-
Wednesday, 30 September 2020، 02:03 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے فلسطین علماء کونسل کے ترجمان اور مشاورتی کمیٹی کے سربراہ شیخ ’محمد صالح الموعد‘ کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛
خیبر: حالیہ دنوں بحرین میں اقتصادی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے جو امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کے نفاذ کے لیے مقدمہ کہی جا رہی ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی عربی معاشرے کو اس منصوبے سے مقابلے کے لیے سیاسی، ثقافتی، عسکری اور سفارتی اعتبار سے کیا اقدامات انجام دینا چاہیے؟
۔ صدی کی ڈیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کافی تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا سب سے پہلی چیز اسلامی عربی اتحاد ہے جو اس منصوبے کے مد مقابل تشکیل پانا چاہیے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر کانفرنسیں کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے سینچری ڈیل کے مخالف گروہوں کو جگہ جگہ احتجاجی جلسے جلوس نکال کر اپنا موقف ظاہر کرنا چاہیے۔ چوتھے یہ کہ علمائے دین کو صہیونی ریاست کے ساتھ روابط برقرار کرنے کی حرمت پر فتاوا دینا چاہیے۔ تمام علمائے دین کو اس کے خلاف موقف اپنانا چاہیے۔ یہ چیز کافی موثر ثابت ہو گی۔ پانچویں یہ کہ اسلامی عربی امت اعتراض آمیز حرکات انجام دے، اور صرف مذمت کرنے پر اکتفا نہ کرے۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک ہمیں اس اقدام کے خلاف اعتراض کرنا چاہیے۔ ملت فلسطین بھی اس راستے میں مکل تیاری رکھتی ہے اور واپسی ریلیوں کے ذریعے صہیونیوں کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی اس راہ میں حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر: امریکہ نے صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا اور اسرائیلی حکام نے بدلے میں ان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا، آپ کا ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف کیا رد عمل ہے؟
۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو اقدام بھی صہیونی دشمن کے فائدے میں انجام پائے گا وہ فلسطین پر کاری ضربت ہو گی اور ہم صہیونیوں کے اس وسعت طلبانہ نقشے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نہ صرف فلسطین کی زمینوں کو واپس نہیں کر رہے ہیں بلکہ عربی سرزمینوں جیسے گولان شام کا حصہ ہے پر بھی غاصبانہ قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صہیونیوں نے گولان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ رکھ کر ان کے عمل کی جزا دینا چاہی ہے لیکن شام کے عوام انہیں اس کام کی اجازت نہیں دیں گے وہ قومی اور اسلامی اتحاد کے ذریعے گولان پہاڑیوں کو واپس لے لیں گے۔ اسی طرح فلسطینی بھی غزہ پٹی، مغربی کنارے اور ۱۹۴۸ کی دیگر فلسطینی اراضی کو واپس لیں گے اور دشمن کو اس ملک سے نکال باہر کریں گے۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے اور دشمن کا ہماری زمینوں میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
خیبر: کیوں امریکہ نے سینچری ڈیل کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کو مرکزیت دی اورامریکہ اس طریقے سے ظاہر کر رہا ہے کہ گویا وہ فلسطینیوں کی اقتصادی مدد کرنا چاہتا ہے؟
۔ اس کانفرنس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو سینچری ڈیل کے لیے مقدمہ قرار دی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق دلوانے کے بجائے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینا ہے۔ ہم اس کانفرنس میں شرکت کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں شرکت کو فلسطین، قرآن، اسلام اور خون شہدا کی نسبت خیانت جانتے ہیں۔ ٹرمپ اس کانفرنس کے عناوین کو دلچسپ بنا کر اس کے مقاصد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کانفرنس کا اصلی مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ تمام عالم اسلام اور عرب، فلسطینیوں کا ساتھ دیں اور اس کانفرنس کی مذمت میں اپنی صدائے احتجاج بلند کریں۔
خیبر: سینچری ڈیل کی مخالفت ایسا عامل ہے جس سے تمام فلسطینی گروہوں میں اتحاد پیدا ہو چکا ہے۔ آپ اس وحدت کو امریکی صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۔ ہم اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے صہیونی سازشوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کے شروع میں صہیونیوں کے خلاف کچھ کاروائیاں انجام پائیں جو ان کی پسپائی کا سبب بنیں اور ایک بڑی کامیابی ہمیں حاصل ہوئی۔ دشمن فلسطینیوں کے اتحاد اور ان کی متحدانہ کاروائیوں سے خوف کھا گیا اور یہ وحدت دشمن سے مقابلے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور دوسری جانب فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے واپسی ریلیاں بہت ہی حائز اہمیت ہیں۔ ہمارا شعار صہیونی دشمن کا مقابلہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عربوں، مسلمانوں نیز اسلامی جمہوریہ ایران سب کو یکسو موقف اپنانا چاہیے تاکہ سینچری ڈیل کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ اگر چہ یہ جنگ طولانی جنگ ہے لیکن حق صاحبان حق کو مل کر رہے گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ