امام خمینی (رہ) نے سیاسی اسلام زندہ کر دیا/ مسئلہ فلسطین امام کی ترجیحات میں شامل تھا

  • ۴۹۳


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۴ جون اسلامی انقلاب کے بانی رہبر کبیر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وفات ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے لبنان کے عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین ’’زیاد سلمان‘‘ سے گفتگو کی؛
خیبر: معاصر سیاسی اور سماجی تحریکوں میں نئی روح پھونکنے کے حوالے سے امام خمینی(رہ) کا کیا کردار ہے؟
امام خمینی نے پہلی بار نئی تاریخ میں ایک منظم اور مہدوی اسلام کو عملی شکل میں پیش کیا اور اسے اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈھانچے میں ڈال دیا تاکہ اس طرح سے سیاسی اسلام کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور علاقائی اور عالمی سطح پر اسے پہچنوا سکیں۔
خیبر؛ امام خمینی (رہ) نے کس طرح لوگوں کو مغربی اور مشرقی تسلط کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا اور تیسری دنیا کے ان پر انحصار کے خاتمہ کا مطالبہ کیا؟
امام خمینی ایک انتہائی اہم اور عظیم شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے ایرانی عوام کو ظلم ، استبداد اور استعمار کے خلاف جنگ کی راہ پر گامزن کیا۔ لہذا اس نایاب رہنما کے بارے میں گفتگو کرنا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جو کچھ امام کے ہاتھوں انجام پایا وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ جہان میں ایک سرنوشت ساز تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا آپ کا اصلاح پسند، مہدوی اور اسلامی منصوبہ پہلی بار تاریخ میں نفاذ کے مرحلے تک پہنچا۔

 خیبر: امام خمینی کا ایک اہم نظریہ دین کو سیاست سے الگ نہ کرنا تھا۔ اس مسئلے کی اہمیت کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
دین اور سیاست میں عدم جدائی امام خمینی کا ایک اہم نظریہ تھا جو معاشرے کی اصلاح کے لیے بنائے گئے اسلامی منصوبے کا حصہ تھا اسی وجہ سے امام کے افکار و نظریات پر کام کرنے والے تمام محققین کا یہ ماننا ہے کہ امام کے اس نظریے نے سیاسی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کر دیا۔
امام خمینی نے در حقیقت اس تفکر پر اسلامی انقلاب کی تحریک کا آغاز کیا جو عوام پسند بھی تھا اور عقل و منطق کے ترازو پر بھی پورا اتر رہا تھا۔ آپ نے معاشرے میں خالص اسلام کے نفاذ کا منصوبہ پیش کر کے عالمی سطح پر اس فکر کی بیخ کنی کر دی کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت کیا کہ دین عین سیاست ہے۔

خیبر: امام خمینی نے یہ کیوں اعلان کیا کہ بیت المقدس کو اسلامی موضوعات کے سرفہرست قرار پانا چاہیے؟
مسئلہ فلسطین امام خمینی کے نزدیک اہم ترجیحات میں شامل تھا اور وہ ہمیشہ اسے اپنے دل و دماغ میں محسوس کرتے تھے۔ ایران میں انقلاب کی کامیابی، ایرانی عوام کی قربانی اور طاغوت کی سرنگونی بالخصوص ایران میں امریکہ کے خاتمے کے بعد ، قدس اور فلسطین کی آزادی ایران کی پہلی ترجیحات میں شامل ہو گیا۔ اور یوم القدس کا اعلان کر دیا گیا تاکہ اس طرح سے دنیا کے حریت پسند متحد ہو جائیں۔
امریکہ ہمیشہ غاصب صہیونی ریاست کی حمایت کرتا ہے اور امام خمینی اسرائیل کی نابودی کو اسلامی انقلاب کی تکمیل سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے صہیونی دشمن کے خلاف جد و جہد کو دینی اور عقیدتی عمل قرار دیا ۔ امام خامنہ ای نے بھی امام خمینی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس بات پر ہمیشہ زور دیا کہ سب کو مل کر فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے قربانی دینا چاہیے۔ پروردگار عالم امام خامنہ ای کی عمر طولانی کرے تاکہ دنیا کے آزادی خواہان کے ساتھ قدس میں نماز ادا کر سکیں۔ قدس کی آزادی ایک خدائی وعدہ ہے۔

 

 

جرائم پیشہ امریکہ اور پاگل ٹرمپ کے علاوہ صہیونی ریاست کا کوئی حامی نہیں

  • ۵۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین اسٹڈیز سنٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر صادق رمضانی نے کہا:

آج، صیہونی دشمن شدید بحران اور مایوسی کا شکار ہے، اور جرائم پیشہ امریکہ اور پاگل ٹرمپ کے علاوہ کوئی اس کا مضبوط حامی نہیں ہے۔ رہبر انقلاب کے بیانات میں فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں جو اہم نکتہ تھا وہ یہ کہ فلسطینی اتھارٹی مزاحمتی محاذ کا ساتھ دے اور کسی غلطی کا ارتکاب نہ کرے۔ اس لیے کہ کسی بھی طرح کی اسٹریٹجک غلطی یا ان طاقتوں کی طرف معمولی سا جھکاؤ یا ان سے وابستہ عربی ممالک کی طرف جھکاؤ فلسطین کےلیے پریشان کن ثٓابت ہو سکتا ہے۔

سب لوگوں کو اسرائیل کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہیے

  • ۶۰۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: محقق حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر رضا برنجکار نے کہا:

جب ہم مسئلہ فلسطین پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادھر ادھر سے اکٹھا ہو کر فلسطین میں آتے ہیں اور وہاں کے رہنے والوں کو ان کے وطن سے باہر کر دیتے ہیں اور کچھ کو تہ تیغ کر دیتے ہیں۔ کچھ کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیتے ہیں اور پھر دن بدن جو باقی ماندہ ہیں ان کے گھروں کو مسمار کرتے اور لوگوں کو اذیت کرتے ہیں۔ اور ان کے گھر مسمار کرکے ان کی جگہ اپنے گھر بناتے ہیں۔ یہ تمام ادیان کی تعلیمات کے منافی ہے، بلکہ عقل انسانی کے خلاف ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ صہیونی خود دین یہود کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ صہیونیوں کے کارنامے انتہائی برے ہیں، اور تمام انسانوں کو صہیونی ریاست اسرائیل کے اقدامات کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ کم سے کم جو کام لوگوں کو کرنا چاہیے وہ اس رژیم کے خلاف احتجاج ہے۔

انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک، شیطان کی ڈگڈگی پر تکفیریت کا ننگا ناچ. 2

  • ۴۳۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

 

بقیع محض ایک قبرستان نہ تھا :

بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر کے کچھ لوگوں نے اپنی نابودی کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟
جسطرح شیطان ہونے کے باوجود رحمان کے سامنے نابودہے ویسے ہی یہ تکفیریت و وہابیت کے پتلے تعلیمات اھلبیت اطہار علیھم السلام اور بی بی زہرا سلام اللہ علیھا کے دئے گئے دربار ِ خلافت میں تاریخی خطبہ کے سامنے نابود و نابود ہیں انکا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے  جہاں ہواو ہوس کے میلے ہو جہاں خواہشات نفسانی  کے سجے بازار ہوں جبکہ یہ ہر اس جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں شیطان بھاگتا ہے  جہاں عبودیت کی بات ہو یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برات کے اظہار کی بات ہوگی وہاں یہ  دم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی ، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے ۔
یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے ،کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر کہیں نائجیریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر کہیں سعودی عرب میں شیخ النمر کا سر قلم کر کے کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کر کے ، کہیں معصوم پھولوں کو مسل کر  کہیں ننھی کلیوں کو کچل  کر  کہیں دھماکوں کے درمیان کہیں شعلوں کے درمیاں کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے حال ہی میں افغانستان  میں بچوں کے ایک ہاسپٹل پر جو حملہ ہوا اسے آپ کیا نام دیں گے کیا وہ لوگ انسان تھے جنہوں نے معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا یا وہ شیطان کے چیلے تھے جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل کر رہے ہیں انسانیت شرمسار تھی اور شیطان کے قہقوں کو  صاف سنا جا سکتا تھا ۔ یقینا جب کبھی بھی اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں کلاشنکوف و مشین گنوں سے جب بھی موت برستی ہے تو  شیطان ڈگڈگی بجا کر اپنے  چیلوں کو داد تحسین دیتا نظر آتا ہے اسکے اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں کہیں یہ  داعش کا ہاتھ تھامے نظر آتا ہے  کہیں النصرہ کا کہیں القاعدہ و طالبان تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ سب کی آوازیں ایک جیسی سب کے رنگ ایک جیسے سب کا انداز ایک جیسا یہ عصبیت کے پتلے یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سایے شیطان کے کارندے یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو کون ہیں؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآں …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لیکر نکلے جدھر پہنچے حیوانیت کا بھانگڑا کرتے پہنچے درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے ۔

وہابیت کی جانب سے قتل و غارتگری امت مصطفے کی غفلت کا نتیجہ :

شک نہیں کہ  اگر امت مصطفی  صلی  اللہ علیہ وا آلہ وسلم اگر بیدار ہوتی تو کبھی یہ لوگ  دنیا میں اتنی ناامنی نہیں پیدا کر سکتے تھے ،اگر بقیع کی ویرانی پر ساری امت محمدی ایک ساتھ کھڑی ہو گئی ہوتی تو اسلامی تعلیمات کو تار تار کرنے کی ہمت اس ٹولے میں نہ ہوتی کہیں ویران بقیع کی صورت کہیں دہشت و خوف کے مہیب سایوں کی صورت، کہیں اسکول کے معصوم بچوں کی فریادوں کی صورت کہیں ، بچوں کے ہاسپٹل میں مجبور ماوں کی چیخوں کی صورت ۔
ہمارے لئے  ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا ، انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا حتی اسلام کا مرکز جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا چنانچہ تاریخ بتاتی ہے وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ، شہرکامحاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پرقبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں ائمہ علیہم السلام کی قبور اوراسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراھیم فرزندپیغمبر ۖ ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خدا ۖ، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی تمام کے تمام قبور کو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے امام مجتبی علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر و صادق علیھما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو ائمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھی[i] ۔
اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت ، شہدائے بدرکی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ گھر بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے لئیے مدینہ میں بنایا تھا [ii]۔
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں :
١٢١٧ھ؁ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے ، بڑے ، سردارو مزدور سب کوقتل کرڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک مائوں کی آغوش میں ان کے شیرخواربچوں کے سرتن سے جداکردیئے ، لوگوں کامال لوٹا اورعورتوں کوقیدی بنالیا[iii] … انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں ،کل انہوں نے مدینہ وحجاز و طائف نہیں چھوڑا آج یمن کو نابود کر دینے کے درپے ہیں ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ ہے ،وہ دن دور نہیں جب عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا ۔


[i]  ۔ دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥

[ii]  ۔ قزوینی ، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹

[iii]  ۔ ولما ملکواالطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبواالنساء زینی دحلان ۔ الدررالسنیة :ص،٤٥

 

انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک، شیطان کی ڈگڈگی پر تکفیریت کا ننگا ناچ. 1

  • ۵۸۰

بقلم سید نجیب الحسن زیدی


خیبر صہیون تحقیقاقی ویب گاہ؛ دنیا بھر میں موجود حریت پسند ہر سال  جنت البقیع کے انہدام کے جانگداز المیہ پر اس دن کی یاد میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں مختلف پروگرامز اور احتجاجی جلسوں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کراتے ہیں  گرچہ کرونا کی وبا کے پیش نظر اس بار یہ احتجاج نہ سڑکوں پر ہو سکتا ہے نہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہم کسی اجتماع کا حصہ بن سکتے ہیں  لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ انہدام جنت البقیع کے خلاف  احتجاج نہ ہو  ، احتجاج اس بار بھی ہوگا لیکن اسکا انداز بدل جائے گا  تمام تر حریت پسندوں کی کوشش ہوگی مذہب و مسلک سے ماوراء ہو کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس بار بھی پرزور طریقے سے اپنی بات کو دنیا تک پہنچا سکیں  اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے اپنے  بیدار ضمیر ہونے کی گواہی دیں ،ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس بار احتجاج کا پلیٹ فارم بدل جائے گا اور زیادہ تر احتجاج  کا حصہ ا س مجازی فضا میں ہوگا   جو اس وقت اتنی پر اثر ہے کہ حقیقی پلیٹ فارم  سے زیادہ  لوگ مجازی پلیٹ فارم  یعنی سوشل میڈیا ، ویب ،اور مجازی ذرائع ابلاغ پر متحرک نظر آتے ہیں ۔

احتجاج کیوں؟

ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال ہو آخر ہر سال اس احتجاج کی ضرورت  کیا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہے تو ایسے لوگوں کو اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ  فرض کریں کسی کی پشتینی  ایسی زمین پر کوئی قبضہ کر لے جس سے خاندانی یادیں وابستہ ہوں خاندان کی کوئی نشانی ہو   اور ایسی زمین پر قائم عمارت کو منہد م کر دیا جائے تو انسان کا رد عمل کیا ہوگا ؟ کیا وہ چیخ چلا کر خاموش بیٹھ جائے گا یا پھر جب تک دوبارہ اسکی زمین اسے نہیں مل جاتی دوبارہ عمارت کی تعمیر نہیں ہو جاتی تب تک وہ احتجاج کرتا رہے گا ؟ کیا کسی کا حق مار لینےوالے بدکرادار و شاطر انسان کے سامنے یہ سوچ کر انسان خاموش بیٹھ جائے تو بہتر ہے کہ اب جو جانا تھا چلا گیا ا ب ہاتھ پیر مارنے سے کیا فائدہ یا پھر جب تک جان میں جان ہے انسان کو اپنے حق کے حصول کے لئے کوشش کرنا چاہیے ؟

یقینا انسان کا ضمیر بیدار ہے تو وہ یہی کہے گا اگر ناحق کسی جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے اگر ناحق کسی عمارت کو ڈھایا گیا ہے اگر ناحق کسی یادگار کو مٹایا گیا ہے تو انسانی ضمیر کی آواز یہی ہے کہ جب تک  اسکی بھرپائی نہ ہو جب تک حق نہ ملے تب تک احتجاج ہونا چاہیے ۔

۸ شوال کو کیا ہوا ؟

 ۸ شوال کی تاریخ اس دردناک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے جب ۹۷ سال زیادہ عرصہ ہونے آیا وہابیت و تکفیریت نے اس تاریخی قبرستان کو منہدم کر کے آنے والے کل کے لئے اپنے خون خرابے کی سیاست کا اعلان کر دیا تھا۔

 یوں تو ایک صدی ہونے آئی لیکن جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم کر دینے کا غم آج بھی تازہ ہے وہ قبرستان جس میں رسول رحمت کی بیٹی شہزادی کونین (بروایتے)[1] اور ان کے ان فرزندوں کے مزارات مقدسہ تھے[2] جنہوں نے بشریت کو علمی ارتقاء و تکامل کا وہ وسیع و عظیم افق عطا کیا جس پر پہنچ کر آج انسان ان کے شاگردوں کے سامنے جھکا نظر آ رہا ہے کہ قال الباقر و قال الصادق کے موجزن علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کے کچھ قطرے جابر ابن حیان و ہشام ابن الحکم نے بشریت کے حلقوم تشنہ میں ٹپکا دئیے تھے ۔
کتنے عجیب خشک فکر اور کوڑھ مغز لوگ تھے جنہوں نے ان عظیم شخصیتوں کے مزارات مقدسہ کو زمیں بوس کر دیا جن سے کسی ایک مسلک و مذہب نے نہیں بلکہ بشریت نے استفادہ کیا اور آج تک کر رہی ہے ۔

 

حواشی :

[1]  ۔اختلفت الروایات فی موضع قبر فاطمة سیدة نساء العالمین علیها‌السلام ، فمنهم من روى أنها دفنت فی البقیع

من لا یحضره الفقیه نویسنده : الشیخ الصدوق    جلد : 2  صفحه : 572

[2]  ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ه‍، ج۲، ص۴۴ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸.،شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۱۴۳.