-
Friday, 25 September 2020، 01:37 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی ریاست گورجیا (Georgia) نے اپنے تازہ ترین اقدامات میں ابارشن کے ممنوع ہونے کا قانون منظور کیے جانے کی خبر دی ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ میں فلم سازی کی دو بڑی کمپنیوں؛ نٹ فلیکس (Netflix) اور ڈسنی (Disney ) نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس ریاست میں یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو انہیں یہ ریاست چھوڑنا پڑے گی۔
ڈسنی کے سربراہ ’’باب ایگر‘‘ (Bob Iger) (۱)جن کا تعلق یہودی مذہب سے ہے نے رائٹرز کے ساتھ گفتگو میں کہا:
’’اس قانون کی منظوری کے مخالف فنکاروں کی درخواست کا احترام کرتے ہوئے ہم اس قانون کی منظوری کے بعد گورجیا کو چھوڑ دیں گے‘‘۔
امریکی ریاست گورجیا فلم سازی کی صنعت میں امریکہ کا دھڑکتا دل ہے چونکہ اس ریاست میں فلم انڈسٹریوں کے لیے ٹیکسز اور مالیات کی ادائیگی معاف ہے۔ اس وجہ سے ہالی وڈ کی دو معروف فلمیں Avengers اور Black Panther اسی ریاست میں بنائی گئی ہیں۔ (۲)
دو سوالات
۱۔ امریکہ کے لیبرل معاشرے اور انفرادی آزادی کے پیش نظر کیوں ایسے قانون کی منظوری کا اقدام عمل میں لایا جا رہا ہے؟
۲۔ دو بڑی فلم ساز کمپنیوں کی اس قانون کے ساتھ مخالفت کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے کون سی وجوہات پوشیدہ ہیں؟
پہلے سوال کا جواب
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ابارشن عورتوں کے لئے بہت سارے جسمانی نقصانات کا حامل ہے۔ عام طور پر جو عورتیں یہ اقدام کرتی ہیں انہیں سینے، رحم اور بچے دانی میں کینسر کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رحم سے باہر حاملہ ہو جانے کا احتمال، افسردگی کا حملہ، رحم میں سوراخ ہونے اور دوبارہ حاملہ نہ ہونے کے خطرات بھی ابارشن کے نتائج میں شامل ہیں۔ (۳)
دوسرا مسئلہ جسمانی نقصانات سے قطع نظر ابارشن کے اخراجات بھی امریکی ہسپتالوں میں اپنی جگہ کافی زیادہ ہیں اور پھر ابارش کی وجہ سے معاشرے کو براہ راست بہت ساری مشکلات جیسے آبادی میں کمی، لیبر کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ کا سامنا ہے جو ملکی پالیسیوں کے برخلاف ہیں۔
امریکہ میں بچہ لانا
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سماج میں آبادی بڑھانے کی بالکل ترغیب نہیں دلائی گئی۔ دوسری جانب سے ریچارڈ نیکسن کے دورہ صدارت میں ابارش کو جرم ہونے کی حالت سے نکال دیا گیا اور امریکہ اور دیگر ممالک میں راکفلر کمیشن کے ذریعے آبادی کنٹرول کی پالیسیوں کو عمل میں لایا گیا۔
بطور مثال امریکہ میں ملازم حاملہ عورتوں کو وضع حمل کے دوران دی جانے والی چھٹی بند کر دی گئی جو یقینا حقوق نسواں کی کھلی مخالفت تھی۔
امریکہ میں ہم جنس پرستی کا رواج
امریکہ اور دیگر ممالک میں ہم جنس پرستی کا رواج بھی انہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پھیلا ہے۔ البتہ امریکہ میں مہاجرین کی کثرت اور آبادی میں بھی کچھ اضافہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کو کبھی آبادی میں کمی یا لیبر کی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ لیکن جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق پڑھے لکھے معاشرے میں یا سفید پوست سماج میں آبادی کا تناسب بہت کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری جانب سے مہاجرین یا سیاہ پوست اقلیتوں کی آبادی کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ چیز ممکن ہے اس ملک کے مستقبل میں آبادی کے تناسب کا نقشہ بدل دے اور یقینا اگر ایسا ہوا تو امریکی سیاست میں بھی قابل توجہ تبدیلیاں نظر آ سکتی ہیں۔(۴)
اسی وجہ سے امریکہ نے ۲۰۱۷ سے اپنی آبادی بڑھانے کی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے، حاملہ خواتین کے لیے چھے ہفتے کی چھٹی منظور کر دی گئی ہے اور حتیٰ کہ غیر سرکاری اداروں میں بھی اس قانون پر عمل کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس بنا پر امریکی ریاست گورجیا میں ابارشن کے قانون کی منظوری اسی مقصد کے پیش نظر ہو سکتی ہے۔ (۵)
دوسرے سوال کا جواب
اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دنیا کی دو بڑی فلم ساز کمپنیوں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے اور حتیٰ کہ اس ریاست کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی واضح دلیل ہالی ووڈ یا دنیا کی دیگر بہت ساری فلم ساز انڈسٹریوں میں پائی جانے والی مشکل ’جنسی تعلقات‘ ہے۔ جنسی اسکینڈل اور ناجائز تعلقات فنکاروں، اداکاروں اور فلمی ڈائریکٹروں کی زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ عامل ہے جو ان کمپنیوں کی اس وقت رسوائی کا سبب بن سکتا ہے جب ابارش کی ممنوعیت کا قانون لاگو ہو جائے۔ لہذا انہیں اپنی بہتری اسی میں دکھائی دیتی ہے کہ وہ ایسی ریاست کو چھوڑ دیں جس میں انہیں میڈیا کے سامنے رسوا ہونا پڑے۔
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد
ہالی ووڈ اداکاروں اور فنکاروں میں جنسی فساد کا پایا جانا کوئی نئی اور نرالی چیز نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال نیویارک ٹائمز نے ۲۰۱۷ میں امریکن فلم پروڈیوسر ’ہاروی وینسٹائن‘ (Harvey Weinstein) کے جنسی اسکینڈل سے نقاب ہٹا کر پیش کی۔ نیویارک ٹائمز کا یہ اقدام باعث بنا کہ دیگر کئی اداکاروں جیسے بن افلک (Ben Affleck) ، الیور اسٹن(Oliver Stone )، ڈاسٹن ہافمن (Dustin Lee Hoffman) )، کوئین اسپیسی (Kevin Spacey) کے جنسی اسکینڈلز اور اخلاقی برائیاں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ واینسٹائن ہالی ود کی معروف کمپنی میرامکس(Miramax) کے بانی تھے کہ جب ۵۰ سے زائد عورتوں جن میں معروف ادا کارہ آنجلیا جولی اور گوئیٹ پالٹرو بھی شامل تھیں نے اپنے ساتھ کئے گئے ناجائز تعلقات سے پردہ ہٹایا تو وینسٹائن اپنی کمپنی سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔ (۶)
معروف ہالی ووڈ پروڈیوسرز کے ذریعے عورتوں پر جنسی تشدد
دو سال پہلے گلڈن گلوب (Golden Globe) تقریب کے دوران بعض مرد و عورتیں سیاہ لباس پہن کر تقریب میں حاضر ہوئیں۔ ان میں دو معروف اداکارہ ’فرانسیس مک ڈورمینڈ‘ ( Frances McDormand) اور سورشا رونن (Saoirse Ronan) بھی شامل تھی جو اس فیسٹیول تقریب میں پہلے انعامات حاصل کرنے کی حقدار ہوئیں۔ ان کے سیاہ لباس پہننے کی وجہ (#Me too) کمپین کی حمایت کرنا تھیں جو ہالی ووڈ میں عورتوں پر جاری جنسی تشدد کے خلاف چلائی گئی تھی۔ (۷)
ہالی ووڈ کی حالت اس قدر افسوس ناک ہے کہ معروف یہودی اداکارہ نیٹیلی پورٹمن (Natalie Portman) نے اپنے ہر پروجیکٹ میں مردوں کے ذریعے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ۱۰۰ سے زیادہ مرتبہ مجھے جنسی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ (۸)
امریکی مصنف برنڈی نائٹ کے بقول:
’’ہالی ووڈ دور سے ایک رنگ برنگی اور ثروت و شہرت سے لبریز صنعت نظر آتی ہے لیکن جب آپ اس کے اندر گھسیں گے تو آپ کو ذلت، رسوائی اور غیر اخلاقی برائیوں کے سوا اس میں کچھ نظر نہیں آئے گا‘‘۔
البتہ ہالی ووڈ میں اخلاقی فساد کا مسئلہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی امریکہ کی یہ صنعت اس مشکل سے دوچار رہی ہے اور بہت ساری کتابیں بھی اس بارے میں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اسکاٹ باورز کی تالیف ’ہالی ووڈ میں میری زندگی کے اتفاقات اور فلمی ستاروں میں خفیہ جنسی روابط‘ ( طبع ۲۰۱۲)، امریکی سینما کے اداکار کنٹ انگر کی تالیف ’ہالی ووڈ بیبلن‘(طبع ۱۹۸۱) اور جیمز رابرٹ پریش کی تالیف ’ہالی ووڈ کی طلاقیں‘ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
آٹھ بار طلاق
ہالی ووڈ میں حالات اس قدر شرمناک ہیں کہ پریش کہتے ہیں: ہالی ووڈ کے ستاروں کی ذاتی زندگی میں مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ حتیٰ بعض عورتوں نے ۸، ۹ بار طلاق لئے ہیں۔ (۹)
علاوہ از ایں، ڈسنی کمپنی کی جانب سے اخلاقی فساد کی حمایت بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے اس سے قبل اپنی مصنوعات کہ جس کے اصلی مخاطب بچے ہیں میں جنسی مسائل کی ترویج کے علاوہ ۱۹۹۶ میں ہم جنس بازوں کی کانفرنس کو مالی امداد بھی دی۔
ڈسنی انٹرنٹ کی دنیا میں پورن فلموں کو پھیلانے کی حمایت کرنے اور بچوں کو جنسی مسائل اور شہوت انگیز شارٹ نہ دکھانے کی مخالفت کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسنی کے یہودی منیجنگ ڈائریکٹر مائکل اسنر نے ۲۰۱۱ میں ایک رپورٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ اس کمپنی کے ۶۳۰۰۰ اراکین میں سے ۴۰ فیصد ہم جنس پرست ہیں۔ (۱۰)
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈسنی کہ جس کے تمام سرکردہ یہودی ہیں کے ایسے اقدامات عالمی صہیونیت کی پالیسیوں کا حصہ ہیں جو تلاش و کوشش کرتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں فساد و تباہی پھیلا کر انہیں اخلاقی برائیوں میں الجھائے رکھیں اور خود ان پر حکومت کریں۔
حواشی
۱ – http://jewishbusinessnews.com/2015/02/05/bob-iger-talks-live-streaming-for-disneys-channels/.
۲- https://ir.voanews.com/a/netflix-disney-abortion-laws/4938954.html.
۳- https://www.chetor.com/129580.
۴- http://cpdi.ir/news/content/3029.
۵- https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/02/02/1386833.
۶- https://www.mashreghnews.ir/news/807044.
https://www.mizanonline.com/fa/news/430698.
۷- افکار نیوز، فرهنگ هنر، تاثیر رسوایی جنسی هالیوود بر پوشش بازیگران در گلدن گلوب/تصاویر، شناسه خبر: ۷۰۱۳۲۴ .
https://www.afkarnews.com
https://www.mashreghnews.ir/news/818301.
۸- https://www.mashreghnews.ir/news/801399.
۹- http://www.shafaf.ir/fa/news/108226.
۱۰- http://jc313.ir/?newsid=56.