‘دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل’ کا تعارف

  • ۴۸۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونی تحریک نے جنم لیا اور ۱۸۹۷ میں تھیوڈر ہرٹزل کی زیر سرپرستی پہلا اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس میں ہرٹزل اور ان کے ساتھی گر چہ بظاہر ایک مستقل یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے اکٹھا ہوئے تھے لیکن اندرونی طور پر اس اجلاس کا مقصد ایک عالمی حکومت کی تشکیل اور پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی تھا۔
اس اجلاس کے بعد صہیونی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ کہ جس کے بانی یہودی تھے استعماری اور سامراجی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور حتیٰ امریکہ میں دن بدن پروان چڑھنے اور پختہ ہونے لگا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے مختلف معاشروں میں نفوذ کرنا اور ان کے سیاسی، معیشتی اور ثقافتی قوانین میں تبدیلیاں لانا شروع کر دیا۔ ان کے ڈھانچوں کو اس طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ اقتصادی حوالے سے انہیں سامراجی طاقتوں سے وابستہ کریں، ان کی ثقافت اور کلچر کو انحراف اور بے راہ روی کا شکار بنائیں اور ان کی سیاست کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ آخرکار ان کی تلاش و کوشش نتیجہ بخش ثابت ہوئی اور ۱۹۴۸ میں سامراج نے اسرائیل نامی ایک ناجائز اولاد کو جنم دے کر اسلامی معاشرے کے لیے دائمی پریشانی اور مصیبت کا سامان فراہم کر دیا۔
اس ریاست کی تشکیل کے بعد، فلسطین کے عوام کو نہ صرف زبردستی ان کے وطن سے نکال باہر کیا بلکہ بہت ساروں کو انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا۔ پڑوسی ممالک جیسے لبنان، شام اور اردن بھی اس ریاست کے ذریعے مورد حملہ واقع ہوئے، نیز پوری دنیا میں بے شمار انسانوں کو صہیونی ریاست کی مخالفت کی وجہ سے آزار و اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر بغور دیکھا جائے تو علاقے میں صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد جنوب مغربی ایشیا کے ممالک یا دوسرے لفظوں میں تمام اسلامی ممالک کا امن و سکون چھن گیا اور ہر بار کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ لہذا عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن جیسا کہ خداوند عالم نے بھی قرآن کریم (۱) میں یہودیوں کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے یہ یہودی ریاست ہے۔ اور چونکہ اپنی جان و مال کا تحفظ انسان پر واجب ہے اور جو شخص انسان کے جان و مال پر حملہ آور ہو اس کا مقابلہ کرنا بھی واجب ہے اس عنوان سے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بخوبی پہچاننا اور اس کی صحیح شناخت حاصل کرنا بھی ضروری اور واجب ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے دشمن “صہیونی ریاست” کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی صحیح شناخت حاصل کریں۔
اسی مقصد کو لے کر ڈاکٹر “مجید صفاتاج” نے اسلام و انسانیت کے اس دائمی دشمن کے حوالے سے معلومات اکھٹا کیں اور چھے جلدوں پر مشتمل “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” کے نام سے انسائکلوپیڈیا تالیف کیا۔
ڈاکٹر صفاتاج اس دائرۃ المعارف کے مقدمے میں مذکورہ مقصد کے علاوہ دیگر اہداف و مقاصد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو درج ذیل نکات سے عبارت ہیں:
۱؛ صہیونیت کو مختلف عسکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی حوالے سے پہچنوانا نیز مختلف معاشروں میں اس کے گہرے نفوذ کو پہچنوانا
۲؛ ایک معتبر تاریخی اور معلوماتی ماخذ اور منبع فراہم کرنا تاکہ اسلامی حکومتیں اس کی مدد سے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکیں۔
۳؛ تاریخی تحریف اور صہیونیت کی طرف سے بیان کئے جانے والے جھوٹے دعوؤں کا مقابلہ کرنا۔
یہ دائرۃ المعارف دوہزار سے زائد مختلف موضوعات جیسے ممتاز شخصیتوں کا تعارف، اسرائیل کے جرائم، یہودی فرقے اور ٹولے، ان کے عقائد و رسومات، ان سے وابستہ ادارے، تنظمیں اور ذرائع ابلاغ، مختلف ممالک میں صہیونیت کا نفوذ، اسرائیل کا حکومتی ڈھانچہ وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔
لہذا “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” ایک علمی اور تحقیقی ماخذ و منبع ہے جو صہیونیت اور اسرائیل کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اسکالروں کی علمی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔
(1) لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا.(مائده/۸۲).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: میلاد عسگرپور

 

یہودیت سے نمٹنے کی قرآنی حکمت عملی

  • ۴۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گوکہ آج کچھ عالم اسلام کے اندر سے کچھ ایسی قوتوں نے یہود کی گود میں بیٹھنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھ کرکے ان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو عیاں کر دیا ہے، جو کسی وقت کچھ مسلمانوں کے لئے اسلام کی علامت اور خادم الحرمین سمجھے جاتے تھے، لیکن قرآن کریم کسی شخص یا کسی قبیلے یا کسی بادشاہت کے تابع نہیں ہے اور اس کے تمام قواعد و ضوابط پابرجا اور استوار ہیں۔
قرآن کریم نے یہود کو مؤمنوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُواْ (۱)؛ اے پیغمبر! یقینا آپ یہود اور مشرکین کو ایمان لانے والوں کا سخت ترین دشمن پائیں گے۔
یہ مسائل آیات قرآنی میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس مضمون میں اس کے بعض زاویوں اور پہلؤوں کا بیان مقصود ہے۔
یہودی جرائم اور شرمناک کرتوت صرف قرآنی آیات اور قرآنی تاریخ تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی خونخوارانہ خصلتیں حال حاضر میں بھی جاری و ساری ہیں۔ فلسطین اور لبنان میں ان کے انسانیت کشت جرائم اور جارحانہ اقدامات ان کی بنیادی خصلتوں کو زیادہ واضح کررہے ہیں یہاں تک کہ آج محض وہ لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہیں یا پھر یہودی جرائم کی وکالت کررہے ہیں جو کسی مغربی یا کسی عرب یا یہودی ادارے سے وابستہ ہوں، ورنہ تو کو‏ئی بھی انسان اس بظاہر تہذیب یافتہ قوم اور درحقیقت انسانیت سے کوسوں دور جماعت سے انسانی منطق اور سلوک کی توفع نہیں رکھتا اور سب جانتے ہیں کہ یہ قوم انسانی اصولوں اور منطق کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ یہ وہی جذبہ ہے جس کی طرف قرآن کریم نے “لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُواْ” فرما کر اشارہ کیا ہے۔
۱- بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن کی صریح آیات کریمہ
¤ وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً (۲)
اور ہم نے اس کتاب (توراۃ) میں بنی اسرائیل کو آگاہ کر دیا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے [خون خرابہ کروگے] اور بڑی سرکشی کرو گے۔
¤ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولیٰهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِی بَأْسٍ شَدِیدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً؛ تو جب ان میں سے پہلے فساد کا وقت آئے گا تو ہم [تمہاری سرکوبی کےلئے] تم پر بھیجیں گے اپنے ایسے بندے جو بڑی سخت لڑائی لڑنے والے ہوں گے تو وہ [تمہاری] آبادیوں کے اندر داخل ہو جائیں گے اور یہ وعدہ ہے جو ہو کر رہے گا۔ (۳)
¤ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیراً؛ پھر [کچھ عرصہ بعد] ہم تمہیں ان کے اوپر غلبہ دیں گے اور تمہیں مال و اولاد کے ساتھ تقویت پہنچائیں گے اور تمہاری نفری کو بڑھا دیں گے۔ (۴)
¤ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ وَلِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِیُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِیراً؛ اگر تم بھلائی کرو گے تو خود اپنے ہی نفس کے لیے بھلائی کرو گے اور اگر برائی کرو گے تو وہ بھی اپنے لئے کرو گے۔ تو جب دوسرے وعدے کا وقت آئے گا تو پھر [بھی] ویسے ہی لوگ آئیں گے کہ تمہارا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گے اور اس مسجد [الاقصی] میں اسی طرح داخل ہو جائیں گے جیسے پہلی دفعہ داخل ہوئے تھے۔ اور جس جس چیز پر کہ ان کا قابو ہوگا وہ اسے تباہ و برباد کردیں گے۔ (۵)
۲- مذکورہ بالا آیات کریمہ کے کلیدی الفاظ، جن کا تعلق اس مضمون کے عنوان سے جن پر ترتیب ملحوظ رکھے بغیر غور کیا جاسکتا ہے۔
¤ قَضَیْنَا: حتمی فیصلہ / قطعی حکم
¤ لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ: عالمی سطح کا فساد / عالمی خون خرابہ
¤ مَرَّتَیْنِ: برائی، فساد اور خون خرابے کی دہرائی
¤ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً: بہت بڑی سرکشی
¤ بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا: اللہ کے خاص بندوں کو مشن سونپنا اور اس جماعت پر ان کا مسلط ہونا
¤ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ: گھر گھر تلاشی
¤ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ: بنی اسرائیل کو ایک بار پھر اقتدار پلٹانا
¤ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ: دوسری سرکشی کے بعد روسیاہی اور حلیوں کا بگڑ جانا
¤ لِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ: مسجد [الاقصی] کی فتح دوسری مرتبہ
۳- قابل فہم نکات
¤ جو کچھ کتاب تورات یا لوح محفوظ میں ثبت ہؤا ہے، ہو کر رہنے والا وعدہ ہے: “وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ ۔۔۔ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً “۔
¤ آیت کے سیاق سے مستقبل میں بنی اسرائیل کے فساد اور سرکشی کی خبر ملتی ہے: “وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ”۔
¤ اس فساد اور اور سرکشی کے دو مرحلے ہونگے: “لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ”۔
¤ یہ دو واقعات عالمی اور وسیع ہونگے: “لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً”۔
¤ پہلے وعدے میں اللہ کے خاص بندے اس جماعت پر غلبہ پائیں کے: “بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا”۔
¤ شدت اور طاقت مشن پر روانہ کئے جانے والے لشکر کی امتیازی خصوصیت ہے: “أُوْلِی بَأْسٍ شَدِیدٍ”۔
¤ یہ اقدام اور کاروائی بنی اسرائیل کی گھر گھر تلاشی پر منتج ہوگی: “فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ”۔
¤ بنی اسرائیل کو اقتدار کا پلٹایا جانے کا تذکرہ، ان کی کامیابی یا فریق مقابل کی شکست کا سبب بیان کئے بغیر: “ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ”۔
¤ یہ جماعت پھر بھی اموال و اولاد کی کثرت کے ذریعے طاقتور ہوجائے گی: “وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیراً”۔
¤ دوسرے واقعے کا سبب بنی اسرائیل کے اپنے برے اعمال (اور ناشکری) بیان کیا جاتا ہے: “إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا”۔
¤ دوسری سرکشی کا نتیجہ خصوصی افواج کے ہاتھوں اس جماعت کی روسیاہی اور حلیہ بگڑ جانے کی صورت میں برآمد ہوگا: “فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ”۔
¤ اللہ کے خصوصی بندے ایک بار پھر مسجد میں داخل ہونگے جیسے کہ وہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے: “لِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ”۔
¤ اس بار وہ کچھ یوں نیست و نابود ہوجائیں گے کے بنی اسرائیل کا کوئی اثر ہی نہ رہے گا: “وَلِیُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِیراً”۔
۴- تفسیری نکتے:
¤ “الْمَسْجِدَ” سے مراد سورہ اسراء کی پہلی آیت کے قرینے کی بنیاد پر “مسجد الاقصی” ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى”۔ (۶)
¤ عبارت “عِبَاداً لَّنَا” ان افواج کے اخلاص کی علامت ہے کیونکہ “عِبَاداً لَّنَا” “عبد”، “عِبَاد” اور “عِبَادنَا” سے مختلف ہے اور “عِبَاداً لَّنَا” کی دلکش عبارت میں بندوں کی برگزیدگی مضمر ہے۔
¤ دلچسپ امر یہ ہے کہ عبارت “عِبَاداً لَّنَا” صرف ایک بار قرآن میں آئی ہے اور عبارت “عِبَادنَا” بھی صرف انبیاء علیہم السلام کے لئے بیان ہوئی ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ؛ یقینا وہ ہمارے خالص چنے ہوئے بندوں میں سے تھے”۔ (۷)
خضر نبی علیہ السلام (بعض تفاسیر کی روشنی میں): “فَوَجَدَا عَبْداً مِّنْ عِبَادِنَا آتَیْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْماً؛ سو انھوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا۔ اور اسے اپنی طرف سے (خاص) علم عطا کیا تھا”۔ (۸)
حضرت نوح علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۱۰)
حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام: “إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۱۱)
حضرت الیاس علیہ السلام: إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے (۱۲)
انبیاء علیہم السلام: “وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ؛ اور ہمارا قول پہلے ہو چکا ہے اپنے بندوں کے لئے جو پیغمبر بنائے گئے ہیں”۔ (۱۳)
حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام: “وَاذْکُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِیمَ وَإِسْحَقَ وَیَعْقُوبَ أُوْلِی الْأَیْدِی وَالْأَبْصَارِ؛ اور یاد کرو ہمارے بندگان خاص ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کو جو خاص دسترسوں اور نگاہوں والے تھے”۔ (۱۴)
حضرت نوح و حضرت لوط علیہما السلام: “ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ؛ کافروں کے لحاظ سے اللہ نے مثال پیش کی ہے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی جو ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں تو انھوں نے ان سے غداری کی تو ان دونوں نے ان دونوں کو خدا کے عذاب سے کچھ بھی نہیں بچایا اور کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ دونوں آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ”۔ (۱۵)
نیز ان بندوں کا تذکرہ اس صورت میں آیا ہے:
“تِلْکَ الْجَنَّةُ الَّتِی نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن کَانَ تَقِیّاً؛ یہ ہے وہ بہشت جس کا ورثہ دار بنائیں گے ہم اپنے بندوں میں سے اسے جو پرہیز گار ہو”۔ (۱۶)
“ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا؛ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا ہے”۔ (۱۷)
“وَلَکِن جَعَلْنَاهُ نُوراً نَّهْدِی بِهِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا؛ مگر ہم نے اسے ایک نور بنایا ہے جس سے ہم ہدایت کرتے ہیں، جس کو چاہیں، اپنے بندوں میں سے”۔ (۱۸)
“قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَیْتَنِی لأُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ * إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ * قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ؛ اس [ابلیس] نے کہا اے میرے پروردگار! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی زمین میں ان (بندوں ) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا ٭ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ٭ فرمایا یہ سیدھا راستہ ہے مجھ تک پہنچنے والا”۔ (۱۸)
– عبارت “… فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ… و… لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ وَلِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ” سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعات مسجد الاقصی اور فلسطین کے آس پاس ہی رونما ہونگے۔
– بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس طرح کے عالمی سطح کے فتنے ـ الہی لشکر کے ہاتھوں اتنے وسیع واقعات اور سرکوییوں کے ساتھ ـ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جو کچھ “بخت النصر” اور “طرطیانوس” کے ہاتھوں یہودیوں کی سرکوبی کی داستانیں مذکورہ بالا خصوصیات سے مطابقت نہیں رکھتیں؛ کیونکہ یا تو وہ مسائل عالمی سطح کے نہیں تھے، یا ان خاص ادوار میں بنی اسرائیل برحق تھے؛ اور اہم بات یہ کہ بغاوت اور سرکشی یہودی یکتاپرستوں کے خلاف مشرکین کی طرف سے تھی نہ کہ بنی اسرائیل کی طرف سے۔
– لگتا ہے کہ اس قوم کی سرکشی اور فتنہ گری دور معاصر میں صہیونیت اور اسرائیل نامی ریاست کے قیام کے سانچے میں ـ نیل سے فرات تک یہودی ریاست کے قیام کے نعرے کے ساتھ ـ وقوع پذیر ہوئی ہے، یہ واقعہ آیات قرآنی کی پیشینگوئی کے مطابق پہلے واقعے پر منطبق ہوسکتا ہے؛ گو کہ اس سلسلے میں قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہنا چاہئے؛ لیکن نشانے اس سلسلے میں زیادہ ہیں۔
– اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ دوسرے حادثے کا نتیجہ اس جماعت کا قلع قمع ہوجانے کی صورت میں برآمد ہوگا؛ لگتا ہے کہ یہ ایک آخری اور عالمی واقعے کی طرف اشارہ ہے؛ وہ واقعہ جس کا وعدہ دیا گیا ہے جس کا یہودی، عیسائی اور مسلمین ـ بالخصوص شیعیان آل رسول(ص) ـ انتظار کررہے ہیں۔
۵- چند تکمیلی نکتے
– اس حقیقت کو نظر سے دور نہیں رکھنا چاہئے کہ جو کچھ حالیہ صدی (بیسویں) صدی میں فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں رونما ہؤا، اس کا حضرت موسی علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے؛ اور جہاں تک صہیونیت کے جعل کردہ عقائد تمام یہودیوں کے ہاں مقبولیت نہیں رکھتے؛ کیونکہ کئی یہودی گروہ صہیونیت کے خلاف ہیں۔ دین موسی(ع) میں صہیونیت کو شاید دین اسلام میں وہابیت سے تشبیہ دی جاسکے۔
– حزب اللہ لبنان کی اسلامی مزاحمت، جو مکتب خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے متعین کردہ راستے اور عباداللہ کے صراط مستقیم پر گامزن ہے اور اس راستے میں بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کرچکی ہے؛ جس سے اللہ کے وعدے والی عظیم فتح کی نوید کی خوشبو محسوس ہورہی ہے۔
– واضح امر ہے کہ اللہ کے خاص بندے ہر گروہ اور قوم کے افراد نہیں ہوسکتے جو کسی ظاہری اسلامی ہدف کو لے کر ایک مخلصانہ تحریک کا آغاز کرچکے ہوں اور وہ نصر الہی سے فتح حاصل کرسکیں۔ چنانچہ مختلف تفکرات اور جماعتوں کی پہچاننے میں بہت زیادہ غور و تامل کی ضرورت ہے، پس پردہ عوامل اور استکباری قوتوں کے ساتھ خفیہ سازباز سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ القاعدہ اپنے حساب سے اہم ترین جہادی گروہ تھا لیکن اس کے پس پردہ عوامل کچھ اور تھے اور اگر اس کے تمام دعوے صحیح ہوتے تو آج ہم اسے اسلام اور اہل اسلام کے بدترین دشمن “یہودی ریاست” کے مد مقابل پاتے۔
– آج جو میدان میں ہیں وہ میدان میں دکھائی دے رہے ہیں اور جو بظاہر میدان میں تھے وہ مؤمنوں کے شدید ترین دشمن کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور “صدی کے سودے” (Century Deal) کے تحت قدس و کعبہ کو یہود کے ہاتھوں اعلانیہ فروخت سے نہیں ہچکچاتے بلکہ اس شرمناک سودے بازی پر فخر کررہے ہیں، مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا آج مغربی ایشیا میں اسرائیل کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے مزاحمت کے مجاہدین کے سوا کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ وہ “عِبَاداً لَّنَا” کا مصداق ہوسکتا ہے؟ اگر قدس کی آزادی کے لئے لڑائی ہو تو مسلمانان عالم اور دوسروں کو کافر قرار دے کر صرف اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے کس محاذ میں ہونگے؟ اگر یہود شدید ترین دشمن ہے تو اس کے دوست مؤمنین کے دوست اور اسلام و ایمان کے حامی ہوسکتے ہیں؟
– یہودیوں کے جرائم کی وسعت اور ان کے مظالم و جرائم سے کافی عرصہ گذر جانے کے پیش نظر بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ کچھ زیادہ دور نہ ہو؛ اور سخت لڑنے والے ثابت قدم جوانوں کا ظہور قریب ہو اور ہم سب شاہد ہوں عنقریب اس ریاست کی نابودی اور قبلہ اول اور قدس شریف کی آزادی کے۔
– آخرالزمان میں یہود کے ساتھ اہل حق کی جنگ قرآنی محکمات میں سے ہے
سورہ اسراء کی آیات کے بارے میں بعض مفسرین کی رائے یہ ہے آخرالزمان میں محاذ حق اور یہود کے درمیان جنگ حتمی اور قرآنی مسَلَّمات میں سے ہے۔ جہاں فرمایا گیا ہے کہ یہود عالمی فتنہ انگیزیوں اور جنگوں کے اسباب فراہم کریں گے؛ ایک فتنہ انگیزی امام عصر (عج) کے ظہور سے پہلے اور دوسرا ظہور کی آمد پر۔ دوسرا فتنہ شروع ہونے پر امام زمانہ عََّلَ اللہ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کا ظہور ہوگا اور آپ کا لشکر یہود کو نابود کرے گا۔ (۲۰)
– بہت سی احادیث میں منقول ہے کہ حضرت حجت عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف بیت المقدس میں نماز جماعت ادا کریں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کی اقتداء کریں گے۔ جبکہ ظہور سے متعلق احادیث میں منقول ہے کہ امام زمانہ عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کا ظہور مسجد الحرام سے ہوگا اور پہلی بیعت دیوار کعبہ کے پاس ہوگی چنانچہ بیت المقدس میں امام(عج) کی امامت جماعت کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت تک تمام طاغوتی اور شیطانی قوتوں نے شکست کھائی ہوگی اور اللہ کے وعدے کے مطابق عالمی اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہوگا / یا عمل میں آرہا ہوگا۔
“وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ؛ اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں دبایا اور پیسا گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو آخر میں (زمین کا) وارث بنائیں”۔ (۲۱)
ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلصانہ بندگی کی توفیق عطا فرمائے اور جلد از جلد پیشوائے منتظَر عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کی امامت میں مسجد الاقصی میں نماز ادا کریں۔ (ان شاء اللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱- سورہ المائدہ، آیت ۸۲۔
۲۔ سورہ الاسراء، آیت ۴۔
۳۔ سورہ الاسراء، آیت ۵۔
۴۔ سورہ الاسراء، آیت ۶۔
۵- سورہ الاسراء، آیت ۷۔
۶۔ سورہ الاسراء، آیت ۱۔
۷۔ سورہ یوسف، آیت ۲۴۔
۸۔ سورہ الکہف، آیت ۶۵۔
۹۔ سورہ الصافات، آیت ۸۱۔
۱۰۔ سورہ الصافات، آیت ۱۱۱۔
۱۱۔ سورہ الصافات، آیت ۱۲۲۔
۱۲۔ سورہ الصافات، آیت ۱۳۲۔
۱۳۔ سورہ الصافات، آیت ۱۷۱۔
۱۴۔ سورہ ص، آیت ۴۵۔
۱۵۔ سورہ التحریم، آیت ۱۰۔
۱۶۔ سورہ مریم، آیت ۶۳۔
۱۷۔ سورہ فاطر (سورہ مؤمن)، آیت ۳۲۔
۱۸۔ سورہ الشوری، آیت ۵۲۔
۱۹۔ سورہ الحجر، آیت ۳۹، ۴۰ و ۴۱۔
۲۰۔ سورہ اسراء، آیات ۱ تا ۷۔
۲۱۔ سورہ القصص، آیت ۵۔
بقلم: حامد عبداللہی ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پروفیسر لیزا اینڈرسن (Professor Lisa Anderson) کا تعارف

  • ۳۷۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، پروفیسر لیزا اینڈرسن مشرق وسطی اسٹڈیز ایسوسی ایشن یونیورسٹی کی سابق صدر اور ۱۹۸۶ سے کولمبیا یونیورسٹی میں سیاسی سائنس فیکلٹی کی رکن ہیں۔
اکیڈمک بیوگرافی (Academic Biography) کے میدان میں وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے شعبے میں ملک کی ایک اہم اسکالر کے عنوان سے متعارف ہوئیں۔ پروفیسر اینڈرسن نے صرف ایک کتاب “تیونس اور لیبیا میں سماجی اور ریاستی تبدیلیاں ۱۹۳۰ سے ۱۹۸۰ تک؛ (The state and social transformation in Tunisia and Libya, 1830-1980) تحریر کی ہے۔ وہ موجودہ دور میں کولمبیا انٹرنیشنل کالج کی چیف اور مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حالیہ سالوں میں ” مشرق وسطی اسٹڈیز میں ایڈورڈ سعید کے مقام” کی وجہ سے پروفیسر اینڈرسن کی آمدنی میں ۴ ملین ڈالر کا اضافہ ہوا جو بطور کلی عرب ذرائع سے حاصل کی جاتی تھی۔ اگر چہ ایڈورڈ سعید اسلام اور مشرق وسطیٰ کے محقق نہیں تھے لیکن ایک ادبی اور اسرائیل مخالف محقق کے نام سے معروف تھے۔
اینڈرسن نے عوامی تنقید اور اس چیز کے باوجود کہ نیویارک کے قوانین کے مطابق انہیں اپنی ساری آمدنی کی رپورٹ حکومت کو دینا پڑتی انہوں نے اپنے مالی منابع کو کافی عرصے تک پوشیدہ رکھا۔ اس مقام پر براجمان کے لیے انہیں پروفیسر رشید خالدی نے انتخاب کیا جو یاسر عرفات کے حامیوں میں سے تھے اور آزادی فلسطین تنظیم کے سابق رکن تھے اور انہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست کے نام سے متعارف کروانے کی کوشش کی۔
پروفیسر اینڈرسن کے لیے یہ عہدہ اس وقت تک پروفیسر رشید خالدی نے محفوظ رکھا جب تک وہ شیکاگو یونیورستی میں اپنے عہدے سے کنارہ گیری کرتے، انہوں نے کہا کہ انصاف سے کلمبیا یونیورسٹی میں ان سے بہتر کسی شخص کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا۔
پروفیسر اینڈرسن، جوزف میسیڈ (Joseph Massad )جو پی ایچ ڈی کے رسالے کی تدوین میں ان کے مشیر تھے کی مدد سے کلمبیا یونیورسٹی میں تدریس کے منصب کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ جوزف میسیڈ قائل ہیں کہ یہودی حکومت ایک نسل پرستانہ حکومت ہے لہذا اس کو جینے کا کوئی حق نہیں، اور یہ کہ فلسطینی خودکش حملے کرنے والے، سامراجیت مخالف مزاحمت کار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں یہودی نازیوں کی جو پناہ گزیں کیمپوں میں صورتحال تھی وہی صورتحال موجودہ دور میں اسرائیلی عقوبت خانوں میں فلسطینیوں کی ہے۔ کولمبیا کے انٹرنیشنل کالج کی سیاسی فیکلٹی نے پروفیسر اینڈرسن کی سرپرستی میں اسرائیلی حکومت کی مذمت میں متعدد پروگراموں کا انعقاد کیا۔
مثال کے طور پر، ستمبر ۲۰۰۲ میں اس کالج نے انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعات افریقہ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار بعنوان ’اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے جنوبی افریقہ کے نظریات‘ کی سرپرستی کی۔ پروفیسر اینڈرسن نہ صرف صہیونی ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں بلکہ امریکہ پر بھی سخت تنقید کرتی ہیں۔ پروفیسر اینڈرسن نے ’دھشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ یہ صرف امریکہ کے پاس ایک بہانہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دوسرے ملکوں پر چڑھائی کرے ورنہ امریکہ خود ایک دھشتگرد ملک ہے اور اس کا یہ کہنا کہ وہ دھشتگردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ وہ امریکہ کو اس جنگ میں ایک متجاوز کے عنوان سے پیش کرتی ہیں اور افغانستان اور عراق میں امریکہ کی فوجی کاروائی کو پورے خطے پر حملے کے مترادف سمھجتی ہیں اور کہتی ہیں کہ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ خطے کے نقشے کو بدل کر اپنی مرضی سے اسے ترسیم کرے۔
تحقیق: Hugh Fitzgerald

۔۔۔۔۔

امریکی کانگریس میں صہیونی لابی کا اثر و رسوخ

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ امریکی مقننہ، دو ایوانوں؛ سینیٹ اور ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے کہ جسے کانگریس کہتے ہیں۔ وفاقی قانون سازی کے اختیارات کانگریس کو دیئے گئے ہیں۔ جب ایک بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوتا ہے اور صدر کے ذریعہ اس کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ قانونی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی ، صدر کے دستخط سے منظور شدہ بل کو قانونی جہت ملتی ہے۔
 سینیٹ
امریکی کانگریس میں، خارجہ پالیسی سینیٹ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ آئین کے مطابق ، دیگر حکومتوں کے ساتھ امریکی معاہدوں کو سینیٹ کے دو تہائی ارکان کے ذریعہ منظور کرنا ضروری ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو کریڈٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ معاہدے کو سینیٹ سے منظور نہیں کیا جاتا اور صدر کو مطلع نہیں کیا جاتا۔
سینیٹ نے مختلف شعبوں میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو مختلف موضوعات پر ماہرانہ رائے پیش کرتی ہیں۔ خارجہ پالیسی کی نگرانی سے متعلق سینیٹ کی سب سے بڑی اور اہم کمیٹی،  ’’کمیٹی برائے خارجہ پالیسی‘‘ (Committee on Foreign Relations) ہے ، جو معاہدے سے لے کر سرحدوں کی تبدیلی تک اور اقوام متحدہ سے متعلق امور تک دیکھ بھال کرتی ہے۔

ایوان نمائندگان
امریکی آئین کے مطابق ، ایوان نمائندگان کے اراکین کی تعداد 435 ہے ، جو ہر دو سال بعد منتخب ہوتے ہیں اور ان کا دوبارہ انتخاب لامحدود ہوتا ہے۔ ایوان نمائندگان کی صدارت اور ایوان کے اسپیکر اکثریتی پارٹی کے سینئر ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس وسیع اختیارات ہیں، بشمول پارلیمانی اجلاسوں کا ایجنڈا طے کرنا، بحث کرنا یا ایجنڈے سے متعلق کسی موضوع کو ہٹانے کے لئے کوئی مقررہ مدت طے کرنا ان کے وظائف میں شامل ہے۔
آج ، نہ صرف امریکی سینیٹ امریکی خارجہ پالیسی کی نگرانی کرتا ہے، بلکہ ایوان نمائندگان بھی خارجہ امور کمیٹی کے ذریعہ خارجہ پالیسی پر نظارت رکھتا ہے۔
امریکی کانگریس اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرنے میں صہیونیوں کی ضرورت کے پیش نظر ، امریکی مقننہ میں یہودی لابی کا اثر و رسوخ بہت اہم ہے۔ سب سے زیادہ طاقتور صہیونی لابی  AIPAC ، امریکہ کی خارجہ پالیسی کو درج ذیل شکلوں کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ا) کانگریس میں اہم عہدوں پر عیسائی صہیونیوں کی موجودگی
امریکی مقننہ میں صہیونی لابی کی کامیابی کی ایک وجہ عیسائی صہیونیوں کی کانگریس کے ممبران کی حیثیت سے موجودگی ہے۔ مثال کے طور پر رچرڈ آرمی نے ستمبر 2002 میں اعلان کیا کہ ان کی پہلی ترجیح صہیونی حکومت کا تحفظ ہے۔
ب) کانگریس میں یہودی سینیٹرز اور نمائندوں کی موجودگی
امریکی کانگریس میں ایسے یہودی سینیٹرز اور نمائندے موجود ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے اور حکومتی پالیسیوں کو صہیونی ریاست کے مفادات میں اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

ج) کانگریس کے عملے کا استعمال
کانگریس کے اراکین ایسے قوانین منظور کرنے میں اکیلے عمل نہیں کرتے جو صہیونی ریاست کے مفاد میں ہوتے ہیں، بلکہ کانگریس کا عملہ اور ماہرین ، جو قانون سازی کے مرکز میں ہوتے ہیں ،قوانین کا رخ صہیونی حکومت کے حق میں موڑنے پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ قوانین کا مسودہ لکھنے ، کانگریس کے ممبروں کے ذریعہ عوامی تقریروں کے لیے مواد فراہم کرنے اور کانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لئے کھلے خطوط لکھنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

 

امریکی جامعات کے پاکستانی نژاد پروفیسر محمد شاہد عالم کا تعارف

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، محمد شاہد عالم ان ہزاروں پروفیسروں میں سے ایک ہے جو مارکسی سوچ رکھتے ہیں اور امریکی جامعات میں سرگرم عمل ہیں اور سوچتے ہیں کہ امریکہ ایک بڑا شیطان ہے اور امریکہ کے دہشت گرد دشمن حقیقت میں “آزادی کے مجاہدین” ہیں۔
دسمبر ۲۰۰۴ع‍ میں ان کا ایک مضمون بعنوان “مخالف آواز” (امن و انصاف کے لئے جدوجہد کے سلسلے میں ایک بنیادپرست خبرنامہ) شائع ہوا، جس میں عالم نے محمد عطا اور ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو عالمی تجارتی مرکز پر حملہ کرنے والے القاعدہ کے دوسرے دہشت گردوں کو ان محب الوطن امریکیوں سے تشبیہ دی، جنہوں نے برطانویوں کا مقابلہ کرتے ہوئے لیکسنگٹن (Lexington) اور کانکرڈ (Concord) کی حفاظت کی اور امریکہ کی آزادی کی تاریخی تحریک کا آغاز کیا۔
پروفیسر عالم نے لکھا تھا: “۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو ۱۹ عرب ہائی جیکروں نے اپنے ہدف کے حصول کی راہ میں مارنے اور مارے جانے کے لئے اپنے اشتیاق کو ثابت کرکے دکھایا”۔
پروفیسر عالم کی اشتعال انگیز اور متعصبانہ تحریر انٹرنیٹ میں وسیع سطح پر شائع ہوئی۔ جب انہیں ایمیل کے ذریعے چیلنج کیا گیا تو انھوں نے یہود دشمنی پر مبنی تمسخر کے ساتھ جواب دیا کہ: “یہ کیسی بات ہے کہ میں جو دھمکی آمیز خطوط وصول کررہا ہوں ان سب پر لیوٹ (Levit)، ہوک (Hook) اور فریڈ مین (Friedman) کے دستخط ہیں؟”، اگر پروفیسر عالم نے اس طرح کے اہانت آمیز الفاظ افریقی نژاد امریکیوں یا ہمجنس بازوں کے بارے میں استعمال کئے ہوتے تو انہیں یقینا سزا ملتی اور یہ بھی امکان تھا کہ انہیں یونیورسٹی کے انتظامیہ کی طرف سے برخاست کیا جاتا؛ لیکن چونکہ ان کے الفاظ سے مراد صرف “یہودی” تھے چنانچہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے احتساب کی خواہش تک ظاہر نہیں کی۔
پروفیسر عالم نے جنوری ۲۰۰۵ کو اپنا تکمیلی مضمون Counterpunch.org نامی ویب گاہ پر (جو عراق میں امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کو امریکی سامراجیت کے غازی سمجھتی ہے) شائع کیا، جس کا عنوان تھا: “نفرت کی لہریں: امریکہ میں آزادی بیان کا امتحان (The Waves of Hate: Testing Free Speech in America)۔ اس مضمون میں انھوں نے اپنا تعارف ایسے شخص کے طور پر کرایا جو آزادی بیان کے سلسلے میں بندشوں کے تجربے سے گذر رہے تھے، اور (ان کے بقول) نفرت کی ویب گاہیں (یعنی القاعدہ کے خلاف سرگرم عمل ویب گاہیں www.jihadwatch.org اور www.littlegreenfootballs.com) انہیں حقیقت گوئی پر مجبور کرتی ہیں؛ یوں انھوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جو غلط فہمی کا شکار ہوکر اذیت و آزار کا نشانہ بنا ہے۔
عالم نے کاؤنٹر پنچ والے مضمون میں اپنے دعوے کی یوں وکالت کی: “ممکن ہے کہ امریکیوں نے اپنی جنگ آزادی میں عام شہریوں کو نشانہ نہ بنایا ہو لیکن وہ جرائم کے مرتکب ضرور ہوئے اور عام اور نہتے شہریوں کو ضمنی طور پر نقصان پہنچایا”۔ لگتا ہے کہ عالم کو اس بات سے حیرت ہوئی تھی کہ لوگ ان کے استدلال کے لئے استثناء کے قائل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا: مجھے حیرت ہے کہ میرے ان الفاظ نے ـ کہ “القاعدہ تنظیم (اپنے سے پہلے کے امریکی سامراجیوں کی طرح) ایک اسلامی تحریک میں بدل چکی ہے”ـ اس قدر تشدد آمیز حملوں کا طوفان بپا کیا ہے۔
پروفیسر محمد شاہد عالم /Professor M. Shahid Alam، مشہور پاکستانی ہواباز محمود احمد عالم (ایم ایم عالم) کے بھائی اور بنگالی نژاد پاکستانی ہیں۔
نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی
– بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر
-۱۱ ستمبر کے دہشت گردوں کو ایسے مَردوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو موت کو گلے لگانے کے لئے تیار تھے اس امید سے کہ شاید ان کے ملک کے عوام عزت اور آزادی کے ساتھ جی سکیں؛ وہ انہیں امریکہ کے بانیوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
– ان کا دعوی ہے کہ القاعدہ کا جہاد مغربی جارحین کے خلاف ایک دفاعی جہاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت مخالف پروفیسر “نورمین فینکلشٹائن” ( Norman Finkelstein) کا تعارف

  • ۳۲۹

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر نورمین فینکلشٹائن (Norman Finkelstein) ایک یہودی مورخ اور محقق ہیں کہ جو ۱۹۵۳ میں امریکہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے نیوجرسی (New Jersey, USA) کی Princeton University سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نورمین کی تالیفات اور تصنیفات کا اصلی محور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں۔
پروفیسر نورمین فینکلشٹائن نے دسیوں کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں کہ جن میں سے پچاس کتابیں دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئی ہیں۔(۱) ان کی بعض تصنیفات کے نام درج ذیل ہیں:
•    From the Jewish Question to the Jewish State: An Essay on the Theory of Zionism (thesis), Princeton University, 1987
•    The Holocaust Industry: Reflections on the Exploitation of Jewish Suffering, Verso, 2000
•    Image and Reality of the Israel-Palestine Conflict (Verso, 1995; expanded paperback edition, 2003)
•    Knowing Too Much: Why the American Jewish romance with Israel is coming to an end (OR Books: 2012)
•    Method and Madness: The Hidden Story of Israel’s Assaults on Gaza, OR Books, New York, 2014
•    Gaza: An Inquest Into Its Martyrdom, University of California Press, Oakland, California, 2018
فینکلشٹائن قدس کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل اور صہیونیت کے سخت ترین مخالف ہیں وہ صہیونی ریاست کی انتہا پسندی اور اس کے قتل و غارت کے بارے میں کہتے ہیں: ایسے حال میں کہ ایک طرف مغرب سمیت پوری دنیا امن و امان قائم کرنے کی قائل ہے اسرائیل جنگ کا طبل بجا رہا ہے۔ (۲)
سنہ ۲۰۰۸ میں تل ابیب کے بن گورڈین (۳) ایئر پورٹ پر پہنچنے سے پہلے پروفیسر فینکلشٹائن کی پوچھ گچھ کی گئی اور اس کے بعد عدلیہ کے حکم سے دس سال کے لیے انہیں مقبوضہ فلسطین میں داخلے سے ممنوع کر دیا۔ انہوں نے ہاآرتض (۴) کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: “میں نے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھا اور ہر سوال کا جواب واضح لفظوں میں دے دیا ہے اور میرا کسی بھی دھشتگرد تنظیم سے کوئی رابطہ نہیں”۔ (۵) ایسا لگتا ہے کہ ان کی گرفتاری اور مقبوضہ فلسطین میں ان کے ممنوع الورود ہونے کی وجہ نورمین کی لبنانی گھرانوں کے ساتھ ملاقات اور سنہ ۲۰۰۶ میں اسرائیل لبنان کی جنگ کے دوران جنوبی لبنان ان کی حاضری ہے۔
فینکلشٹائن خود کو حماس اور حزب اللہ کا حامی سمجھتے ہیں اور ان دو مزاحمتی گروہوں کے ساتھ اپنی وابستگی کی وجہ، ان کا اپنی سرزمینوں کے تحفظ کے لیے دفاعی اقدامات انجام دینا قرار دیتے ہیں۔ (۶) وہ حزب اللہ کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: مجھے اس بات سے کوئی خوف نہیں ہے کہ میں حزب اللہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کروں۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی بنا پر لوگ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں اور جو ظلم و جور کے ذریعے ان کے ملکوں کو نابود کرنا چاہے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ (۷)
اس مولف کے علمی کارناموں میں “ہولوکاسٹ انڈسٹری” (The Holocaust Industry) معروف ترین اور اہم ترین علمی کارنامہ ہے۔ فینکلشٹائن اس کتاب میں ہولوکاسٹ کے موضوع پر اپنی تحقیق کے مقصد کو بیان کرتے ہیں اور یہودی نسل کشی کو ایک انڈسٹری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ ہولوکاسٹ صرف ایک منظلم آئیڈیالوجی تھی جو ایک آئیڈیالوجیک اسلحے میں تبدیل ہو گئی تاکہ اس کے ذریعے ایک فوجی طاقت کہ جس کی تاریخ انسانی حقوق کی پامالی سے بھری پڑی ہے خود کو ایک مظلوم حکومت کے عنوان سے پیش کر سکے۔ (۸)
مآخذ
۱. http://normanfinkelstein.com/biography/
۲٫ https://web.archive.org/web/20141202160042/http://www.todayszaman.com/interviews_norman-finkelstein-israel-is-committing-a-holocaust-in-gaza_164483.html
۳ . Ben Gurion Airport
۴ . Haaretz
۵ . https://web.archive.org/web/20111016203328/http://www.haaretz.com/jewish-world/news/israel-denies-entry-to-high-profile-critic-norman-finkelstein-1.246487
۶ . http://www.counterpunch.org/finkelstein01132009.html
۷ . http://www.memritv.org/clip_transcript/en/1676.htm
۸ . http://earanian.blogfa.com/post/335
………

 

فلسطین کی مدد قرآنی نقطہ نظر سے

  • ۳۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دشمنان اسلام اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے اکثر اوقات یہ شبہہ ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ تو ان کا اپنا اور قومی مسئلہ ہے ہمیں کیا ضرورت ہے ان کے ذاتی مسئلے میں مداخلت کرنے کی؟ لیکن قرآن کریم نے اس شبہے کا جواب دیا ہے جو درج ذیل سطروں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے؛
درج ذیل قرآنی دلائل کی بنا پر فلسطین کی مدد کرنا ہمارا دینی اور انسانی فریضہ ہے:
الف: اسلامی معاشرہ ایک امت ہے
اسلامی اصول اور تعلیمات کی بنا پر اسلامی سماج اور معاشرہ ایک پیکر ہے۔ یعنی جہاں بھی دنیا میں کوئی مسلمان رہتا ہے وہ اسلامی معاشرے کا حصہ ہے اگر چہ جغرافیائی اعتبار سے وہ ہمارے ملک یا شہر کا باشندہ نہیں ہے۔ اسلام میں خونی رشتہ، سرحد، ملک، قبیلہ، زبان، قوم، رنگ و نسل، وغیرہ اسلامی معاشرے کی تقسیم کا باعث نہیں بنتے یہ سب چیزیں عارضی ہیں اور اصالت صرف اسلام اور خدا و رسول پر ایمان کو حاصل ہے۔
اسلام ان تمام افراد کو جو اس الہی دین پر عقیدہ رکھتے ہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں عقیدہ اور ایمان ہے جو رشتوں کو جوڑتا ہے اور اگر عیقدہ و ایمان نہ ہو تو جڑے ہوئے رشتے بھی توڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خداوند عالم سے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تو پروردگار عالم نے فرمایا: «یَا نُوحُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ أَهْلِکَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (۱) اے نوح یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے چونکہ اس کا کردار غیر صالح اور ناصحیح ہے۔ یعنی حضرت نوح (ع) سے بیٹے کا خونی رشتہ اور باپ بیٹے کی نسبت اس کی نجات کا باعث نہ بن سکی بلکہ ایمان اور عقیدہ تھا جو اس کو بچا سکتا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف انسان کا عقیدہ اور عمل رشتوں کو جوڑتا ہے لہذا تمام مسلمان ایک امت اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہوں اور ان میں کوئی خونی رشتہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے:  «وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ» (۲) اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں پس مجھ سے ڈرو۔
بنابرایں، فلسطینی قوم کی مدد کرنے کی سب سے پہلی دلیل یہ کہ یہ قوم اور ملت بھی مسلمان ہے اور مشترکہ عقائد کی بنا پر وہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بھائی کی ہر مشکل میں مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» (۳) تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
خداوند عالم دوسرے مقام پر یہاں تک فرماتا ہے کہ دو مسلمان گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو ان کے درمیان اصلاح کرو اگر چہ جنگ کے ذریعے، اس لیے کہ امت مسلمہ کی وحدت سب سے زیادہ اہم ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّى تَفِیءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ» (۴) اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آ جائے۔ پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کر دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب قرآن کریم مسلمانوں کو واضح حکم دیتا ہے کہ اگر اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے تمہیں جنگ بھی کرنا پڑے تو جنگ کرو تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف پیدا ہو تو ایسے میں اگر دشمنان اسلام، اسلامی معاشرے کو پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہوں اسلامی معاشرے کی جڑوں کو کاٹنے پر تلے ہوئے ہوں تو کیا ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو یہ سوچ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے کہ یہ تو فلاں ملک کا مسئلہ ہے یہ تو فلاں قوم کا مسئلہ ہے یہ تو سنیوں کا مسئلہ ہے یہ تو شیعوں کا مسئلہ ہے؟ قرآن کریم نے اہل ایمان کی بات کی ہے نہ کسی ملک کی نہ کسی قبیلے اور نہ فرقے کی۔ اہل ایمان کے ایک گروہ کو در پیش مشکل تمام مومنین کی مشکل ہے اور تمام اہل ایمان کو اس کے حل کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
ب؛ فلسطین کی مدد ایک مومن اور مسلمان امت ہونے کے عنوان سے
قرآن کریم ہمیشہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دیگر مسلمانوں اور مومنوں کی مدد کے لیے آگے بڑھو اور ظالموں کے ساتھ پیکار کرو۔ قرآن کریم کے اسی حکم کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران اس عنوان سے کہ وہ پرچم اسلام کا علمبردار ہے گزشتہ چالیس سال سے فلسطین کی مدد کے لیے دوڑ رہا ہے «…إِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِى الدِّینِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ… (۵) ۔۔ اگر دین کے معاملے میں وہ تم سے مدد مانگیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی مدد کرو۔
نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معروف حدیث جس میں آپ فرماتے ہیں : «مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛  جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی نسبت کسی اہمیت کا قائل نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔ (۶) لہذا اس حدیث کے پیش نظر تمام مسلمان ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح فلسطین کی مدد کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔
فلسطین کی مدد ایک مستضعف قوم کے عنوان سے
خداوند عالم مسلمانوں سے صرف اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ تم ایمان لے آو اور اس کے بعد خاموش بیٹھے رہو اور کچھ بھی نہ کرو۔ بلکہ وہ افراد جو ایمان لائے خدا ان سے بہت سے کاموں کا تقاضا کرتا ہے خدا کا ایک تقاضا مستضعفین اور کمزور لوگوں کی حمایت میں دشمنوں کے ساتھ جنگ ہے؛ «وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَان» (۷) اور آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے۔
مستضعفین یعنی دنیا کے کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کا واضح مصداق اس وقت ملت فلسطین ہے کہ جو ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے جعلی اور طفل کش صہیونی ریاست کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم کی یہ آیت ہم سے مخاطب ہے کہ کیوں ان کی نجات کے لیے جد و جہد نہیں کرتے؟ قرآن بعد کی آیت میں فرماتا ہے: «الَّذِینَ آمَنُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِیَاء الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا» (۸) ایمان والے ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں لہذا تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزورہوتا ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی جمہوریہ ایران کے نزدیک مسئلہ فلسطین کوئی تاکتیکی مسئلہ نہیں، کوئی سیاسی اور تزویری مسئلہ نہیں، بلکہ عقیدتی مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے ایمان کا مسئلہ ہے‘‘۔ (۹)
بقلم مجید رحیمی
حواشی
[۱] . هود ۴۶
[۲] . مومنون ۵۲
[۳] . حجرات ۱۰
[۴] . حجرات ۹
[۵] . انفال ۷۲
[۶] . الکافی (ط – الإسلامیة) ؛ ج‏۲ ؛ ص۱۶۳
[۷] . نساء ۷۵
[۸] . نساء ۷۶
[۹] . غزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ۸/۱۲/۱۳۸۸

 

عرب حکمران ایران سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟

  • ۳۵۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اردنی قلمکار صابر الدقامسہ نے لکھا:
حال ہی میں امام خامنہ ای نے انکشاف کیا کہ: امریکہ نے پیشکش کی تھی کہ اگر ایران علاقائی جنگوں میں امریکہ کے صرف کردہ ستر کھرب ڈالر واشنگٹن کو ادا کرے تو وہ ایٹمی معاہدے سے خارج نہیں ہوگا۔ اور امام خامنہ ای نے امریکہ کو جواب دیا کہ “ہم آگ اور دور مار میزائلوں کے سوا کچھ بھی امریکہ کو نہیں دیں گے”۔
تم [عرب حکام] ہر روز صبح، شام، کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے ایران کو گالیاں دیتے ہو، توہین کرتے ہوں، ایران کے خلاف شرانگیزیاں کرتے ہو اور “شیعیت” کو ہیولا بنا کر اس سے ڈرا کرتے ہو، نادان اتنے ہو کہ شدت نادانی سے یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ ایران میں دو کروڑ سنی بھی رہتے ہیں، جنہیں کسی نے بھی شیعہ ہونے پر مجبور نہیں کیا اور کسی بھی ایرانی سنی نے اپنا مذہب نہیں بدلا؛ تو پھر ایران کے خلاف اتنی شدید نفرت کہاں سے عربوں میں سرایت کرتی ہے؟
کیا اس نفرت کا سبب وہ احساس کمتری ہے جو ایران کے مد مقابل تمہارے اندر جڑ پکڑ چکا ہے؛ اس لئے کہ ایران نے ۳۵ سالہ بدترین محاصرے اور شدید ترین پابندیوں کے باوجود نہ صرف مغرب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ کامیاب بھی ہوا اور دنیا کو مجبور کیا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرے؟
کیا اس نفرت کا سبب یہ ہے کہ ایران محاصرے اور پابندیوں کے باوجود ایک عظیم معاشی طاقت، علوم، سائنس اور صنعت کے قلعے اور ناقابل تسخیر فوجی طاقت میں تبدیل ہوچکا ہے، جو سیارچے خلا میں بھیجتا ہے، ڈرون بناتا ہے اور بین البر اعظمی میزائل تیار کرتا اور داغتا ہے؟
کیا ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ ہے کہ ایران آج اس قدر طاقتور اور مستقل ریاست کی صورت اختیار کرچکا ہے کہ عراق، شام، لیبیا اور یمن میں خونخواری اور درندگی میں مصروف وہابی اس کی سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں رکھتے؟
کیا ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ایران علاقے کا واحد ملک ہے جس میں داعشی درندے نہیں پائے جاتے جو اس ملک کے باشندوں کو نقصان پہنچائیں، اس کی تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کو تباہ کریں، بزرگ اور تاریخی اور دینی شخصیات اور انبیاء اور اولیاء کے مزاروں کو دھماکوں سے اڑائیں، اس کی قبروں کو کھول کر اموات کی توہین کریں، ضریحوں کو اکھاڑ دیں، اور اس کے مقدس مکانات کی بےحرمتی کریں؟
اور ہاں! کہیں ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی ہر چار سال ایک بار منظم انداز سے انتخابات ہوتے رہے ہیں اور اس کی جمہوریت عرب حکمرانوں کے اصلی چہروں کو بے نقاب اور انہیں رسوا کررہی ہے اور طاقت و اقتدار میں عوامی شراکت کے سلسلے میں ایسے نکتے انہیں سکھا رہی ہے جو انہیں کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتے یا پھر وہ انہیں سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟
یا پھر اس نفرت کا سبب ایران کی طرف سے ان جوانمردوں کی مطلق اور غیر مشروط اعلانیہ حمایت ہے جنہوں نے عربوں کو کئی عشروں تک خوفزدہ رکھنے والے غاصب دشمن کو عبرتناک شکست دی، اپنی سرزمین کو آزاد کرایا، اپنے اسیروں کو ان کے ماؤں کی آغوش میں پلٹایا؛ حالانکہ عرب حکمران ڈھٹائی اور بےغیرتی اور عزت و شرف کے فقدان کی بنا پر اسرائیل کے پاؤں تلے بیٹھ کر یہودی قابضین کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مصروف ہیں؟
میں عربوں کے اس اعصابی زوال کو خوب سمجھتا ہوں؛ وہی جو دمشق پر زہران علوش اور ابو محمد الجولانی کی حکمرانی کے منصوبے بنا بیٹھے تھے؛ میں ان کے نفسیاتی بحران اور شدید ذہنی افسردگی کو اچھی طرح سمجھتا ہوں جنہوں نے اربوں ڈالر خرچ کرکے شام پر اخوان المسلمین کی سلطنت مسلط کرنے کی کوشش کی۔
ایک اردنی شہری نے کبھی بھی ایک ایرانی انسان کو اپنے ملک میں نہیں دیکھا، تو سوال یہ ہے کہ اس شدید اور نفرت انگیز تعصب کا سرچشمہ کہاں ہے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایران کے خلاف اس ہسٹیریائی نفرت کا اصل سرچشمہ وہابیوں کی فرقہ وارانہ اکساؤ ہے؛ وہی وہابی کا تعلق اس قوم سے ہے جس نے حالیہ ایک صدی کے دوران صرف حلال و حرام، نکاح، شرمگاہوں، جنسی معاملات، جنت کی حوروں، مجامعت، حیض و نفاس اور جنابت، حمام میں داخلے کی شرطوں، وضو کو باطل کرنے والے عوامل، پیشاب کرنے کے آداب، تارک صلاۃ کے قتل کے جواز، عذب قبر، اقرع نامی سانپ، جہنم کے درجۂ حرارت، رضاعت کبیر (بالغ مردوں کو دودھ پلا کر محرم بنانے) مری ہوئی بیوی کے ساتھ مجامعت کے جواز یا عدم جواز، مسیحی عیدوں میں انہیں مبارکباد دینے کی حرمت، ان کے خلاف سختگیران رویہ روا رکھنے کے وجوب، ان کے مردوں پر ترس کھانے کی حرمت، اونٹ کا پیشاب پینے، نابالغ لڑکیوں سے شادی رچانے، جہاد النکاح، زمین کی گردش کے تردید یا تصدیق، قرائت میں اصوات ادغام اورقلقلے اور معدے سے نکلے والی ہوا کی اقسام وغیرہ جیسے موضوعات ڈاکٹریٹ کی سطح تک کے مقالے لکھوائے ہیں جبکہ ایران کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔
خلیات جذعیہ (Stem cells) کا عالمی سطح کا مرکز ایران میں ہے اور ایران نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں بےپناہ ترقی کی ہے؛ جبکہ وہابیوں نے انسانی تہذیب کو داعش، النصرہ، طالبان، جیش الاسلام، احرار الشام، القاعدہ، جیش الفتح، نور الدین زنگی، جند الاقصی اور اکناف بیت المقدس جیسے ٹولے بطور تحفہ دے رہے ہیں جن کو یہودی ریاست اور مغربی دنیا کی حمایت بھی حاصل ہے اور اسلامی عناوین و اسماء کے باوجود وہ صرف مسلمانوں کو ذبح کرتے ہیں اور کفار سے تو وہ مدد لے رہے ہیں۔
وہابیت آج کے اس دور میں انسانی تہذیب اور مسلمانوں کی نوجوان نسل کو سر قلم اور دست و پا قلم کرنے کی نت نئی روشیں سکھا رہی ہے، اور انہیں آری سے سر کاٹنے، بندگان خدا کو سولی چڑھانے، انسانوں کے دل نکال کر چبا جانے، قبریں کھولنے، مساجد کو دھماکے سے اڑانے، عورتوں کو قیدی بنانے، عجائب گھروں کو تباہ کرنے، گرجاگھروں کو نذر آتش کرنے یا بموں سے اڑانے، راہباؤں کو اغوا کرینے، آثار قدیمہ اور قدیم تاریخی شہروں کو منگولوں کے طرز پر نیست و نابود کرنے، مسلمانوں کو کافر قرار دینے، زیارتگاہوں کو منہدم کرنے، بچوں کو ذبح کرنے اور بچیوں کو بم باندھ کر دھماکوں سے اڑانے، انسانوں کو زندہ در گور کرنے یا زندہ آگ میں پھینکنے یا پانی میں ڈبو دینے یا ٹینکوں اور گاڑیوں سے روند ڈالنے اور مقتول مسلمانوں کی لاشوں کو بھوکے کتوں کے سامنے پھینکنے اور جشن و سرور کی محفلیں سجا کر مسلمانوں کو اونچی عمارتوں کی چھتوں سے گرانے کی تعلیم دے رہی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود ہم اردنی فخر کرتے ہیں کہ ہم اردن میں سالانہ ۵۰۰۰۰۰ کے داخلے کا راستہ روکے ہوئے ہیں اور زر مبادلہ کمانے کے اس ذریعے کو نابود کرچکے ہیں، جبکہ ہم اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ایسے ممالک سے مدد مالی امداد اور عطیات مانگنے پر مجبور ہیں جنہوں نے ہمیں ہمیشہ مشکل حالات میں بےیار و مددگار چھوڑا اور تنہا چھوڑا ہے۔
………
بقلم: صابر الدقامسہ
مترجم: فرحت حسین مہدوی

 

پروفیسر حمید ایلگر (Hamid Algar) ایک خطرناک پروفیسر!

  • ۵۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “ایک سو ایک خطرناک پروفیسر” کے نام سے ایک کتاب منظر عام پر آئی جس کا مقصد ان ایک سو ایک پروفیسروں کو متعارف کروانا تھا جن کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ اور یہودیت کی شان میں گستاخی کی اور اپنی کتابوں اور درس کی کلاسوں میں ہولوکاسٹ کا مسئلہ چھیڑا۔ (واضح رہے کہ صہیونی یہودیوں کے نزدیک ہولوکاسٹ کے موضوع پر گفتگو کرنا یا اس کے بارے میں شک و شبہہ ایجاد کرنا یا اس کا انکار کرنا سب سے بڑا اور ناقبل بخشش جرم ہے)۔ در حقیقت اس کتاب کے ذریعے یونیورسٹیوں کے دیگر اساتید کو بھی خبردار کیا گیا کہ ان اساتید نے چونکہ ریڈ لائن کراس کر دی ہے لہذا ان کے علمی آثار کو مورد استفادہ قرار نہ دیا جائے۔ مجموعی طور پر جب آزادی محدود ہو جاتی ہے تو مشکلات خود بخود جنم لیتی ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کے پہلے پروفیسر “حمید ایلگر” کا اجمالی تعارف پیش کیا جاتا ہے اور کتاب لکھنے والے نے خود جو کچھ ان کے بارے میں بیان کیا ہے اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین خود یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں کیوں ’’خطرناک پروفیسر‘‘ کا لقب دیا گیا۔
 
پروفیسر حمید ایلگر نے؛
۔ جرمنی کی فری برگ یونیورسٹی (Freiberg University) سے روس اور جرمنی کی تاریخ اور ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ ٹرینٹی کالج (Trinity College, Cambridge) سے مشرقی زبانوں (عربی و فارسی) میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ تہران یونیورسٹی سے ادبیات فارسی اور تاریخ ایران میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ استبول یونیورسٹی سے تاریخ ترک میں ایم اے کی ڈگری اور
۔ کمبریج یونیورسٹی (Cambridge University) سے اسلامی مطالعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اعزاز حاصل کیا۔
دھشتگردی کے خلاف جنگ، در حقیقت عالم اسلام کے خلاف امریکہ کی جنگ ہے
حمید ایلگار ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۹۶۵ سے اب تک UC Brekely کالج میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) کی سوانح حیات کو بھی رقم کیا ہے۔ اور آپ عالم اسلام کے بہترین مورخین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ زبان و ادبیات فارسی، تاریخ اسلام، شیعہ شناسی اور صوفیت شناسی کے موضوعات کی تدریس کرتے ہیں۔ اور ان موضوعات پر کئی کتابیں اور علمی رسالے بھی تحریر کئے ہیں۔ جن میں سے ۱۰۰ مقالے ایرانیکا دائرۃ المعارف (انسائکلوپیڈیا) میں چھپے ہیں۔ نیز آپ کا شمار امریکہ اور صہیونی ریاست کے خلاف سخت تنقید کرنے والوں میں بھی ہوتا ہے۔
 
پروفیسر ایلگر نے پیرس اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران میں متعدد بار امام خمینی (رہ) کے ساتھ ملاقات کی۔ انہوں نے امام خمینی (رہ) کی بہت ساری تقریروں اور تحریروں کا ترجمہ کیا اور ایک کتاب “ایران میں اسلامی انقلاب کی جڑیں” کے عنوان سے تصنیف بھی کی۔ پروفیسر الگر نے اسلامی انقلاب کو اسلام کی معاصر تاریخ کا اہم ترین اور موثر ترین انقلاب قرار دیا ہے۔
پروفیسر ایلگر نے ۱۹۹۴ میں امام خمینی (رہ) کی برسی پر عالمی جہاد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا: آئیں اس عالمی جہاد کا آغاز کریں جو خود ہم سے شروع ہوتا ہے جو ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں شامل ہے۔ اور اگر اس بات کی ضرورت پڑے کہ ہم دشمنان اسلام کو شکست دینے کے لیے اسلحہ اٹھائیں تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ ایلگر مزید کہتے ہیں: آئیں مغرب کا صحیح تجزیہ و تحلیل کریں جو امام نے ہمیں سکھایا ہے۔۔۔ بین الاقوامی راہزنوں کے مجموعے کے عنوان سے۔۔۔ کہ جنہوں نے امام کی رحلت کے بعد خود کو متحد کر لیا۔ آئیں طفل کش اور جعلی ریاست اسرائیل کی مکمل نابودی کے بارے میں امام کے افکار کو بھی دہرائیں۔
 
پروفیسر ایلگر کے نزدیک اسلام اور مغرب کی جنگ کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں: یہ وہ بے معنی شعار ہے جس کے بارے میں لوگ سیمینار منعقد کرتے ہیں اور اس پر کتابیں لکھتے ہیں جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ لیکن جیسا کہ حال ہی میں جیمز وولسی( سی آئی اے کے سابق سربراہ) نے کہا: چوتھی عالمی جنگ ( اس فرض کے ساتھ کہ موجودہ دور میں جاری سرد جنگ تیسری عالمی جنگ ہے) اسی غلط سوچ سے رخ پا سکتی ہے۔ پروفیسر الگر امریکی حکومت کے اس دعوے پر بد ظن ہیں جو کہتی ہے کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ جو جاری ہے یہ اسلام کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ پروفیسر ایلگر کا ماننا ہے کہ چوتھی عالمی جنگ ممکن ہے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں منحصر ہو۔
 
پروفیسر ایلگر کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی لحاظ سے کسی مذہب کے خلاف جنگ کرنا درست نہیں ہے لہذا مذہب کے ساتھ ایک صفت کا اضافہ کیا جائے تاکہ جنگ کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ جیسے جنگ طلب اسلام، انتہا پسند اسلام، اسلامی دھشتگردی، بنیاد پرست اسلام اور سیاسی اسلام۔ امریکیوں نے ’’جنگ طلب اسلام‘‘ کو اپنا دشمن معین کیا ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ امریکہ نے اس عنوان کو مشرق وسطیٰ پر تطبیق دے کر عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ مشرق وسطیٰ طاقتور ہے، یا اس سے امریکہ کو کوئی خطرہ لاحق ہے بلکہ اس وجہ سے اسے اپنا دشمن منتخب کیا ہے چونکہ وہ انتہائی کمزور اور ناتوان دشمن ہے۔
محقق: Joseph Di Politto

 

بین الاقوامی یہودی تنظیم فری میسن (freemason) کا تعارف اور اس کے مقاصد

  • ۸۷۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فری میسن ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے۔ ہر ملک میں اس کے مراکز ہیں۔ جو لاج کہلاتے ہیں۔ اس کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کی رکنیت کے لیے کچھ شرائط ہیں اور ہر ڈگری کا رکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے ربط ضبط رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگڑی کے رکن کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گزری ہو انتہائی خفیہ اور راز داری میں رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کر لینا تقریبا ناممکن ہے۔ لاجوں کی روئدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے اراکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کر کے یکجا کی جا سکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈ میں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروازوں پر دقل الباب کرنے کا بھی ان کا ایک مخصوص انداز ہے اور یہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی فری میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لیے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوشل اجتماعات جلسوں یا تقریبات میں، مختلف ملکوں میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اور بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہنچان جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی اجنبی ماحول میں، کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اور کتنے افراد وہاں موجود ہیں تو وہ صرف اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوں سے مثلث بنائے اور دوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن پر ایسا ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فورا شناخت کر لیں گے اور انہیں کوئی لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
فری میسن عام طور پر ملک کے افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداروں کو۔ رکن بننے کے لیے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنی گرفت پر لایا جاتا ہے۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کے درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیا جاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لیے اس کا حقدار بنا دیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین صرف ایک آدھ یہودی ہو یا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہودی نہ ہو لیکن اس کی تنظیم اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ بالآخر عالمی صہیونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہے۔
یہ تنظیم سب سے پہلے ۱۷۱۷ء میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنطیم کی چار انجمنوں(لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں انتظام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔
آئندہ مقالوں میں صہیونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ جہاں تک فری میسن کے ایک کام کی نوعیت کا تعلق ہے اس تنظیم کی قیادت صرف اور صرف یہودی ہاتھوں میں ہے۔
یہ دستاویزات بہت حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ مثلا یہ کہ خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔
عام طور پر لوگ اسے ایک عام سا کلب سمجھ کر اس کے رکن بن جاتے ہیں۔ شروع شروع میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کا شبہ بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہذا ان کی نیک نیتی و وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن (الہی) علوی اپنی کتاب “جادو کی حقیقت” میں فری میسن تنظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” اللہ تعالی نے حضرت سلیمان کے تابع کچھ شیاطین بھی کئے تھے۔ یہودیوں نے تورات میں جہاں بیشمار معنوی اور لفظی تحریفیں کی ہیں وہاں ان بدبختوں نے حضرت سلیمان کو جادو گر لکھ کر شیطان کو تابع بنانے کا جواز بھی پیدا کر لیا ہے اور اس عقیدے کی بنا پر دنیا بھر میں فری میسن کا جال پھیلا رکھا ہے۔ فری میسن لاج کو اسی بنا پر “جادوگر” بھی کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور تفریحی کلب ہیں اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہا مدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لیے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے۔ خصوصا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔ معاشرے کے یہی لوگ اپنے اپنے ملکوں کے اہم رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے جارج پنجم ( SUPREEM & GRAND WORSHIPFUL MASTER GRAND WORSHIPFUL) تھے افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان GRAND WORSHIPFUL تھے مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پورسر رضا علی خاں وغیرہ بھی اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈورشپ فل ماسٹر رہے۔ لاج کی ممبروں کو شراب کے استعمال کی طرف خاص طور سے مائل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں بے تکلفی پیدا کر کے ہی راز اگلوائے جا سکتے ہیں۔
اس تنظیم کے عہدے دار اور اعلی درجے کے ارکان کا WORSHIPFUL MASTER پرستش کے قابل آقا اور GRAND WORSHIPFUL MASTER عظیم پرستش کے قابل آقا وغیرہ عام اور زبان زد الفاظ کی وجہ سے نئے رکن کو جادو سیکھتے وقت شیطان کی پوجا کرنے میں کراہیت محسوس نہیں ہوتی۔ مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جب کسی شخص کو لاج کا مستقل ممبر بناتے ہیں تو کسی شیطان ہمزاد کو اس کا تابع کیا جاتا ہے۔ ( اس طریقہ کار کا جادو سیکھنے کے باب میں بیان ہوا ہے)۔ ہمزاد کو تابع کرتے وقت صرف یہی ایک کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ اس رکن کی نگرانی کرنے کے لیے ہمہ وقت مسلط رہے گا کہ وہ لاج کا کوئی راز افشا نہ کرنے پائے۔ فری میسن تا حیات اس شیطان سے نجات نہیں پا سکتا چاہے وہ کتنا ہی کہے کہ اب وہ فری میسن نہیں رہا”۔ (جادو کی حقیقت، صفحہ ۸۹ تا ۹۱)
پاکستان میں فری میسنری پر قانونی پابندی لگا کر اس کی لاجیں بند کر دی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اراکین کہاں گئے؟ وہ اب بھی بالکل اسی طرح نہ صرف تا حیات اس کے رکن رہنے پر مجبور ہیں بلکہ نئی رکن سازی کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فری میسن لاجیں بن کر دی گئی ہیں اور اب یہ کام زیر زمین ہو رہا ہے۔ دستاویزات میں ان کے طریقہ کار پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اقتباس: کتاب صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات