-
Tuesday, 8 September 2020، 02:54 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایلہان عبد اللھی عمر(۱) ۱۹۸۱ میں صومالیہ میں پیدا ہوئیں اور لگ بھگ بیس سال قبل انہوں نے امریکہ میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شمالی ڈوکاٹا یونیورسٹی(University of North Dakota) میں علم سیاسیات و بین الاقوامی روابط کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔(۲)
امریکی کانگرنس میں پہلی مسلمان رکن
ایلہان عمر امریکی پارلیمنٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پہلی مسلمان خاتون ہیں جو کانگریس کی رکن بننے میں کامیاب ہوئی۔ انہوں نے ۲۰۱۶ میں امریکی کانگریس کے ایوان میں قدم رکھا (۳) تاکہ امریکی سیاسی معاشرے کے اندر رہ کر ٹرمپ، وہائٹ ہاوس، یہودی لابی اور صہیونی ریاست کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کرے۔
امریکی کانگریس میں شمولیت کے بعد ان کا سب سے پہلا اقدام ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف موقف اپنانا تھا۔ ایلہان عمر نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں تقریر کی اور میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش کو نسل پرستانہ اقدام سے تعبیر کیا اور ٹرمپ کو ایک گناہگار شخص ٹھہرایا۔ (۴)
ایلہان عمر کا دوسرا اعتراض وہائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی پر توجہ مرکوز کروانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر جو میزائلوں میں تبدیل ہو کر سعودی عرب کے ہاتھوں میں جاتے ہیں اور یمن کے مظلوم بچوں کے قتل عام کا باعث بنتے ہیں ان کے دل کو بہت ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ وہ یمن پر فوجی کاروائی کو وہائٹ ہاوس کا ناجائز اقدام سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
ایسے حالات میں کہ ہمارے پاس صحت کی دیکھ بھال اور طبی اخراجات پورا کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے ایسے حالات میں کہ امریکہ میں گھروں کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور امریکہ کی جوان نسل اپنے مستقبل سے ناامید ہے یمن پر حملہ کرنا اور یمن کے نہتے عوام کے قتل عام پر اتنا پیسہ صرف کرنا کہاں کا منطقی عمل ہے۔ (۵)
امریکہ آل سعود کے جرائم میں ہم دست
سعودی عرب علاقے میں وہائٹ ہاوس کے دستورات کے مطابق من و عن عمل کرتا ہے اور یمن کے مسئلے میں نیز امریکی سیاستوں کے تابع ہے۔ ایلہان عمر کی نظر میں آل سعود کا ہاتھ یمنی عوام اور جمال خاشقچی کے قتل کے خون میں رنگین ہے۔ اور وہ آل سعود کو ایسی رژیم سمجھتی ہیں جو انسانی حقوق کو ہمیشہ پامال کرتی آ رہی ہے۔ نیز وہ قائل ہیں کہ امریکہ یمن میں انجام پانے والی تمام جارحیت میں آل سعود کے ساتھ شریک ہے۔ (۶)
امریکہ کو پوری دنیا میں ۸۰۰ فوجی اڈے قائم کرنے کی ضرورت نہیں
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اپنے ملک کے علاوہ پوری دنیا میں پائے جانے والے فوجی ٹھکانوں کی تعداد ۸۰۰ سے زائد ہے جو ایلہان عمر کی تنقید کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے دنیا میں ۸۰۰ فوجی ٹھکانے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی نظر میں امریکہ کو صلح پسند ہونا چاہیے نہ جنگ طلب۔ اور صلح پسندی کے ذریعہ امریکہ کو دنیا والوں کا دل جیتنا چاہیے۔(۷)
صہیونی ریاست پر تنقید ممنوع کیوں
یہودی لابی اور صہیونی افکار کے زیر سایہ بننے والی امریکی پالیسیاں اس بات کا باعث بنتی ہیں کہ صہیونیت یا اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا اظہار رائے کرنا گویا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اگر چہ امریکہ کی سیاسی فضا حکومت پر تنقید کو قبول کرتی ہے لیکن صہیونی ریاست پر تنقید اور صہیونیوں کے خلاف کسی قسم کا موقف اپنانا امریکی سیاست کے لیے قابل ہضم نہیں ہے۔
امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے قبضے میں
ایلہان عمر امریکہ کے ان جملہ سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو امریکی سیاست کے پرآشوب ماحول میں پوری شجاعت کے ساتھ وہائٹ ہاوس کی ان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے جو اسرائیل اور صہیونی لابیوں کا بول بولتی ہیں۔ وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی سیاستدان صہیونی لابیوں کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا۔ امریکیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو آزاد ملک دکھلائیں، لیکن ایلہان عمر نے ایک مرتبہ اس موج کے خلاف پلٹا مارا جس کی وجہ سے اسے بے شمار تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایلہان عمر نے ۲۰۱۲ میں پہلی بار اور امریکی پارلیمنت کے ایوان میں قدم رکھنے سے پہلے اسرائیل کی نسبت اپنے موقف کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے دنیا کے تمام لوگوں کو مصنوعی خواب میں سلا رکھا ہے تاکہ کوئی اس کے جرائم کو دیکھ نہ سکے مگر یہ کہ خدا ان لوگوں کو اس نیند سے جگائے اور یہ اسرائیل کی شرانگیزیوں اور شیطنتوں کو دیکھ سکیں اور ان کی نسبت اپنا رد عمل ظاہر کر سکیں۔ (۸)
ایلہان عمر کا صہیونیت مخالف موقف امریکی ایوان نمائندگان میں داخل ہونے کے بعد بھی باقی رہا یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل بائکاٹ تحریک (BDS) کی حمایت کی۔ البتہ ان کی اس حمایت کا رنگ کچھ یوں تھا کہ جب امریکی پارلیمنٹ، تحریک بی ڈی ایس کے خلاف بل منظور کرنے جا رہی تھی تو انہوں نے پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت کی۔ (۱۰) ان تمام اقدامات کے بعد صہیونی میڈیا محترمہ ایلہان عمر کے خلاف طرح طرح کی بیان بازیاں کرنے پر جھٹ کیا۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف سے دستبردار نہیں ہوئیں اور کچھ عرصہ قبل اپنے ٹویٹر پیج پر ایک صارف کے جواب میں جس نے امریکی سیاستدانوں کی صہیونی ریاست کے تئیں حمایت کی دلیل کے بارے میں پوچھا تھا، انہوں نے لکھا:
’’یہ تمام حمایتیں ۱۰۰ ڈالر کے نوٹوں کی وجہ سے ہیں جو صہیونی لابی خصوصا AIPAC (۱۱) کی جانب سے امریکی سیاستدانوں کو ملتے ہیں(۱۲)۔
سام دشمنی (Antisemitism)
ایلہان عمر کے ٹویٹر پیج پر یہ چند الفاظ کا شائع ہونا تھا کہ ان پر سام دشمنی کا الزام عائد ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں امریکی سیاسی فضا میں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کھلے عام اسرائیل پرست ہیں انہوں نے سخت اور تلخ لہجے میں ایلہان عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو استعفیٰ دے دیں یا پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی کمیٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔(۱۳) ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پر ایک ویڈیو کلیپ شائع کی جس میں ۱۱ سمتبر کے واقعہ کی تصاویر تھیں اس کے ضمن میں ایلہان عمر کے جملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا : ’’ہم ہرگز اسے نہیں بھول سکتے‘‘۔ امریکی صدر کے اس تیز اور تلخ لہجے نے یہ واضح کر دیا کہ امریکہ میں ’آزادی اظہار‘ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
پارلیمنٹ کے اراکین بھی ایلہان عمر کے خلاف محاذ آرائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور گزشتہ مہینے ایلہان عمر کے خلاف قرارداد منظور کر کے AIPAC کے دستورات کی نسبت اپنی وفاداری اور صہیونی لابیوں کے ڈالروں سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کر دیا۔ (۱۴)
ایلہان عمر کے لیے امریکی عوام کی حمایت
امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی اراکین مجلس کی جانب سے ایلہان عمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد امریکی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ایلہان عمر کی حمایت کا اعلان کیا۔ نیز ۲۰۲۰ کے انتخابات کے امیدواروں جیسے الیکسینڈریا اوکاسیو کارٹز(۱۵)، الزیبیتھ وارن (۱۶) اور بیرنی سینڈرز(۱۶) نے بھی ایلہان عمر کے خلاف امریکی صدر کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ (۱۸)
آخر کار ایلہان عمر امریکی صدر، نمائندگان مجلس اور میڈیا کی جانب سے ڈالے گئے دباو کے باعث معذرت خواہی پر مجبور ہوئیں۔ البتہ انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ خاموش رہنے کے لیے ایوان مجلس میں داخل نہیں ہوئی ہیں بلکہ وہ ڈیموکریسی کے نفاذ کے لیے پوری کوشش کریں گی۔
لیکن جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ ایلہان عمر نے معافی مانگ لی لیکن ایک مسلمان نمائندہ ہونے اور صہیونیت مخالف موقف اپنانے کی وجہ سے ان کی جان کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ لہذا اب باقی ماندہ ایک سال کی مدت میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ایلہان عمر اپنے صہیونیت مخالف موقف پر باقی رہتی ہیں اور اسرائیل کے خلاف اظہار رائے کر پاتی ہیں یا نہیں؟
حواشی
[۱]. Ilhan Abdullahi Omar
[۲].https://www.ndsu.edu/magazine/vol14_number01/excerpts.html
[۳].http://www.shia-news.com/fa/news/130359/
[۴].https://freebeacon.com/politics/ilhan-omar-denounces-trumps-racist-sinful-big-wall/
[۵]. https://www.newyorker.com/news/dispatch/how-ilhan-omar-won-over-hearts-in-minnesotas-fifth
[۶]. https://www.minnpost.com/national/2018/12/whos-afraid-of-ilhan-omar-saudi-arabia-for-one/
[۷]. https://www.washingtonpost.com/opinions/ilhan-omar-we-must-apply-our-universal-values-to-all-nations-only-then-will-we-achieve-peace/2019/03/17/0e2d66fc-4757-11e9-aaf8-4512a6fe3439_story.html
[۸]. https://www.jpost.com/Opinion/Ilhan-Omars-antisemitism-has-consequences-580355
[۹]. Boycott, Divestment and Sanctions
[۱۰]. https://www.timesofisrael.com/woman-running-for-congress-in-minnesota-rejects-anti-semitism-accusations/
[۱۱]. American Israel Public Affairs Committee
[۱۲]. https://ir.voanews.com/a/iilhan-jews-tweets/4782937.html
[۱۳]. https://www.isna.ir/news/97112512876/
[۱۴]. http://ana.ir/fa/news/32/366453
[۱۵]. Alexandria Ocasio-Cortez
[۱۶]. Elizabeth Warren
[۱۷]. Bernie Sanders
[۱۸]. https://www.isna.ir/news/98012409568/
[۱۹]. https://ir.voanews.com/a/omar-trump-11sep-twitter/4876006.html
[۲۰]. Nancy Pelosi
[۲۱]. https://www.isna.ir/news/98012610834
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔