-
Wednesday, 24 June 2020، 08:37 PM
خیبر صہیون ویب گاہ کے سیاسی شعبے کی رپورٹ کے مطابق، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “امریکہ کے ۱۰۱ خطرناک پروفیسر (The 101 Most Dangerous Academics in America) کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کتاب میں امریکی جامعات کے ۱۰۱ ایسے اساتذہ کو موضوع سخن بنایا گیا ہے جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں اور تقاریر میں ہولوکاسٹ اور یہودیوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری جامعات کے اساتذہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان اساتذہ کی کاوشوں سے استفادہ نہ کریں کیونکہ انھوں نے سرخ لکیروں کو پھلانگ لیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب آزادی نامحدود ہوجائے تو دشواریاں معرض وجود میں آتی ہیں اور آخرکار اس کو محدود کردیں گے۔ [گوکہ حقیقت یہ ہے امریکی معاشرہ سیاسی اور سماجی قواعد کے لحاظ سے کبھی بھی آزاد نہیں تھا لہذا آزادی کے امریکی تصور کا علمی اور منصفانہ جائزہ لینا چاہئے]۔
ذیل کا متن پروفیسر گِل اینیجر کے بارے میں ہے اور وہ ان ۱۰۱ پروفیسروں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں کتاب کے مؤلف نے اظہار خیال کیا ہے۔
– پروفیسر گِل اینیجر (Professor Gil Anidjar)
– پیدائش: ۱۹۶۴؛ فرانس
– کولمبیا یونیورسٹی (Columbia University)
– ایسوسی ایٹ پروفیسر تقابلی ادب
– اسرائیل مخالف کارکن ـ اسلامی انتہا پسندی کا حامی
پروفیسر گل اینیجر کولمبیا یونیورسٹی کے مشرق وسطی کے تقابلی ادب اور ایشیائی زبانوں کے شعبےکے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ اس مضمون میں سامی نسل، مذہب اور ادب کے موضوعات میں پروفیسر اینیجر کی تدریسی سرگرمیوں، ان کی کلاسوں میں لفظ “سامی” کے استعمال، نیز اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے گا کہ “پروفیسر اینیجر کس طرح یونیورسٹی کے مختلف حصوں اور افراد کو متاثر کرتے ہیں۔
اس بات میں کچھ زیادہ شک نہیں ہے کہ پروفیسر گل اینیجر جیسے اساتذہ اس موضوع سے اثر لیتے ہیں؛ پروفیسر اینیجر کہتے ہیں کہ لفظ “سامی” دباؤ کا ایک ذریعہ ہے جو اسرائیلی ریاست کے قانونی جواز (Legitimacy) کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ایک مکالمے میں دعوی کیا ہے کہ “آخری سامی عرب ہیں اور عرب ہی سامی ہیں”؛ وہ اس طرح بطور ایک یہودی ریاست، اسرائیلی ریاست کی حیثیت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر اینیجر استدلال کرتے ہیں کہ: عرب ایک ایسی نسل میں تبدیل ہوچکے ہیں جو ابھی تک اپنے دین سے متصل ہیں، حالانکہ یہودی مغربی عیسائیوں میں تبدیل ہوچکے ہیں؛ چنانچہ وہ نسلی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی، اس خصوصیت سے محروم ہوچکے ہیں”۔ دریں اثناء کولمبیا یونیورسٹی کے حکام نے ان نسل پرستانہ خیالات پر کوئی رد عمل نہیں دکھایا ہے۔
پروفیسر گل اینیجر کی باتوں کا ضمنی مفہوم یہ ہے کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست کے طور پر وجود میں آنے [اور وجود میں رہنے] کا حق نہیں رکھتا۔ وہ یہودی ریاست کو آخرالزمان سے متعلق مسائل کا ملزم ٹہراتے ہیں اور اس نکتے کو صہیونیت کے خلاف ان کے بہت سارے خطابات سے تقویت پہنچتی ہے۔
پروفیسر گِل اینیجر جب کلاس روم میں صہیونیت کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ “جو بحث میں چھیڑنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ «بہت ضروری ہے کہ صہیونیت کی استعماریت اور بالخصوص لفظ “استعمار” پر تاکید کروں۔ اسرائیل مکمل طور پر ایک استعماری تنظیم اور ایک استعماری ریاست ہے جو قائم ہوچکی ہے۔
تاهم پروفیسر اینیجر اسلام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی سخاوتمندی کا اظہار کرتے ہیں: جب اسلام پر تنقید ہوتی ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ: “درحقیقت جو مسئلہ اس وقت موجود ہے اور میں حقیقتا نہیں سمجھتا وہ یہ ہے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ اسلامی ممالک کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔
یہودی ریاست (اسرائیل) کے ساتھ پروفیسر گل اینیجر کی دشمنی کی جڑیں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اسرائیل مخالف اکیڈمک کے طور پر ان کے شدید تعصب میں پیوست ہیں۔
مورخہ ۱۳ نومبر ۲۰۰۲ع کو کولمبیا میں اسرائیلی نسلی عصبیت کے خلاف کارروائی پر قومی اقدام کا دن منایا گیا تو پروفیسر گل اینیجر ایک اجلاس کی قیادت کررہے تھے جس کا مقصد اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین کی ممانعت تھا۔
پروفیسر اینیجر ایک اکیڈمک کے طور پر اپنے اور ایک سیاسی کارکن کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جامعاتی شخصیت وہ نہیں ہے جو صرف علم سیکھتا ہے یا ایک طالب علم کو غیرجانبدارانہ طور پر حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ بلکہ جامعاتی شخصیت وہ ہے جو طلبہ کو اپنے سیاسی محرکات کی طرف کھینچ لیتا ہے۔
پروفیسر اینیجر نے ۲۰۰۵ع میں ایک اسرائیل مخالف اجلاس میں ان ہی محرکات میں سے ایک (یعنی فلسطینیوں کے حقوق) کے سلسلے میں کہا تھا: میرے یقین کے مطابق اس (فلسطینیوں کے حقوق کا) موضوع کو تمام طلبہ اور اساتذہ ـ خواہ وہ جو فیکلٹی کے اراکین ہیں، خواہ وہ جو وقتی طور پر کام کررہے ہیں ـ کی مشترکہ جدوجہد کا مقصد بننا چاہئے۔
پروفیسر اینیجر کلمبیا یونیورسٹی میں اپنے ہمفکر رفقائے کار کو مخاطب کرکے ان سے چاہتے تھے کہ (اسی یونیورسٹی کے) “پروفیسر جوزف مسعد (Joseph Andoni Massad) نیز فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت بدستور جاری رکھیں۔۔۔ اونچی آواز سے اپنی مخالفت کا اظہار کریں۔ یہ سب اس تعلیم کے لئے اچھا ہے”۔
پروفیسر اینیجر اپنی طرف کی تدریس اور فعالیت (Activism) کی آمیزش کو “جامعاتی آزادی کی حمایت” کا ثبوت قرار دیتے ہیں گوکہ انھوں نے اپنے جذباتی خطاب کے دوران کئی مرتبہ کہا: “مجھے خوف ہے کہ کہیں پاگلوں کی طرح کا نہ ہوجاؤں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: یعقوب لیکسین (Hugh Fitzgerald) ـ ہیو فیٹزجرالڈ (Jacob Laksin)
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی