بہائیت اسرائیل کے ایران میں پنپنے کا ذریعہ

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کی شہنشاہی حکومت کے ساتھ فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعلقات کی تاریخ سو سال پرانی ہے لیکن محمد رضا خان کے دور حکومت میں یہ روابط اپنے عروج پر پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کے دور حکومت کی آخری دہائی میں تقریبا تمام اہم حکومتی عہدے بہائیوں کے پاس تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں اسرائیل اور یہودیوں کا ایران میں اثر و رسوخ بہت گہرا تھا۔
امیر عباس ہویدا
امیر عباس ہویدا اس فرقہ ضالہ کا ایک اہم آدمی تھا جس کا پہلوی حکومت میں بڑا اثر و رسوخ تھا انشاء اللہ بعد میں اس شخص کے بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے، لیکن یہاں پر اجمالا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران میں پہلوی حکومت کے دوران یہ شخص بہائیوں کا باپ سمجھا جاتا تھا، اور اس کے بہائی ہونے کے اعتبار سے شہرت اتنی زیادہ تھی کہ شاہ کے دور کی انٹیلی جنس ایجنسی ساواک کی دستاویزات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ہویدا صہیونی ریاست کی تشکیل میں مکمل طور پر رضامند تھا۔ ایران میں موساد کے آخری نمائندے ’’الیعزر تسفریر‘‘ کے بقول : ہویدا اور اس کے گھرانے کے لوگ اسرائیل کے مسائل سے خوب واقف تھے اور اسی وجہ سے وہ اس پورے عرصے میں ایران میں اسرائیل کے سفیروں کی حفاظت اور اسرائیل میں بہائیوں کے مال و دولت کے تحفظ کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر عباس میلانی نے کتاب ’’معمای ہویدا‘‘ کہ جو ہویدا کی حمایت میں لکھی ہے میں اس کے صہیونیت کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’۵۰ کی دہائی (ایرانی سال) میں اسرائیلی سفارت کی سربراہی ’’لوبرانی‘‘ کے دوش پر تھی اور اس کے ہویدا کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ وہ نہ صرف اکثر رات کے کھانوں پر ہویدا کی دعوت کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات لوبرانی ہویدا کے دفتر میں نظر آتا تھا۔ جب بھی کوئی کسی ملک کا سفیر ہویدا سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو وہ کوشش کرتا تھا اسرائیلی سفارت کے سربراہ لوبرانی کو بھی ان میٹنگوں میں شامل رکھے‘‘۔
امام خمینی(رہ) کی سربراہی میں ۱۵ خرداد کے قیام کے بعد شاہ اپنے بہائی ورکروں کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس قیام کے لیے مالی تعاون جمال عبد الناصر مصری کی جانب سے انجام پایا ہے۔ اس لیے کہ اس دور میں مصر صہیونی ریاست اور بہائیت کے خلاف برسرپیکار تھا۔ اسی وجہ سے مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق تھے۔
بہائیوں کے اس عمل میں کئی مقاصد پیش نظر تھے؛ ایک یہ کہ شہنشاہی حکومت کو علماء کا مقابلہ کرنے کے لیے اکسائے، دوسرے یہ کہ ایران کو عرب ممالک سے دور کرے، تیسرے یہ کہ شہنشاہی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے پر مجبور کرے۔
البتہ بہائیوں کی سرگرمیاں اور ان سے منسلک افراد صرف یہی نہیں تھے جن کا تذکرہ ہوا، بلکہ ان کا ایک پورا چینل تھا اور ان کی سرگرمیاں بھی بہت وسیع و عریض پیمانے پر پائی جاتی تھیں جن کا تذکرہ آئندہ قسطوں میں کیا جائے گا۔
ماخذ:
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.
3- فصلنامه 15 خرداد، انقلاب اسلامی و مسئله فلسطین: جستارهایی در پیوند صهیونیسم و بهائیت، رحمانی، شمس الدین، زمستان 1389، دوره سوم، شماره 26، ص 256-199.

 

 

پروفیسر گِل اینیجر کا تعارف

  • ۴۵۹

خیبر صہیون ویب گاہ کے سیاسی شعبے کی رپورٹ کے مطابق، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “امریکہ کے ۱۰۱ خطرناک پروفیسر (The 101 Most Dangerous Academics in America) کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب میں امریکی جامعات کے ۱۰۱ ایسے اساتذہ کو موضوع سخن بنایا گیا ہے جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں اور تقاریر میں ہولوکاسٹ اور یہودیوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری جامعات کے اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان اساتذہ کی کاوشوں سے استفادہ نہ کریں کیونکہ انھوں نے سرخ لکیروں کو پھلانگ لیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب آزادی نامحدود ہوجائے تو دشواریاں معرض وجود میں آتی ہیں اور آخرکار اس کو محدود کردیں گے۔ [گوکہ حقیقت یہ ہے امریکی معاشرہ سیاسی اور سماجی قواعد کے لحاظ سے کبھی بھی آزاد نہیں تھا لہذا آزادی کے امریکی تصور کا علمی اور منصفانہ جائزہ لینا چاہئے]۔
ذیل کا متن پروفیسر گِل اینیجر کے بارے میں ہے اور وہ ان ۱۰۱ پروفیسروں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں کتاب کے مؤلف نے اظہار خیال کیا ہے۔
– پروفیسر گِل اینیجر (Professor Gil Anidjar)
– پیدائش: ۱۹۶۴؛ فرانس
– کولمبیا یونیورسٹی (Columbia University)
– ایسوسی ایٹ پروفیسر تقابلی ادب
– اسرائیل مخالف کارکن ـ اسلامی انتہا پسندی کا حامی
پروفیسر گل اینیجر کولمبیا یونیورسٹی کے مشرق وسطی کے تقابلی ادب اور ایشیائی زبانوں کے شعبےکے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس مضمون میں سامی نسل، مذہب اور ادب کے موضوعات میں پروفیسر اینیجر کی تدریسی سرگرمیوں، ان کی کلاسوں میں لفظ “سامی” کے استعمال، نیز اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ “پروفیسر اینیجر کس طرح یونیورسٹی کے مختلف حصوں اور افراد کو متاثر کرتے ہیں۔
اس بات میں کچھ زیادہ شک نہیں ہے کہ پروفیسر گل اینیجر جیسے اساتذہ اس موضوع سے اثر لیتے ہیں؛ پروفیسر اینیجر کہتے ہیں کہ لفظ “سامی” دباؤ کا ایک ذریعہ ہے جو اسرائیلی ریاست کے قانونی جواز (Legitimacy) کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ایک مکالمے میں دعوی کیا ہے کہ “آخری سامی عرب ہیں اور عرب ہی سامی ہیں”؛ وہ اس طرح بطور ایک یہودی ریاست، اسرائیلی ریاست کی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر اینیجر استدلال کرتے ہیں کہ: عرب ایک ایسی نسل میں تبدیل ہوچکے ہیں جو ابھی تک اپنے دین سے متصل ہیں، حالانکہ یہودی مغربی عیسائیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں؛ چنانچہ وہ نسلی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی، اس خصوصیت سے محروم ہوچکے ہیں”۔ دریں اثناء کولمبیا یونیورسٹی کے حکام نے ان نسل پرستانہ خیالات پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا ہے۔
پروفیسر گل اینیجر کی باتوں کا ضمنی مفہوم یہ ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر وجود میں آنے [اور وجود میں رہنے] کا حق نہیں رکھتا۔ وہ یہودی ریاست کو آخرالزمان سے متعلق مسائل کا ملزم ٹہراتے ہیں اور اس نکتے کو صہیونیت کے خلاف ان کے بہت سارے خطابات سے تقویت پہنچتی ہے۔
پروفیسر گِل اینیجر جب کلاس روم میں صہیونیت کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ “جو بحث میں چھیڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ «بہت ضروری ہے کہ صہیونیت کی استعماریت اور بالخصوص لفظ “استعمار” پر تاکید کروں۔ اسرائیل مکمل طور پر ایک استعماری تنظیم اور ایک استعماری ریاست ہے جو قائم ہوچکی ہے۔
تاهم پروفیسر اینیجر اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی سخاوتمندی کا اظہار کرتے ہیں: جب اسلام پر تنقید ہوتی ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ: “درحقیقت جو مسئلہ اس وقت موجود ہے اور میں حقیقتا نہیں سمجھتا وہ یہ ہے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ اسلامی ممالک کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔
یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ پروفیسر گل اینیجر کی دشمنی کی جڑیں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اسرائیل مخالف اکیڈمک کے طور پر ان کے شدید تعصب میں پیوست ہیں۔
مورخہ ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ع‍ کو کولمبیا میں اسرائیلی نسلی عصبیت کے خلاف کارروائی پر قومی اقدام کا دن منایا گیا تو پروفیسر گل اینیجر ایک اجلاس کی قیادت کررہے تھے جس کا مقصد اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین کی ممانعت تھا۔
پروفیسر اینیجر ایک اکیڈمک کے طور پر اپنے اور ایک سیاسی کارکن کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جامعاتی شخصیت وہ نہیں ہے جو صرف علم سیکھتا ہے یا ایک طالب علم کو غیرجانبدارانہ طور پر حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ بلکہ جامعاتی شخصیت وہ ہے جو طلبہ کو اپنے سیاسی محرکات کی طرف کھینچ لیتا ہے۔
پروفیسر اینیجر نے ۲۰۰۵ع‍ میں ایک اسرائیل مخالف اجلاس میں ان ہی محرکات میں سے ایک (یعنی فلسطینیوں کے حقوق) کے سلسلے میں کہا تھا: میرے یقین کے مطابق اس (فلسطینیوں کے حقوق کا) موضوع کو تمام طلبہ اور اساتذہ ـ خواہ وہ جو فیکلٹی کے اراکین ہیں، خواہ وہ جو وقتی طور پر کام کررہے ہیں ـ کی مشترکہ جدوجہد کا مقصد بننا چاہئے۔
پروفیسر اینیجر کلمبیا یونیورسٹی میں اپنے ہمفکر رفقائے کار کو مخاطب کرکے ان سے چاہتے تھے کہ (اسی یونیورسٹی کے) “پروفیسر جوزف مسعد (Joseph Andoni Massad) نیز فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت بدستور جاری رکھیں۔۔۔ اونچی آواز سے اپنی مخالفت کا اظہار کریں۔ یہ سب اس تعلیم کے لئے اچھا ہے”۔
پروفیسر اینیجر اپنی طرف کی تدریس اور فعالیت (Activism) کی آمیزش کو “جامعاتی آزادی کی حمایت” کا ثبوت قرار دیتے ہیں گوکہ انھوں نے اپنے جذباتی خطاب کے دوران کئی مرتبہ کہا: “مجھے خوف ہے کہ کہیں پاگلوں کی طرح کا نہ ہوجاؤں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: یعقوب لیکسین (Hugh Fitzgerald) ـ ہیو فیٹزجرالڈ (Jacob Laksin)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

یہود دشمنی اسرائیل کی تشکیل کے لیے صرف ایک بہانہ

  • ۳۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب بین الاقوامی صہیونیت نے اسرائیل نامی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا اور اس کے مقدمات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے تو سب سے پہلا جو قدم اٹھانے پر وہ مجبور ہوئے وہ پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنا تھا۔ اس لیے کہ ایک ریاست کی تشکیل کے بنیادی اصول میں سے ایک اصل یہ ہے کہ ایک ثقافت اور مشترکہ آداب و رسومات رکھنے والے افراد کا ایک مجموعہ کسی ایک خاص جگہ پر اکٹھا ہو جائے، لیکن اسرائیل کی تشکیل میں یہ بنیادی شرط وجود نہیں رکھتی تھی۔
اسی وجہ سے صہیونیت کے پرچم دار اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا اقدام کرنے پر تیار تھے۔ امریکہ میں صہیونیوں کی ایک کانفرنس میں کی گئی “ڈیوڈ بن گورین” کی تقریر کو اس بارے میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے عام اعلان کیا: “صہیونیت کی ایک ذمہ داری تمام یہودیوں کو اسرائیل میں لانا ہے۔ ہم والدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری مدد کریں تاکہ ہم ان کے بچوں کو اسرائیل منتقل کریں۔ حتیٰ اگر وہ ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں بھی ہوں گے تو ہم جوانوں کو زبردستی اسرائیل لے جائیں گے”۔
یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے اور حتیٰ انہیں اسرائیل ہجرت پر مجبور کرنے کے لیے صہیونی مبالغہ آرائی، ڈرامہ بازی اور یہود دشمنی جیسے اوزار کا استعمال کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے بہت ساری خبریں اور باتیں حقیقت سے دور ہوتیں یا ان میں مبالغہ آرائی ہوتی تھی۔ دراصل صہیونیت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ خرید کر ان کے ذریعے دنیا میں جھوٹی خبریں پھیلاتی، اور عوام الناس ان چیزوں سے بے خبر ان جھوٹی خبروں پر یقین کر لیتے۔ مثال کے طور پر ۱۹۱۹ میں امریکی سفیر “ہگ گیبسن” (Hugh gibson) نے پولینڈ میں یہود دشمنی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ امریکی میڈیا پر یہودی دشمنی کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ واقعیت سے کہیں زیادہ ہے۔ گیبسن، وزارت داخلہ کو دی جانے والی اپنی رپورٹوں میں اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے تھے لیکن وہ اس بات سے غافل تھے کہ یہ معلومات یہودی زادوں برینڈیز (Kazimierz Brandys) اور فرینکفرٹر (David Frankfurter ) کے ہاتھ لگ جائیں گی۔ ان دو صہیونی یہودیوں نے فورا گیبسن کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور میٹنگ میں برینڈیز اور فرینکفرٹر نے گیبسن سے کہا کہ تم نے یہودیوں کے حق میں سب سے بڑی خیانت کی ہے اس لیے کہ دنیا میں اس طرح کی رپورٹوں کو شائع کئے جانے سے صہیونیوں کی تمام محنتیں ضائع ہو گئی ہیں۔ آخر کار گیبسن کو اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر وہ اپنے نظریے کو نہیں بدلیں گے تو پارلیمنٹ (سنا) میں انہیں ووٹ حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صہیونیوں کی کون سی محنتیں تھیں جو گیبسن کی رپورٹوں کے شائع ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی تھیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں صہیونیت کے سربراہوں اور جرمنی میں نازی گروہ کے درمیان پائے جانے والے تعلقات پر غور کرنا ہو گا۔ صہیونیوں نے یہود دشمنی کے مسئلے کو لے کر طول تاریخ میں سب سے زیادہ جو ناجائز فائدہ اٹھایا ہے وہ ہیٹلر کے دور حکومت میں؛ یعنی ۱۹۳۳ سے ۱۹۴۵ کے دوران اٹھایا ہے۔ صہیونی جماعت حتیٰ اس دور میں یہ کوشش کر رہی تھی کہ یہودیوں کی رہائش کے لیے بنائے گئے کیمپوں کو بھی نابود کرے تاکہ اس طریقے سے ظاہر کر سکے کہ یہودی قوم صرف ایک یہودی حکومت میں ہی امن و سکون کا احساس کر سکتی ہے۔
صہیونی حتیٰ جرمنی میں یہودیوں کے لیے امریکی اور برطانوی عہدیداروں کی جانب سے تعمیر کی جانے والی دائمی رہائشگاہوں کے منصوبے کی بھی مخالفت کرتے تھے اور مخالفت کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہودی جرمنی میں ہی ہمیشہ کے لیے رہائش پذیر ہو جائیں اور فلسطین ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ امریکی صدر روزیولٹ (Franklin D. Roosevelt) کے نمائندے موریس ارنسٹ (Moris Ernest) نے یہودی پناہ گزینوں کی مدد کے سلسلے میں صہیونیوں کی مخالفت کے بارے میں اپنی یادداشت میں یوں لکھا: “جب میں یہودیوں کی رہائش کے لیے جگہ تلاش کر رہا تھا، یہودی رہنما نہ صرف مخالفت کرتے تھے بلکہ بعض اوقات میرا مزاق اڑاتے تھے اور یہاں تک کہ مجھ پر حملے بھی کرتے تھے گویا کہ میں ایک خائن ہوں”۔
نیز سنہ ۱۹۳۳ میں صہیونیوں کے بعض رہنماؤں نے نازیوں کے ساتھ ” منتقلی کا معاہدہ” کے زیر عنوان ایک عہد و پیمان باندھا جس پر بہت سارے یہودیوں نے اعتراض کیا۔ اس معاہدے کے مطابق جرمن یہودی جو فلسطین ہجرت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اپنا مال و منال فلسطین منتقل کرنے پر مجبور تھے۔ اس طریقے سے اقتدار کے پوجاری بعض یہودیوں نے اپنے ہم نوعوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی خواہشات کو پورا کیا۔ “اڈوین بلک” اپنی کتاب “منتقلی معاہدہ” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں: قابل توجہ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آخر کار ایڈولف ہٹلر بھی اسرائیل کے ایک اہم اقتصادی حامی میں تبدیل ہو گئے تھے”۔
دلچسپ یہ ہے کہ تاریخی مطالعات میں کبھی بھی صہیونیوں اور نازیوں کے درمیان پائے جانے والے اس گہرے رابطے کی طرف اشارہ نہیں ہوتا اور صرف نازیوں کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی فضا بھی خود صہیونیوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی۔ اس لیے کہ یہ صہیونی سربراہان تھے جو پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی حمایت میں امریکہ کو شامل کر کے جرمنی کی شکست کا باعث بنے۔ اور اس اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کے خلاف جرمنیوں کا غصہ ابھر آیا۔ لہذا آپ مشاہدہ کر رہے کہ مدعی اور دعوے دار شخص خود قصوروار اور مجرم بھی ہے۔ اور یہ تمام منصوبہ بندیاں صہیونیت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انجام دیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، مقصد بھی حاصل ہو جائے اور ان کا کسی کو پتہ بھی چلے۔
کتاب: Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
مولف: Alison weir

 

شہید چمران کی سب سے بڑی تمنا قدس کی آزادی تھی: خلیل حمدان

  • ۳۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: انسان کے لیے اس بات پر یقین کرنا سخت ہے کہ ایک شخص امریکہ کی ایک اہم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کی جانب سے جاب کا آفر آئے لیکن وہ اسلامی انقلاب کی آواز سن کر اپنی تمام تر آسائشوں اور سہولیات کو نظر انداز کر کے، بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کے آفرز کو ٹھکرا کر امام خمینی (رہ) کے ساتھیوں میں شامل ہو جائے۔ یہ کوئی اور شخص نہیں بلکہ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران تھے۔ شہید چمران نے امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ چھوڑا اور لبنان جو صہیونی دشمن کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر تھا کو راہ خدا میں مجاہدت کے لیے انتخاب کیا۔
حالیہ ایام ڈاکٹر چمران کی شہادت کے ایام ہیں اس حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے لبنان کی ’’امل تحریک‘‘ (Amal Movement) کی اعلی کونسل کے رکن  ڈاکٹر خلیل حمدان سے گفتگو کی ہے جو شہید چمران کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں؛
خیبر: امل تحریک کی تاسیس کے بعد، شہید چمران کا صہیونیوں کے خلاف مجاہدت میں کیا کردار رہا؟
شہید مصطفیٰ چمران اسرائیل کے خلاف جہادی کاروائیوں کے پیچھے ایک مضبوط فکری نظام کے حامل تھے، اور ہمیشہ صہیونی ریاست کے ذریعے فلسطین پر قبضہ کئے جانے سے سخت رنجیدہ خاطر ہوتے تھے۔ ان کی تقریروں اور نوشتوں میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی سب سے بڑی تمنا قدس شریف کی آزادی تھی۔ اور وہ نہ صرف نظریاتی طور پر یہ تمنا رکھتے تھے بلکہ عملی میدان میں بھی انہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف لبنان کی سرحدوں پر جنگ لڑی اور امام موسی صدر کے ساتھ  ’امل تحریک‘ کی تاسیس میں بنیادی کردار ادا کیا۔
خیبر: اسرائیل کے خلاف مجاہدت میں شہید چمران اور امام موسی صدر کی طرز تفکر کے بارے میں آپ کچھ بتا سکتے ہیں؟
امام موسی صدر اور شہید چمران اسرائیل کو شر مطلق اور فلسطین کا دفاع واجب سمجھتے تھے، لہذا ان کی نظر میں سرزمین فلسطین کی حفاظت تمام مومنین کے دوش پر عائد ہوتی ہے۔ شہید چمران کی اس فکر کی بنیاد امام موسی صدر تھے جو از قبل میدان میں اترے ہوئے تھے اور ہمیشہ فرنٹ لائن پر دشمن کے خلاف صف آرا تھے انہوں نے امل تحریک کی بنیاد رکھ کر میدان عمل میں یہ ثابت کیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد کا مسئلہ ایک بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے اور مظلوموں کی مدد کرنا اور ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے لہذا شہید چمران کا طرز تفکر مستکبرین کے مقابلے میں مستضعفین کی کامیابی ہے۔
خیبر: حالیہ سالوں میں مزاحمتی محاذ کی تقویت کے حوالے سے امل تحریک اور حزب اللہ لبنان کا کیا کردار رہا ہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
صہیونی دشمن ہمیشہ لبنان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے اور ہم ’امل‘ اور ’حزب اللہ‘ میں اس بات کے قائل ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں اپنے پیر مضبوط کریں۔ اسرائیل لبنان کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی فوج کو طاقتور بناتا ہے اور مزاحمتی محاذ بھی یقینا مقابلے میں اپنی آمادگی ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ جنوبی لبنان پر حاکم امن و سکون مزاحمتی محاذ کی طاقت اور توانائی کا نتیجہ ہے نہ کہ اسرائیل کی بخشش کا۔

 

صہیونی ریاست اور سعودی اتحاد ‘فرعون’ سے بھی بدتر

  • ۳۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم کی ایک اہم آیت جو دشمن شناسی کے حوالے سے ہماری توجہ کا مرکز قرار پانا چائیے سورہ ممتحنہ کی نویں آیت ہے:
خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «إِنَّمَا یَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ أَخْرَجُوکُم مِن دِیَارِکُمْ وَ ظَاهَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ، وہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہو گا۔
اس آیت میں چند بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں:
۔ ظلم، ظلم ہے چاہے بلاواسطہ ہو یا چاہے بالواسطہ اور کسی کی حمایت کے ذریعے
۔ حتیٰ اگر مظلوم واقع ہوں تو کفار کی طرف دوستی کا ہاتھ مت بڑھانا اور نیکی کی بجاآوری سے کنارہ کشی نہ کرنا۔
۔ دوسروں کی سرزمین کو غصب کرنا اور انہیں ان کے وطن سے نکال باہر کرنا جرم اور ممنوع ہے اور ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ اسلامی جہاد کے عنوان سے جنگ کی جا سکتی ہے۔
دوستی اور انسانی دوستی کے نام سے کفار حربی کے ساتھ مصالحت ممنوع ہے۔(۱)
قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں “یخرجون” کا لفظ استعمال کیا ہے جو عربی قواعد کے مطابق فعل مضارع ہے یعنی فرعون وہ ہے جو موسی کے ماننے والوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرتا ہے۔ در حقیقت یہ ظالم کا طریقہ کار ہے وہ ملت مظلوم کو ان کے وطن سے باہر نکالتا ہے۔ جو کچھ اس دور میں فرعون انجام دیتا تھا آج اس سے کہیں بدتر اسرائیل فلسطین میں انجام دے رہا ہے اور سعودی اتحاد یمن میں۔ یہ “یذبّحون ابنائهم و نسائهم و یقتلون رجالهم” ہیں، یعنی ان کے بچوں اور عورتوں کو ذبح کرتے ہیں ان کے مردوں کو قتل کرتے ہیں۔ فرعون کیا کرتا تھا «یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَ یَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ»[۲] تمہارے بچوں کو قتل کرتا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ لیکن یہ جب بم مارتے ہیں تو بچوں، عورتوں، مردوں سب کا ایک ساتھ قتل عام کرتے ہیں۔
«یُخْرِجُونَ» کا مصداق دنیا میں اس وقت فلسطین ہے کہ ۷۰ سال کے زیادہ عرصہ سے مظلوم عوام کو ان کی سرزمینوں سے باہر نکالا ہوا ہے۔ اور «یذبحون» کا مصداق وہ قتل عام ہے جو سعودی اتحاد یمن میں انجام دے رہا ہے۔ کیا یہ فرعون سے بدتر نہیں ہیں؟
سامراجیت اور صہیونیت سے برائت اختیار کرنا چاہیے، آل سعود سے برائت اختیار کرنا چاہیے۔ اور ہر اس ظالم اور طفل کش سے جو «یَقْتُلُونَ»[۳] اور «یُذَبِّحُونَ» کا مصداق ہو اس سے برائت حاصل کرنا چاہیے۔ (۴)
اگر کوئی ان سے برائت کے بجائے دوستی اور محبت کرے تو اس سے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، چونکہ وہ «إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ» بے نیاز ہے۔ لیکن اس دوستی اور محبت کا تلخ نتیجہ خود انہیں کی طرف پلٹے گا؛ «وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ» یہ ظلم خود ان کے دامن گیر بھی ہو گا جو ظٓالمین سے برائت حاصل کرنے کے بجائے ان سے دوستی کرتے ہیں۔ اور یہ خود بھی دھیرے دھیرے ظالمین کی صف میں شامل ہو جائیں گے بلکہ قرآن کریم نے تو انہیں خود ظالم کہا ہے” وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ،.»[۵] جو لوگ ان سے دوستی کریں گے وہ خود بھی ظالم ہوں گے۔
منابع:
[۱] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درسهایى از قرآن، ۱۳۸۳ ش، چاپ یازدهم جلد ۹ – صفحه ۵۸۷
[۲] سوره بقره، آیه۴۹؛ سوره ابراهیم، آیه۶٫
[۳] سوره اعراف، آیه۱۴۱٫
[۴] تفسیرآیت الله جوادی آملی، سوره ممتحنه جلسه پنجم ۱۳/۱۲/۱۳۹۶
[۵] تفسیرآیت الله جوادی آملی، سوره ممتحنه جلسه پنجم ۱۳/۱۲/۱۳۹۶
مجید رحیمی

 

کتاب ’صہیونیت کی وجہ سے: امریکی ثقافت میں یہودی -عیسائی میراث‘ کا تعارف

  • ۳۸۲

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب کا اصلی نام: “من اجل صهیون: التراث الیهودی- المسیحی الثقافه الامریکیه”
تالیف: فواد شعبان
اسلام کے تئیں مغربی دنیا کی دشمنی اور بدظنی سات سو سال پرانی ہے۔ اس دشمنی کا آغاز اس وقت ہوا جب گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں مغرب کے اندر صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن عصر حاضر میں جس چیز نے اس پرانی دشمنی کو مغربیوں کے دلوں باقی رکھا ہوا ہے وہ اسلامی ممالک کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت اور اسے ایک آزاد ریاست کے عنوان سے تسلیم نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے صہیونی میڈیا نہ صرف مغربی معاشرے کو مسلم ممالک کے خلاف ابھارتا بلکہ وہ بطور کلی مغربی معاشرے میں اسلام کو ایک شدت پسند دین کے عنوان سے متعارف کروانے کی کوشش کرتا ہے اور اسلام کے تئیں ان کی قدیمی دشمنی کو بہر صورت ذہنوں سے مٹنے نہیں دیتا۔ امریکہ کا عیسائی بنیاد پرست معاشرہ کتاب مقدس کے لفظ لفظ پریقین رکھتا ہے اور اس بنا پر وہ یہودی قوم کے لیے ایک خاص مقام و منزلت اور اسرائیل اور صہیون کے لیے اہمیت کا قائل ہے۔
یہ عیسائی جماعت جو یہود و نصاریٰ کی یکجہتی کو شدت پسندانہ طریقے سے ترویج کرتی ہے اس بات کی تلاش میں ہے کہ اسلام کو دونوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مشترکہ دشمن کے عنوان سے متعارف کروائے۔ انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کر کے اسلام، عربوں اور مسئلہ فلسطین کی نسبت امریکہ کے لوگوں کی نگاہ کو تبدیل کر دیا۔ لہذا آپ مشرقی امور کے ماہرین امریکی دانشوروں جیسے ویلیم تھامسن (William thomson) ایڈوارڈ رابن سن (Edward robinson) اور ویلیم لینچ (William Lynch) کے آثار میں اسلام پر عسکریت پسندانہ حملوں کو بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کتاب “صہیونیت کی وجہ سے” کے مولف اس کتاب کو چار حصوں اور ایک ضمیمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے میں براعظم امریکہ کو کشف کرنے والے “کرسٹوفر کولمبس (Christopher Columbus) کی داستان کو بیان کیا گیا ہے اور اس کی شخصیت کو اس اعتبار سے کہ دین اس کے کردار میں کس قدر موثر تھا اور امریکہ کو انکشاف کرنے میں اس کی تلاش و کوشش کتنی موثر تھی کو مورد بحث قرار دیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں پیوریٹن (تطہیری) (۱) گروہ پر کتاب مقدس اور دین یہود کے مبانی کی تاثیر اور امریکہ کے انکشاف میں ان کی نگاہ کی نوعیت پر گفتگو کی گئی ہے۔ فواد شعبان اس بارے میں لکھتے ہیں کہ پیوریٹن گروہ پر کتاب مقدس کے عہد نامہ قدیم کی تاثیر اس قدر گہری تھی کہ پیوریٹنوں کے عقائد اور ان کے طرز زندگی نے امریکہ کے لوگوں کی مذہبی، سیاسی اور سماجی بنیادوں کو بطور کلی تبدیل کر دیا۔
تیسرے حصے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ پیوریٹنوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے امریکہ ہجرت اور وہاں کے مقامی امریکیوں کے ساتھ طرز رفتار کو بنی اسرائیل کے قصے یعنی ان کا مصر سے اخراج اور کنعان میں سکونت سے جوڑ دیا ہے۔ ورنون پرینگٹن (vernon parrington) کے بقول “پیوریٹن گروہ نے خدا کی بادشاہی کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے سرزمین امریکہ میں قدم رکھا”۔
اس حصے کے دوسرے مقام پر مولف نے امریکی سلطنت میں اس تفکر کی گہرائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان میں موجود علامتیں عیسائی عقائد کی بنسبت یہودی عقائد سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں ۔ اور یہ طرز تفکر اس قدر امریکی معاشرے میں جڑیں پکڑ چکا ہے کہ کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔
فواد شعبان اس کتاب کے اگلے حصے میں امریکی عوام کے مصر اور فلسطین زیارتی سفر کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں اس مسافرت نے شدت اختیار کر لی تھی۔ اور اس سفر کا شوق اس قدر امریکی عوام میں زیادہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے رنج و الم کا بہتر ادراک کرنے کے لیے صحرائے سینا سے یروشلم تک کا سفر برہنہ پا کرتے تھے اور اس راہ میں موجود تمام مشکلات کو تحمل کرنے کے لیے تیار تھے۔ مولف نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سرزمین مقدس کی جانب سفر کے اشتیاق نے امریکی سماج میں دین یہود کی محبوبیت کو کئی گنا اضافہ کر دیا جس کے نتیجے میں مشرق زمین اور سرزمین مقدس کے نام سے سفرناموں کی خرید و فروخت نے بھی خوب بازار گرم کیا۔
کتاب کے آخری حصے میں امریکہ میں دین کے کردار کو موضوع سخن بنایا ہے یہ کہ امریکی عوام کی زندگیوں میں دین کا کیا کردار ہے اور یہ کہ امریکہ کا موجودہ دین یورپ سے وارد ہوئے دین سے کوئی اختلاف رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کتاب کے ضمیمے میں آخرالزمان کے مکاتب فکر، پیش گوئیاں اور حضرت مسیح کی حکومت کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔
۱؛ سولہویں اور سترہویں صدی میں ایک انگریز کالوینی پروٹسٹنٹ گروہ تھا جو کلیسیائے انگلستان سے تمام رومن کیتھولک رسومات اور طرز عمل سے پاک کرنا چاہتا تھا۔

 

امریکہ انسانیت کا بدترین دشمن

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: طول تاریخ میں ہمیں امریکہ کی سیاست اور حکومت کی ایک ایسی بدترین مثال نظر آتی ہے کہ جو زبان سے تو انسانیت اور انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے، لیکن عملی طور پر امریکی سیاست و حکومت دنیا کی اقوام کے لئے نہ صرف ایک بدی اور برائی کے طور پر ثابت ہوئی ہے بلکہ پوری انسانیت کی بدترین دشمن کے طور پر سامنے آئی ہے۔ امریکی سیاست کا ہمیشہ سے وتیرہ ہی رہا ہے کہ امریکی مفادات یعنی امریکہ کے چند ایک سیاستدان جو کہ بذات خود اب صیہونیوں کے زیر اثر ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے دنیا کے کسی بھی گوشہ و کنار میں کتنا ہی قتل عام کیوں نہ کرنا ہو کرتے رہو، چاہے نت نئے دہشت گرد گروہ ہی کیوں نہ بنانے پڑیں، چاہے اسرائیل جیسی خونخوار جعلی ریاست کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دے کر نہتے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے یمن میں امریکی اسلحہ کی کھیپ کی کھیپ سعودی حکمران خاندان کو پہنچا کر یمن کے عوام کا قتل عام اور ان پر زندگی تنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چاہے کشمیر میں بھارت کی جارحیت کی حمایت اور مظلوم کشمیریوں کے قتل عام پر خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔
اسی طرح چاہے عراق و افغانستان میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، ویت نام میں انسانیت کی دھجیاں اڑانا، ہیرو شیما و ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانا اور اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستان میں ڈروں حملوں کے ذریعے اور کبھی دہشت گرد گروہوں کا قیام عمل میں لا کر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسی ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلانا پڑے، چاہے فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینا پڑے، چاہے لسانیت کو پھیلانا پڑے، شام میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنا اور اسلحہ پہنچانا، چاہے کسی ملک پر معاشی شکنجہ لگانا پڑے تو لگاؤ، ایران و ترکی جیسے ممالک جو حالیہ دنوں امریکہ کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہیں، اس طرح کے متعدد دیگر مسائل کو پیدا کرنا پڑے، امریکہ یہ سب کرتا آیا ہے، اس عنوان سے امریکہ کی ایک سو سالہ تاریخ دہشت گردی کے سیاہ ترین ابواب سے تاریک تر ہوچکی ہے۔
حالیہ دور میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی سیاست کا دارومدار صرف اور صرف غاصب صیہونیوں کے تحفظ کی خاطر دنیا کے امن کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے، وہ غاصب صیہونی کہ جنہوں نے پہلے امریکہ و برطانیہ کی مدد سے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرکے ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود میں لائے اور پھر فلسطینیوں کا ستر برس سے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے ہیں، اسی طرح پوری دنیا میں ان صیہونیوں کے مفادات کی خاطر انسانیت کے ساتھ عجب مذاق کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجہ میں فلسطین سے کشمیر تک مظلوم انسان اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کئے جا رہے ہیں اور نہ جانے کب تک مزید قتل عام جاری رہے گا۔
رواں ماہ امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا ہے، دراصل اقوام متحدہ کے کردار پر بھی ایک تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا آج تک اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام کیوں رہاہے ہے؟ مزید یہ کہ اس ناکامی کے ساتھ ساتھ عالمی دہشت گرد قوتوں اور قاتلوں کو بھی اس ادارے کی سرپرستی کہہ لیجئے یا پھر خاموش حمایت کیوں حاصل رہی ہے۔ خیر یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کسی اور مقالہ میں تفصیلی گفتگو پیش کیجائے گی۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں دنیا کے متعدد ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سمیت وزرائے خارجہ نے خطاب کیا ہے اور اگر ان سب کے خطابات کا خلاصہ نکال لیا جائے تو افریقہ و یورپ سمیت ایشیاء و آسٹریلیا تک اور لاطینی امریکائی ممالک تک، تمام کے تمام اقوام امریکی ظلم اور ستم ظریفی کو براہ راست اور بالواسطہ بیان کرتے رہے ہیں۔
چین کی بات کریں تو چین نے بھی امریکی شیطانی سیاست پر سخت اعتراض کیا، افغانستان، عراق، شام تو پہلے ہی امریکی ناپاک سازشوں کو بھگت ہی رہے ہیں، فرانس و جرمنی نے بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، ایران نے بھی امریکہ کو دوٹوک الفاظ میں اس کی شیطانی سیاست پر آئینہ دکھایا ہے، ترکی نے بھی کھری کھری سنا دی ہیں، اسی طرح لاطینی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک بولیویا نے بھی امریکی سازشوں اور دہشت گردانہ سیاست کو مسترد کیا ہے، ونیزویلا، شمالی کوریا، روس، پاکستان سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں نے امریکہ کی غلط اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یعنی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں امریکی سیاست و حکومت کے کارناموں پر جس طرح سے دنیا بھر کی اقوام کے نمائندوں سے اظہار خیال کیا ہے، یہ اس بات کی کھلی دلیل اور ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کی سیاست دنیا کے اقوام کی بدترین دشمن ہے، جیسا کہ ایک سو سالہ تاریخ میں امریکہ کے ہاتھوں پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کی پالیسی کے باعث نہ صرف امریکی عوام کی نظروں میں اپنا معیار کھو چکی ہے بلکہ دنیا کی دیگر مہذب قومیں بھی امریکی حکومت کی ایسی پالیسیوں کو کہ جس کے تحت امریکہ ہر دہشت گردی کے اقدام کی حمایت کرتا ہے، سخت مخالف کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فلسطین، یمن، لبنان، شام، عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، کشمیر، برما و دیگر ممالک میں جہاں جہاں دہشتگردی ہے، سب امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کی مرہون منت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب امریکی حکومت کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر کی انتھک کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کسی بھی ایک ملک نے ووٹ نہیں دیا اور امریکی صدر کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ خود امریکی سیاست اور حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے باعث آج ہر ذی شعور یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ دنیا کی واحد حکومت ہے کہ جو دنیا بھر کی اقوام کی بدترین دشمن ہے۔
تحریر: صابر ابومریم

 

ہندوستان کی قدیم تہذیب کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار

  • ۵۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ہندوستان ایسی سرزمین کا نام ہے جس کی تہذیب و ثقافت تین ہزار سال پرانی ہے بلکہ اس دور سے ملتی ہے جب حضرت انسان نے اس کار گہہ حیات میں قدم رکھا اور خالق کائنات نے انسانی پیکر کو حیات بشری کا لباس پہنایا۔ تاریخ نے اس سرزمین کے دامن میں بے شمار گلہائے رنگارنگ کھلائے اور تہذیب و ثقافت کے بے بہا موتی بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو عجائب گھر کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی یہ قدیمی تہذیب و ثقافت مصری، سمیرین، آشوری، کلدانی، ایرانی اور یونانی تہذیبوں کے ساتھ آمیختہ ہو کر ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے اسی وجہ سے بھارتی تہذیب میں مذکورہ تہذیبوں کے مشترکہ نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس سرزمین کی انوکھی تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار بھی اپنی جگہ محفوظ ہے۔ دینی مدارس نے ہندوستانی تاریخ اور تمدن کو دینی تعلیمات کے ہمراہ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے میں بے حد سرمایہ لٹایا ہے۔ جہاں ہندوستان میں دینی مدارس نے اسلامی تہذیب کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا وہاں گنگا جمنی تہذیب کو بھی پروان چڑھایا۔ دینی مدارس چاہے اہل سنت و الجماعت مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں چاہے شیعہ مکتب فکر سے دونوں مکاتب کے مدارس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب کی یلغار اور سیاہ آندھیوں سے محفوظ رکھنے میں بے مثال کردار پیش کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس سرزمین کے دینی مدارس اور حوزات علمیہ نہ صرف مذہبی تعلیمات کی ترویج میں کوشاں رہے بلکہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں بھی موجود خلاؤں کو پر کیا اور معاشرے کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سدھار لانے کی کوشش کی۔ یہ علمی مراکز ممتاز طلاب کی تربیت کے ذریعے معاشرے کی ثقافت کو رونق بخشتے اور ایسے افراد کو معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو دینی اور ثقافتی یلغاروں کے مقابلے میں مضبوط ڈھال بن کر جہاں دین کی پاسبانی کرتے ہیں وہاں معاشرے اور ملک کی تہذیب کو بھی شرپسندوں اور انتہاپسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
دینی مدارس کا بھارت کی سرزمین میں روشن اور درخشاں ماضی پایا جاتا ہے بڑے بڑے مجتہد ان مدارس نے جنم دئے اور ایسے قیمتی اور گرانقدر کتب خانے وجود میں لائے جن میں ایسی بےبدیل کتابیں مہیا ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود نہیں ہیں۔ ہندوستان میں علم کلام اور فقہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ظہور اسلام کے ابتدائی ادوار سے آغاز ہو گیا تھا، اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ و نقلیہ کے فروغ کے لیے مختلف مدارس اور حوزات علمیہ وجود میں لائے گئے تاکہ دینی تعلیمات کے حصول کے شائقین ایک ساتھ مجتمع ہو کر علوم الہیہ سے اپنی تشنگی بجھائیں اور بھارت کی سرزمین پر توحید پرستی کا پرچم لہرایا۔
اگر ہندوستان کے دینی مدارس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں تمام مسلمان چاہے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل سنت و الجماعت سے، مشترکہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے اختلافات وجود میں آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور دینی مدارس شیعہ و سنی مدارس کی شکل میں پھیلتے گئے۔ بہر صورت دونوں طبقے کے دینی مدارس میں اپنے اپنے اعتبار سے اسلامی علوم کو ترقی ملتی گئی اور فقہ و حدیث و تفسیر کی تعلیم کے علاوہ علم ریاضیات، علم ہیئت، علم منطق اور اسلامی فلسفہ جیسے علوم بھی خصوصا شیعہ مدارس میں رائج ہو گئے۔ ہندوستان کے معروف شیعہ مدارس میں حوزہ علمیہ “سلطان المدراس” کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہل تشیع کے دینی مدارس میں علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم نے شیعہ ثقافت کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مدارس نے ایسے عظیم علماء اور دانشوروں کی تربیت کا سامان فراہم کیا جنہوں نے عالم اسلام کی فکری اور عقیدتی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ (۱)
برصغیر میں شیعہ نوابوں نے بھی دینی مراکز کی تعمیر اور ممتاز علمی شخصیات کی تربیت میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا یہاں تک کہ ہندوستان کے دینی مدارس اور علماء کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کی علمی اور مالی حمایت حاصل ہو گئی۔ یہ حمایت اس بات کا سبب بنی کہ ہندوستان کے علمی مراکز اور کتب خانے ایک قسم کی مرکزیت حاصل کر جائیں اور علامہ امینی جیسی شخصیت کو الغدیر کی تدوین کے لیے ہندوستان کا سفر کرنا پڑ جائے۔
اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہندوستان کے شیعہ مدارس کی حد اکثر تعداد ۲۰ عدد تھی لیکن اس وقت ہندوستان میں ۷۰ سے زیادہ دینی مدارس پائے جاتے ہیں۔ یہ دینی مدارس کہ جن میں سے بہت سارے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے تعمیر ہوئے ہیں بالعموم ہندوستانی معاشرے میں اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے اور بالخصوص شیعہ سماج میں بالیدگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شیعہ مدارس کے علاوہ اہل سنت و الجماعت کے دینی مدارس کو بھی ہندوستان میں بہت بڑی مرکزیت حاصل ہے یہاں تک کہ کئی دیگر ممالک کے طلاب بھی ان مدارس سے کسب فیض کرنے ہندوستان جاتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند اور جامعہ رضویہ بریلوی اس مکتب فکر کے دو اہم مدارس شمار ہوتے ہیں۔
۱ سفربه سرزمین هزار آیین، گزارش سفر آیت الله مصباح یزدی به هندوستان, ص ۱۵۲  تا ۱۵۴
بقلم: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

صہیونی ریاست کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

  • ۳۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسرائیل کی تشکیل میں اہم ترین کردار برطانیہ کا ہے اور حتیٰ تاریخ میں یہ ذکر ہوا ہے کہ عثمانی حکومت کے زوال کے بعد، فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ چلا گیا اور برطانیہ نے اس سرزمین کو صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اس ریاست کی تشکیل میں برطانیہ سے کہیں زیادہ امریکہ کا کردار ہے جو پہلی عالمی جنگ میں نمایاں ہوتا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت اس کے باوجود کہ امریکہ جنگ کے دو اصلی حریفوں میں سے کسی ایک کا طرفدار نہیں تھا، اس بات کا باعث بنی کہ بہت سارے امریکیوں کو اپنی جانوں سے منہ ہاتھ دھونا پڑا۔ اس زمانے کے امریکی عوام سخت مخالف تھے کہ امریکہ جنگ میں آگ میں کود پڑے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے بلکہ یہاں تک کہ امریکہ کا اٹھائیسواں صدر ’ ووڈرو ولسن ‘ اس وقت اسی شعار کے ساتھ مسند صدارت پر براجمان ہوا کہ وہ امریکہ کو عالمی جنگ سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے باوجود اس نے ۱۹۱۷ میں اپنا موقف بدلتے ہوئے عالمی جنگ کی آگ میں چھلانگ لگائی اور ۲۷۰ ہزار امریکیوں کے قتل یا زخمی ہونے کا باعث بنا۔ البتہ یہ تعداد ۱۲۰۰ ہزار کے علاوہ ہے جو جنگ کی مخالفت میں امریکی عقوبت خانوں میں بند کئے گئے۔
تجزیہ نگار پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسے جرمن آبدوز کے ذریعے امریکی بحری جہاز کا غرق کیا جانا یا امریکی ڈپلومیٹیک شکست، برطانیہ کی اشتعال انگیزی، وغیرہ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ امریکہ کو پہلی عالمی جنگ میں دھکیلنے والے امریکی صہیونی یہودی تھے۔
صہیونی ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے عثمانی سلطنت کے پاس گئے، لیکن عثمانی بادشاہ نے مخالفت کے ضمن میں، انہیں عثمانی حکومت کے قلمرو کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر یہودی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دیا کہ جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ برطانوی حکومت کے پاس گئے لیکن  اس نے بھی کچھ زیادہ اس بارے میں رجحان نہیں دکھایا۔
لیکن ۱۹۱۶ء میں برطانیہ کے حالات میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ جو پہلی عالمی جنگ میں پیش قدم تھے انہوں نے ایک دن میں ۶۰ ہزار جانوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا۔ حالات انتہائی بحرانی کیفیت اختیار کر گئے تھے۔ ایسے سخت حالات میں صہیونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ کو جنگ سے نجات دلانے کا وعدہ دیا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے برطانیہ سے ایک خاص چیز کا وعدہ لیا۔
اس سے پہلے صہیونی، فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے برطانیہ کو قانع کرنے کے لیے صرف مذہبی دلائل پیش کرتے تھے لیکن اس بار انہوں نے اعلان کیا کہ اگر برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت کا وعدہ دے تو ہم جنگ میں امریکہ کو برطانیہ کی حمایت کے لیے میدان میں لائیں گے۔
لہذا برطانوی وزیر خارجہ “لورڈ بالفور (Lord Balfour) نے ۱۹۱۷ میں صہیونیوں کے رہنما “لورڈ روتھسچیلڈ (Lord rothschild) کے نام ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت میں خط لکھ دیا۔ یہ خط جو بعد میں “بالفور” اعلانیہ کے نام سے معروف ہو گیا، اس میں یہودی ریاست کی تشکیل میں تعاون کے مشورے کو قبول کیا۔ البتہ اس خط میں یہ قید بھی لگائی گئی تھی کہ فلسطین میں ساکن غیر یہودیوں کے مذہبی اور شہری حقوق پامال نہیں ہونا چاہیے، لیکن بعد میں بالکل اس کے برخلاف عمل کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دو ملکوں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان کن لوگوں نے رابطہ پل قائم کیا؟
واضح ہے کہ یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
امریکہ میں ’لوئیس برانڈیس‘ نامی صہیونی یہودی جو سپریم کورٹ کا جج بھی تھا اور امریکی صدر کا بہت قریبی دوست بھی وہ اس کام کا پیچھا کر رہا تھا اور برطانیہ میں ’آمری (Leopold Amery) نامی شخص ان امور پر ناظر تھا۔ البتہ یہودی ریاست کی تشکیل کا نظریہ سب سے پہلی مرتبہ پروشیم(parushim) خفیہ تنظیم کے بانی “ہورس کالن” نے پیش کیا۔ اس کے بعد صہیونی سربراہان نے اس پر غور و خوض کے بعد برطانیہ کو اس پر عملی جامہ پہنانے کی پیشکش کی۔ بہت ساری اہم سیاسی شخصیات جیسے برطانوی وزیر خارجہ لوئڈ جورج ( Loyd george) ، برانڈیس یونیورسٹی کے استاد فرینک ای مینوئل (Frank E manuel) بیت المقدس میں امریکی قونصلٹ کے عہدیدار ایون ام ویلسن (Evan m wilson) صہیونی مورخ نوآمی کوہن اور دیگر بہت سارے افراد نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں امریکی صہیونیوں کی اس کام میں براہ راست مداخلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں جب صہیونی یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہے تھے تو ۱۹۱۷ میں امریکی وزیر خارجہ روبرٹ لینسینگ (Robert Lansing) کے پاس رپورٹ پہنچی جس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ عثمانی حکومت جنگ سے تھک چکی ہے اور ممکن ہے وہ جرمن اتحاد سے باہر نکل جائے اور برطانیہ کے ساتھ کوئی الگ معاہدہ کر لے۔ یہ چیز اگر چہ برطانیہ کے فائدے میں تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صہیونی اپنے مقاصد تک نہ پہنچ سکیں یعنی فلسطین میں یہودی ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ اس لیے کہ ممکن تھا اس معاہدے کے تحت فلسطین عثمانیوں کے ہاتھوں میں باقی رہ جائے۔
امریکہ ایسے معاہدے کو امکان سے باہر سمجھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے محققین کا ایک وفد عثمانی سلطنت کی طرف بھیجا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس وفد کا ایک شخص جو اس ٹیم کے افراد کے انتخاب کے لیے پیش پیش تھا ایک صہیونی یہودی تھا جس کا نام فلیکس فرانکورٹر تھا اور وہ پروشیم خفیہ تنظیم کا رکن اور اس کے بانی لوئیس برانڈیس کا پرانا دوست تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وفد کے منتخب تمام افراد صہیونی تھے اور یہی لوگ باعث بنے کہ عثمانی حکومت اور برطانیہ کے درمیان کوئی معاہدہ تشکیل نہ پائے۔
یہودیوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سارے غیر یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جو خود امریکی تھے۔ اس یہودی وفد نے انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اپنے مقصد کو حاصل کر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔
کتاب Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
مولف: Alison weir
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر میلاد عسگری

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/شیخ عیسی احمد قاسم

  • ۳۵۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شیخ عیسی قاسم بحرین کے شیعہ عالم دین اور ایک سیاسی و سماجی اہم شخصیت ہیں۔ آپ نے حوزہ علمیہ نجف اور قم میں دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ایک مدت تک بحرین کی قومی اسمبلی اور قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے، علاوہ از ایں ایران کے عالمی اداروں کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ اہل البیت (ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ (۱)
شیخ عیسی قاسم کی نگاہ میں باطل طاقتوں کے مقابلے میں خاموشی، مفسد حکمرانوں کے سامنے جھکنا، استعماری بربریت اور جارحیت سہہ جانا اور دین و آزادی کو نظر انداز کر دینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ شیخ کے انہیں نظریات اور افکار کی وجہ سے بحرین کی حکومت وقت نے ۲۰۱۶ میں آپ کی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ (۲)
شیخ عیسی قاسم اپنے ملک کے اندرونی حالات پر توجہ دینے کے علاوہ علاقے اور عالم اسلام خصوصا فلسطین کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ منامہ کانفرنس اور بعض عربی ملکوں کی خیانت کے بارے میں فرماتے ہیں: اسرائیل کی قربت اختیار کرنے کی غرض سے یہ اقدام اور دیگر حقارت انگیز اقدامات کا مطلب امت کے مقدسات کی کھلے عام بے حرمتی اور صہیونی ریاست کی حمایت کا اعلان ہے۔ (۳)
۲۰۱۹ میں یوم القدس کے موقعہ پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دیئے گئے ایک بیان میں آپ نے کہا: ’’صدی کی ڈیل اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے امریکہ و اسرائیل کے اکسانے پر منامہ کانفرنس در حقیقت امت اسلام پر سامراجیت کی بالا دستی کو قبول کرنے اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے‘‘۔
آپ نے قم میں یوم القدس کی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا: یوم القدس کی ریلی کا مقصد استکبار اور مڈرن جاہلیت کا مقابلہ اور راہ خدا میں اجتماع ہے جس کے نتیجہ میں خدا کامیابی عطا کرے گا‘‘۔ (۴)
شیخ عیسی قاسم نے اسی طرح تینتیسویں بین الاقوامی وحدت کانفرنس میں قرآن کریم کی بعض آیات سے استدلال کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا حل صرف اسلامی وحدت میں قرار دیا اور کہا:
’’فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے امت ایک سخت آزمائش میں مبتلا ہے یہ امت یا اختلاف کا شکار رہے اور دن بدن شکست کا منہ دیکھتی رہے یا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جائے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔
فلسطین اور قدس امت اسلامی کا مسئلہ ہے اس مسئلے کے حل کے لیے پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چائیے اور فلسطین کی امداد رسانی کے لیے آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہیے فلسطین صرف نعروں اور ریلیوں سے واپس ملنے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے قربانی دینا پڑے گی، اور فلسطین کی آزادی کی راہ میں ایک رہبر کا حکم ماننا پڑے گا تاکہ یہ مسئلہ کسی نتیجہ تک پہنچے۔ (۵)
حواشی
۱۔ https://iqna.ir/fa/news/3816001
۲- http://fa.wikishia.net/view
۳- https://fa.alalamtv.net/news/4144886
۴- https://tn.ai/2022825
۵- https://www.farsnews.com/news/13980823000335