-
Saturday, 20 June 2020، 01:54 AM
-
۵۱۵
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونی تحریک نے جنم لیا اور ۱۸۹۷ میں تھیوڈر ہرٹزل کی زیر سرپرستی پہلا اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس میں ہرٹزل اور ان کے ساتھی گر چہ بظاہر ایک مستقل یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے اکٹھا ہوئے تھے لیکن اندرونی طور پر اس اجلاس کا مقصد ایک عالمی حکومت کی تشکیل اور پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی تھا۔
اس اجلاس کے بعد صہیونی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ کہ جس کے بانی یہودی تھے استعماری اور سامراجی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور حتیٰ امریکہ میں دن بدن پروان چڑھنے اور پختہ ہونے لگا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے مختلف معاشروں میں نفوذ کرنا اور ان کے سیاسی، معیشتی اور ثقافتی قوانین میں تبدیلیاں لانا شروع کر دیا۔ ان کے ڈھانچوں کو اس طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ اقتصادی حوالے سے انہیں سامراجی طاقتوں سے وابستہ کریں، ان کی ثقافت اور کلچر کو انحراف اور بے راہ روی کا شکار بنائیں اور ان کی سیاست کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ آخرکار ان کی تلاش و کوشش نتیجہ بخش ثابت ہوئی اور ۱۹۴۸ میں سامراج نے اسرائیل نامی ایک ناجائز اولاد کو جنم دے کر اسلامی معاشرے کے لیے دائمی پریشانی اور مصیبت کا سامان فراہم کر دیا۔
اس ریاست کی تشکیل کے بعد، فلسطین کے عوام کو نہ صرف زبردستی ان کے وطن سے نکال باہر کیا بلکہ بہت ساروں کو انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا۔ پڑوسی ممالک جیسے لبنان، شام اور اردن بھی اس ریاست کے ذریعے مورد حملہ واقع ہوئے، نیز پوری دنیا میں بے شمار انسانوں کو صہیونی ریاست کی مخالفت کی وجہ سے آزار و اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر بغور دیکھا جائے تو علاقے میں صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد جنوب مغربی ایشیا کے ممالک یا دوسرے لفظوں میں تمام اسلامی ممالک کا امن و سکون چھن گیا اور ہر بار کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ لہذا عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن جیسا کہ خداوند عالم نے بھی قرآن کریم (۱) میں یہودیوں کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے یہ یہودی ریاست ہے۔ اور چونکہ اپنی جان و مال کا تحفظ انسان پر واجب ہے اور جو شخص انسان کے جان و مال پر حملہ آور ہو اس کا مقابلہ کرنا بھی واجب ہے اس عنوان سے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بخوبی پہچاننا اور اس کی صحیح شناخت حاصل کرنا بھی ضروری اور واجب ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے دشمن “صہیونی ریاست” کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی صحیح شناخت حاصل کریں۔
اسی مقصد کو لے کر ڈاکٹر “مجید صفاتاج” نے اسلام و انسانیت کے اس دائمی دشمن کے حوالے سے معلومات اکھٹا کیں اور چھے جلدوں پر مشتمل “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” کے نام سے انسائکلوپیڈیا تالیف کیا۔
ڈاکٹر صفاتاج اس دائرۃ المعارف کے مقدمے میں مذکورہ مقصد کے علاوہ دیگر اہداف و مقاصد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو درج ذیل نکات سے عبارت ہیں:
۱؛ صہیونیت کو مختلف عسکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی حوالے سے پہچنوانا نیز مختلف معاشروں میں اس کے گہرے نفوذ کو پہچنوانا
۲؛ ایک معتبر تاریخی اور معلوماتی ماخذ اور منبع فراہم کرنا تاکہ اسلامی حکومتیں اس کی مدد سے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکیں۔
۳؛ تاریخی تحریف اور صہیونیت کی طرف سے بیان کئے جانے والے جھوٹے دعوؤں کا مقابلہ کرنا۔
یہ دائرۃ المعارف دوہزار سے زائد مختلف موضوعات جیسے ممتاز شخصیتوں کا تعارف، اسرائیل کے جرائم، یہودی فرقے اور ٹولے، ان کے عقائد و رسومات، ان سے وابستہ ادارے، تنظمیں اور ذرائع ابلاغ، مختلف ممالک میں صہیونیت کا نفوذ، اسرائیل کا حکومتی ڈھانچہ وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔
لہذا “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” ایک علمی اور تحقیقی ماخذ و منبع ہے جو صہیونیت اور اسرائیل کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اسکالروں کی علمی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔
(1) لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا.(مائده/۸۲).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: میلاد عسگرپور