-
Sunday, 14 June 2020، 10:33 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “ایک سو ایک خطرناک پروفیسر” کے نام سے ایک کتاب منظر عام پر آئی جس کا مقصد ان ایک سو ایک پروفیسروں کو متعارف کروانا تھا جن کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ اور یہودیت کی شان میں گستاخی کی اور اپنی کتابوں اور درس کی کلاسوں میں ہولوکاسٹ کا مسئلہ چھیڑا۔ (واضح رہے کہ صہیونی یہودیوں کے نزدیک ہولوکاسٹ کے موضوع پر گفتگو کرنا یا اس کے بارے میں شک و شبہہ ایجاد کرنا یا اس کا انکار کرنا سب سے بڑا اور ناقبل بخشش جرم ہے)۔ در حقیقت اس کتاب کے ذریعے یونیورسٹیوں کے دیگر اساتید کو بھی خبردار کیا گیا کہ ان اساتید نے چونکہ ریڈ لائن کراس کر دی ہے لہذا ان کے علمی آثار کو مورد استفادہ قرار نہ دیا جائے۔ مجموعی طور پر جب آزادی محدود ہو جاتی ہے تو مشکلات خود بخود جنم لیتی ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کے پہلے پروفیسر “حمید ایلگر” کا اجمالی تعارف پیش کیا جاتا ہے اور کتاب لکھنے والے نے خود جو کچھ ان کے بارے میں بیان کیا ہے اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین خود یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں کیوں ’’خطرناک پروفیسر‘‘ کا لقب دیا گیا۔
پروفیسر حمید ایلگر نے؛
۔ جرمنی کی فری برگ یونیورسٹی (Freiberg University) سے روس اور جرمنی کی تاریخ اور ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ ٹرینٹی کالج (Trinity College, Cambridge) سے مشرقی زبانوں (عربی و فارسی) میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ تہران یونیورسٹی سے ادبیات فارسی اور تاریخ ایران میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ استبول یونیورسٹی سے تاریخ ترک میں ایم اے کی ڈگری اور
۔ کمبریج یونیورسٹی (Cambridge University) سے اسلامی مطالعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اعزاز حاصل کیا۔
دھشتگردی کے خلاف جنگ، در حقیقت عالم اسلام کے خلاف امریکہ کی جنگ ہے
حمید ایلگار ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۹۶۵ سے اب تک UC Brekely کالج میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) کی سوانح حیات کو بھی رقم کیا ہے۔ اور آپ عالم اسلام کے بہترین مورخین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ زبان و ادبیات فارسی، تاریخ اسلام، شیعہ شناسی اور صوفیت شناسی کے موضوعات کی تدریس کرتے ہیں۔ اور ان موضوعات پر کئی کتابیں اور علمی رسالے بھی تحریر کئے ہیں۔ جن میں سے ۱۰۰ مقالے ایرانیکا دائرۃ المعارف (انسائکلوپیڈیا) میں چھپے ہیں۔ نیز آپ کا شمار امریکہ اور صہیونی ریاست کے خلاف سخت تنقید کرنے والوں میں بھی ہوتا ہے۔
پروفیسر ایلگر نے پیرس اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران میں متعدد بار امام خمینی (رہ) کے ساتھ ملاقات کی۔ انہوں نے امام خمینی (رہ) کی بہت ساری تقریروں اور تحریروں کا ترجمہ کیا اور ایک کتاب “ایران میں اسلامی انقلاب کی جڑیں” کے عنوان سے تصنیف بھی کی۔ پروفیسر الگر نے اسلامی انقلاب کو اسلام کی معاصر تاریخ کا اہم ترین اور موثر ترین انقلاب قرار دیا ہے۔
پروفیسر ایلگر نے ۱۹۹۴ میں امام خمینی (رہ) کی برسی پر عالمی جہاد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا: آئیں اس عالمی جہاد کا آغاز کریں جو خود ہم سے شروع ہوتا ہے جو ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں شامل ہے۔ اور اگر اس بات کی ضرورت پڑے کہ ہم دشمنان اسلام کو شکست دینے کے لیے اسلحہ اٹھائیں تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ ایلگر مزید کہتے ہیں: آئیں مغرب کا صحیح تجزیہ و تحلیل کریں جو امام نے ہمیں سکھایا ہے۔۔۔ بین الاقوامی راہزنوں کے مجموعے کے عنوان سے۔۔۔ کہ جنہوں نے امام کی رحلت کے بعد خود کو متحد کر لیا۔ آئیں طفل کش اور جعلی ریاست اسرائیل کی مکمل نابودی کے بارے میں امام کے افکار کو بھی دہرائیں۔
پروفیسر ایلگر کے نزدیک اسلام اور مغرب کی جنگ کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں: یہ وہ بے معنی شعار ہے جس کے بارے میں لوگ سیمینار منعقد کرتے ہیں اور اس پر کتابیں لکھتے ہیں جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ لیکن جیسا کہ حال ہی میں جیمز وولسی( سی آئی اے کے سابق سربراہ) نے کہا: چوتھی عالمی جنگ ( اس فرض کے ساتھ کہ موجودہ دور میں جاری سرد جنگ تیسری عالمی جنگ ہے) اسی غلط سوچ سے رخ پا سکتی ہے۔ پروفیسر الگر امریکی حکومت کے اس دعوے پر بد ظن ہیں جو کہتی ہے کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ جو جاری ہے یہ اسلام کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ پروفیسر ایلگر کا ماننا ہے کہ چوتھی عالمی جنگ ممکن ہے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں منحصر ہو۔
پروفیسر ایلگر کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی لحاظ سے کسی مذہب کے خلاف جنگ کرنا درست نہیں ہے لہذا مذہب کے ساتھ ایک صفت کا اضافہ کیا جائے تاکہ جنگ کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ جیسے جنگ طلب اسلام، انتہا پسند اسلام، اسلامی دھشتگردی، بنیاد پرست اسلام اور سیاسی اسلام۔ امریکیوں نے ’’جنگ طلب اسلام‘‘ کو اپنا دشمن معین کیا ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ امریکہ نے اس عنوان کو مشرق وسطیٰ پر تطبیق دے کر عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ مشرق وسطیٰ طاقتور ہے، یا اس سے امریکہ کو کوئی خطرہ لاحق ہے بلکہ اس وجہ سے اسے اپنا دشمن منتخب کیا ہے چونکہ وہ انتہائی کمزور اور ناتوان دشمن ہے۔
محقق: Joseph Di Politto