مسئلہ فلسطین اور عرب عوام کی حساسیت

  • ۳۸۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کو صحیح اور حقیقی واقعات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اطلاعات کے ذرائع پر سیاسی میلانات رکھنے والوں کو کنٹرول حاصل ہونے کی وجہ سے سچائی ایک نایاب شئے بن گئی ہے! مثال کے طور پر مغربی ذرائع ابلاغ، عرب اسرائیل جنگ، عربوں کی جانب سے تیل کی سربراہی پر پابندی، جس کی وجہ سے دنیا میں معاشی بے چینی پیدا ہوئی ہے، اس “ننھے منے” بے یارو مددگار اسرائیل کا ذکر خیر، جو ایسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے جو اس کو تسلیم کرنے اور اس سے گفت و شنید کرنے سے انکار کرتے ہیں تاہم ان کی یہ معلومات، تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی ہیں اور جس حقیقت کو وہ یا تو دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں اور جس سے وہ خود بھی لاعلم ہیں وہ در اصل یہ ہے کہ “ننھا منا” اسرائیل، ایک ایسا ملک ہے جو ایک دوسرے ملک، فلسطین کا خاتمہ کر کے عالم وجود میں آیا ہے۔
جب ۱۹۴۸ میں ایک نئے ملک اسرائیل کی داغ بیل ڈالی گئی تو کئی مغربی حلقوں میں یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ نئی مملکت، مشرق وسطیٰ میں استحکام و ترقی کا ایک وسیلہ ثابت ہو گی اور عرب، جلد یا بدیر اس کے وجود کو تسلیم کر لیں گے۔
لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی عرب اسی طرح غیر مصالحت پسند ہیں جس طرح کے وہ ابتدا میں تھے وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور عربوں کی نفسیات نیز انسانی نفسیات سے فی نفسہ واقف ہیں اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عرب، یورپی یہودیوں کو فلسطین میں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے جس طرح کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ پر حملہ آور مسیحیوں کو یا سکندر اعظم کے زمانے کے یورپی مشرکین کو قبول نہیں کیا تھا۔
اسی طرح عرب، سلطنت عثمانیہ کے غیر ملکی مسلم ترکوں سے بھی نبرد آزما رہے ہیں جنہوں نے ان کی سرزمین پر برسہا برس حکومت کی۔ الجیریا میں عرب فرانس سے جس نے وہاں تقریبا ایک سو سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا تھا اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ انہوں نے فرانسیسیوں کو اس علاقے سے نکال باہر نہ کیا۔
ان واضح تاریخی حقائق کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلہ کو اس بنیاد پر حل نہ کیا جائے کہ فلسطین کے عوام کے مکمل حقوق، علاقائی سالمیت کے ساتھ وطن کی شکل میں بحال نہ کئے جائیں۔ بالفاظ دیگر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس نہ کر دی جائے، مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں فی الحقیقت لاینحل معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ برطانیہ فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال چکا ہے اس لیے اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کے تعلق سے ایک ایسا قضیہ ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ کو چکانا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے ایسی قرار دادوں کی منظوری میں کافی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جن کا مقصد اس کا حل تلاش کرنا تھا۔ اگر ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے نیک نیتی سے ذرا سی بھی کوشش کی جاتی تو نتیجہ بہت شاندار ہوتا۔ لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
۱۹۴۷ء میں اور پھر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے سنجیدگی سے یہ اعلان کیا کہ فلسطینی عرب مہاجرین کو اس بات کا پورا پورا حق ہے وہ اپنے گھروں کو واپس ہوں اور اگر وہ اس حق سے استفادہ کے خواہاں نہ ہوں تو ان کے مادی نقصانات کی مکمل پابجائی کی جائے۔ فلسطینی مہاجر نہ اپنے گھر لوٹے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ ملا۔ وہ اب بھی مہاجر ہیں۔ ابھی تلک یہ جلا وطن لوگ محتاج، مفلس، فلاکت زدہ، بھوکے اور بدحال ہیں، جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کے انسانوں سے ظالمانہ سلوک کی بدترین مثال ہے۔
لیکن اس صورت میں کم از کم ایک امر باعث اطمینان یہ ہے کہ فلسطین بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور عربوں کی جانب سے اسرائیل کی مخالفت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکر کمیونزم کے ملحدانہ عقیدے کی قبولیت بھی ان کی مخالفت کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تحریری مقابلہ جو تمام قوموں کے ادیبوں کے لیے کھلا تھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا کہ “ہاتھی” کے موضوع پر کس کے مضمون کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایک جرمن ادیب نے ایک پر مغز مقالہ، “ہاتھی، ایک وضاحتی مطالعہ” پیش کیا۔ فرانسیسی قلمکار نے ایک مختصر سا مضمون “ہاتھی کی جنسی زندگی” پر لکھا۔ ایک انگریز نے ایک مختصر معلوماتی کتابچہ “مجھے ہاتھی کا شکار کرنا پڑا” تیار کیا۔ ڈنمارک کے ایک باشندے نے پکوان کی ایک کتاب “ہاتھی کے گوشت کے قتلوں سے پکوان کے چالیس طریقے” تحریر کیا۔ لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے والے واحد عرب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “مسئلہ فلسطین کے حل میں ہاتھی کا کردار”!۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے لیکن یہ ایک موزوں طریقے پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت اسرائیل کے وجود کے تعلق سے عرب احساسات کس قدر شدید ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عرب علانیہ طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتا کہ ایک نئی آزاد مملکت “اسرائیل” وجود میں آ چکی ہے البتہ وہ جذباتی طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ طاقت کے ذریعے اس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی گرفت غیر فطری ہے۔ آخر کب تک ایک “شائی لاک” “انطونیو” (ولیم شیکسپیئر کا ڈراما “وینس کا سوداگر” کے دو اہم کردار) کو اپنی گرفت میں رکھ سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/ت/

 

ایلہان عمر، امریکہ کے سیاسی معاشرے میں اسرائیل کے لیے بڑا چیلنج

  • ۴۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایلہان عبد اللھی عمر(۱) ۱۹۸۱ میں صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور لگ بھگ بیس سال قبل انہوں نے امریکہ میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شمالی ڈوکاٹا یونیورسٹی(University of North Dakota) میں علم سیاسیات و بین الاقوامی روابط کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔(۲)
امریکی کانگرنس میں پہلی مسلمان رکن
ایلہان عمر امریکی پارلیمنٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پہلی مسلمان خاتون ہیں جو کانگریس کی رکن بننے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے ۲۰۱۶ میں امریکی کانگریس کے ایوان میں قدم رکھا (۳) تاکہ امریکی سیاسی معاشرے کے اندر رہ کر ٹرمپ، وہائٹ ہاوس، یہودی لابی اور صہیونی ریاست کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کرے۔
امریکی کانگریس میں شمولیت کے بعد ان کا سب سے پہلا اقدام ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف موقف اپنانا تھا۔ ایلہان عمر نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں تقریر کی اور میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش کو نسل پرستانہ اقدام سے تعبیر کیا اور ٹرمپ کو ایک گناہگار شخص ٹھہرایا۔ (۴)
ایلہان عمر کا دوسرا اعتراض وہائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز کروانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر جو میزائلوں میں تبدیل ہو کر سعودی عرب کے ہاتھوں میں جاتے ہیں اور یمن کے مظلوم بچوں کے قتل عام کا باعث بنتے ہیں ان کے دل کو بہت ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ وہ یمن پر فوجی کاروائی کو وہائٹ ہاوس کا ناجائز اقدام سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
ایسے حالات میں کہ ہمارے پاس صحت کی دیکھ بھال اور طبی اخراجات پورا کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے ایسے حالات میں کہ امریکہ میں گھروں کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور امریکہ کی جوان نسل اپنے مستقبل سے ناامید ہے یمن پر حملہ کرنا اور یمن کے نہتے عوام کے قتل عام پر اتنا پیسہ صرف کرنا کہاں کا منطقی عمل ہے۔ (۵)
امریکہ آل سعود کے جرائم میں ہم دست
سعودی عرب علاقے میں وہائٹ ہاوس کے دستورات کے مطابق من و عن عمل کرتا ہے اور یمن کے مسئلے میں نیز امریکی سیاستوں کے تابع ہے۔ ایلہان عمر کی نظر میں آل سعود کا ہاتھ یمنی عوام اور جمال خاشقچی کے قتل کے خون میں رنگین ہے۔ اور وہ آل سعود کو ایسی رژیم سمجھتی ہیں جو انسانی حقوق کو ہمیشہ پامال کرتی آ رہی ہے۔ نیز وہ قائل ہیں کہ امریکہ یمن میں انجام پانے والی تمام جارحیت میں آل سعود کے ساتھ شریک ہے۔ (۶)
امریکہ کو پوری دنیا میں ۸۰۰ فوجی اڈے قائم کرنے کی ضرورت نہیں
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اپنے ملک کے علاوہ پوری دنیا میں پائے جانے والے فوجی ٹھکانوں کی تعداد ۸۰۰ سے زائد ہے جو ایلہان عمر کی تنقید کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے دنیا میں ۸۰۰ فوجی ٹھکانے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی نظر میں امریکہ کو صلح پسند ہونا چاہیے نہ جنگ طلب۔ اور صلح پسندی کے ذریعہ امریکہ کو دنیا والوں کا دل جیتنا چاہیے۔(۷)
صہیونی ریاست پر تنقید ممنوع کیوں
یہودی لابی اور صہیونی افکار کے زیر سایہ بننے والی امریکی پالیسیاں اس بات کا باعث بنتی ہیں کہ صہیونیت یا اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا اظہار رائے کرنا گویا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگر چہ امریکہ کی سیاسی فضا حکومت پر تنقید کو قبول کرتی ہے لیکن صہیونی ریاست پر تنقید اور صہیونیوں کے خلاف کسی قسم کا موقف اپنانا امریکی سیاست کے لیے قابل ہضم نہیں ہے۔
امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے قبضے میں
ایلہان عمر امریکہ کے ان جملہ سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو امریکی سیاست کے پرآشوب ماحول میں پوری شجاعت کے ساتھ وہائٹ ہاوس کی ان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے جو اسرائیل اور صہیونی لابیوں کا بول بولتی ہیں۔ وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا۔ امریکیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو آزاد ملک دکھلائیں، لیکن ایلہان عمر نے ایک مرتبہ اس موج کے خلاف پلٹا مارا جس کی وجہ سے اسے بے شمار تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایلہان عمر نے ۲۰۱۲ میں پہلی بار اور امریکی پارلیمنت کے ایوان میں قدم رکھنے سے پہلے اسرائیل کی نسبت اپنے موقف کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے دنیا کے تمام لوگوں کو مصنوعی خواب میں سلا رکھا ہے تاکہ کوئی اس کے جرائم کو دیکھ نہ سکے مگر یہ کہ خدا ان لوگوں کو اس نیند سے جگائے اور یہ اسرائیل کی شرانگیزیوں اور شیطنتوں کو دیکھ سکیں اور ان کی نسبت اپنا رد عمل ظاہر کر سکیں۔ (۸)
ایلہان عمر کا صہیونیت مخالف موقف امریکی ایوان نمائندگان میں داخل ہونے کے بعد بھی باقی رہا یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل بائکاٹ تحریک (BDS) کی حمایت کی۔ البتہ ان کی اس حمایت کا رنگ کچھ یوں تھا کہ جب امریکی پارلیمنٹ، تحریک بی ڈی ایس کے خلاف بل منظور کرنے جا رہی تھی تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کی۔ (۱۰) ان تمام اقدامات کے بعد صہیونی میڈیا محترمہ ایلہان عمر کے خلاف طرح طرح کی بیان بازیاں کرنے پر جھٹ کیا۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف سے دستبردار نہیں ہوئیں اور کچھ عرصہ قبل اپنے ٹویٹر پیج پر ایک صارف کے جواب میں جس نے امریکی سیاستدانوں کی صہیونی ریاست کے تئیں حمایت کی دلیل کے بارے میں پوچھا تھا، انہوں نے لکھا:
’’یہ تمام حمایتیں ۱۰۰ ڈالر کے نوٹوں کی وجہ سے ہیں جو صہیونی لابی خصوصا AIPAC (۱۱) کی جانب سے امریکی سیاستدانوں کو ملتے ہیں(۱۲)۔
سام دشمنی (Antisemitism)
ایلہان عمر کے ٹویٹر پیج پر یہ چند الفاظ کا شائع ہونا تھا کہ ان پر سام دشمنی کا الزام عائد ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں امریکی سیاسی فضا میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کھلے عام اسرائیل پرست ہیں انہوں نے سخت اور تلخ لہجے میں ایلہان عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو استعفیٰ دے دیں یا پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی کمیٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔(۱۳) ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پر ایک ویڈیو کلیپ شائع کی جس میں ۱۱ سمتبر کے واقعہ کی تصاویر تھیں اس کے ضمن میں ایلہان عمر کے جملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا : ’’ہم ہرگز اسے نہیں بھول سکتے‘‘۔ امریکی صدر کے اس تیز اور تلخ لہجے نے یہ واضح کر دیا کہ امریکہ میں ’آزادی اظہار‘ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
پارلیمنٹ کے اراکین بھی ایلہان عمر کے خلاف محاذ آرائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور گزشتہ مہینے ایلہان عمر کے خلاف قرارداد منظور کر کے AIPAC کے دستورات کی نسبت اپنی وفاداری اور صہیونی لابیوں کے ڈالروں سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کر دیا۔ (۱۴)
ایلہان عمر کے لیے امریکی عوام کی حمایت
امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی اراکین مجلس کی جانب سے ایلہان عمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ایلہان عمر کی حمایت کا اعلان کیا۔ نیز ۲۰۲۰ کے انتخابات کے امیدواروں جیسے الیکسینڈریا اوکاسیو کارٹز(۱۵)، الزیبیتھ وارن (۱۶) اور بیرنی سینڈرز(۱۶) نے بھی ایلہان عمر کے خلاف امریکی صدر کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ (۱۸)
آخر کار ایلہان عمر امریکی صدر، نمائندگان مجلس اور میڈیا کی جانب سے ڈالے گئے دباو کے باعث معذرت خواہی پر مجبور ہوئیں۔ البتہ انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ خاموش رہنے کے لیے ایوان مجلس میں داخل نہیں ہوئی ہیں بلکہ وہ ڈیموکریسی کے نفاذ کے لیے پوری کوشش کریں گی۔
لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ ایلہان عمر نے معافی مانگ لی لیکن ایک مسلمان نمائندہ ہونے اور صہیونیت مخالف موقف اپنانے کی وجہ سے ان کی جان کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ لہذا اب باقی ماندہ ایک سال کی مدت میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف پر باقی رہتی ہیں اور اسرائیل کے خلاف اظہار رائے کر پاتی ہیں یا نہیں؟
حواشی
[۱]. Ilhan Abdullahi Omar
[۲].https://www.ndsu.edu/magazine/vol14_number01/excerpts.html
[۳].http://www.shia-news.com/fa/news/130359/
[۴].https://freebeacon.com/politics/ilhan-omar-denounces-trumps-racist-sinful-big-wall/
[۵]. https://www.newyorker.com/news/dispatch/how-ilhan-omar-won-over-hearts-in-minnesotas-fifth
[۶]. https://www.minnpost.com/national/2018/12/whos-afraid-of-ilhan-omar-saudi-arabia-for-one/
[۷]. https://www.washingtonpost.com/opinions/ilhan-omar-we-must-apply-our-universal-values-to-all-nations-only-then-will-we-achieve-peace/2019/03/17/0e2d66fc-4757-11e9-aaf8-4512a6fe3439_story.html
[۸]. https://www.jpost.com/Opinion/Ilhan-Omars-antisemitism-has-consequences-580355
[۹]. Boycott, Divestment and Sanctions
[۱۰]. https://www.timesofisrael.com/woman-running-for-congress-in-minnesota-rejects-anti-semitism-accusations/
[۱۱]. American Israel Public Affairs Committee
[۱۲]. https://ir.voanews.com/a/iilhan-jews-tweets/4782937.html
[۱۳]. https://www.isna.ir/news/97112512876/
[۱۴]. http://ana.ir/fa/news/32/366453
[۱۵]. Alexandria Ocasio-Cortez
[۱۶]. Elizabeth Warren
[۱۷]. Bernie Sanders
[۱۸]. https://www.isna.ir/news/98012409568/
[۱۹]. https://ir.voanews.com/a/omar-trump-11sep-twitter/4876006.html
[۲۰]. Nancy Pelosi
[۲۱]. https://www.isna.ir/news/98012610834
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہودی غاصبوں کی پیٹاگونیا بھاگنے کی تیاریاں

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پیٹا گونیا کا رقبہ ۹ لاکھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے یا یوں کہئے کہ یہ سرزمین پاکستان سے بڑی ہے۔ پیٹا گونیا بھی آبادی سے خالی سرزمین نہیں ہے بلکہ یہاں ۲۰ لاکھ کے قریب لوگ بھی رہتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کو بھی اپنا انجام فلسطینیوں جیسا نظر آرہا ہے۔
پیٹاگونیا قدرتی عجائبات کے لئے بھی مشہور ہے؛ جس کے مغرب اور جنوب میں انڈیس (Andes) پہاڑی سلسلہ اور مشرق میں نشیبی صحرائی علاقہ ہے۔ پیٹاگونیا کا چلی والا حصہ شہر پویرتو مونت سے شروع ہوتا ہے اور اس کا ارجنٹائن والا حصہ دریائے کولوراڈو (Colorado River [Argentina]) کے جنوب سے شروع ہوتا ہے۔  
لیکن جس چیز نے حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ کی سیاسی اور ابلاغیاتی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، نہ تو یہاں کا خوشگوار موسم اور بےمثل چشم و چشم نواز نظارے نہیں ہیں بلکہ صہیونیوں کی نقل مکانی اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری واحد اہم موضوع ہے جو چلی اور ارجنٹائن کے حلقوں کا موضوع سخن بنی ہوا ہے۔
یہ ایک دعوی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نوظہور مسئلہ ہے کہ آج آشکارا کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ حقیقت کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ اسی سلسلے میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے آغاز میں جو مسودہ “روتھشیلڈ خاندان” (Rothschild Family) کو دستاویز کے طور پر دیا گیا، اس میں پیٹاگونیا یہودی ریاست کی سرزمین قرار دی گئی تھی۔
 
پیٹاگونیا کا معتدل موسم، یہاں کی مالامال معدنیات اور مختصر سی آبادی، اس علاقے کو صہیونیوں کے لئے دلچسپ بنا رہی تھی۔ [گویا اسلام دشمن مغربی طاقتیں بھی جانتی تھیں کہ سرزمین فلسطین تر نوالہ نہیں ہے اور آخرکار یہودیوں کو یہاں سے رخت سفر باندھنا ہے چنانچہ انھوں نے وقتی طور پر یہودیوں سے جان چھڑانے کی غرض سے ان کو فلسطین کا قبضہ دلوایا اور پیٹاگونیا کو یہودیوں کا آخری ٹھکانا قرار دیا چنانچہ اب یہودیوں کو فلسطینی سرزمین پر ان کے مطلوبہ مسیح کے نزول سے زیادہ، فلسطینی بچوں کے غلیلوں سے بھاگنے کے فکر کھائے جارہی ہے اور پیٹاگونیا میں زمین کی خریداری کے سلسلے میں اسی بنا پر شدت آئی ہے]۔
کئی سالوں سے ارجنٹائن اور چلی کے متعدد سیاستدان یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھو پیٹاگونیا کی زمینوں کی خریداری پر تنقید کررہے ہیں لیکن جیسا کہ اندازہ لگایا جاتا ہے، ان دو ممالک کے ذرائع ابلاغ نیز دنیا کے بڑے ذرائع، گویا کہ اس موضوع کو ہوا نہیں دینا چاہتے!!!
 پیٹاگونیا میں صہیونیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں چلی کے سینیٹر کے انکشافات
اسی سلسلے میں یہودی ریاست کے اخبار ہاآرتص نے دسمبر ۲۰۱۳ع میں چلیائی سینیٹر یوگینیو توما (Eugenio Tuma) کے حوالے سے لکھا کہ “اسرائیلی فوجی چلی میں نقشہ کشی کررہے ہیں اور پیٹاگونیا کو دنیا کے یہودیوں کی جائے پناہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں”۔
ہاآراتص کے مطابق، مذکورہ سینیٹر ـ جو چلیائی سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے ہیں ـ نے کہا تھا کہ “چلی کی حکومت سیاحت کے بھیس میں ہونے والے اقدامات کی نسبت غیر جانبدار نہیں رہ سکتی؛ کیونکہ اسرائیل کے ہزاروں ریزرو فوجی تسلسل کے ساتھ پیٹاگونیا کا دورہ کررہے ہیں”۔  
سینیٹر توما نے سنہ ۲۰۱۳ع‍ کے بعد بھی متعدد رپورٹیں شائع کی ہیں جن میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ پیٹاگونیا پر یہودیوں کے قبضے کا آغاز سنہ ۱۸۸۶ع‍ میں سوئٹزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں تھیوڈور ہرزل کی صدارت میں منعقدہ خفیہ کانفرنس ہی سے ہوچکا تھا۔
واضح رہے کہ پیٹاگونیا کا دو لاکھ ۵۶ ہزار کلومیٹر مربع حصہ چلی میں اور سات لاکھ ۸۷ ہزار کلومیٹر مربع حصہ ارجنٹائن میں واقع ہوا ہے اور طے یہ پایا ہے کہ اس سرزمین کو عالمی یہودیوں کی متبادل سرزمین میں تبدیل کیا جائے۔ ادھر چلی کے دارالحکومت میں مقیم یہودیوں کے سربراہ نے سیاسی جماعت ” Party for Democracy” کو خط لکھ کر مذکورہ سینیٹر کے موقف کی مذمت اور ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا۔
اس علاقے کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی اور عبرانی زبانی کے فروغ کی کوششیں ناقابل انکار ہیں۔
ایک برطانوی یہودی ارب پتی ملوث ہے
ایک ایرانی سفارتکار “محسن پاک آئین” اس سلسلے میں لکھتے ہیں: “ارجنٹائن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہودی ریاست برطانیہ کے خفیہ اداروں اور صہیونیت کے حامی عناصر کی مدد سے پیٹاگونیا میں اراضی خرید رہی ہے اور حال ہی میں ارجنٹائن کے بعض ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹ میں ایک برطانوی یہودی ارب پتی جو لیویس (Joseph C. Lewis) کے ہاتھوں لاکھوں اسرائیلیوں کی آبادکاری کے لئے پیٹاگونیا میں اراضی کی خریداری پر حیرت اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔۔۔ جولیویس نے ارجنٹائن اور چلی کے درمیانی علاقے میں وسیع اراضی خرید لی ہیں اور مشہور ہے کہ اس کی ملکیتی زمین اسرائیلی قلمرو سے کئی گنا بڑی ہے۔ زیادہ تر خریدی گئی اراضی تےرا دیل فےگو (Tierra del Fuego) کے علاقے میں واقع ہیں۔ لاگو ایسکونڈیڈو (Lago Escondido) کے علاقے میں بھی وسیع اراضی کی خریداری اس یہودی ـ برطانوی ارب پتی کے منصوبے میں شامل ہے”۔  
 گارجین: پیٹاگونیا کے مقامی باشندے اسرائیلیوں کی آمد سے ناراض
روزنامہ گارجین نے جنوری سنہ ۲۰۱۵ع‍ میں ایک رپورٹ کے ضمن میں نام نہاد یہودی سیاحوں کی آمد سے ارجنٹینی پیٹاگونیا کے عوام اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کی شدید ناراضگی پر مبنی رپورٹ شائع کردی۔ رپورٹر نے لکھا تھا کہ اس علاقے میں موجود یہودیوں کو علاقے کے اصلی باشندوں کی بدسلوکی کا سامنا ہے۔
گارجین، جو اپنی پرانی پالیسی کے مطابق یہودیوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے، لکھتا ہے: “جنوبی ارجنٹائن میں واقع پیٹاگونیا کے مقامی لوگوں کی طرف سے نو وارد یہودی آبادکاروں کے ساتھ بدسلوکی میں اس لئے بھی اضافہ ہوا ہے کہ وہ سمجھے ہیں کہ جو یہودی حال ہی میں اس علاقے میں آبسے ہیں، در حقیقت اسرائیلی فوجی ہیں”۔
گارجین نے ارجنٹائن کے یہودیوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر دعوی کیا ہے کہ “اس علاقے میں یہود مخالف اقدامات اور نازیت کی حمایت میں اٹھائے جانے والے نعروں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور عوام پیٹاگونیا سے یہودیوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں”۔
فلسطین سے فرار صہیونیوں کی حتمی قسمت
غاصب یہودیوں کے لئے متبادل سرزمین کا موضوع نہایت حساس اور اہم موضوع ہے جس پر بحث و تمحیص کی کھلی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاتی ہے۔ اگرچہ سنہ ۲۰۰۶ع‍ میں حزب اللہ کے ساتھ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی شروع ہوچکی ہے اور حال ہیں غزہ، لبنان اور جولان کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں قائم غاصب یہودی ریاست کے شدید محاصرے کے بعد سے اس نقل مکانی میں مزید شدت آئی ہے اور اسی بنا پر مقبوضہ سرزمین سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی ایک بار پھر مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ذرائع نے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اور دوبارہ آبادکاری کے لئے کینیڈا، پولینڈ اور جنوبی سوڈان کے کچھ علاقوں کا جائزہ لینے کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں۔
دریں اثناء اگرچہ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) نے یہودی ریاست کے خاتمے کی پیشگوئی کی ہے لیکن وہ اس حوالے سے تنہا نہیں ہیں اور سنہ ۱۹۹۰ع‍ کے عشرے سے کچھ یہودی علماء اور مفکرین نے بھی اسرائیل نامی ریاست کے تسلسل کو ناممکن قرار دیا ہے اور یہ مفکرین ـ ان کے بقول ـ مقدس سرزمین میں یہودی ریاست کی بقاء کو ناممکن سمجھ رہے ہیں۔ نیز، بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ علاقے میں ایک طویل المدت اور شدید لڑائی شروع ہونے کی صورت میں دنیا بھر سے مقبوضہ سرزمین میں آبسنے والے یہودی نہایت تیزی کے ساتھ فلسطین کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی طرف فرار کریں گے۔
 
اسی بنا پر مسئلہ فلسطین کے آغاز سے کئی عشرے گذرجانے اور فلسطینی کاز کو فراموشی کے سپرد کروانے کے لئے درجنوں منظرناموں کے نفاذ کے باوجود، مسلم اقوام، مغرب کے آگے سجدہ ریز حکمرانوں کے برعکس، فلسطینی سرزمین اور یہاں کے مظلوم عوام کی پشت پناہی کی پابند ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کہلوانے والی غاصب ریاست، سرزمین فلسطین میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد ہر صورت میں اس سرزمین اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھنا چاہتی ہے جو لبنان، شام اور فلسطین کی مجاہد اقوام کی جدوجہد کی بنا پر ممکن نہیں، چنانچہ یہ ریاست اسی اثناء میں متبادل سرزمینوں کو بھی مدنظر رکھی ہوئی ہے کیونکہ امریکہ کی غیر محتاطانہ اور بےتحاشا حمایت کے باوجود، اس ریاست کی صورت حال ہمیشہ سے زیادہ نازک اور زیادہ متزلزل ہے اور یہودی ریاست کے منتظمین اپنی موجودگی کا اختتام اب بغیر عینک کے بھی دیکھ سکتے ہیں؛ گویا یہ ایک وقتی ٹھکانا تھا جو اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے یورپیوں نے یہودیوں کے شر سے بچنے اور مسلمانوں کو سزا دینے کے لئے ان کے سپرد کیا تھا اور پیٹاگونیا ابتدائی دستاویزات کے مطابق ان کی دائمی سرزمین قرار دی گئی تھی چنانچہ اب وہ اپنی دائمی سرزمین میں بس جانے کی تیاری کررہے ہیں گوکہ پیٹاگونیا کے عوام بھی بظاہر انہیں خیرمقدم کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہاں جانے کے بعد انہیں کسی تیسری اور چوتھی متبادل سرزمین کا تعین بھی کرنا پڑے گا۔
منبع: mshrgh.ir/952902
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مہدویت اور عیسائی صہیونیت

  • ۴۶۵

خیبر تجزیاتی ویب گاہ: خداوند عالم نے قوم بنی اسرائیل کو جو متعدد بشارتیں دیں، ان بشارتوں میں سے ایک پیغمبروں کا مبعوث کیا جانا تھا جو انہیں راہ حق کی طرف راہنمائی کرتے اور طاغوت کے ظلم و ستم سے انہیں رہائی دلاتے۔ لیکن اس قوم نے اللہ کے پیغمبروں کے مقابلے میں ایسا کردار ادا کیا کہ قرآن نے انہیں “پیغمبر کش” قوم کے نام سے یاد کیا ہے۔
خداوند عالم کی جانب سے قوم بنی اسرائیل کو دی جانے والی بشارتوں میں سے ایک آخری پیغمبر کی بعثت کی بشارت تھی۔ علاوہ از ایں خداوند عالم نے انہیں راہ حق پر گامزن رہنے کی صورت میں مزید دو وعدے دیئے ایک حضرت عیسی (ع) کی ولادت اور دوسرا مہدی موعود کا ظہور۔
عیسائیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک “انتظار” ہے جو اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک مشترکہ عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں پروردگار عالم مومنین کی نسبت یہودیوں کی دشمنی کو بدترین دشمنی قرار دیتا ہے وہاں عیسائیوں کو اسلام سے نزدیک گردانتا ہے۔
َتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ (مائده: ۸۲)
(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔)
خداوند عالم نے اس آیت میں مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ملنسار اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دعوت دی ہے اور خاص طور پر اس اعتبار سے کہ حضرت عیسی علیہ السلام امام مہدی موعود کے ساتھ ظہور کریں گے اور ان کے ساتھیوں میں سے ہوں گے، عیسائیوں کے ساتھ مہر محبت سے پیش آنا اور انہیں بھی انتظار کی راہ میں اپنے ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری ہے۔
مسلمانوں نے قرآن کریم کی اس اسٹریٹجک پالیسی کو نظر انداز کر دیا لیکن یہودیوں نے اس کے باوجود کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو پھانسی دینے کی کوشش کی اپنی چالاکی اور زیرکی سے عیسائیوں کو اپنی مٹھی میں لے کر مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی کے لیے اکسایا، یہودیوں نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان انتظار کا عنصر ایک مشترکہ عنصر ہے جو انہیں آپس میں قریب کر سکتا ہے لہذا انہوں نے انجیلی عیسائیوں جو ایک اعتبار سے صہیونی عیسائی بھی ہیں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ انجیلی عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی (ع) اس وقت ظہور کریں گے جب یہودی بیت المقدس پر قابض ہوں گے۔ انجیلی عیسائی وہ بانفوذ گروہ ہے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں حمایت کی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اور ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کر کے ان کا حق ادا کیا۔
لہذا اگر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہمدلی اور باہمی تعاون وجود پا جائے تو یقینا یہ عالمی صہیونیت کے ضرر میں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

"ٹرمپ کی گائیں" کے ہاتھوں میں فلسطین کی قسمت ؟!

  • ۳۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: وہ ثبوت، جو سینئر اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات میں دہرائے گئے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بحرین جلد ہی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا۔ صہیونی عہدیداروں کے مطابق ، بحرین واشنگٹن میں "اسرائیل-متحدہ عرب امارات" امن معاہدے پر دستخط کے فورا بعد ہی اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کرے گا ، اس معاہدے پر  23 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں دستخط کئے جانے کی توقع ہے۔

ان تبدیلیوں کے بیچ ، عبرانی زبان کے ٹائمز آف اسرائیل اخبار نے خفیہ اطلاعات کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدہ دیگر خلیجی عرب ریاستوں خصوصا عمان ، بحرین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور امارات کے برعکس، اپنے تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر نہیں کر رہا ہے ، اور نارمل طور پر سعودی عرب اندرونی اختلافات کی وجہ سے سب سے آخری ملک ہو گا جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعلان کرے گا۔

لندن کالج میں مشرق وسطی کے ایک محقق ، آندریاس گریک کا کہنا ہے کہ ، "بحرین سعودی-اسرائیلی رابطوں کا مرکز بن جائے گا۔"

بدقسمتی کی بات ہے کہ عربوں نے بھی مسئلہ فلسطین اور حتی کہ فلسطینیوں کی تقدیر کو "تیل والے شیخون" پر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود "معاشی بحران" اور "ٹرمپ کے انتقام کا خوف" سمیت جھوٹے بہانے اور دعوؤں کو لے کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں۔

جب کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ "تیل والے شیخ" نہ صرف صہیونی ریاست کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ اس شیطانی حکومت کی بقا کے اہم عوامل کا حصہ ہیں۔ یہ تیل والے شیخ ہمیشہ امریکی اور صہیونی مفادات کی خدمت میں ہیں، اور آج وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر اپنے آقاؤں یعنی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں جو سیاسی شکست اور مالی فساد میں گرفتار ہیں اپنے آقاووں کو بچانے کے لیے اگر چہ انہیں فلسطین کو داؤ پر ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیل والے شیخ یہ بھول گئے ہیں کہ اسرائیل نے اب تک ان کے حق میں ایک گولی بھی نہیں چلائی ہے اور اسے خود زندہ رہنے کے لئے کسی حامی کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے شہروں کو شیشے کے شہر بنا لیا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں اور شکاری کے لیے ان کو شکار کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔

کتاب “یاسر عرفات مجاہدت سے مذاکرات تک” کا تعارف

  • ۵۷۵

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “یاسر عرفات مجاہدت سے مذاکرات تک”، “افسانہ وفا” کی تالیف ہے جو ۲۰۰۴ میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں یاسر عرفات کی زندگی کے حالات اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں اس عنوان سے گفتگو کی گئی ہے کہ وہ فلسطین کے معروف مجاہدین میں سے ایک تھے۔ وہ شخص جس نے جد و جہد اور سیاسی پالیسیوں کے ساتھ مختلف مجاہد گروہوں کو آپس میں جوڑا اور فلسطینی عوام کی آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچایا۔ اگر چہ بعض جگہوں پر بہت ساری غلطیوں اور خطاوں کا بھی شکار ہوئے۔
یہ کتاب جو ۱۴۴ صفحوں پر مشتمل ہے اس میں یاسر عرفات کی شخصیت کا تعارف، تحریک آزادی فلسطین میں ان کے کردار اور سیاسی رد عمل کو بخوبی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں یاسر عرفات کا زندگی نامہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کے شجرہ نسب، جائے پیدائش، محل سکونت، تعلیمات اور ان کے میدان سیاست میں اترنے کی وجوہات جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ “ایاد” نامی ایک کاتھولیک پادری کی گفتگو کو بھی نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے متعدد بار یاسر عرفات سے ملاقات کے بعد ان کے بارے میں کی۔ ان کا کہنا ہے: “عرفات سادہ لوح انسان نہیں تھے۔ وہ مجھے باپ کہتے تھے میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہم جنگ کے ذریعے بھی فلسطین کو واپس نہیں لے سکتے۔ لیکن ہمیں جنگ کرنا پڑے گی تاکہ دنیا والوں کو یہ بتا سکیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہمیں لڑنا پڑے گا تاکہ دنیا والوں کو یہ بتا سکیں کہ ملت فلسطین ابھی زندہ ہے۔ ہم لڑیں گے تو دنیا کے ضمیر بیدار ہوں گے۔ اگر ہم دنیا کے عوام کو قانع نہ کر سکیں کہ ہم حق پر ہیں تو ہم نابود ہو جائیں گے”۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یاسر عرفات کی بیوی کی بات آتی ہے تو انہیں ایک تازہ مسلمان اور مسئلہ فلسطین کے تئیں غیر جانبدار کے عنوان سے پہچنوایا جاتا ہے۔
کتاب کے دوسرے مرحلے میں یاسر عرفات کے نفسیاتی پہلو پر گفتگو کی گئی ہے۔ یاسر عرفات اس کے باوجود کہ ایک فعال، ایکٹو اور فلسطینی مقاصد کے تئیں جذباتی شخص تھے، ایک مغرور سیاست دان اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والوں کے اوپر بھرسہ نہ کرنے والے شخص بھی تھے۔ التبہ ان کی یہ خصوصیات کسی حد تک فلسطینی مقاصد کی راہ میں کی جانی والی مجاہدت میں اخلاص کے منافی تھیں۔ مثال کے طور پر کبھی وہ دوپہلو گفتگو کرتے تھے اور بہت جلد اپنی گفتگو کو بدل دیتے تھے، علاوہ از ایں انہوں نے ایک مرتبہ اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ میں کہا: “میں مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ترین شخص ہوں”۔ یا جرمنی کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں کہا: “میں اور شارون تاریخ کے سب سے بڑے جنرل ہیں، صرف اس اختلاف کے ساتھ کہ میں نے آج تک کوئی جنگ نہیں ہاری”۔ ان کے کھوکھلے دعوے ایسے حال میں تھے کہ یاسر عرفات پر متعدد بار حملے کئے گئے اور وہ بال بال بچ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ “ساف” پارٹی کا بجٹ فراہم کرنے میں عرب ممالک سے سخت وابستہ تھے۔ یا دوسرے لفظوں میں وہ مالی اعتبار سے عربوں کے محتاج تھے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں عرفات تنظیم یعنی “آزادی فلسطین تنظیم” یا “ساف” کی تاریخ اور اس کے تجزیہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کا طریقہ کار یوں ہے کہ ابتدا میں اس تنطیم کی تشکیل کے تاریخچہ اور اس کے بانیان کی بائیوگرافی بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب ان افراد کے بارے میں لکھتی ہے: “عرب حکومتیں یا فلسطین کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتیں یا نہیں کرنا چاہتیں، لہذا اس تنظیم کے اراکین نے ارادہ کیا ہے کہ وہ خود اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائی کریں”۔
اس باب کے آخر میں ان اہم تنظیموں جیسے PFLP، DFLP، حماس، جہاد اسلامی، وغیرہ کا تعارف اور ان کی سرگرمیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا آخری حصہ “ڈیوڈ کیمپ ایک سے ڈیوڈ کیمپ دو تک سمجھوتہ عمل” سے مخصوص کیا گیا ہے۔ مخاطب کے ذہن کو آمادہ کرنے کے لیے مولف نے پہلے فلسطین پر صہیونی قبضے کا مختصر تاریخچہ بیان کیا ہے نیز اسرائیل کے زیر قبضہ لبنان، شام اور مصر کے علاقوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے تاکہ اسرائیل کے تسلط پسندانہ رویہ اور یاسر عرفات کے اسرائیلیوں کے ساتھ سمجھوتہ نہ ہونے کی وجوہات کو بھی بیان کریں۔ اس کتاب میں دانستہ یا ندانستہ طور پر جو غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی ممالک، سابق سوویت یونین اور خاص طور پر امریکہ کے کردار کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صلح برقرار کرنے کے لیے سراہا گیا ہے کہ یہ ممالک فلسطینیوں کے حق میں خیر اندیش تھے جن میں سب سے زیادہ امریکہ نے صلح برقرار کرنے کی کوششیں کی ہے۔ حالانکہ اگر تاریخ کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ دعویٰ بالکل جھوٹا ہے یورپ اور امریکہ سب سے زیادہ فسلطین میں جنگ و جدال کا باعث بنے ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرنے والے، ان کے گھروں کو اجاڑنے والے اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے خود مغربی حکام ہی تو ہیں جنہوں نے اس خطہ پر صہیونیت کو مسلط کیا۔
بہر حال اگر کوئی صرف یاسر عرفات کی شخصیت اور “ساف” تنظیم کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب کسی حد تک مفید ہے۔

 

اسرائیل اور عرب امارات کے مابین 25 سالہ خفیہ تعلقات

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے امارات کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے میں متحدہ عرب امارات کی ایف 35 جنگی طیارے کے خریدنے پر آمادگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کے ابوظہبی کے ساتھ 25 سال کے خفیہ تعلقات نے اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی وزارت خارجہ کے رابطہ اور مواصلات کے دفتر کے سربراہ ایلیاو بینجمن نے بتایا کہ اسرائیل گزشتہ 25 سالوں سے ابوظہبی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سفارتی کوششوں میں جٹا رہا ہے۔
روزنامہ ہاآرتض نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تل ابیب اور ابوظہبی کا معاہدہ کوئی ایسا اتفاق نہیں ہے جو ایک رات میں حاصل ہو گیا ہو بلکہ اس کے پیچھے 25 سال کی پشت پردہ زحمتیں ہیں جو اب مثمر ثمر واقع ہوئی ہیں۔
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ مصر اور اردن کے برخلاف اسرائیل اور امارات کے مابین غیر عسکری خفیہ سفارتی تعلقات کافی عرصے سے برقرار تھے۔
ایلیاؤ بینجمن جو عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے عہدیدار ہیں نے امارات کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بتایا: ’’یہ سب اوسلو معاہدے کے بعد شروع ہوا ، جب وزیر خارجہ شمعون پیریز (وقت کے وزیر خارجہ) ہمارے پاس آئے اور ہمیں کہا کہ عالم اسلام کی طرف دروازے کھول دیں۔"
انہوں نے اس بارے میں مزید کہا: "ہم نے سینئر عہدیداروں کی اجازت سے واشنگٹن ، نیویارک اور ابوظہبی میں ان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔" آہستہ آہستہ اور خاموشی سے ... پہلے زیادہ تر سرگرمیاں معاشی تھیں، جس کا مقصد سفارتی شعبے میں توسیع کرنا تھا۔ 2002 میں ، جب وہ دبئی میں الماس ایکسچینج قائم کرنا چاہتے تھے تو [اسرائیلی] صراف (اکسچینجر) راماتوگن کو ہم نے نمونہ قرار دیا  اور ہمیں وہاں ہمیں غیر متوقع کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ہم نے ان کے ساتھ کئی مذاکرات کئے اور دسیوں اسرائیلی تاجروں کو امارات میں تجارت کے لیے بھیج دیا۔‘‘
ہاآرتض کے مطابق صہیونی وزیر خارجہ نے بھی ان سالوں کوشش کی تاکہ 500 اسرائیلی کمپنیوں جن میں زیادہ تر عسکری نظام سے تعلق رکھتی تھیں کو امارات کی مارکیٹ میں اتار سکیں۔
اس صہیونی عہدیدار نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا متحدہ عرب امارات کی F-35 لڑاکا طیارے خریدنے کی خواہش، آئندہ امریکی صدارتی انتخابات اور اسرائیل میں قبل از وقت ہونے والے انتخابات کے امکان پر اثرانداز ہوئی؟ کہا: کہا جا سکتا ہے کہ تمام ناممکن اتفاقات کے رخ پانے کے بعد یہ معاہدہ انجام پایا ہے۔
بینجمن نے اس بارے میں مزید کہا: "یہ ٹھیک ہے کہ وہ ایف 35 خریدنا چاہتے ہیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ، الحاق کے منصوبے کا نفاذ یا عدم نفاذ کا مسئلہ بھی زیر غور تھا۔ نیز دیگر ممالک کے سربراہان بھی موجود ہیں جو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ یہ سب درست ہے۔"
دو ہفتے قبل، واشنگٹن، ابوظہبی اور تل ابیب نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں، ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زائد اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ اس کے بعد باہمی تعاون سے کام کریں گے۔
گذشتہ روز صہیونی میڈیا نے متحدہ عرب امارات کی وزارت امور خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل ناصریہ شہر یا حیفا کی بندرگاہ میں قونصل خانے کے افتتاح کا خواہاں ہے۔

 

یہود و نصاریٰ کے ساتھ سیاسی تعلقات قرآن کریم کی رو سے

  • ۳۹۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آغاز اسلام کے دور کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہود و نصاریٰ کے ساتھ برتاو تھا جس کی طرف قرآن کریم کی بعض آیتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ آغاز اسلام میں پیغمبر اکرم(ص) پوری طاقت و توانائی کے ساتھ یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ (ص) ایسا نہ کرتے تو یہود و نصاریٰ کی سازشیں اور فتنہ انگیزیاں اسلام کو سخت نقصان پہنچاتیں۔
اس موضوع کے حوالے سے ہم نے حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی سے گفتگو کی ہے امید ہے کہ قارئین کرام کے لیے مفید واقع ہو گی۔
س۔ قرآن کریم میں سیاسی موضوعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا بطور کلی قرآن کریم کو سیاسی زاویہ نگاہ سے بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے یا صرف اخلاقی اور عقیدتی اعتبار سے ہی قرآن کریم کو دیکھنا چاہیے؟
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مختلف مسائل جن میں ثقافتی، اخلاقی، عقیدتی حتیٰ سیاسی بھی شامل ہیں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم کبھی تاریخ حقائق کو بیان کرتا ہے، کبھی حیوانوں کی سادہ مثالیں پیش کرتا ہے، کبھی بہت گہری اور دقیق مثالیں بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَیَسْتَحْیی اَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا؛ اللہ اس بات میں شرم محسوس نہیں کرتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کمتر کی مثال پیش کرے۔
قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں ہے لیکن تاریخی مثالیں اور داستانیں بیان کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں ہدایت کا ایک پہلو، سیاسی پہلو ہے کہ قرآن کریم نے اس کے بارے میں بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس لیے کہ انسانی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ قرآن میں صرف اخلاقی موضوعات کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے سیاسی مسائل کی طرف بھی قرآن کریم میں اشارات ملتے ہیں۔
س۔ قرآن معجزہ ہے لہذا سیاسی مسائل کا قرآن کے اعجاز سے کیا تعلق ہے؟
قرآن کریم کا اعجاز دو طرح کا ہے ایک قرآن کریم فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے جو اس کے الفاظ و ادبیات سے مربوط ہے۔ دوسرا قرآن کریم مطالب اور مفاہیم کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔ اگر چہ ظاہر قرآن بھی معجزہ ہے لیکن اس فصیح و بلیغ کتاب میں موجود مطالب بھی اپنی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے معجزہ ہیں۔
اعجاز ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے مطالب نئے، تازہ اور بدیع ہیں۔ اگر چہ قرآن کریم ۱۴ سو سال قبل نازل ہوا لیکن ابھی بھی اس کے مطالب تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ گویا آج ہی نازل ہوئے ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا کچھ اہم سیاسی مسائل جن سے آج ہمارا معاشرہ روبرو ہے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا نہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ قرآن کریم کی آیتوں کی روشنی میں کیا ہم اسلامی معاشرے کے سیاسی مسائل کا تجزیہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر آج کے ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ، جوہری معاہدہ یا ہمارے اوپر لگائی گئی ظالمانہ پابندیاں ہیں جن کا براہ راست تعلق یہود و نصاریٰ سے ہے۔ اس موضوع کو ہم آغاز اسلام میں بھی درپیش آئے مشابہ مسائل سے تجزیہ و تحلیل کر سکتے ہیں جن کے پیچھے بھی یہود و نصاریٰ کا تھا۔ در حقیقت یہ ایک اعتبار سے قرآنی گفتگو بھی ہے اور ایک اعتبار سے تاریخی بھی۔ اور آغاز اسلام کے مسائل اور اس دور میں بھی مسلمانوں پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو آج کے مسائل سے ناطہ جوڑ کر بخوبی یہ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ جب بھی حقیقی اسلام نے سر اٹھایا تو یہود و نصاریٰ نے اسے کچلنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۵۱ اور ۵۲ آیتوں میں مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کرتا ہے ارشاد ہوتا ہے:
«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَىأَوْلِیَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛
“اے ایمان والوں یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہو جائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔”
آیت نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو یعنی ان کے ساتھ معاملات میں خود کو کمزور مت سمجھو، البتہ آیت یہ نہیں کہتی کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات نہ کرو، ان کے ساتھ بالکل تعلقات نہ رکھو، بلکہ آیت میں تاکید اس بات پر ہے کہ ان کے مقابلے میں خود کو ضعیف مت سمجھو یعنی اگر تم انہیں اپنا سرپرست بنا لو گے تو تم ان کے سامنے کمزور اور ضعیف ہو جاو گے اور وہ تمہارے سر پر سوار ہو جائیں گے لہذا ان کے مقابلے میں خود کو قوی اور مضبوط کرو۔
آیت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ؛ یہ ایک دوسرے کے سرپرست اور ولی ہیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم یہ سوچو کہ ہم عیسائیوں سے دوستی کر لیں گے اور وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے یہ غلط ہے یہود و نصاریٰ دونوں ایک ہیں بظاہر ممکن ہے ان کے بھی آپس میں اختلافات ہوں لیکن تمہارے ساتھ دشمنی کے مقام پر دونوں یک مشت ہیں۔
اس آیت نے ہمارے لیے موقف واضح کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ اپنی گفتگو اور مذاکرات میں یہ پیش نظر رہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور دشمن کو دشمن سمجھ کر اس سے گفتگو کرنا چاہیے، پوری ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ ان سے گفتگو کرنا چاہیے تاکہ تمہیں کبھی وہ دھوکا نہ دے دیں، تمہارے اوپر سوار نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْإِنَّ؛ جو بھی تم میں سے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا ان ہی میں سے ہو جائے گا۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے اگر تم نے دشمن پر بھروسہ کر لیا تو تم بھی دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ دشمن دشمن ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنے والا اسلامی معاشرے سے دور ہو جاتا ہے۔ آیت یہ سمجھا رہی ہے کہ یہ بہت خطرناک موقع ہے یہاں پر لغزش اور گمراہی کا بہت امکان ہے۔ اگر دشمن کی باتوں میں آگئے اور اس پر بھروسہ کر لیا تو دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ اور آخر میں ہے کہ «إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ خدا ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔
س۔ کیا قرآن کریم میں ایسے مسلمانوں کے حوالے سے بھی کچھ بیان ہوا ہے جو دشمن پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں اور حکم خدا کی خلاف ورزی کر دیتے ہیں؟
قرآن کریم بعد والی آیت یعنی سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۲ میں اسلامی معاشرے کی فضا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض مسلمان دشمنوں کے مقابلے میں کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: «فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ “پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردش زمانہ کا خوف ہے”۔
آیت کا یہ کہنا ہے جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے وہ جلدی یہود و نصاریٰ کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے اتنا جلدی دشمن کی باتوں پر بھروسہ کر لیا تو کہتے ہیں: «یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ ہم گردش زمانہ سے ڈرتے ہیں۔ یا آج کی زبان میں کہا جائے کہ ہم پابندیوں سے ڈرتے ہیں۔ ایسے افراد کا ایمان ضعیف ہوتا ہے خدا پر ایمانِ کامل نہیں رکھتے۔ ایسے افراد کا کہنا ہے کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا، ہم اس سے گفتگو کرنے جاتے ہیں مذاکرات کرنے جاتے ہیں تاکہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کبھی ہمارے اوپر حملہ نہ کر دے کبھی ہمارے اوپر پابندیاں نہ عائد کر دے۔
آیت اس کے بعد مسلمانوں کو دلاسہ دیتی ہے اور فرماتی ہے: «فَعَسَى اللَّـهُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛ پس عنقریب خدا اپنی طرف فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہو جائیں گے۔
آیت کا یہ حصہ مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا سے ناامید نہ ہوں خدا اپنی طرف سے کچھ ایسا کرے گا کہ ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی تم اپنی مشکلات کے حل کے لیے دشمن کی طرف مت جانا دشمن تمہاری مشکلات حل نہیں کر سکتا بلکہ مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اور جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دشمن کے ساتھ خفیہ قرار دادیں باندھتے ہیں لیکن بعد میں جب ظاہر ہوتا ہے تو پشیمان ہوتے ہیں۔ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛
یعنی بعض لوگ جب معاشرے پر دشمن کی طرف سے دباو پڑتا ہے تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ خفیہ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعد میں جب یہ تعلقات کھل کر سامنے آتے ہیں تو شرمندہ اور پشیمان ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دشمن پر کبھی بھی بھروسہ نہ کرنا، اس کے ساتھ گفتگو کرنے میں اس بات کی طرف توجہ رکھنا کہ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن کبھی بھی تمہارا نفع نہیں چاہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی بین الاقوامی روابط کے حوالے سے بالکل یہی پالیسی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ دشمن کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا اس گفتگو کر سکتے ہیں لیکن اس کے سامنے دب کر نہیں، خود کو کمزور سمجھ کر نہیں۔ آپ ایک طرف سے معاہدے کے احترام پر تاکید کرتے ہیں اور دوسری طرف سے عہد شکن کے ساتھ سخت رویہ اپناتے ہیں، یہ دونوں نکات قرآن کریم کی روشنی میں ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ عہد شکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آو، اور اگر انہوں نے عہد شکنی کر دی تو تم اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا۔
رہبر انقلاب کے فرمودات کوئی ان کے ذاتی نظریات نہیں ہیں بلکہ قرآنی مبنیٰ پر قائم ہیں۔ آپ نے متعدد بار کہا کہ ہم قدس کے غاصب اسرائیل کہ جسے ہم تسلیم نہیں کرتے کے علاوہ ہر کسی سے گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن گفتگو میں ہمارے ہوش و حواس سالم رہنا چاہیے، ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کسی کو دشمن سے دوستی اور محبت کی تمنا نہیں ہونا چاہیے۔ دشمن کا کام دشمنی کرنا ہے یعنی دشمنی کا تقاضا ہی فتنہ افکنی، مکاری اور ضرر رسانی ہے لہذا ہمیں ہوشیاری سے کام لینا چاہیے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

فلسطین کے پیکر پر سعودی عرب کا پہلا زہر آلود خنجر

  • ۳۷۶

 

جن بہانوں کو لے کر متحدہ عرب امارات غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آگے بڑھا انہیں بہانوں کو لے کر سعودی عرب نے فلسطین کے پیکر پر پہلا زہر آلود خنجر گھونپ دیا ہے۔  
سعودی عرب کی فضا سے عبور کر کے پہلا اسرائیلی طیارہ جب ابوظہبی ایئرپورٹ پر پہنچا تو اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ریاض حکومت نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کر دیا کہ اسرائیل اور عرب امارات اپنی پروازوں کے لیے سعودی فضا کا استعمال کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات جانے والی "اسرائیل" سمیت تمام پروازوں کی منظوری کے بارے میں سعودی عرب کا یہ پہلا باضابطہ اعلان ہے اور یہ پروازیں درحقیقیت متحدہ عرب امارات اور صہیونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لائے جانے کا عملی اقدام ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان"  نے اس اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ فلسطین کے بارے میں سعودی عرب کا موقف اسرائیل اور عرب امارات کے مابین پراوزوں کے عبور کی اجازت دینے سے تبدیل نہیں ہو گا"۔  بن فرحان نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب ایئر لائنز کی عمومی تنظیم نے متحدہ عرب امارات کی ایئر لائنز کی درخواست پر اتفاق کرتے ہوئے سعودی آسمان سے متحدہ عرب امارات کی تمام ممالک کے لئے پروازوں کی منظوری جاری کر دی گئی ہے۔
ابوظہبی اور تل ابیب کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کا ذکر کرتے ہوئے، جسے فلسطینیوں اور اسلامی ممالک نے فلسطینی کاز اور اسلامی امت کی پشت پر خنجر گھوپنے سے تعبیر کیا ہے، سعودی وزیر نے کہا: " ایک پائیدار اور انصاف پسند عرب امن منصوبے کے قیام کے عمل میں تمام کوششیں قابل قدر ہیں۔"
دوسری جانب بحران سے دوچار قابض حکومت اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے ایک ویڈیو میں سعودی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔ ویڈیو میں، نیتن یاھو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو متحدہ عرب امارات کے لئے براہ راست پرواز کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
نیتن یاہو نے اس کے بعد ٹویٹر پر لکھا: "ایک اور بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل سے ابوظہبی اور دبئی کے لئے اسرائیل کی تمام پروازوں کے علاوہ دیگر ان ممالک کی پروازوں کی آمد و رفت کا راستہ ہموار ہوا ہے جو اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں۔ ۔ "اس کامیابی سے پروازوں کی لاگت اور وقت میں کمی آئے گی، اور سیاحت میں نمایاں اضافہ ہوگا اور ہماری معیشت کو تقویت ملے گی۔ "
اس معاہدے کا اصلی مزہ تو صہیونی ریاست اور مجرم اسرائیلی ہی چھکیں گے اور فلسطین کے مظلوم عوام اور امت مسلمہ کو تو صرف نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔

آخر میں یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ سعودی عرب کا اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضا سے اڑان بھرنے کی اجازت دینے پر مبنی فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے سعودی عرب کی فضا سے امریکی اور اسرائیلی پروازوں کے عبور کی اجازت کا شکریہ ادا کیا۔ کشنر نے مزید کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن معاہدے پر آئندہ مہینوں دستخط کئے جائیں گے۔  

 

برطانیہ کا ایشیائی تجارت پر تسلط کا نقطہ آغاز

  • ۳۹۸


بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سولہویں صدی عیسوی تک ایشیا میں تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں تک کہ مغربی بازار بھی ایشیائی تجارت سے بے حد متاثر تھے۔ اس درمیان جینوا اور وینس کے تجار اور اٹلی کے یہودی سب سے زیادہ دلالی کا کام کرتے تھے اور مسلمانوں کے تجارتی سامان کو مغربی بازار میں منتقل کرتے تھے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے صرف تین بنیادی راستے تھے اور اٹلی سے جڑے ہوئے تھے اور یورپ کے دیگر ممالک کو ایشیائی سامان خریدنے کے لیے اٹلی ہی جانا پڑتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ اٹلی یورپ کو ایشیا سے ملانے والا تنہا ملک تھا۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہ ملک اپنے زمانے میں مغربی سیاست اور کلچر کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ ایک جرمن محقق ’’زیگریڈ ہونکہ‘‘ کے بقول اگر مسلمانوں کی تجارت نہ ہوتی تو مغرب، آج مغرب نہ ہوتا۔
تجارت کے ان راستوں میں ایران اپنی دوبندر گاہوں؛ ہرمز اور کیش کی وجہ سے رابطہ کردار ادا کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ایران اس تجارت کے قلب میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں پرتگالیوں اور ہالینڈیوں نے ایران کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صدی وہ صدی ہے جس میں مغرب کی تجارت یہودیوں کے ذریعے عروج پکڑ رہی تھی۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
جب الزبتھ نے برطانیہ کی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تھی تب اس ملک کی معیشت انتہائی بدحالی کا شکار تھی لہذا درباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سمندروں میں تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا یا پھر غلاموں کی تجارت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اس دور میں ’’سر جان ہاوکینز اور سر فرانسیس ڈریک‘‘ ملکہ کے نزدیک دو اہم افراد شمار ہوتے تھے، ہاوکینز نے برطانیہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان تجارتی سلسلہ کی بنیاد رکھی علاوہ از ایں الزبتھ کے ذریعے انجام پانے والی غلاموں کی تجارت کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ تھی۔ ’ڈریک‘ بھی ان ایام میں ملکہ کا درباری کتا تھا جو ان کے حکم سے تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا۔
برطانیہ کی سمندری ڈاکہ زنی ۱۵۷۸ سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ امریکہ کی سرحد تک جڑا ہوا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ اس ملک خصوصا ملکہ کے دربار کو فراوان مال و دولت حاصل ہو سکے۔ برطانیہ کی یہ غارتگری اور اقتدار میں وسعت اس بات کا سبب بنی کہ ہسپانیہ کا بادشاہ، ایشیا اور امریکہ کے درمیان اپنے تجارتی واسطہ کا تحفظ کرے جو البزتھ کے نزدیک سخت دشمنی کا باعث بنا۔
ہسپانیہ کے زیر تسلط مغربی علاقوں میں ملکہ الزبتھ کے شرانگیز کارنامے سبب بنے کہ ۱۵۸۵ میں ان دوملکوں کے درمیان بیس سالہ طولانی جنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ بیس سال جنگ کے بعد برطانیہ کی بحریہ ہسپانیہ کی طاقتور کشتی ’آرماڈا‘ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ برطانیہ کا ایشیا اور آدھی دنیا کی تجارت پر سوسالہ قبضے کا نقطہ آغاز تھا۔
منبع: زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، موسسه مطالعات و پژوهش‌های سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷، ص۷۰-۴۱٫