دیا جو وہ پچھلی امتوں کے لئے قرار دے چکا تھا؛ لہذا اے میرے پیغمبر(ص)! لوگوں کو دعوت دیجئے، اور چونکہ وہ دو جماعتوں میں منقسم ہوچکے ہیں ایک وہ جو حسد کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شک و تذبذب کا شکار ہے، چنانچہ آپ جمے رہئے اور جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ویسا ہی کرتے رہئے اور لوگوں کی خواہشوں کی پیروی مت کیجئے۔ “فلذلک” میں “لام” “لامِ تعلیل” ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ لام الی کے معنی میں آیا ہے اور جملے کے معنی کچھ یوں ہیں: “چنانچہ لوگوں کو اسی دین کی طرف بلایئے جو آپ کے لئے قرار دیا گیا ہے اور اپنے فریضے کی ادائیگی میں جم کر استقامت کیجئے”۔ اور “واستقم” فعل امر کا صیغہ ہے استقامت سے جس سے راغب اصفہانی کے بقول “سیدھے راستے پر گامزن رہنے پر مداومت مراد ہے”۔ (۲۷)
امام خامنہ ای بھی استقامت کے لازمی ہونے کے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں؛ لیکن یہ واقعہ بہرصورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی؛ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے؛ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورت حال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا؛ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے؛ راستے پر مداومت سے چلتے رہنے کی تمہیدات اور مقدمات میں سے آپ کے یہ اجتماعات ہیں، آپ کی یہ ہمآہنگیاں ہیں، آپ کی یہ تبلیغات ہیں، انھوں نے دنیا کی رائے عامہ میں زہر اگل دیا ہے”۔ (۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ سورہ حج، آیات ۳۹-۴۰۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یُنَادِى یَا لَلْمُسْلِمِینَ فَلَمْ یُجِبْهُ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو صبح کرے اور مسلمانوں کے معاملات کو اہمیت نہ دے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جو بھی سن لے کسی آدمی کو جو پکار رہا ہے کہ “اے مسلمانو! میری مدد کو آؤ” اور جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے”۔ (الکلینی، الکافی، ج۲، ص۱۶۴)
۳۔ خطبۂ جمعہ ـ تہران، ۱۷/۵/۱۳۵۹ھ ش | ۸ اگست ۱۹۸۰ع‍۔
۴۔ خطاب ۱۳/۹/۱۳۶۹ھ ش | ۴ دسمبر ۱۹۹۰ع‍
۵۔ امام خمینی(قدس سرہ)، صحیفہ نور، ج۲۱، ص۸۸۔
۶۔ “الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۷۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۸۔ https://islamqa.info/fa/answers/49030 معنای توحید و انواع آن
۹۔ خطاب ۱۳۷۷/۰۴/۲۱ھ ش | ۱۲ جولائی ۱۹۹۸ع‍
۱۰۔ صوبہ اردبیل کے نوجوانوں سے خطاب ۵/۵/۱۳۷۹ھ ش | ۲۶ جولائی ۲۰۰۰ع‍
۱۱۔ بیانات در مراسم اختتامیه مسابقات حفظ و قرائت قرآن کریم‌، ۹/۸/۱۳۷۹ھ ش | ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ع‍
۱۲۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۳۔ سورہ نساء، آیت ۷۵۔
۱۴۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام، ۱۴/۲/۱۳۷۴ھ ش | ۴ مئی ۱۹۹۵ع‍
۱۵۔ “وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ؛
اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں مستضعف بنایا [دبایا اور پیسا] گیا ہے اور [ہمارا ارادہ ہے کہ] ان ہی کو امام و پیشوا بنا دیں، ان ہی کو آخر میں وارث [یا قابض و متصرف] بنائیں”۔ (سورہ قصص، آیت ۵)
۱۶۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۷۔ “الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۱۸۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام؛ ۵/۹/۱۳۸۸ھ ش | ۲۶ نومبر ۲۰۰۹ع‍
۱۹۔ امیرالمؤمنین(ع)، نہج البلاغہ، حکمت ۱۷۴۔
۲۰۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹۔
۲۱۔ “الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ کَثِیراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ؛
وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے سوا اس کے کہ ان کا قول یہ تھا کہ ہمارا مالک اللہ ہے اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا بعض کو بعض کے ساتھ تو گرا دیئے جاتے راہبوں کے ٹھکانے اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت کدے اور مسجدیں جن میں اللہ کے نام کا بہت ورد ہوتا ہے اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا (سورہ حج، آیت ۴۰)
۲۲۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۲۳۔ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، ج‌۱۱، ص‌۲۷۳٫
۲۴۔ محی الدین بن عربی، الفتوحات المکیة، ج‌۲، ص‌۲۱۷؛ خواجه عبدالله انصاری، منازل السائرین، ص‌۴۲؛ ابن قیم الجوزیة، مدارج السالکین، ج‌۲، ص‌۱۰۸٫
۲۵۔ “فَلِذَلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ؛ تو بس اسی کے لئے آپ دعوت دیتے رہئے اور مضبوطی سے استقامت کرتے رہئے [اور جمے رہئے] جیسا کہ آپ کو حکم ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے”۔
۲۶۔ فضل بن حسن طبرسی، تقسیر مجمع البیان، ج۹، ص۴۳۔
۲۷۔ طباطبائی، تفسیر المیزان، ص۳۳۔
۲۸۔ سورہ شوری، آیت۱۵۔
۲۹۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
لینک خبر : https://kheybar.net/?p=21148

 

فلسطین کو ہتھیانے کے یہودی منصوبے پر طائرانہ نظر

  • ۳۶۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “یہودی مملکت کا نظریہ میرے دل کو نہیں بھاتا میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ یہ تنگ نظری اور معاشی مشکلات سے جڑا ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ برا ہے میں ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہوں”۔
یہودی سائینس داں البرٹ آئنسٹائن نے فلسطین کے تعلق سے “اینگلو” امریکی تحقیقاتی کمیٹی کے آگے بطور شہادت یہ الفاظ کہے تھے۔ (نیویارت ٹائمز، ۱۲ جنوری، ۱۹۴۸)
اسی مرتبہ اور اہمیت کے حامل ایک اور دانشور کو اس بدبخت فلسطینی مسئلہ کے تعلق سے یہ کہنا پڑا:
” فلسطین کے عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ملک کو ایک غیر ملکی طاقت نے ایک دوسری قوم کے حوالے کر دیا تاکہ ایک نئی مملکت قائم کی جا سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں معصوم عوام ہمیشہ کے لیے بے گھر ہو گئے۔ ہر نئے تنازعہ کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ نہ معلوم یہ دنیا اس دانستہ ظلم کی کب تک تماشائی بنی رہے گی؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مہاجرین اپنے وطن پر جہاں سے نکالے گئے ہر طرح کا حق رکھتے ہیں اور حق سے انکار ہی مسلسل نزاع کا باعث رہا ہے دنیا میں کبھی بھی، کوئی قوم بھی خود اپنے ملک سے اجتماعی طور پر اخراج کو قبول نہیں کرتی تو پھر کس طرح فلسطینی عوام سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسی سزا کو قبول کر لیں جس کو کوئی اور برداشت نہیں کر سکتا۔
“مہاجرین کے وطن میں ان کا ایک مستقل منصفانہ تصفیہ مشرق وسطیٰ میں کسی حقیقی تصفیہ کا ایک لازمی جز ہے”۔
برئرینڈرسل نے انتقال سے پہلے اپنے آخری الفاظ فلسطینی عوام کے ان حقوق کا اس پیام میں ذکر کیا جو انہوں نے فروری ۱۹۷۰ میں منعقدہ ماہرین پارلیمانی امور کی بین الاقوامی کانفرنس کو روانہ کیا تھا۔ (نیویارک ٹائمز، ۲۳ فروری، ۱۹۷۰)
چالیس سال قبل فلسطین میں مملکت اسرائیل کے قیام کی تاریخ سے مشرق وسطیٰ جہاں اس دوران بڑے پیمانہ پر کئی جنگیں ہوئیں ایک کھولتا ہوا لاوا بن گیا ہے جو امن کے عالم کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
مسئلہ فلسطین جو تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے بنیادی طور پر ایسا مسئلہ ہے جو یہودیوں اور زیادہ تر یورپی یہودیوں کی فلسطین میں، جہاں صدیوں سے عرب آباد ہیں، عربوں کی مرضی کے خلاف لیکن برطانیہ اور آگے چل کر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی تائید کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہاں پھر ایک بار اس امر کی وضاحت کرنا ہو گی کہ یہ تنازعہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمھجا جاتا ہے بلکہ یہ ایسا تنازعہ ہے جس کے ایک فریق عرب اور دیگر غیر صہیونی ہیں تو دوسرا فریق صہیونی یہودی اور ان کے حامی ہیں۔
فلسطین (Palestine) کا نام (philistines) سے اخذ کیا گیا ہے جو وہاں ما قبل تاریخ سے رہتے بستے ہیں فلسطین کے موجودہ باشندے ان فلسطینی کنعانی (canaanites) اور دیگر قبائل کی عرب نژاد اولاد ہیں جو بارہویں صدی قبل مسیح میں یہودیوں کے مصر سے نکل کر فلسطین میں پہلی مرتبہ آمد سے قبل رہتے بستے تھے۔ پیرس کی سوربن یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر میگزم روڈنسن prof. maxime rodinson نے اس بات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین کی عرب آبادی ہر لحاظ سے مقامی ہے اور فلسطین میں ان کی جڑیں کم از کم چالیس صدیوں سے پیوست ہیں۔
فلسطین عرب دنیا کا وہ خطہ ہے جس کے مغرب میں بحیرہ روم، شمال میں لبنان، مشرق میں شام اور دریائے اردن اور جنوب مغرب میں بحیرہ احمر اور صحرائے سینا واقع ہیں۔ ماضی میں فلسطین کو اکثر جنوبی شام کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ اس کے ایک قدرتی حصے پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے جغرافیائی محل وقوع نے اس کو صدہا برس سے متعدد ممالک اور مسلسل تہذیبوں کے ایک گزرگاہ بنا دیا ہے۔ فلسطین کی شہرت، ساتویں صدی عیسوی میں( جو تاریخ عرب میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے) جزیرہ نمائے عرب سے آنے والے عربوں کی تسخیر تک برقرار رہی۔
ساتویں صدی کے وسط سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک فلسطین مسلسل تیرہ صدیوں تک عرب قوم، اس کی زبان، تہذیب اور مقدر کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر برقرار رہا۔ اپنی نوعیت کے اس واحد تاریخی اور تہذیبی موقف نے اب اس کو عرب دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک خاص سیاسی موقف دیا ہے۔
ایک طرف تو فلسطین عرب دنیا کا دل ہے کیونکہ وہ اسے اس کے آفریقی اور ایشیائی حصوں سے مربوط کرتا ہے اور عرب قوم کے اتحاد میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف فلسطین ایک براعظموں کو ملانے والے پل کی مانند ہے جو تین براعظموں یعنی آفریقہ، ایشیا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا یہ خصوصی محل وقوع، اس کو اس صدی کے آغاز سے ہی عالمی سامراج کے ناپاک عزائم اور جارحانہ منصوبوں کے مسلسل تابع کر رکھا ہے۔
تقریبا ۱۲۲ برس پہلے یعنی ۱۸۹۶ میں جب آسٹریا کے تھیوڈور ہیرزل (Theodore herzel) نے یہودی مملکت نامی کتاب لکھی جس میں فلسطین میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی مانگ کی گئی تھی تو اس نے اسی وقت مشرق وسطیٰ میں جھگڑوں اور جنگوں کے بیج بو دئے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران فلسطین بھی کئی دیگر ممالک کی طرح ترکی مسلم خلافت کا ایک جز تھا۔ ۱۹۱۵ میں برطانیہ عظمیٰ نے عربوں کو ترغیب دی کہ وہ ترکی کے خلاف اس سے ہاتھ ملا لیں اور اس نے عربوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں جنگ کے بعد آزادی عطا کرے گا۔
تاہم ۱۹۱۶ میں برطانیہ نے عربوں سے کئے گئے ان معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے فرانس اور روس سے معاہدے اسکائس۔ پیکاٹ (agreement skyes picot) کے نام سے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کی رو سے یہ طے پایا کہ اتحادی (برطانیہ، فرانس اور روس) عرب ممالک اور ترکی کے ایک حصے کو آپس میں بانٹ لیں گے!۔
۱۹۱۷ میں کمیونسٹ روس کو اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں شریک کرنے کی کوشش میں برطانیہ نے دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے کہ بالشویک پارٹی میں زبردست یہودی اثر کو استعمال کیا جا سکے، برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کا لکھا ہوا ایک خط برطانوی نژاد یہودی لارڈراتھس چائلڈ (lord roths child) کو روانہ کیا؛
دفتر خارجہ
۲ نومبر ۱۹۱۷
ہزمجسٹی کی حکومت کی جانب سے صہیونی یہودی خواہشات کی تائید کے حسب ذیل اعلان کی جسے کابینہ میں پیش اور منظور کیا گیا، آپ کو اطلاع دیتے ہوئے مجھے مسرت ہوتی ہے۔
ہزمجسٹی کی حکومت یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک قومی وطن کے قیام کو تائیدی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ مساعی کو بروئے کار لائے گی اور اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہیں کی جائے گی جس سے فلسطین میں رہنے والے غیر یہودیوں فرقوں کے شہری اور مذہبی حقوق یا کسی دوسرے ملک میں یہودیوں کے حاصلہ حقوق اور سیاسی موقف متاثر ہو۔
یہ امر میرے لیے باعث ممنونیت ہو گا اگر آپ اس اعلان نامہ کو صہیونی وفاق کے علم لائیں۔
راتھر جیمس بالفور
یہ غیر معمولی اور متنازعہ مراسلہ جسے بعد میں اعلان بالفور کا باوقار نام دیا گیا فلسطین پر یہودیوں کے جدید مطالبہ کی بنیاد بن گیا۔
جب اعلان بالفور لکھا گیا تو اس وقت تک برطانوی فوجوں نے ارض فلسطین پر قدم نہیں رکھا تھا اور برطانیہ نے فلسطین پر اپنے حق حتیٰ کہ اس کی تسخیر کی بنا پر بھی کوئی ادعا نہیں کیا تھا، جس کی رو سے فلسطین کو کسی اور کے حوالے کرنے کا اس کو حق پیدا ہوتا۔
۱۹۱۷ میں یہودی فلسطین کی سات لاکھ آبادی کے صرف آٹھ فی صد پر مشتمل تھے۔ مشہور برطانوی مورخ پروفیسر آرنالڈ ٹائن بی نے اعلان بالفور کی اجرائی کے پس پشت کا فرما برطانوی ذہن کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
“ہم نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے کہ ہم ایسی چیز دوسروں کو دے ڈالیں جو کہ ہماری نہیں ہے۔ عرب ملک میں فلسطینیوں کے کسی قسم کے حقوق کو تیسرے فریق کے دینے کا اہم وعدہ کر رہے تھے”۔
مشہور یہودی مصنف آرتھر کوسٹلر نے سوچے سمجھے اور فریب آمیز اعلان بالفور کو مختصر طور پر ایک ایسی دستاویز سے تشبیہ دی ہے جس میں ایک قوم نے دوسری قوم کو ایک تیسرا ملک دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اعلان بالفور کے پیچھے مختلف النوع محرکات کار فرما رہے ہیں، یہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کے لیے جو خصوصا امریکہ میں بہت زیادہ پروان چڑھ رہی تھی ایک قسم کی رشوت تھی۔ بہترین توقعات کے باوجود یہ ایک مبہم سا اعلان تھا اور جزوی طور پر خود متناقض بھی اور اس کی سب سے بڑی حماقت اس کے یہ طنز آمیز یہودی فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ بن کر رہ گئے!۔
اعلان بالفور کے نتیجہ میں صورتحال بہت تیزی سے اور خطرناک طور پر خراب ہوتی گئی، مختلف حیثیتوں سے فلسطینی عربوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں بہت بدتر پایا۔ برطانیہ نے مصر اور عراق کو اور فرانس نے شام اور لبنان کو اپنا زیر نگیں کر لیا۔ اور اس بات کا بھی پورا پورا امکان تھا کہ مسٹر بالفور کی مخلصانہ دعوت پر یہودی فلسطین میں اس قدر کثیر تعداد میں آباد ہو جائیں کہ عرب خود اپنے ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں۔ اس امکان کو صرف فلسطین ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں غم و غصہ کے ساتھ دیکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲