-
Tuesday, 16 June 2020، 10:13 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اردنی قلمکار صابر الدقامسہ نے لکھا:
حال ہی میں امام خامنہ ای نے انکشاف کیا کہ: امریکہ نے پیشکش کی تھی کہ اگر ایران علاقائی جنگوں میں امریکہ کے صرف کردہ ستر کھرب ڈالر واشنگٹن کو ادا کرے تو وہ ایٹمی معاہدے سے خارج نہیں ہوگا۔ اور امام خامنہ ای نے امریکہ کو جواب دیا کہ “ہم آگ اور دور مار میزائلوں کے سوا کچھ بھی امریکہ کو نہیں دیں گے”۔
تم [عرب حکام] ہر روز صبح، شام، کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے ایران کو گالیاں دیتے ہو، توہین کرتے ہوں، ایران کے خلاف شرانگیزیاں کرتے ہو اور “شیعیت” کو ہیولا بنا کر اس سے ڈرا کرتے ہو، نادان اتنے ہو کہ شدت نادانی سے یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ ایران میں دو کروڑ سنی بھی رہتے ہیں، جنہیں کسی نے بھی شیعہ ہونے پر مجبور نہیں کیا اور کسی بھی ایرانی سنی نے اپنا مذہب نہیں بدلا؛ تو پھر ایران کے خلاف اتنی شدید نفرت کہاں سے عربوں میں سرایت کرتی ہے؟
کیا اس نفرت کا سبب وہ احساس کمتری ہے جو ایران کے مد مقابل تمہارے اندر جڑ پکڑ چکا ہے؛ اس لئے کہ ایران نے ۳۵ سالہ بدترین محاصرے اور شدید ترین پابندیوں کے باوجود نہ صرف مغرب کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ کامیاب بھی ہوا اور دنیا کو مجبور کیا کہ اس کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرے؟
کیا اس نفرت کا سبب یہ ہے کہ ایران محاصرے اور پابندیوں کے باوجود ایک عظیم معاشی طاقت، علوم، سائنس اور صنعت کے قلعے اور ناقابل تسخیر فوجی طاقت میں تبدیل ہوچکا ہے، جو سیارچے خلا میں بھیجتا ہے، ڈرون بناتا ہے اور بین البر اعظمی میزائل تیار کرتا اور داغتا ہے؟
کیا ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ ہے کہ ایران آج اس قدر طاقتور اور مستقل ریاست کی صورت اختیار کرچکا ہے کہ عراق، شام، لیبیا اور یمن میں خونخواری اور درندگی میں مصروف وہابی اس کی سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں رکھتے؟
کیا ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ایران علاقے کا واحد ملک ہے جس میں داعشی درندے نہیں پائے جاتے جو اس ملک کے باشندوں کو نقصان پہنچائیں، اس کی تاریخی عمارتوں اور آثار قدیمہ کو تباہ کریں، بزرگ اور تاریخی اور دینی شخصیات اور انبیاء اور اولیاء کے مزاروں کو دھماکوں سے اڑائیں، اس کی قبروں کو کھول کر اموات کی توہین کریں، ضریحوں کو اکھاڑ دیں، اور اس کے مقدس مکانات کی بےحرمتی کریں؟
اور ہاں! کہیں ایران سے عربوں کی نفرت کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی ہر چار سال ایک بار منظم انداز سے انتخابات ہوتے رہے ہیں اور اس کی جمہوریت عرب حکمرانوں کے اصلی چہروں کو بے نقاب اور انہیں رسوا کررہی ہے اور طاقت و اقتدار میں عوامی شراکت کے سلسلے میں ایسے نکتے انہیں سکھا رہی ہے جو انہیں کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتے یا پھر وہ انہیں سمجھنا ہی نہیں چاہتے؟
یا پھر اس نفرت کا سبب ایران کی طرف سے ان جوانمردوں کی مطلق اور غیر مشروط اعلانیہ حمایت ہے جنہوں نے عربوں کو کئی عشروں تک خوفزدہ رکھنے والے غاصب دشمن کو عبرتناک شکست دی، اپنی سرزمین کو آزاد کرایا، اپنے اسیروں کو ان کے ماؤں کی آغوش میں پلٹایا؛ حالانکہ عرب حکمران ڈھٹائی اور بےغیرتی اور عزت و شرف کے فقدان کی بنا پر اسرائیل کے پاؤں تلے بیٹھ کر یہودی قابضین کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مصروف ہیں؟
میں عربوں کے اس اعصابی زوال کو خوب سمجھتا ہوں؛ وہی جو دمشق پر زہران علوش اور ابو محمد الجولانی کی حکمرانی کے منصوبے بنا بیٹھے تھے؛ میں ان کے نفسیاتی بحران اور شدید ذہنی افسردگی کو اچھی طرح سمجھتا ہوں جنہوں نے اربوں ڈالر خرچ کرکے شام پر اخوان المسلمین کی سلطنت مسلط کرنے کی کوشش کی۔
ایک اردنی شہری نے کبھی بھی ایک ایرانی انسان کو اپنے ملک میں نہیں دیکھا، تو سوال یہ ہے کہ اس شدید اور نفرت انگیز تعصب کا سرچشمہ کہاں ہے؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایران کے خلاف اس ہسٹیریائی نفرت کا اصل سرچشمہ وہابیوں کی فرقہ وارانہ اکساؤ ہے؛ وہی وہابی کا تعلق اس قوم سے ہے جس نے حالیہ ایک صدی کے دوران صرف حلال و حرام، نکاح، شرمگاہوں، جنسی معاملات، جنت کی حوروں، مجامعت، حیض و نفاس اور جنابت، حمام میں داخلے کی شرطوں، وضو کو باطل کرنے والے عوامل، پیشاب کرنے کے آداب، تارک صلاۃ کے قتل کے جواز، عذب قبر، اقرع نامی سانپ، جہنم کے درجۂ حرارت، رضاعت کبیر (بالغ مردوں کو دودھ پلا کر محرم بنانے) مری ہوئی بیوی کے ساتھ مجامعت کے جواز یا عدم جواز، مسیحی عیدوں میں انہیں مبارکباد دینے کی حرمت، ان کے خلاف سختگیران رویہ روا رکھنے کے وجوب، ان کے مردوں پر ترس کھانے کی حرمت، اونٹ کا پیشاب پینے، نابالغ لڑکیوں سے شادی رچانے، جہاد النکاح، زمین کی گردش کے تردید یا تصدیق، قرائت میں اصوات ادغام اورقلقلے اور معدے سے نکلے والی ہوا کی اقسام وغیرہ جیسے موضوعات ڈاکٹریٹ کی سطح تک کے مقالے لکھوائے ہیں جبکہ ایران کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔
خلیات جذعیہ (Stem cells) کا عالمی سطح کا مرکز ایران میں ہے اور ایران نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں بےپناہ ترقی کی ہے؛ جبکہ وہابیوں نے انسانی تہذیب کو داعش، النصرہ، طالبان، جیش الاسلام، احرار الشام، القاعدہ، جیش الفتح، نور الدین زنگی، جند الاقصی اور اکناف بیت المقدس جیسے ٹولے بطور تحفہ دے رہے ہیں جن کو یہودی ریاست اور مغربی دنیا کی حمایت بھی حاصل ہے اور اسلامی عناوین و اسماء کے باوجود وہ صرف مسلمانوں کو ذبح کرتے ہیں اور کفار سے تو وہ مدد لے رہے ہیں۔
وہابیت آج کے اس دور میں انسانی تہذیب اور مسلمانوں کی نوجوان نسل کو سر قلم اور دست و پا قلم کرنے کی نت نئی روشیں سکھا رہی ہے، اور انہیں آری سے سر کاٹنے، بندگان خدا کو سولی چڑھانے، انسانوں کے دل نکال کر چبا جانے، قبریں کھولنے، مساجد کو دھماکے سے اڑانے، عورتوں کو قیدی بنانے، عجائب گھروں کو تباہ کرنے، گرجاگھروں کو نذر آتش کرنے یا بموں سے اڑانے، راہباؤں کو اغوا کرینے، آثار قدیمہ اور قدیم تاریخی شہروں کو منگولوں کے طرز پر نیست و نابود کرنے، مسلمانوں کو کافر قرار دینے، زیارتگاہوں کو منہدم کرنے، بچوں کو ذبح کرنے اور بچیوں کو بم باندھ کر دھماکوں سے اڑانے، انسانوں کو زندہ در گور کرنے یا زندہ آگ میں پھینکنے یا پانی میں ڈبو دینے یا ٹینکوں اور گاڑیوں سے روند ڈالنے اور مقتول مسلمانوں کی لاشوں کو بھوکے کتوں کے سامنے پھینکنے اور جشن و سرور کی محفلیں سجا کر مسلمانوں کو اونچی عمارتوں کی چھتوں سے گرانے کی تعلیم دے رہی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود ہم اردنی فخر کرتے ہیں کہ ہم اردن میں سالانہ ۵۰۰۰۰۰ کے داخلے کا راستہ روکے ہوئے ہیں اور زر مبادلہ کمانے کے اس ذریعے کو نابود کرچکے ہیں، جبکہ ہم اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ایسے ممالک سے مدد مالی امداد اور عطیات مانگنے پر مجبور ہیں جنہوں نے ہمیں ہمیشہ مشکل حالات میں بےیار و مددگار چھوڑا اور تنہا چھوڑا ہے۔
………
بقلم: صابر الدقامسہ
مترجم: فرحت حسین مہدوی