مسجد الاقصیٰ کی تاریخی حیثیت

  • ۴۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول کہا جاتا ہے۔ اسے اسلامی نقطۂ نظر سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مقدس ترین مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسجد فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس کے مشرقی حصے میں واقع ہے، جس پر اس وقت اسرائیل کا قبضہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، البتہ اس کے وسیع صحن بھی موجود ہیں، جن میں ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ آیت رسول اسلامؐ کے واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ واقعہ اپنے مقام پر جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت پر دلالت کرتا ہے، وہاں مسجد اقصیٰ کے فضل و شرف کا بھی غماز ہے۔ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔ “پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے اردگرد کو ہم نے برکتوں والا بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا سکیں، بے شک وہ وہی ہے جو سمیع بھی ہے بصیر بھی۔”
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلہ اول اس لیے کہا جاتا ہے کہ معراج شریف میں نماز کے فرض ہونے کے بعد سولہ سے سترہ ماہ تک مسلمان اسی مسجد کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، بعدازاں مدینہ شریف میں ایک نماز کے دوران میں قبلہ کی تبدیلی کا حکم آگیا اور خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا گیا۔ تاہم ایک عرصے تک پیغمبر اسلام ؐاور مسلمانوں کا قبلہ رہنے کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کو ایک خاص مقام حاصل ہوگیا۔ احادیث کے مطابق مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ شیعہ روایات کے مطابق مسجد کوفہ کو بھی ان بافضیلت مساجد میں شمار کیا گیا ہے، جن کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے۔ بیت المقدس مختلف ادوار میں مختلف اقوام کے زیر اقتدار رہا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو اس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ پھر ایک مدت تک بنی اسرائیل صحرائوں میں بھٹکتے رہے، بعدازاں وہ اس شہر کی طرف آئے اور اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں اس شہر میں یہودیوں کی حکومت رہی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں تو یہودیوں نے ان پر ظلم و ستم روا رکھا اور ان کے الہیٰ مقام و مرتبہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، لیکن بعدازاں ایک عرصہ تک مسیحیوں کی بھی اس شہر پر حکومت رہی۔ ۱۵ ہجری میں خلیفہ ثانی کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ صخرہ، مسجد اقصیٰ کے قریب وہ مقام ہے، جہاں سے نبی کریمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ آج کل دنیا میں الاقصیٰ کے ذکر کے ساتھ جو تصویر آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہے، وہ اسی مقام کی ہے، جس کے اوپر عبدالمالک بن مروان کے دور میں ایک گنبد تعمیر کر دیا گیا تھا۔ مسجد اقصیٰ سے یہ مقام چونکہ بہت قریب ہے، اس لیے یہی مسجد بعد میں مسجد اقصیٰ کہلائی۔
فلسطین کی آبادی نے رفتہ رفتہ اسلام قبول کر لیا۔ اس طرح سے فلسطین کی سرزمین آغوش اسلام میں آگئی۔ یہودیوں کی مختصر آبادی کے علاوہ عیسائیوں کی بھی کچھ آبادی اس سرزمین پر ہمیشہ موجود رہی۔ رسول اسلامؐ سے پہلے چونکہ یہ سرزمین ہمیشہ انبیاء کا مرکز رہی ہے، اس لیے دنیا کے تین بڑے ادیان کے نزدیک یہ آج بھی محترم ہے۔ شاید دنیا میں کسی اور سرزمین کو یہ خصوصیت اور حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ مسجد اقصیٰ کا بانی کون ہے، بعض لوگ حضرت آدمؑ کو، بعض حضرت ابراہیمؑ کو اور بعض حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس کا بانی قرار دیتے ہیں، اسرائیل بھی حضرت یعقوبؑ ہی کا نام ہے اور آپؑ ہی کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپؑ کی اولاد میں سے حضرت سلیمانؑ نے بھی یہاں معبد تعمیر کیا۔ اسی کو ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت سلیمان نے اس معبد کی تجدید کی، جسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا یا جو پہلے سے یہاں پر موجود تھا۔
یہودی چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے، اس لیے وہ چیزیں جو ان دو ہستیوں سے مربوط ہیں، ان کے احترام کے بھی قائل نہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت جس جگہ پر مسجد اقصیٰ موجود ہے، اسی کے نیچے ہیکلِ سلیمانی کی عمارت موجود ہے۔ اسی لیے ان کی خواہش یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی کو بحال کیا جائے۔ یزید بن معاویہ کے بعد مروان بن حکم نے حکومت سنبھال لی، چونکہ یزید کے بیٹے نے تخت حکومت پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ مروان کی حکومت زیادہ دیر نہ رہی۔ اس کی وفات یا ایک قول کے مطابق قتل کے بعد حکومت عبدالملک بن مروان کے ہاتھ آگئی۔ اس کے دور حکومت کے آغاز میں مکہ مکرمہ پر حضرت عبداللہ ابن زبیر کی حکومت تھی۔
حج کے موقع پر وہ اپنی طرف حاجیوں کو دعوت دیتے تھے۔ عبدالملک کو یہ گوارا نہ تھا کہ شام سے جانے والے لوگوں کو وہ اپنی طرف مائل کر لیں۔ اُس نے مناسب سمجھا کہ لوگوں سے کہا جائے کہ مسجد اقصیٰ بھی مسجد حرام ہی کی طرح عظمت رکھتی ہے۔ حج کے لیے اس کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو شروع کروائی، گنبد صخرہ بھی بہت خوبصورت بنوایا، تعمیر کا کام البتہ اس کے دور میں مکمل نہ ہوسکا، اس کے بیٹے ولید بن عبدالملک نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر مکمل کروائی۔ عباسی حکمران ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کروائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں کیں، کئی نئی عمارتیں بھی بنائیں، بعدازاں صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ء میں عیسائیوں کو شکست دے کر بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور اسلامی آثار کو بحال کر دیا۔ اُسی نے مسیحی نشانات سے مسجد کو پاک کروایا۔
تحریر ثاقب اکبر

 

ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگ کیوں نہیں ہو گی؟

  • ۳۳۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب ہم ایک سیاسی اقدام کی بات کرتے ہیں تو در حقیقت ہم نے دو دوسرے عناصر کو مد نظر رکھا ہے جو اس سیاسی اقدام میں مضمر ہیں۔ اول وہ فاعل جس نے یہ سیاسی اقدام انجام دیا ہے اور دوئم وہ ارادہ اور فیصلہ ہے جو اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہے۔ ان دو عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہئے کیونکہ اقدام کرنے والا ضرورتا اپنے ہی ارادے اور فیصلے پر عمل نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات افراد کسی اور کے ارادے اور فیصلے کے تابع ہیں۔ جس طرح کہ شاہ ایران محمد رضا پہلوی کی فوج امریکی ارادے پر عمان کے علاقے ظفار کی جنگ میں کود پڑی یا حسنی مبارک کے دور کے مصر نے یہودی ریاست کی نیابت میں غزہ کا محاصرہ کرلیا۔
اجازت دیجئے کہ سوال: “جنگ کیوں نہیں ہوگی؟” کا جواب دینے کے لئے اپنے آپ کو امریکیوں کے فیصلہ سازی کے کمرے کر اندر فرض کریں اور ان کی طرف سے فیصلہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس فرض کے ساتھ کہ امریکہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وہ دو طریقوں سے ایران پر فوجی حملہ کرسکتے ہیں۔ ویت نام ۱۹۵۵ع‍، افغانستان ۲۰۰۱ع‍ اور عراق ۲۰۰۳ع‍ کے بعد امریکیوں کا تجربہ یہ ہے کہ ابتداء میں اپنی پراکسی فورسز کو روانہ کریں۔ اگرچہ اوباما اور ٹرمپ کے انتخابی نعروں میں ایک نمایاں نعرہ یہ تھا کہ وہ ان علاقوں سے نکل کر چلے جائیں گے۔ علاقے میں امریکہ کے اہم مہرے سعودی عرب، امارات اور اسرائیل ہیں۔
تو ہم جو امریکی ڈسیجن روم میں بیٹھے ہیں کیا ان تین مہروں کو ایران کی طرف حرکت میں لائیں؟ جبکہ سعودی عرب اور امارات کو یمنی ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سعودی ولیعہد ایم بی ایس نے ۲۰۱۸ع‍ میں امریکہ کا ایک طویل المدت دورہ کیا جس کے دوران تفصیلی منصوبے بنائے گئے اور ایم بی ایس خیر سے ایران پر حملہ کرنے کا ایک جامع منصوبہ لے کر ریاض واپس آ گئے لیکن ان کے خیرمقدم کے لئے یمنی مجاہدین نے کچھ میزائلوں کا رخ ریاض کی طرف کیا، تمام دفاعی نظامات کا ستیا ناس ہوا اور ریاض کی فضاؤں کو خراشا گیا اور یوں “ایران پر حملے کا سعودی منصوبہ” اسی مختصر سے خیرمقدم کی وجہ سے چوپٹ ہوا۔ یہ وہ ممکنہ سعودی کاروائی تھی جس کی طرف اسی سال مئی میں مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا تھا۔ میزائل اور ڈرون یعنی سعودی اور امارات کے تیل کے ذخائر کو خطرہ، یعنی تیل کی قیمتوں کا امریکی کنٹرول سے خارج ہوجانا۔ اور پھر سعودی اور امارات کی افواج سے زیادہ پیشہ ور اور زیادہ جذبۂ جنگ سے مالامال تو ان کی مشترکہ دست پروردہ دا‏عش کے دہشت گرد تھے جو سعودیوں اور اماراتیوں کے اسلحے سے لیس ہوئے اور لڑتے لڑتے تقریبا دو ملکوں پر قابض بھی ہوئے مگر پھر اچانک مزاحمت کے دستے میدان جنگ میں اترے اور نقش بدل گیا اور جو سعودیوں اور اماراتیوں سے زیادہ پیشہ ور تھے اور ان سے زیادہ بےجگری سے لڑتے تھے، نہ صرف اپنی مقبوضہ سرزمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ ان ملکوں میں مزاحمت کی فوج باضابطہ طور پر تشکیل پائی اور آج عراق اور شام باضابطہ اور اعلانیہ طور پر محاذ مزاحمت کے اہم اراکین ہیں، یہاں تک کہ پامپیو ایران کو پیغام پہنچانے کے لئے جرمنی کا دورہ منسوخ کرکے عراق چلے آتے ہیں۔ اب ۲۱ مارچ ۲۰۱۹ع‍ کو مشہد میں عظیم عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران  رہبر انقلاب امام خامنہ ای کی ضمنی دھمکی بھی سمجھ میں آتی ہے جہاں آپ نے فرمایا کہ “سعودی سرزمین کا انجام محاذ مزاحمت کے مجاہدوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ امارات تو ویسے بھی شیشے کی عمارت ہے اور اس میدان میں اس کی صورت حال بہت زیادہ زد پذیر ہے۔
جبکہ امریکی پراکسی فورسز میں تیسرے عنصر یعنی یہودی ریاست کی صورت حال اور بھی عجیب ہے۔ ایک ہی ہفتہ قبل اس نے ایک بار پھر غزہ میں اپنی رقیب مزاحمتی فورسز پر حملہ کیا اور صرف دو دنوں میں شکست قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہودی ریاست کے کرتے دھرتوں کے اپنے اعتراف کے مطابق کم از کم ۴۹۰ میزائلوں نے آئرن ڈوم نامی میزائل و فضائی دفاعی نظام کو پیچھے چھوڑ دیا اور ابھی اسے ایک عرصے تک اپنے زخم چاٹنے سے فرصت تک نہیں ہے۔ حماس سے کچھ ہی فاصلے پر شمال کی طرف لبنان کی حزب اللہ ہے جو تمام تر ہتھیاروں اور وسائل سے لیس ہوکر مقبوضہ فلسطین سے چپک کر اسرائیلیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اور اس ایک خاص نکتے کا بھی اضافہ کریں کہ جیسا کہ سید حسن نصر اللہ نے یہودی ریاست کو دھمکی دی ہے “اگر کوئی جنگ شروع ہوجائے تو اسرائیل کو اندر سے جواب ملے گا”۔ اور پھر ان نکات کے ساتھ ساتھ شام میں ٹی فور کے ایرانی اڈے پر یہودی ریاست کے حملے کے زخموں سے ابھی خون رس رہا ہے۔ جو میزائل انھوں نے پھینکا تھا اس کے جواب میں جولان کے علاقے میں ۶۰ سے زائد اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور یوں ایک میزائل حملے پر ۶۰ سے زائد جوابی حملے ہوئے۔ جولان میں تباہ ہونے والے ٹھکانوں میں موساد کا ایک خفیہ اڈہ بھی شامل تھا؛ اور پھر بہت بعید از قیاس ہے کہ اسرائیلیوں نے کردستان کی تقسیم کا منصوبہ بھلا دیا ہو جس کے جواب میں تکریت اور اس میں موجود تیل کے کنؤیں پر الحشدالشعبی کی مجاہد فورسز یعنی اسلامی محاذ مزاحمت کے ہاتھوں میں آزاد ہوئے۔ چنانچہ ان تین نیابتی فورسز کو ایران کی طرف حرکت دینا ممکن نہیں ہے اور یوں حالات امریکہ کے حق میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
یا یہوں کہئے کہ امریکیوں کو اپنے نیابتی یا پراکسی عناصر کو حرکت دینے کی راہ میں دو مسائل کا سامنا ہے: اول یہ کہ ان مہروں میں سے ہر ایک کو محاذ مزاحمت کے ایک یا چند کھلاڑیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ مہرے جہاں بھی کسی میدان میں کود پڑے ہیں، اس علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس بار یہ لوگ اپنی تعیناتی کے مقام یا اپنے ممالک یا زیر قبضہ ممالک سے جب اس میدان جنگ میں اتریں گے تو یقینا انہیں کھو دیں گے اور واپسی کے لئے ان کے پاس کوئی سرزمین نہ ہوگی۔ چنانچہ پراکسی مہروں کو ایک طرف رکھا جاتا ہے یا انہیں اس جنگ سے میں کودنے سے معاف کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ براہ راست اس جنگ میں کود جائے تو کیا ہوگا؟ تو ایرانی کمانڈروں کا جواب یہ ہے کہ جس قدر کہ امریکی سازوسامان، فضائیہ اور میزائلوں کے اڈے، زمینی اہداف نیز سمندری بیڑے ہمارے قریب تر ہونگے اسی تناسب سے صحیح نشانے پر لگنے والے میزائلوں، ڈرون طیاروں اور عاشورا نامی تیزرفتار اور ہر دم تیار کشتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یقینا امریکہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ نامہ نگاروں کے کیمرے اس کے طیارہ بردار جہازوں کے ڈوب جانے کی تصویروں کو ذرائع ابلاغ کی زینت بنا دیں کیونکہ اس صورت میں اس کی تنکوں کے سہارے فوجی طاقت کی حقیقت فاش ہوکر رہ جائے گی۔
امریکہ اور یہودی ریاست نے عرصہ دراز سے آئرن ڈوم نامی میزائل دفاعی سسٹم کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے مگر حالیہ مختصر سی لڑائی میں اس کی حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہوئی اور محاذ مزاحمت کے داغے گئے ۷۰۰ میزائلوں میں سے ۴۹۰ میزائل اپنے متعینہ اہداف کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئے، تو امریکہ کے دیوہیکل بحری جہاز تو ایرانی دفاعی افواج کے لئے کافی بڑے اور غیر متحرک اہداف سمجھے جاتے ہیں۔ البتہ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امریکہ کی نیابت میں کردار ادا کرنے والے ممالک بھی ہیں جن سے اگر امریکیوں نے ایرانی اہداف پر حملہ کیا تو یہ ممالک بھی امریکی سرزمین کے زمرے میں آئیں گے اور عالمی اخلاقیات و قوانین کی رو سے ان پر بھی جوابی حملے جائز تصور کئے جائیں گے؛ چنانچہ یہ ممالک بھی امریکی پراکسی فورس کے طور پر ایران کے ساتھ براہ راست جنگ میں الجھے بھی بھی زیادہ محفوظ بھی نہیں رہ سکیں گے اور پراکسی فورسز پھر بھی جنگ میں شامل تصور کی جائیں گی۔
چنانچہ جنگ نہیں ہوگی کیونکہ جب آپ امریکہ کی آنکھ سے میدان جنگ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے کی صورت میں مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں امریکی موجودگی جاری رہنے کا امکان بہت زیادہ کمزور ہوجائے گا، بالکل اسی طرح جس طرح کہ شام میں جنگ شروع ہونے کی وجہ سے امریکہ کے سات ٹریلین اخراجات کے باوجود، آخر کا اسلامی مزاحمت کا پرچم مغربی ایشیا کی چوٹی پر لہرایا گیا۔
بقلم: کمیل خجستہ
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

۷۱ سالہ اسرائیل؛ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی ریاست نے حالیہ دنوں اپنی عمر کے ۷۱ سال مکمل ہونے کا جشن منایا تاکہ اس کے حکمران کچھ دیر کے لیے اپنے درپیش چیلنجیز کو بھول سکیں۔ اسرائیل کا وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار ہمیشہ اس ریاست کی موجودگی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کو آگے بڑھائیں اور اس کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں لمحہ بھر کے لیے کوتاہی نہ کریں۔
صہیونیوں نے فلسطینی عوام کے “حق واپسی” پیدل مارچ کو سختی سے سرکوب کرتے اور مظاہرین کو جنگی گولیوں کا نشانہ بناتے اور ہر دن اپنے آقا امریکہ کے ساتھ روابط کا طبل بجاتے ہیں تاکہ اسرائیل کی حیات کے جاری رہنے پر اطمینان حاصل کر سکیں۔
ان تمام چیزوں کے باوجود اسرائیل کی زندگی ہمیشہ سے ایک بہت بڑے چیلنج کے روبرو ہے اور علاقے میں اس کی موجودیت رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے چیلنج کی جاتی ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای اکثر اوقات اپنے بیانات میں تاکید کرتے ہیں کہ اسرائیل کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے اور یہ ریاست عنقریب نابودی کا شکار ہو گی۔
کبھی رہبر انقلاب اسلامی، صہیونیوں کی مقبوضہ فلسطین میں اپنی حاکمیت جاری رکھنے کے لیے تمام تر تلاش و کوشش کے باوجود، اس رژیم کے زوال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
“یہ سفاکی اور جارحیت، غاصب رژیم کے رہنماوں اور حامیوں کو مقصد تک نہیں پہنچا پائی ہے، برخلاف اقتدار اور استحکام کی احمقانہ آرزو کے جو خبیث سیاست باز صہیونی ریاست کے لیے اپنے ذہنوں میں پالتے رہتے ہیں یہ رژیم دن بدن زوال اور نابودی کے قریب ہوتی جا رہی ہے”۔
اور کبھی رہبر انقلاب قرآن کریم کی آیت سے استناد کرتے ہوئے اسرائیل کی نابودی کا یوں وعدہ دیتے ہیں: “اس میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل کے شجرہ خبیثہ “اجتثت من فوق الارض ما لها من قرار” کی کوئی بنیاد اور اساس نہیں ہے لہذا بغیر شک کے اسے نابود ہونا ہے”۔
کیا چیز سبب بنی ہے کہ صہیونی ریاست جسے بظاہر دنیا کی سب سے بڑی استعماری طاقت کی حمایت حاصل ہے اور جو عظیم مالی ذخائر اور فوجی قوت کی حامل ہے اس طریقے سے زوال اور نابودی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے؟
اسرائیل کو کچھ بیرونی اور کچھ اندرونی چیلنجیز کا سامنا ہے جن کی وجہ سے اسرائیل موت کے دلدل میں گرفتار ہو چکا ہے۔ یہ وہ چلینجیز ہیں جن سے صہیونی ریاست ۷۱ سال سے روبرو ہے اور معلوم نہیں کب یہ اسرائیل کی نابودی کو یقینی بنا دیں۔
اسرائیل کا غیر قانونی ہونا ایک دائمی چیلنج
اسرائیل اپنی تشکیل کے روز اول یعنی ۱۹۴۸ سے اب تک اس مشکل سے گرفتار ہے کہ وہ ایک غیر قانونی ریاست ہے۔ اسی وجہ سے ابتدائی دنوں میں ہی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل مخالف لہر وجود میں آئی اور اس کا نتیجہ اسرائیل کے خلاف جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر چہ اس جنگ میں اسرائیل کو ہی کامیابی نصیب ہوئی لیکن اس کے بعد اسلامی انقلاب کا وجود اسرائیل کی حیات کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔
ایران میں اسلامی جمہوریہ کا قیام اور علاقے کے دیگر علاقوں میں انقلابی افکار کی ترویج صہیونی ریاست کی مقبولیت کی راہ میں سد باب بن گئی جس کی وجہ سے اب تک اسرائیل اس مشکل کو حل کرنے پر قادر نہیں ہو سکا۔
اسرائیل کے پاس خود کو بچانے کا واحد راستہ امریکہ کی پناہ حاصل کرنا تھا لہذا امریکہ ۷۱ سال سے ایک بڑے بھائی کی طرح اس یہودی ریاست کی حمایت کر رہا ہے۔ لہذا یہ پوری جرئت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل کو امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو یہ یہودی ریاست اب تک صفحہ ہستی سے محو ہو چکی ہوتی۔
اسرائیل کو درپیش اندرونی چلینجز
اسرائیل کو نہ صرف بیرونی چیلنجیز کا سامنا ہے بلکہ وہ اندرونی طور پر شدید مشکلات سے دوچار ہے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے لے کر فوجی چھاونیوں اور اداروں میں جنسی فساد کا پھیلاو، رشوت خواری اور کام چوری جیسے مسائل اندرونی طور پر اسرائیل کے لیے سخت چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل ایسے حال میں اپنی ۷۱ سالہ عمر کا جشن منا رہا ہے کہ چاروں طرف سے اس پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ دنیا میں انگشت شمار ریاستوں کے علاوہ اسرائیل کا کوئی حامی نہیں ہے، اسرائیل کی فوجی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ کمزور پڑ چکی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں جنسی فساد حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ وہ فوج جو علاقے میں سب سے زیادہ قوی اسلحے کی حامل ہے مزاحمتی گروہوں کے چند میزائلوں اور راکٹوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے اور دو دن کی جنگ کے بعد جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اسرائیل کو درپیش چیلنجیز کی طرف مختصر نگاہ دوڑانے سے بخوبی یہ جانا جا سکتا ہے کہ صہیونی ریاست زوال کی طرف گامزن ہے اور اس کے عہدیدار جو اسرائیل کی نجات کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں وہ اب کارآمد ثابت نہیں ہوں گے اور اسرائیل کی نابودی بحمد اللہ یقینی ہے۔

بقلم مجید رحیمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب “کون دنیا پر حکومت کرتا ہے؟” کا تعارف

  • ۵۳۲

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ کے معروف مصنف اور سماجی ماہر “نوم چومسکی” کے قلم سے لکھی گئی کتاب” کون دنیا پر حکومت کرتا ہے؟” ایک ایسی کتاب ہے جس میں انہوں نے دنیا پر حاکم نظام حکومت کو مورد تجزیہ و تحلیل قرار دیا ہے۔ نوم چومسکی نے تاحال سیاسیات، سماجیات، زبان شناسی اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات پر ۱۹۰ کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی یہ معروف کتاب” کون دنیا پر حکومت کرتا ہے” ۱۰ فصول پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے کہ ” کون لوگ دنیا پر حکومت کر رہے ہیں؟ وہ کیسے اپنی حکومت کو باقی رکھنے کے لیے جد و جہد کرتے ہیں؟ یہ رہنما کون ہیں اور ان کے زیر تسلط اقوام کون لوگ ہیں؟ کیا یہ اقوام کچھ طاقتور افراد کے زیر تسلط رہ کر اپنی زندگی کو جاری رکھنے کی امید رکھتی ہیں؟
امریکہ کا زوال
مولف اپنی کتاب کی ایک اہم ترین فصل میں امریکہ کے زوال کے مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلسل نابودی کی طرف گامزن ہے۔
وہ اسی فصل میں امریکہ کے اندرونی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس ملک میں اگر چہ کچھ ثروتمند لوگ پائے جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد کوئی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن بہت سارے ایسے لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں جو اچھے حالات کے مالک نہیں ہیں۔
اس کتاب میں امریکہ کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے علاوہ عالمی دھشتگردی کے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاست کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کی ایک وجہ ان کا مالدار نہ ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین امریکہ کے لیے بالکل اہم نہیں ہے۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کے پاس نہ طاقت ہے نہ ثروت۔ لہذا کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کہ امریکہ ان کی حمایت کرے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں صہیونی ریاست ایک طاقتور اور مالدار ریاست ہے۔ اور یہ چیز باعث بنتی ہے کہ تل ابیب اور واشنگٹن آپس میں مستحکم تعلقات رکھتے ہوں۔
نوم چومسکی کی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ دنیا پر صرف ان لوگوں کی حکومت ہے جو صاحب ثروت ہیں اور ثروتمند ترین افراد دنیا میں صرف یہودی ہیں۔ لہذا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں دنیا پر صرف یہودی قوم حاکم ہے۔

.............

 

ٹروجن ہارس اور ایران کا بھوت

  • ۴۳۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی کارستانیوں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے، پورے پورے الیکشن سے لیکر کسی بھی ملک کی دفاعی پالسیی  تک پر سوشل میڈیا کا اثر انداز ہونا  ایک عام بات ہے۔
اگر ہم سوشل نیٹ ورک کی سائٹس پر ایک معمولی سی  نظر ڈالیں گے تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ کہنے کو تو یہ سوشل میڈیا ہے لیکن اسکا  پورا پلیٹ فارم  ان لوگوں  کے ہاتھوں میں ہے جو کہیں نہ کہیں سے استعمار و سامراج کے ہاتھوں کھلونے بنے ہوئے اسکے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں ، کہیں یہ کھلونے  استعماری مفادات کے حصول کو یقینی بنا رہے ہیں  تو کہیں خود سامراج کھلم کھلا اپنے شطرنجی مہرے سجائے لوگوں کے ذہن و دل و دماغ کو مختلف بہانوں سے کنڑول کر رہا ہے  چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کا اصل پلیٹ فارم  سامراج کے ہاتھوں میں ہے اور سماجی رابطوں کی زیادہ تر سائٹس بھی  وہیں سے آپریٹ ہوتی ہیں وہ لوگ بہت ہی سادہ ہیں جو یہ مان کر چلتے ہیں کہ سوشل میڈیا محض اطلاع رسانی کا ایک ذریعہ ہے اور اسکے ذریعہ ہم ایک دوسرے سے جڑ تے ہیں  ، حقیقت تو یہ ہے کہ  زیادہ تر سوشل میڈیا کی سائٹس  عالمی سامراج کے  ہاتھوں میں ایک ایسے آلے اور ذریعہ کے طور پر کام کر رہے ہیں  جنکے ذریعہ  استکباری  مفادات کے حصول کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے  اور اپنی خاص اسٹراٹیجی کے تحت یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ خود چل کر سامراج کے  دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم کسی دیوتا  پر پھول چڑھا رہے ہیں ، چنانچہ آپ دیکھیں ایک طرف داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے سلسلہ سے کھلا نظر آتا ہے تو دوسری طرف انکی مذمت کرنے والے اور انکے خلاف مواد فراہم کرنے والوں  کی پوسٹیں بھی گردش کرتی نظر آ رہی ہیں  چنانچہ ،مغرب  کی جانب سے دہشت گرد عناصر کے  سوشل میڈیا کے دھڑلے سے استعمال پر خاموشی  اس  فرض کی تقویت کا سبب ہے کہ آج عالمی سامراجیت دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے شئیر کئے جانے والے مفاد کو اپنے حق میں دیکھ رہی ہے اسی لئے انکے پھیلاو کو لے کر کوئی ٹھوس قدم اٹھتا نہیں دکھتا  ۔آپ تکفیری گروہوں کو ہی لے لیں جنہوں نے زیادہ تر شدت پسندانہ کاروائیوں کو سوشل میڈیا پر پھیلایا ہے  جبکہ  یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ ہر پیج اور ہر سائٹ  کے قوانین میں یہ بات ہے کہ  کسی  بھی طرح کے شدت پسندانہ مواد کو شائع نہیں ہونے دیا جائے گا ، آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ شدت پسندانہ تنظیموں کی طرف شک کی سوئی گھوم جانے کی بنیاد پر مختلف اکاونٹس کو بلاک کر دیا گیا خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق سپاہ پاسداران  سے جڑے اکاونٹس  یا حزب اللہ سے جڑے پیجز جبکہ ان اکاونٹس میں ایسا مواد کہیں نظر نہیں آئے گا جہاں وسیع پیمانے پر  اجتماعی پھانسیوں کے مناظر ، موت کے گھاٹ اتارے جانے کے مناظر ،اپنے ہی علاقے ،یا مقبوضہ علاقے کے لوگوں کے اور اسیروں کے سروں کے اتارنے کے مناظر ، انکے اعضا کو کھانے اور چبانے کے مناظر  دکھا کر لو گوں میں دہشت پھیلائی جا رہی ہو ۔ کیا یہ اپنے آپ میں عجیب نہیں ہے کہ ایک طرف تو داعش جیسی تکفیری تنظیموں کے لئے اتنی فراخدلی ہے کہ ہر طرح کے ویڈیوز آپکو ہر جگہ معمولی سرچ پر مل جائیں گے  جبکہ  دوسری طرف انہیں  تہذیب و تمدن کے دیوتا  بنے مغربی ممالک نے ایسے اکاونٹس کو بند یا بلا ک کر دیا جن کے بارے میں انہیں لگا کہ اسکا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے ۔ آپ ثبوت کے طور پر  دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ایسے پیجز ہیں جنہیں محض اس بنیاد پر بند کیا گیا ہے کہ انکا تعلق ایران سے ہے  [۱]  چنانچہ  آپکو  حزب اللہ ،و حماس کے بعض بہت سے ایسے پیجز مل جائیں گے جو اب دسترس میں نہیں ہیں ۔اب ہر انسان کے سامنے ایک سوال ہے کہ آخر معاملہ کیا ہے ؟ کیوں اسلامی جمہوریہ ایران ہی ٹارگٹ پر ہے، اسے ہی ایک بھوت کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے جس سے مقابلہ نہیں کیا تو یہ سب کو کھا جائے گا  ، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ایران نواز افراد  یا ایک ہی مسلک کے لوگوں کو کھٹکتی ہو بلکہ ایسی چیز ہے جسے خود وہی لوگ اپنے آپ بیان کر رہے ہیں جو استعمار و سامراج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور خود کو دنیا میں حقیقت پسند و منصف مزاج کہتے ہیں  ، ابھی کچھ دنوں  قبل ہی بی بی سی نے ایک تجزیہ  اس عنوان کے تحت پیش کیا تھا کہ[۲] Why the WhatsApp spies may have eyes on Iran ’’ واٹس ایپ جاسوس ایران پر کیوں نظریں گاڑے ہوئے ہیں؟‘‘ اس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں پر کس طرح ایران کا بھوت سوار ہے  آپ ذرا  بی بی سی بیورو چیف واشنگٹن، پال دانهار[۳] کا یہ تجزیہ ملاحظہ فرمائیں  جو انہوں نے خاص کر واٹس اپ کے سلسلہ سے کیا ہے
وہ لکھتے ہیں :
’’اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔
اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔
اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔‘‘
بظاہر تو جس طرح سے وہ کڑی سے کڑی ملا رہے ہیں اس حساب سے  ایران کا بھوت کافی خطرناک دکھ رہا ہے  اس لئے کہ اسرائیل و سعودی عرب تو ایک ہی مقام پر ہاتھ میں ہاتھ دئیے کھڑے ہیں رہ جاتا ہے ایران جو دونوں ہی کی یلغار کی زد پر ہے لیکن یہاں پر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ جب حملہ  اسرائیلی ساخت کے سافٹ وئیر سے انجام دیا گیا ہے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ سافٹ وئیر حملہ آوروں تک کیسے پہنچا ؟ کیا اسرائیل اتنا بھولا ہے کہ کسی بھی سافٹ  وئیر کو کسی کے بھی حوالے کر دے ؟
حملہ کیسے ہوا ؟
واٹس پر حملے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘
فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔ ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘ ‘
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس لائسنس اور سسٹم کی بات ہو رہی ہے اس کے کرتا دھرتا  اب تک اس حملے کی وجوہات بتانے میں ناکام کیوں ہیں ؟ جبکہ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں تک  سافٹ وئیر بنانے والی کمپنی کا سوال ہے تو اسی تجزیہ میں پال دانهار[۴] لکھتے ہیں : ’’این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا‘‘۔ خود ہی بی بی سی کے یہ تجزیہ نگار  مختلف آگے چل کر اعتراف کرتے ہیں کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔
اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔‘‘
مذکورہ بالا جملوں سے واضح ہے کہ دبے الفاظ میں پال دانهار کو بھی اعتراف ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور حقیقت میں اس حملے کے تانے بانے اسرائیل سے جا کر جڑتے ہیں یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی توجہات کو ہٹانے کے لئے بیک وقت مکمل طور پر فوکس ایران کی طرف ہو گیا ہے اور اسے ایسے خطرناک بھوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو لوگوں کی نجی زندگی میں بھی داخل ہو سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور اس نظر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جتنے بھی سوشل رابطے کے ذرائع ہیں سب کنٹرول میں  رہیں  ۔ان تمام باتوں کی وجہ بھی  اسرائیل کا وہ خوف ہے جو پیر سے دانتوں تک مسلح ہونے کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑ رہا  چنانچہ پال دانهار خود اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
یہاں تک تو بات اسرائیل کی ہے اسے ایران کو ایک بھوت کے طور پر اس لئے پیش کرنا ہے کہ اس کے لئے تو حقیقت میں ایران ایک بھوت سے کم نہیں جو بھوت اسے دکھ رہا ہے وہ سبکو دکھانا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ یہ بھوت اگر ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے کہ کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ درمیان میں سعودی عرب کا معاملہ کیا ہے تو سعودی عرب کے سلسلہ سے وہ اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.‘‘ سعودی اور اسرائیل کی جانب سے ایران سے ڈر اور خوف کے چلتے ایسی فضا کی فراہمی تو واضح ہے جس میں یہ دونوں ہی ملک مشترکہ خطرے سے مقابلہ کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کریں  اور دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی دستورات کو نظر انداز کرتے ہوئے  فی الوقت ایران کی بڑھتی طاقت کو لگام دینے کی کوشش کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں پر امریکہ کو کیا حاصل ہے ؟ اور وہ کیوں ان دونوں ملکوں کے ساتھ ایران کے پیچھے پڑا ہے ، تو اسکا جواب ایک الگ اور مستقل تحریر کا طالب ہے فی الحال مختصر طور پر اتنا ہی کہ اسرائیل امریکہ کی  ناجائز اولاد ہے جسے  بڑی مشکل سے امریکہ نے پال پوس کر خطے میں بڑا کیا ہے ، اب اگر اس پورے خطے میں امریکہ کی اس اولاد کو کسی سے خطرہ لاحق ہے تو وہ ہے ایران  علاوہ از ایں امریکہ کی چودراہٹ کے سامنے بھی اگر کوئی ملک ڈٹا ہوا دکھتا ہے تو بھی ایران ہی ہے دوسری طرف صورت حال  یہ ہے کہ یوں تو ہر امریکی حکومت کی پالیسی ایران کے خلاف ہی رہی ہے لیکن بقول پال دانهار’’
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں‘‘۔
پال دانهار  موجودہ صورت حال کو اناوں کی جنگ کا نام دیتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ ’’، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں[۵].‘‘
اناوں کی جنگ کی جہاں تک بات ہے تو ہمیشہ ہی رہی ہے لیکن اس میں اتنی شدت کیوں ہے اس سے پردہ ہٹاتے ہوئے پال دانهار لکھتے ہیں :’’کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی‘‘۔
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے‘‘۔
یہاں تک توساری کہانی سمجھ میں آتی ہے  کہ لین دین کی سیاست میں  جہاں ٹرنپ کو فائدہ نظر آ رہا ہے اسی ڈگر پر پوری امریکی سیاست کا رخ مڑتا جا رہا ہے لیکن یہ چو طرفہ طور پر ایران کا بھوت سب پر کیوں سوار ہے تو ظاہر ہے جب ایران سے مقابلہ کی بات ہے تو یہ مقابلہ کسی بھی عنوان سے ہو سکتا ہے اور کوئ بھی رخ اختیار کر سکتا ہے جنگ بھی اسکا ایک مفروضہ ہے ایسے میں ضروری ہے کہ اس مفروضے پر عمل کی صورت میں  کوئی ایسا کام کیا جائے جو کسی ممکنہ جنگ کا جواز بن سکے  اس کے لئے اپنے سر پر سوار بھوت کو ہر ایک کے سر پر سوار کرنا ضروری ہے اور یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہم  ایران پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سب ساری دنیا کے لئے فائدہ کے لئے ہے ،ایران کا بھوت میڈیا کے ذریعہ بنا کر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ  ہر خطرناک حادثہ کو ایران سے جوڑا جائے ،جیسا کہ ابھی سعودی اور امارات کے آئل ٹکینکروں پر حملوں کے بعد ہوا   اور شک کی سوئی  ایران کی طرف گھما دی گئی جبکہ ایران نے واضح الفاظ میں اسکی مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں تحقیقات کا مطالبہ رکھ دیا  جس نے واضح کر دیا کہ جھوٹ پر مبتنی سیاست کبھی سچائی کے مقابل نہیں کھڑی ہو سکتی
ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاو کہ سچ لگنے لگے اور اب یہی ہو رہا ہے اسی لئے واٹس اپ پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ جو کچھ بھی ایران کے خلاف ملے اسے اکھٹا کر لو آگے کام آ سکتا ہے  پال دانهار نے بھی اپنی تحریر کے آخری حصے میں ، ایران کو دنیا کے سامنے ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے اور ممکنہ جنگ  میں دھکیلنے کے لئے سوشل میڈیا و واٹس کی جاسوسی کو ایک حربے کے طور پر پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں[۶]‘‘۔
ٹروجن  ہارس کا وائرس ہو یا دیگر جرثومے یہ ایک حقیقت ہے کہ سچائی اور حقیقت کو کسی چیز سے بدلا نہیں جا سکتا ہے اور حق کو کسی بھی طرح دبایا نہیں جا سکتا ہے جس طرح کل ساری دنیا تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کو کامیابی سے نہ روک سکی آج بھی اسلامی انقلاب کے سورج کی کرنوں کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا  اور وہ دن اب دور نہیں جب لوگ بھوت آیا بھوت آیا کہنے والے بھوت کو ٹروجن ہارس جیسے وائرس کے ساتھ دھر دبوچیں گے ۔
حواشی
[۱]  ۔ فرصت¬ها و تهدیدات اطلاعاتی  امنیتی شبکه¬های اجتماعی مجازی، مرتضی روشنی ، ص۹۸٫
[۲]  ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۳]  ۔ By Paul Danahar BBC Washington Bureau Chief  ، نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۳ کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں
[۴]  ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۵]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۶]  ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/

 

فلسطینی مزاحمتی گروہ کس طرح صہیونی منصوبوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں

  • ۳۴۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

العالم: فلسطینی گروہ کس سطح پر اپنی کارروائیاں کر سکتے ہیں؟
پہلی بات یہ ہے کہ فلسطینی سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم ان فلسطینیوں کی بات کر رہے  ہیں جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے ایسے میں وہ لوگ جن کے پاس کچھ بچا ہی نہیں وہ اپنا دفاع کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کوئی انہیں روک بھی نہیں سکتا۔

العالم: کرونا کے دور میں صہیونی ریاست کی اندرونی صورتحال اور حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اختلافات اور پھر انتخابات کے مسائل، ان سب چیزوں کو آپ کس تناظر سے دیکھتے ہیں؟

صہیونی حکومت کی داخلی صورتحال اس قدر متزلزل ہے کہ آنے والے ہفتوں میں یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اس حکومت کی موجودہ پارلیمنٹ تحلیل ہوجائے گی اور انتخابات دوبارہ ہوں گے، جبکہ نیتن یاہو اور اس کے اہل خانہ پر بدعنوانی، غبن اور چوری کے سخت الزامات عائد اور دستاویزات جاری ہو چکے ہیں۔ چونکہ صہیونی اندرونی طور پر متعدد مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک حکومت اور کیبنٹ تشکیل دینے پر قادر نہیں ہیں لہذا نیتن یاہو عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا ڈھونگ رچا کر ملک میں اپنی حیثیت دوبارا واپس لانا چاہتے ہیں۔

العالم: اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات اور مسئلہ فلسطین کے مستقبل کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں فلسطینی قوم کی جد و جہد کا کچھ پرامید مستقبل آپ کو نظر آ رہا ہے؟

میں فلسطین کے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید ہوں ، ایک ایسا فلسطین جو سات دہائیوں سے مزاحمت کرسکتا ہے، وہ آئندہ بھی کرے گا اور آج اسرائیل اپنے اندرونی بحرانوں کی زد میں ہے۔ امریکہ کا کوئی منصوبہ جس کے لیے انہوں نے تمام تر توانائی صرف کر دی فلسطین میں عملیانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ آج فلسطین میں مزاحمت بہت مضبوط ہو چکی ہے۔  کچھ ایسی نشانیاں موجود ہیں جن کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی نمائشی حرکتوں کے باوجود صہیونی ریاست اندر سے بکھر رہی ہے۔ نیتن یاہو کشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں کو ادھر ادھر موڑیں، آج ہم اس اسرائیل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جو کئی میٹر چوڑیں دیواروں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ مقبوضہ اسرائیل کے نام سے ایک جیل پائی جاتی ہے جس میں اسرائیلی قید ہیں ہم مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے تمام انسانوں چاہے وہ یہودی ہوں عیسائی ہوں یا مسلمان سب کے حقوق کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ جو لوگ بن بلائے مہمان ہیں اور فلسطینی عوام کا قتل عام کر کے جعلی حکومت تشکیل دے کر برسر اقتدار آئے ہیں ہم انہیں تسلیم نہیں کر سکتے۔ ان تمام سنگین نتائج کے باوجود جو اس موقف کے بدلے میں ہمیں چالیس سال سے بھگتنا پڑے ہیں ہم آج بھی ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں کہ ہم فلسطینی عوام، فلسطینی کاز اور فلسطینی مزاحمت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

جیسے جیسے ہم پر پابندیوں کا دباؤ بڑھتا جائے گا ، خطے میں مزاحمت کے لئے ہماری حمایت کا دباؤ بھی بڑھتا جائے گا،  قدس و فلسطین کی آزادی اور اسے امت اسلامیہ کو تحفہ دینے کے لیے ، ہم نے سردار جنرل سلیمانی نامی عظیم شخصیت کا خون عطیہ کیا۔ ہم اس راستے کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک صہیونی خطے سے اپنی جعلی حکومت کی بساط لپیٹ نہیں لیتے اور جہاں وہ ماضی میں تھے وہاں پلٹ نہیں جاتے ، اس راہ میں امت اسلامی اور مزاحمت پوری طاقت کے ساتھ ملت فلسطین کے ہمراہ کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی اور انشاء اللہ دیر نہیں لگے گی کہ قدس کی آزادی کا اعلان ہو گا۔

 

عرب امارات اسرائیل سے مل کر علاقے میں کیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے؟

  • ۳۳۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
 

العالم: ایسا لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات ، 18 ویں صدی کے پرتگالیوں کی طرح ، یمن سے لے کر صومالیہ و لیبیا  وغیرہ تک ایک الجزائری اسمبلی کے قیام کا خواہاں ہے ، کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگر جواب ہاں میں ہے تو ، کیا ان کا یہ خواب پورا ہو سکتا ہے؟

متحدہ عرب امارات نے تجارت اور معیشت کے میدان میں ہمارے خطے میں اچھی پیشرفت کی ہے اور اپنا نام کمایا ہے، لیکن علاقائی معاملات میں عسکری حوالے سے ایک غلط اسٹریٹجک کا مرتکب ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ، وہ خطے کی مختلف جنگوں میں مداخلت کرکے یا علاقے میں تنازعہ کھڑا کر کے اس میدان میں بھی اپنا وجود ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اماراتیوں نے مصر، لیبیا، یا یمن حتیٰ کہ بحرین اور شام میں بھی مداخلت کر کے اپنے پیسے کے زور سے ان ملکوں کے حالات اپنے مفاد میں بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے اس میدان میں امارات کا کردار منفی رہا اور اسے کبھی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ہم تو ہمیشہ اماراتیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ علاقے میں مثبت کردار ادا کریں جو علاقے کی سالمیت کے لیے مفید ہو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔ بجائے اس کے کہ سرطانی پھوڑے یعنی صہیونی ریاست کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔ امارات کے اس اقدام سے اس ملک کا مستقبل بہت برا ہو گا۔ اور فلسطینی ان کی اس خیانت کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں ہوں گے۔
آج وہ دور نہیں ہے کہ انور سادات نے کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ کر دیا اور فلسطینی کچھ نہ بول سکے، آج معاملہ بہت پیچیدہ ہے اور حالات بہت خطرناک ہیں۔ میں اپنے اماراتی دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ انورسادات کی سرنوشت پر ایک نظر دوڑا لیں اور مسلمانوں اور فلسطینیوں کے مقاصد کے مقابلے میں اپنے کردار کی اصلاح کر لیں۔
اماراتی عوام گذشتہ دو یا تین دہائیوں سے خطے میں نسبتا اچھی معاشی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ، لیکن انہوں نے حالیہ دنوں جو غلطی کی ہے وہ یقینا ایک اسٹریٹجک غلطی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ صہیونی حکومت کے خفیہ رابطوں کے ذریعہ دھوکہ کھا چکے ہیں ، اور امریکیوں کے دباؤ میں، انہوں نے اس طرح کی حرکت اور غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو غلطی محمد بن زید نے کی ہے محمد بن راشد اس کی تکرار نہیں کریں گے، اور متحدہ عرب امارات کی حکومت کی باڈی میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس اسٹریٹجک غلطی کو درست کرسکتے ہیں اور اس غلط راستے سے پیٹھ پھیر سکتے ہیں۔ بہرحال متحدہ عرب امارات نے صہیونی حکومت کے ساتھ اپنی سکیورٹی سے سمجھوتہ کیا ہے، کیونکہ اسرائیلی جہاں بھی قدم رکھتے ہیں بدامنی کو تحفے میں ساتھ لاتے ہیں۔

اماراتیوں نے خلیج فارس کی سلامتی اور خطے سے توانائی کی منتقلی کی سلامتی کو خطرہ میں ڈالا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسلامی جمہوریہ ایران سمیت اپنے ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔ جب سے متحدہ عرب امارات نے اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کیا ، تب سے ایران اور خطے میں موساد جاسوس سروس اور اس سے وابستہ افراد کی طرف سے کوئی خفیہ یا آشکارا واقعہ کا جواب امارات کو دینا ہو گا۔  

 

ایران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی اقدام کا جواب امارات کو دینا ہو گا: امیر عبد اللھیان

  • ۴۶۱


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی امور میں پارلیمانی اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا: " خطے میں اسرائیلی انٹیلیجنس سروس موساد اور اس سے وابستہ افراد کی طرف سے ایران اور علاقے میں کسی بھی خفیہ یا آشکارا اقدام کا جواب صہیونی ریاست کو ہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کو دینا ہو گا۔
العالم کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں پارلیمنٹ اسپیکر کے خصوصی معاون حسین امیر عبداللھیان نے خطے میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات خصوصا اسرائیل امارات معاہدے اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کے تعلقات پر گفتگو کی ہے۔
بین الاقوامی امور میں اسپیکر کے معاون خصوصی کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے معاہدے کی تلخ حقیقت، جسے ہمارا ملک دیکھنا نہیں چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات امریکیوں کے ماتحت ہے اور جو کچھ ہوا ہے اس کا ایک حصہ ابھی سامنے آیا ہے. اور ان میں سے کچھ تلخ واقعات جو پیش آئے وہ متحدہ عرب امارات کا آزادانہ فیصلہ نہیں تھا اور ان امریکی اور صہیونی دباؤ کی وجہ سے تھا کہ امارات اس طرح کی ذلت کا شکار ہوا اور فلسطینی قوم کے خلاف اس غداری کا ارتکاب کیا۔
العالم: بنیادی طور پر خارجہ پالیسی کے معاملے میں متحدہ عرب امارات کو کتنا آزاد سمجھا جاسکتا ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات خارجہ پالیسی میں امریکی خارجہ پالیسی کا تابع ہے۔

میں اپنی ملازمت کے تقاضوں کی وجہ سے اکثر متحدہ عرب امارات کے عہدیداروں سے گفتگو کرتا رہا ہوں، بدقسمتی سے، متحدہ عرب امارات 8 سال پہلے ایک غلط فہمی کا شکار ہوا اور وہ یہ کہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ خلیج فارس کے چھے ملکوں میں سب سے بلندتر اور طاقتور ہے یہاں تک کہ وہ سعودیوں سے بھی خود کو برتر سمجھتا ہے۔

میں نے ایک مرتبہ ایک اعلی اماراتی عہدیدار سے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے یمن کے ساتھ جنگ میں جانے کی ترغیب دلائی، اور کیا یمن جو ایک مضبوط اور گہری تاریخ والا عرب ملک ہے اس کے ساتھ آپ کا یہ طرز عمل صحیح تھا؟ اس اماراتی عہدیدار نے مجھے جواب میں کہا کہ ہم یمن میں سعودی گھوڑوں کا استعمال کریں گے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخر میں یمن کی جنگ میں متحدہ عرب امارات کی جیت ہو گی نہ سعودی عرب کی۔ تب میں نے کہا کہ یمن کی جنگ کے فاتح اس ملک کے مظلوم عوام ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دبئی اور ابوظہبی کے شیشے کے محلوں نے ان کو غرور میں مبتلا کر دیا ہے۔ اور اسی غرور نے انہیں یمن کے خلاف جنگ میں داخل کیا اور اب اسی غرور کی وجہ سے وہ صہیونیوں کے ساتھ میں مل بیٹھے ہیں۔
صہیونی حکومت کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے معاہدے کی تلخ حقیقت جو ہم دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات امریکیوں کے جوتوں کے نیچے آچکا ہے اور جو کچھ بھی تک ہوا ہے وہ امریکیوں کے منصوبے کا ایک حصہ ہے، ان تلخ واقعات میں متحدہ عرب امارات آزادانہ فیصلہ نہیں لے سکا، اور امریکی اور صہیونی دباؤ کی وجہ سے وہ اس طرح کی ذلت کا نشانہ بنے ہیں اور فلسطینی قوم کے خلاف اس خیانت کا ارتکاب کر بیٹھے  ہیں۔

العالم: متحدہ عرب امارات کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کی تعریف کیسے کی جاسکتی ہے؟ کیا محمد بن سلمان اور محمد بن زائد کے درمیان سخت کمپیٹیشن محسوس نہیں ہو رہا ہے؟
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پرانی نسل کے حکمران روایتی طور پر بزرگوں اور پڑوسیوں کا احترام کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، متحدہ عرب امارات میں محمد بن زید اور سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے عروج کے ساتھ ، انہوں نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ بن زید نے ان برسوں کے دوران امریکیوں اور مغرب کے خلاف محمد بن سلمان کے ایک مثبت کردار کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لہذا بن سلمان سعودی عرب میں ولی عہد کی حیثیت سے اپنا منصب مستحکم کرنے میں بن زید کا مقروض ہے۔ اسی دوران، کچھ علاقائی معاملات میں، دونوں محمد ایک ساتھ کھڑے ہو گئے، لیکن سب سے اہم موڑ جہان یہ دونوں اکٹھے ہوئے ہیں وہ یمن کے خلاف جارحیت ہے۔ ۔اماراتی حکمران بھی جنوبی یمن میں اپنے مفاد اور استعماری اہداف کی فراہمی کے خواہاں ہیں۔

 

عرب امارات کی صہیونیت نوازی، امت میں نئے فتنے کا آغاز

  • ۴۲۷

بقلم عادل فراز

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات بحال کرکے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے ۔اسرائیل جوکہ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط جمائے ہوئے ہے ،اس کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے ساتھ غداری ہے۔اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا یہ بتارہاہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں پر استعمار کا کتنا اثر ہے ۔اس معاہدہ کے نفاذ کے وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کی موجودگی بتارہی ہے کہ یہ سارا کھیل کس نے رچایا ہے ۔استعماری طاقتیں عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں اور نام نہاد مسلمان حکومتیں ان کے تلوے چاٹ رہی ہیں تاکہ امت مسلمہ کے مفادات کا سودا کیا جاسکے۔ اس معاہدہ نے متحدہ عرب امارات کی منافقت اور اسرائیل نوازی کو بے نقاب کردیا۔ مشرق وسطیٰ پر تسلط کا یہ پورا اسکرپٹ استعماری آلۂ کاروں نے لکھاہے۔ چونکہ اسرائیل کے وجود کا مسئلہ مشرق وسطیٰ میں تسلیم ہوئے بغیر عالمی حیثیت اختیار نہیں کرسکتا لہذا پہلے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنے زرخرید حکمرانوں کی زبان سے اپنے وجود کو تسلیم کروا کر عالمی حیثیت حاصل کرنے کی راہ میں پیش رفت کی گئی ہے ۔امن معاہدہ کے بعد اسرائیل سے براہ راست متحدہ عرب امارات پرواز شروع ہوچکی ہے ۔اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز نے کہاکہ ’یہ مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نیا سکرپٹ ہے۔‘ ظاہر ہے یہ اسکرپٹ عالم اسلام کے مفادات کے خلاف اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی راہ میں بڑا قدم ہے ۔جارڈ کشنز نے اس معاہدے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا ہے جوکہ اس سے پہلے ’ صدی ڈیل ‘ کے اسکرپٹ کو بھی حتمی شکل دے چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور اس کے وجود کو عالمی حیثیت عطا کرنے میں جارڈ کشنز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس مسلمان حکمران ایسے استعماری عہدیداروں کی غلامی کو اپنے لئے باعث شرف سمجھ رہے ہیں۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عالم اسلام کے اتحاد کے لئے اسکی کوششوں کے خلاف استعمار کا بڑا قدم ہے ۔ایران کی سیاست نے اکثر اسلامی ملکوں کو امریکہ و اسرائیل سے الگ تھلگ کر دیا تھا ۔اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات ان عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کی جی توڑ کوشش کرے گا ۔ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی قربت میں اضافہ ضرور کیاہے مگر کیا ایران کی طاقت متحدہ عرب امارات کے لئے کسی خطرہ کی گھنٹی ہے؟ اگر اسلامی ملک ایک دوسرے سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو ان کے اس خوف کا فائدہ اسرائیل جیسے ملک ضرور اٹھائیں گے ۔ایران امریکہ کے ذریعہ عائد کی گئی عالمی معاشی پابندیوں کا شکار ہے مگر اس نے کبھی استعمارکے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔اس کے عوام کی مقاومت عالم اسلام کے لئے بڑا سبق ہے ۔ایران میں جتنی بھی ترقی ہے وہ اس کےعوام کی مرہون منت ہے ۔مگر متحدہ عرب امارات نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ اس کی ترقی اسرائیل کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔لہذا اس نے عالم اسلام کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کےسامنے سرتسلیم خم کردیا۔ اس کے دورس نقصانات ہونگے جن کا اندازہ اسلامی دنیا کو ہونے لگاہے۔اس معاہدے کےبعد عرب ممالک یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کریں گے ۔مصر1979 اور اردن1994میں پہلے ہی اسرائیل کے وجود کو تسلم کرچکے تھے۔اب بحرین اور متحدہ عرب امارات بھی اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں شامل ہوچکے ہیں۔
استعمار اس معاہدے سے عالم اسلام کی توجہ ہٹانے کے لئے کئی طرح کے محاذ پر کام کررہاہے۔ اول تو یہ کہ اس نے شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان نفرت انگیزی شروع کردی ہے ،جس پر عرصۂ دراز سے لگام کسی جاچکی تھی ۔ایران اور شیعوں کے مراجع عظام کی کوششوں سے شیعہ و سنی بیحد قریب آچکے ہیں۔ استعمار کی آنکھوں میں یہ قربت کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور اسکے وجود کے لئے بھی خطرہ ہے ،لہذا اس نے ایسے تکفیری گروہوں کو بڑھاوا دینا شروع کردیا ہے جو مسلمانوں کے درمیان نفرت اور شرانگیزی کو فروغ دے سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای ،سرزمین عراق سے مرجع عالیقدر آیت اللہ سید علی سیستانی اور دیگر مراجع کرام نے شیعہ و سنی اتفاق و اتحاد کےلئے جتنی کوششیں کی ہیں وہ عالم اسلام کے لئے گرانقدر ہیں۔مراجع کا مشترکہ فتویٰ ہے کہ مقدسات اہلسنت و الجماعت کی توہین جائز نہیں ہے ۔اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اہلسنت و الجماعت کی مقدس شخصیات کی اہانت کرتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ دشمن کا آلۂ کار ہے ۔اسی طرح اہلسنت و الجماعت کے درمیان بھی ایسے تکفیری فکر کے حامل افراد ہیں جو مسلمانوں کے متفقہ اورمشترکہ عقائد و مسلمات کے مخالف ہیں ۔جیساکہ حال ہی میں پاکستان میں ممنوعہ دہشت گرد تنظیم ’سپاہ صحابہ ‘ ،’جماعت الدعوۃ‘ جیسی دیگر تنظیموں نے استعمار کے اشارے پر یزید ملعون کی حمایت میں ریلی نکال کر شیعوں کے کفر کا اعلان کیا اور ان کے قتل کو جائز قراردیا۔اس اجلاس میں اتحاد اسلامی کے سب سے بڑےداعی رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف بھی نعرے بازی کی گئی ۔اس سے یہ ثابت ہوجاتاہےکہ ایسی نفرت انگیز اور شرپسند ریلیوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ۔افسوس یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسی دہشت گرد تنظیموں کہ جن پر وہاں پابندی عائد ہے،سرکاری سرپرستی میں شیعوں کے خلاف اور یزید معلون کی حمایت میں ریلی کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ ۔سرکار کی اسی ڈھلائی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں شیعوں کی ٹارگیٹ کلنگ جاری ہے اور ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں۔ حکومت پاکستان کو ایسے شرپسندوں اور تکفیری گروہوں پر سختی کے ساتھ ضروری اقدام کرنا چاہئےورنہ یہ لوگ پاکستان کو یزید نوازی میں دہشت گردی کی بھٹّی میں جھونک دیں گے ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ استعمار نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل چاہتاہے ۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اور اسلامی دنیا میں پھوٹ ڈلوا کر اسرائیل کوان کے سروں پر مسلط کرنا اس کا بڑا ہدف ہے ۔استعمار اپنی ان کوششوں میں بڑی حدتک کامیاب ہے کیونکہ اس نے سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارت پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر رکھاہے جو اس کے زرخریدغلام ہیں۔ ’صدی ڈیل ‘ جس کا مسودہ ابھی صیغہ ٔ راز میں ہے، اس کو تسلیم کروانے کے لئے بھی انہی مسلمان حکمرانوں کا سہارا لیا جارہاہے ۔جیساکہ بعض عرب ممالک منجملہ مصر اورسعودی عرب فلسطین مخالف’ صدی معاہدہ‘ کو پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں اور استعمار کے ساتھ مل کر فلسطین کے حقوق پر نقب زنی کررہے ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں نے عرب امارات اوراسرائیل معاہدے کی ظاہری طورپر مخالفت کی ہے مگر ان کا عمل ان کے قول کےساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ استعمار کے ساتھ خفیہ روابط رکھتے ہیں اور اندرونی طورپر اس کے مفادات کی تکمیل میں مدد پہونچاتے ہیں۔اگر عالم اسلام ایسے منافقانہ کردار ادا کرنے والے مسلم ملکوں اور حکمرانوں کے خلاف متحد نہ ہوا تو انہیں عالمی سطح پر اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

 

 

دعوی “آزادی” کا “اطفال پنجروں میں”

  • ۱۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکام اور پریزیڈنٹ ٹرمپ کے جنونی عاشقوں کے دعوؤں کے برعکس، امریکہ نہ اس وقت اور نہ ہی ماضی کے کسی مرحلے میں، “سرزمین آزادی اور سورماؤں کا گھر” ہے اور نہ تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ۲۴۳ سال کی تاریخ میں انجام پانے والے شرمناک ترین امریکی اقدامات کا تعارف کروایا جاسکے۔ کیونکہ ہمیں شرمناک اعمال اور افسوسناک رویوں سے مالامال تاریخ کا سامنا ہے چنانچہ ہمیں مجبورا ایک فہرست میں سے کچھ اقدامات کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
امن پسند لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن رابرٹ فینٹنیا (Robert Fantina) نے دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک کے شرمناک ترین اور قبیح ترین امریکی اقدامات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ متبادل موضوعات لامتناہی نظر آرہے ہیں، لیکن ان اقدامات میں سے بعض کچھ یوں ہیں: جوزف مک کارتھی کی جادوگر کُشی یا کمیونسٹ کُشی کا دور [اس دور میں بےشمار امریکیوں پر جادوگری یا کمیونزم کا الزام لگا کر تشدد اور قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا]، کوریا کی جنگ، اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے افریقی نژاد امریکیوں کے ساتھ امریکی پولیس کی سنگ دلانہ کاروائیاں، ویت نام کی جنگ، ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں، ڈومینیکن جمہوریہ، انگولا، کمبوڈیا، نکاراگوا، لاوس، لبنان، گریناڈا، عراق (دو مرتبہ)، افغانستان، لیبیا، شام، یمن پر الگ الگ حملے۔
ذیل کے تمام واقعات میں امریکہ نے کمیونزم مخالف مداخلتوں میں رابطہ کار (coordinator) کے ظاہری عنوان سے، جمہوری انداز سے منتخب حکومتوں کی کایا پلٹ اور استبدادی خونخواروں کی حمایت کے سلسلے میں اقدامات کئے ہیں:
گھانا، انڈونیشیا، کانگو جمہوریہ، جمہوریہ برازیل، چلی، ارجنٹائن، ال سلواڈور، یوگوسلاویا، کولمبیا۔
ان فہرستوں کو پھر بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور مزید ممالک اور علاقوں کو بھی ان میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن آج میری توجہ ایک نئی، خاص ہلا دینے والی غیر انسانی اور بےرحمانہ پالیسی پر مرکوز ہے جو اس وقت نافذ کی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ امریکی عوام یا تو اس پالیسی سے بےخبر ہیں یا اس کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ میرا مطلب امریکہ ـ میکسیکو سرحد پر بچوں کی ان کے اہل خانہ سے جدائی اور بچوں کو پنجروں میں بند رکھنے کی پالیسی ہے۔
کیا یہ امریکی رویہ کسی بھی انسان کے جذبات کو مجروح نہیں کررہا ہے؟ گھرانے شکست و ریخت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، شیرخوار بچوں سمیت ان افراد کو ماؤں کی آغوش سے الگ کیا جارہا ہے جو بچپن کے ایام سے گذر رہے ہیں اور انہیں پنجروں میں بند کیا جارہا ہے۔ امریکیوں کے حراست کے دوران ان بچوں میں سے متعدد بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کیا عنوان “پنجروں میں بند بچے” کسی کو بھی متاثر نہیں کررہا ہے؟
بعض اوقات خاندانوں کے بارے میں کچھ جذباتی رپورٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پنجروں میں رکھا ہوا ہے۔ بعض اوقات رپورٹیں صرف اس وقت شائع ہوتی ہیں جب کوئی بچہ ان پنجروں میں مر جاتا ہے۔ کچھ مرتکبین کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اور سب ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں؛ بعدازآں ایسے کچھ بچوں کو یتیم خانوں اور نرسریوں کے سپرد کیا جاتا ہے جو ان دہشتناک حالات سے گذرے ہوتے ہیں، اس امید سے کہ وہاں ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھا جائے گا۔
بایں حال، جب یہ سلوک امریکی حکومت انجام دیتی ہے، تو پھر یہ اقدامات بالکل قابل قبول ہیں۔ اطفال کو بچوں کی آغوش سے جدا کرنا، والدین کو بچوں کی نگہداشت کی جگہ سے بےخبر رکھنا اور انہیں پنجروں میں بند کرنا۔ اگر یہ بچے مر جائیں تو یہ بہت بری بات ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟
اس طرح کے واقعات امریکہ میں اور بعض دوسرے ممالک میں معمول کے عین مطابق ہیں۔ اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ دل دہلا دینے والے جرم شمار کیا جاتا ہے لیکن اسی جرم کا ارتکاب کوئی حکومت کرے تو بالکل قانونی اور قابل قبول ہوگا۔ آیئے ذرا قتل کے مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ امریکہ میں قتل کی شرح بہت زیادہ ہے؛ لیکن قتل کے یہ واقعات اس کشت و خون کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جس کا ارتکاب امریکی حکومت کرتی ہے۔ جب تک کہ ایک شخص یونیفارم میں ملبوس ہوتا ہے اور اس کے ہاتھوں جان گنوانے والا شخص کوئی امریکی شہری نہ ہو (اگرچہ اس عجیب قاعدے سے کچھ متعینہ استثنائات بھی ہیں) ایک شخص کا قتل نہ صرف جرم نہیں ہے بلکہ قاتل سورما اور وطن پرست کہلاتا ہے۔
کچھ تخمینوں کے مطابق امریکی حکومت نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں دو کروڑ سے زائد انسانوں کو قتل کیا ہے۔ جب اغواکاروں نے طیارے اغوا کرکے مشرقی امریکہ کے تین مقامات کو نشانہ بنایا اور ۳۰۰۰ افراد مارے گئے تو امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے دو جنگوں کا آغاز کیا۔ ان دو جنگوں میں آج تک مارے جانے والے افراد کی تعداد ۱۱ ستمبر کے مقتولین سے ایک ہزار گنا زیادہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ امریکی عوام اس حقیقت کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
سنہ ۱۹۹۵ع‍ میں ٹیموتھی میک ویئی (Timothy James McVeigh) نے اوکلاہوما شہر (Oklahoma City) کی ایلفریڈ پی مورہ وفاقی عمارت بم دھماکہ کرکے ۲۰۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ عمل بھیانک اور ناقابل دفاع تھا جو مک ویئی کی پھانسی پر منتج ہوا؛ تاہم جب امریکی حکومت دنیا کے گوشے گوشے میں عمارتوں پر بمباری کرتی ہے یا پھر شام، فلسطین، عراق، افغانستان اور کئی دوسرے ممالک میں رہائشی علاقوں، اسپتالوں، اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پنا گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کرنے والی قوتوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتی ہے، کسی کو بھی دہشت گردی یا قتل کے الزام کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ میک ویئی کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد امریکی حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
لیکن، آیئے امریکہ میں پنجروں میں بند کئے جانے والے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ انسانوں کی پنجروں میں بندش امریکی حکمرانوں کے ہاں کوئی نیا رویہ نہیں ہے۔ دوسری جنگ کے دوران ہزار ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کو پنجروں میں بند رکھا گیا۔ وہ میکسیکن بچوں کی طرح بنی نوع انسان سے پست نوعیت کے موجودات سمجھے جاتے تھے چنانچہ انہیں پاگل کتوں کی طرح پنجروں میں بند کرنا قابل قبول عمل سمجھا جاتا تھا۔
کہاں ہے اس اقدام سے انسانوں کا غیظ و غضب اور نفرت کا اظہار؟ اپنے اپ سے پوچھنا چاہئے کہ “میں امریکہ کی اس پالیسی کے خلاف ـ جس کے تحت وہ بےگناہ بچوں کو والدین سے جدا کرتا ہے اور انہیں پنجروں میں بند کرتا ہے ـ سڑکوں پر مظاہرہ نہیں کرتا؟ میں کیوں راضی ہوجاتا ہوں کہ ان مسائل سے آنکھیں چرا لوں جبکہ یہ بچے اپنے پنجروں میں بدترین بدسلوکیوں کا شکار ہو رہے ہیں؟ مجھ پر کیا آپڑی ہے کہ اپنی خاموشی سے اس صورت حال سے چشم پوشی کررہا ہوں؟
یہ وہ روش سے جس کے ذریعے “ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں”۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو ان کے نادان، احمق، نسل پرست، زن بیزار اور اسلامو فوبیا پر یقین رکھنے والا ووٹ بینک کی مدد سے انجام پارہے ہیں۔
اس طریقے سے ہی امریکی حکومت ایک بار پھر فسطائیت (fascism) کو روزمرہ کے فیشن میں تبدیل کرنا چاہتی ہے اور کم پڑھے لکھے یورپی نژاد سفید فام امریکی باشندوں ـ جو امریکہ میں صحتمند شہری سمجھے جاتے ہیں ـ کو دوسرے شہریوں کے مد مقابل لا کھڑا کرنا چاہتی ہے۔ اسی بنا پر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ کو ـ خواہ اچھے خواہ برے (اور بطور معمول بدترین) مقاصد کے لئے ـ عالمی سطح پر محسوس کیا جارہا ہے اور امریکی صدر کی منظور کردہ نسل پرستی ہر جگہ ـ کسی طرح ـ قانونی حیثیت حاصل کررہی ہے۔
لیکن یہ بات ہرگز نہیں بتائی جاتی کہ یہ اقدامات یہاں اس نام نہاد “سرزمین آزادی اور سورماؤں کے گہوارے” میں ہو رہے ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں حکومت باضابطہ اور سرکاری طور پر میکسیکن بچوں کو پنجروں میں بند کرتی ہے اور ایک کیل کانٹے سے مسلح اسرائیلی فوجی کی طرف پتھر پھینکنے والے فلسطینی بچوں کے لئے ۱۵ سال قید کی سزا کے اخراجات بھی ادا کرتی ہے۔ یہ امریکہ ہے جو یمن میں اسکول کے بچوں کے ذبح ہونے سے چشم پوشی کرتا ہے اور اس بچوں کے اس قتل کے اخراجات بھی ادا کرتا ہے؛ بچوں کے ذبح کا یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل اس وقت پیش آیا جب سعودیوں کے امریکی ساختہ طیارے نے اسکول بس کو ـ جو اسکول کے طالبعلموں سے بھری ہوئی تھی ـ امریکی ساختہ بم کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ۴۰ بچے قتل ہوئے اور چند ہفتے قبل ایک دوسرے واقعے میں اسکول کی بچیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ۱۳ بچیاں زندگی کی بازی ہار گئیں اور یمن میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ کے بہی خواہ ـ شہریوں کے بیچ بھی اور کانگریس میں بھی ـ جب ٹرمپ کو امریکی پرچم کو گلے لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں کو پرنم کردیتے ہیں؛ اور جب ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر بےفائدہ دیوار تعمیر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا بجٹ منظور کروانے کے لئے امریکی کانگریس کو مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
وہ اس کی حمایت کرتے ہیں جب وہ سفیدفام نسل پرستوں اور نسل پرستی کے مخالفین کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں کہہ دیتے ہیں کہ “اچھے لوگ دونوں فریقوں میں موجود ہیں”۔
ان تمام اقدامات کے بعد اور کونسا ایسا عمل ہونا باقی ہے جو امریکی شہریوں کو غفلت اور بے اعتنائی کی اس گہری نیند سے جگا دے؟ اگر بےگناہ بچوں کو پنجروں میں بند کرنے کا عمل امریکیوں کو نہ جگا سکا ہو تو میں کم از کم یہ تصویر کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد اور کونسا ایسا واقعہ ہوسکتا ہے جو امریکی عوام کو بیدار کرے؟

بقلم رابرٹ فینٹینا (Robert Fantina) قلمکار اور بین الاقوامی امن اور انسانی حقوق کے کارکن
ترجمہ فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورس: https://www.globalresearch.ca/caging-children-land-free/5676628