یہودی پروفیسر’’شلومو سینڈ‘‘(Shlomo Sand) کا تعارف

  • ۳۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شلومو سینڈ ایک یہودی محقق ہیں جو تل ابیب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ معاصر میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ ۱۰ ستمبر ۱۹۴۶ کو آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
سینڈ نے دو سال ایک یہودی پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزاری اور سنہ ۱۹۴۸ میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ مقبوضہ فلسطین کے شہر جافا میں ہجرت کی۔ ہائر اسکینڈری میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اسرائیلی نوجوانوں کی ایک تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے اسکول سے خارجہ لے لیا۔ اسرائیل کمیونیسٹ پارٹی نے تل ابیب یونیورسٹی کے ذریعے انہیں پولینڈ جانے اور سینما کے سبجکٹ میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن شلومو نے اسے قبول نہیں کیا۔
شلومو سینڈ نے ۱۹۷۵ میں پیرس کا رخ کیا اور ۱۹۸۵ تک وہاں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ پیرس یونیورسٹی سے انہوں نے ’فرانسیسی تاریخ‘ میں ایم اے اور ’’جارج سورل اور مارکسیزم‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
شلومو سینڈ کا یہودیوں اور سرزمین مقدس کے درمیان تعلق کے بارے میں کہنا ہے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ ایک سرزمین سے مذہبی لگاؤ، اس کے تاریخی حق کا جواز فراہم کر دے‘‘۔ وہ قائل ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی عوام کو بہت اذیتیں دی ہیں اور اسرائیلی حکومت تشکیل دینے میں فلسطینی سماج کو نابود کیا گیا ہے۔ شلومو خود کو صہیونی نہیں مانتے اس لیے کہ وہ اس دعوے کے مخالف ہیں کہ مقبوضہ فلسطین اسرائیل کا تاریخی حق ہے۔ وہ نیز قائل ہیں کہ یہودی ایک قوم نہیں ہیں اور ایک قوم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
شلومو سینڈ کی اہم ترین علمی کاوش، کتاب ’’قوم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ ہے جو ۲۰۰۸ میں عبرانی زبان میں منظر عام پر آئی۔ عبرانی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ اس کتاب کے دوسری زبانوں میں ترجمے شائع ہوئے۔ شلومو اس کتاب میں کہتے ہیں: یہودی بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح مختلف نسلوں سے ہیں اور ان کی کوئی ایک اصل نہیں ہے‘‘۔
کتاب’’ قویم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ میں انہوں نے یہودی تاریخ اور ان کے عقائد کو اس قدر دقیق طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ’’بارنز ریویو‘‘ رسالہ اس کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ہمارے پاس جو تاریخ یہودیت کے بارے میں معلومات ہیں ممکن ہے صحیح نہ ہوں یا کم سے کم حقیقت اس چیز سے الگ ہو جو یہودی دین کے اصول میں پائی جاتی ہے‘‘۔
شلومو سینڈ کے دیگر قلمی آثار کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا سکتا ہے:
· The Words and the Land, Los Angeles, Semiotext, 2011
· The Invention of the Jewish People, London, Verso, 2009
· The Invention of the Land of Israel, London, Verso, 2012
· Intellectuals, Truth and Power: From the Dreyfus Affair to the Gulf War, Tel Aviv, Am Oved, 2000
· Historians, Time and Imagination, Tel Aviv, Am Oved, 2004
· How I Stopped being a Jew, London, Verso, 2014
· Twilight of History, London, Verso, 2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیا انسان نے واقعی ترقی کی ہے؟ (۱)

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: تاریخ عالم کے مطالعہ کے دوران ہم قوموں، اخلاقی اصول و ضوابط اور مذاہب کے عروج و زوال کے پیش منظر میں انسانی ترقی کے بارے میں شکوک و ابہام کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بسا اوقات ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیا ہر نسل کا اپنے آپ کو ’’جدید اور ترقی یافتہ‘‘ قرار دینے کا دعویٰ محض بے کار اور روائتی طور پر ڈینگ ہانکنے کے مترادف تو نہیں؟
چونکہ ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اب تک کے تاریخی اداوار کے دوران انسانی فطرت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے اس لیے تمام تر تکنیکی ترقی کو محض یہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو پرانے مقاصد، اشیاء کے حصول، یا جنس مخالف تک رسائی، مقابلہ میں کامیابی وجنگ میں فتح، کے حصول کے نئے ذرائع ہیں۔ موجودہ صدی میں ہم جن بہت سے حقائق سے روشناس ہوئے ہیں ان میں سے ایک حوصلہ شکن انکشاف یہ بھی ہے کہ سائنس انسانی احساسات و جذبات کے بارے میں غیر جانبدار ہے۔ یہ جس قدر مستعدی سے مریضوں کو صحت یاب کر سکتی ہے اسی تیزی سے انسانوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تعمیر کی نسبت تخریب کا عمل سائنس زیادہ تیز رفتاری سے کر سکتی ہے، فرانس بیکن کا یہ فخریہ مقولہ آج کس قدر غیر اہم لگتا ہے کہ ’’علم طاقت ہے‘‘۔ ۔۔۔
بلا شبہہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی بھی قباحتوں سے خالی نہیں ہے۔ سہولتوں اور آسائشوں نے ہماری جسمانی قوت برداشت اور اخلاقی طاقت کو کمزور کر دیا ہے ہم نے اپنے ذرائع آمد و رفت کو بہت ترقی دے دی ہے لیکن ہم میں سے ہی کچھ لوگ ان ترقی یافتہ ذرائع کو جرائم کے ارتکاب اور اپنے ساتھی انسانوں کی یا خود اپنی ہلاکت کے لیے استعمال کرتے ہیں ہم نے اپنی رفتار کو دگنا، تگنا بلکہ سوگنا بڑھا لیا ہے لیکن اس عمل کے دوران ہم نے اپنے اعصاب تباہ کر لیے ہیں ہم میں اور عہد وحشت کے انسانوں میں رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے یہ درست ہے کہ ہم جدید طب نے بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن علاج معالج کی اس ترقی کو ہم اسی وقت ہی سراہنے کے قابل ہونگے اگر اس کی بنا پر اصل امراض سے بھی بدتر ذیلی اثرات پیدا نہ ہوں۔ نئی نئی بیماریوں اور جراثیم کی روز افزوں مزاحمت کے خلاف ڈاکٹروں کی تندہی اور مشقت بلاشبہ قابل تعریف ہیں اور ہم طبی سائنس میں ترقی کے باعث اوسط انسانی عمر میں اضافہ کے لیے شکرگزار ہوں گے بشرطیکہ زندگی میں ہونے والا یہ اضافہ محض بیماری معذوری اور اداسی کے بوجھل لمحے نہ ہوں۔
آج روئے زمین پر ہونے والے روزمرہ کے واقعات کے بارے میں ہمارے باخبر رہنے اور ان کو بیان کرنے کی صلاحیت پہلے سے سوگنا بڑھ گئی ہے۔ لیکن کبھی کبھار ہمیں اپنے اپنے آباؤ اجداد پر رشک آتا ہے جن کے پرسکون ماحول میں اپنے گاؤں کی کوئی خبر سن کر دھیما سا خلل پڑ جاتا تھا۔
اگر چہ ہم نے ہنرمند کاریگروں اور درمیانہ طبقے کے حالات کو قابل رشک حد تک بہتر بنا لیا ہے۔ لیکن ہمارے شہروں میں گندگی اور غلیظ گلیوں اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں۔

ہم مذہب سے چھٹکارا پانے کی خوشی میں خوب بغلیں بجاتے ہیں لیکن کیا ہم مذہب سے علیحدہ کوئی ایسا فطری ضابطہ اخلاق تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں اتنی قوت ہو کہ وہ ہماری اشیاء کے حصول، جھگڑالوپن، اور جنسی جبلتوں کو قابو میں رکھ سکے۔ تاکہ ہم اپنے جبلی تقاضوں کے زیر اثر اپنے اس تمدن کا لالچ، جرم اور جنسی بے راہ روی کی دلدل میں نہ دھکیل دیں؟
کیا ہم نے مذہبی تعصب اور نارواداری کو بالکل خیرباد کہہ دیا ہے یا پھر یہ تعصاب اب قومی نظریاتی اور نسلی منافرتوں میں بدل گئے ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق و عادات اور اطوار پہلے کی نسبت بہتر ہیں یا بدتر؟ انیسویں صدی کے ایک سیاح کا کہنا ہے:
’’جوں جوں ہم مشرق سے مغرب کو جائیں تو اخلاقی طور پر اطوار بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ایشیا میں برے یورپ میں بدتر اور امریکہ کی مغربی ریاستوں میں بدترین ہیں‘‘۔
اب تو مشرق بھی اس معاملہ میں مغرب کی پیروی کر رہا ہے!
کیا ہمارے قوانین مجرموں کو معاشرے اور ریاست کے مقابلے میں بہت زیادہ تحفظ فراہم نہیں کرتے؟
کیا ہم نے اپنے آپ کو اپنے ظرف سے زیادہ ذہنی آزادی نہیں دے دی؟
کیا آج ہم ایسی اخلاقی اور سماجی ابتری کے دہانے پر نہیں کھڑے جہاں اپنے بچوں کی بے راہروی سے خوفزدہ ہو کر والدین دوبارہ مذہب/ کلیسا کی طرف رجوع کریں اور ان میں نظم و ضبط اور اخلاق کی بحالی کے لیے مطلق ذہنی آزادی سے دستبردار ہو کر مذہب کا سہارا لیں گے؟
جاری
اقتباس از
(تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ، صفحہ ۱۲۶ سے ۱۲۸ تک)

 

برصغیر میں کسی قسم کی مذہبی تفرقہ انگیزی صہیونیت کے مفاد میں ہے: ڈاکٹر سلطان شاہی

  • ۴۰۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: بھارت اسرائیل تعلقات اس ملک کے اسلامی معاشرے کو کن مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں؟
۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلے سے ایک زخمی ہڈی پائی جاتی ہے؛ مسئلہ کشمیر۔ برصغیر کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنا یعنی ہندوستان اور پاکستان بنانا اور پھر تقسیم در تقسیم کرنا پاکستان اور بنگلادیش بنانا اور پھر اکثریتی مسلمان ریاست کشمیر کو متنازع چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ہند و پاک کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کرنا اور دونوں کو اس مسئلے میں الجھا کر کمزور بنانا، یہ تمام مسائل کے پیچھے مجھے یقین ہے عالمی صہیونیت کا ہاتھ ہے اور یہ ان کے ذریعے مانیٹرنگ ہو رہے ہیں۔ اگر ہندوستان اور پاکستان کے عوام فرقہ واریت کے الجھاؤ سے باہر نکل آئیں اور سامراجی طاقتوں کے ذریعے مذہب کے نام پر پیدا کئے جانے والے اختلافات کو نظر انداز کر کے اپنے معیشتی مسائل پر توجہ دیں اور دونوں ریاستیں مل کر اپنے عوام کی ترقی اور بہتری کے لیے باہمی سرمایہ کاری کریں تو یقینا صہیونی مقاصد اس اقدام سے ناکام ہوں گے اور ان کے لیے یہ اقدام ناگوار گزرے گا۔
ہندوستان میں کسی بھی طرح کا مذہبی اختلاف چاہیے وہ مسلمانوں کے اندر آپسی طور پر ہو یا ہندو مسلم پلیٹ فارم پر ہو، یقینا صہیونیت کے فائدے میں ہے۔ صہیونی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس قسم کا اختلاف پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سوراغ ڈھونڈیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہندوستان میں بابری مسجد کا مسئلہ ہوا اس دور میں بھی یہ کہا جاتا تھا کہ اس مسئلے کے پیچھے بھی صہیونیوں کا ہاتھ تھا کہ کچھ صہیونیوں نے غیر مستقیم طور پر ہندو کو ابھارا اور مسلمانوں کو ان کے خلاف اٹھنے پر مجبور کیا اور پھر جو قتل و غارت وجود میں آئی ان سب مسائل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ملت اور ایک قوم آپس میں دست و گریباں ہوئی۔ آپ دیکھیں کہ ایک طرف ہندوستان کو ایٹمی اسلحے سے لیس کیا جاتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو اور پھر دونوں کے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کے عوام کی معیشتی صورتحال دیکھیں، آپ ہندوستان کے عوام کی غربت اور ناداری دیکھیں کبھی کسی نے اس صورتحال کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لیکن ان دونوں کو عسکری اعتبار سے اس قدر مستحکم کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کو آپس میں محاذ آراء کیا جا رہا ہے کہ یہ کبھی بھی ترقی اور پیشرفت کے لیے سلامتی اور امنیت کا احساس نہ کر سکیں۔
پاکستان میں اکثر جمہوری حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت یا دوسری پارٹیوں کی بغاوت سامنے آتی ہے۔ جونہی ملک میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ آپ ایران کو دیکھ لیں، میں آپ کو ایک مثال دیتا ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو کشمکش چل رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بالخصوص صہیونی یہ بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے کی تمام وہ فوجیں جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں ان کو کمزور کریں یا نابود کریں۔ علاقے کی ہر طاقتور فوج کو کمزور بنائیں۔ مثال کے طور پر ایک زمانے میں سب سے طاقتور فوج مصر کی تھی لیکن آج وقت مصر کی کیا صورتحال ہے۔ لیبیا کو کس طرح کمزور بنایا گیا؟ شام کو کس طرح ختم کیا؟ عراق جو ایک طاقتور ملک تھا کو ایران کے خلاف کھڑا کیا، پھرعراق کے ذریعے کویت پر چڑھائی کروائی، اور آخر میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور آج داعش کو ان پر مسلط کیا، اب عراق میں کچھ بھی باقی نہیں بچا، یمن کو بھی ایسے ہی ختم کیا سعودی عرب کو یمن کے خلاف یمن کو سعودی عرب کے خلاف، اب وہ یہ چاہتے ہیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جنگ چھیڑیں کہ مسلمانوں کے پیسے سے مسلمان ملکوں کو نابود کریں، سعودی عرب کچھ بھی ہو ایک اسلامی ملک ہے اسلامی منابع کا حامل ہے۔ یہ جنگیں کس کے فائدے میں ہے؟ یقینا صہیونیوں کے فائدے میں ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہندوستان و پاکستان کی ہے عوام کی معیشت کا خیال رکھا جائے لوگوں کی مشکلات کا حل کیا جائے لوگ کتنے برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن حکومتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابلے محاذ آراء ہیں اور عالمی صہیونیت اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔
خیبر؛ اس بات کے پیش نظر کہ بالیوڈ برصغیر کی ثقافت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور موجودہ حالات میں اسرائیل بالیوڈ کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں؟
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، شاہ کے دور میں ہمارے ایران میں کجھور کی پیداوار ہوتی تھی عالمی مارکیٹ میں ایران کا کجھور دوسرے نمبر پر تھا۔ شاہ، اسرائیل کے سابق سفیر برائے ایران ’مئیر عزری‘ سے کہتا ہے کہ جاؤ عالمی مارکیٹ میں کجھور کا کام کرنے والوں سے کہو کہ ہم کجھور کی برآمد میں پہلا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی عراق سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کجھور کی پیداوار اور برآمدات میں۔ مئیر عزری جاتا ہے اور دنیا میں جو یہودی کجھور کا کام کرتے ہیں ان سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں اس کے بعد ایران کا کجھور پہلے نمبر پر ہو۔ عزری کہتا ہے کہ ہم نے یہودی تاجروں کے ذریعے ایران کو دنیا میں پہلا کجھور برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔ یہ ایک مثال۔ اس وقت دنیا میں اگر کوئی فلم بنانا چاہے تو فلم بنانا اہم نہیں ہے جو چیز اہم ہے وہ فلم کا پھیلاؤ اور دنیا میں اس کی مقبولیت ہے۔ یعنی اس وقت کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو سینما فلم بناتی ہیں اور کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو فلموں کو دنیا میں مقبولیت دیتی ہیں۔ اگر آپ بہترین فلم بھی بنا لیں اور وہ دنیا میں مقبولیت نہ حاصل کر پائے اور مثلا وہ صرف ایران میں رہ جائے، بالکل اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ممکن ہے ایک فلم، اسکار(Oscar) میں انعام پانے کی صلاحیت رکھتی ہو لیکن چونکہ دنیا میں خوب اس کی تشہیر نہیں ہو پائی مقبولیت حاصل نہیں کر پائی گویا اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں فلم بنانے والے اور فلم تشہیر کرنے والے اہم ترین افراد یہودی ہیں۔ مثلا ایرانی فلمیں ’’نادر کی سیمین سے جدائی‘‘ (A Separation) یا ’’آسمانی بچے‘‘ (Children of Heaven) جنہوں نے ’ Oscar‘ کا انعام حاصل کیا یہ اس وجہ اس مقام تک پہنچیں چونکہ ان کی بہت اچھے سے تشہیر ہوئی تھی پوری دنیا میں یہ فلمیں دیکھی گئی تھیں لیکن اگر اسکار میں اسے پیش بھی کیا جائے اور کسی نے اسے دیکھا نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں ہے، در اصل وہ اجازت دیں گے تو کوئی فلم عالمی سطح پر شہرت پائی گی مثلا مجیدی صاحب کی بنائی ہوئی فلم ’’محمد رسول اللہ (ص)‘‘، مجیدی صاحب کا کہنا تھا کہ بعض ممالک نے اصلا اس فلم کو ہمیں پلے کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم اس فلم کو ان کے ملک میں ایک بار دکھلا سکیں۔ فلم تشہیر کرنے والی کمپنیاں ہمارے ساتھ دشمنانہ رویہ اپناتی تھی اور جس طریقے سے ہم چاہتے تھے کہ دنیا میں اسے منتشر کریں نہیں ہو پائی۔ لیکن اگر صحیح ڈھنگ سے دنیا میں منتشر ہو پاتی تو ممکن تھا Oscar میں بھی انعام حاصل کر لیتی۔ بالیوڈ ان تمام امکانات و ذرائع اور فلم سازی کی اتنی عظیم ظرفیت کا حامل ہونے کے باوجود اپنی فلموں کی دنیا میں تشہیر نہیں کر پاتی۔ بالیوڈ کی فلمیں بھی اگر ٹھیک ڈھنگ سے دنیا میں مقبولیت حاصل نہ کر پائیں تو ان سے فائدہ اٹھانے والے صرف بر صغیر کے عوام ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی دنیا میں انہیں منتشر کرنے والا ہو تو ممکن ہے امریکا میں بھی دیکھی جائیں کون اس ذمہ داری کو اٹھا سکتا ہے یہودی اور صہیونی۔ بالیوڈ کے سربراہان کو اس کام کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلانا ہو گا اسرائیل اور نیتن یاہو کے آگے۔ یہی وجہ ہے امیتابھ پچن نیتن یاہو کے ساتھ سیلفی بناتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ نیتن یاہو ایک سفارش کردیں تاکہ بالیوڈ کی فلمیں صہیونیوں کے عالمی چینلز کے ذریعے شہرت حاصل کر لیں۔ اور اس کے علاوہ صہیونی خود بھی اس فلم انڈسٹری میں اپنی تاثیر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلمیں گندی فلمیں نہیں ہیں بلکہ فیملی فلمیں ہیں اگر چہ دور حاضر میں وہ بھی اسی سمت چلی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کے اندر گھریلو عشق و محبت پائی جاتی ہے۔ صہیونی اس رابطے کے ذریعے درحقیقت بالیوڈ کی فلمسازی کیفیت پر بھی اثرانداز ہونا چاہتے ہیں کہ بالیووڈ جو ایک مستقل اور آزاد فلم انڈسٹری ہے کو اس طریقے سے انحراف کا شکار بنائیں۔
خیبر: بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔

 

یہودیوں کی خفیہ تنظیم کا امریکہ میں اثر و رسوخ

  • ۴۶۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  ان اداروں اور تنظیموں میں جو کہ اسرائیلی رژیم سے قبل خفیہ طور پر بین الاقوامی صہیونیت کے اہداف کے تحت مصروف عمل تھیں « امریکی یہودیوں کی کمیٹی» تھی ۔ یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جو ۱۹۰۶ ء میں«جاکوب.اچ.شیف»(jacob H schiff)نامی ایک ثروت مند بینکر کے ذریعہ وجود میں آئی اس نے اپنی تنظیم کے افتتاح کے لئیے ۵۵ جانے مانے یہودی ربانیوں (یہودی مذہبی رہنماوں) مصنفین، تجار، سفیروں، ججوں اور دانشوروں کو امریکہ بھر سے نیویارک مدعو کیا ۔جبکہ یہودیوں کی اس کمیٹی کی تشکیل «انجمن پروشیم» کے برخلاف آشکار و علنی تھا لیکن اس کے بہت سے کام خفیہ تھے ۔«سانوآ(sanua)»اس کمیٹی کے رہبروں میں سے ایک کہتے ہیں : امریکہ کی یہودی کمیٹی کی کوشش ہے کہ ایسے ناموں اور ایسی نشانیوں و ایڈریسوں سے استفادہ کرے جو قومی اور فرقہ ای احساس و جذبات کے بر انگیختہ ہونے کا سبب نہ بنیں ۔ بہت سے ایسے موارد ہیں جہاں اس کمیٹی نے جعلی ناموں سے استفادہ کیا ہے تاکہ کوئی اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو کہ امریکی یہودی اس کی قیادت کر رہے ہیں اس کمیٹی کی اراکین ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں مختلف میٹنگوں اور نشستوں میں حاضر ہوتے رہے اور انہوں نے ۵۰ ہزار لوگوں پر مشتمل ایک ایسی فہرست بھی مرتب کی کہ جن میں وہ لوگ تھے جو انکے زعم میں یہودی ستیز یا یہود مخالف تھے ۔ اس امریکن یہودی کمیٹی کے اقدامات کی بنا پر دسیوں امریکی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے ۔
یہ کمیٹی امریکہ کی حکومت میں اعلی پیمانہ پر اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر اقوام متحدہ میں تجویز تقسیم کی منظوری کے سلسلہ میں اپنے نفوذ سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ۔اس کمیٹی کی نمایاں خصوصیت اسکی مخفی اور پشت پردہ فعالیت تھی ، اگرچہ یہ کمیٹی ابتداء میں ایک غیر صہیونی تنظیم میں شمار ہوتی تھی اور اپنی فعالیت کے آغاز میں یہودی حکومت کی تشکیل کے مخالف کے طور پر پہچانی جاتی تھی لیکن اس کی فعالیتیں صہیونی اہداف کے امتداد میں قرار پاتی تھیں ، بطور مثال اس تنظیم نے بالفور کے اعلان کی حمایت کی اور اس تنظیم کے بعض اراکین یہودی تنظیموں اور اداروں کی مالی مدد کرتے تھے توبعض دیگر یہود ایجنسی میں فلسطین سے جڑے امور میں سرگرم عمل تھے ۔انجام کار امریکہ کے یہودیوں کی کمیٹی کے بہت سے اراکین کی مخالفت یہ تنظیم ایک صہیونی تنظیم میں تبدیل ہو گئی اور ۱۹۴۷ء میں اس نے صہیونی گولز و انکے مقاصد کی حمایت کی ۔
: Alison Weir
: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel

 

یہودی معاشرے میں طبقاتی شگاف

  • ۳۸۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی بھی معاشرہ میں طبقاتی فاصلہ معاشرتی و سماجی اختلافات کا سبب بنتا ہے ۔ وہ لوگ جو اسرائیل کی تشکیل کے لئے سرزمین فلسطین پر ہجرت کر کے پہنچے ، دیگر ممالک سے یہاں آنے کی وجہ سے اور متنوع رفاہی سطح کے حامل ٹاون سٹیز میں جبراً رہایش پذیر ہونے کی بنا پر خاص کر یہہودیوں اور عربوں کی زندگی کے دو الگ الگ تصوارت کے سبب اس بات کا سبب بنے کہ فلسطین کی تاریخی سرزمین پر شگاف و دراڑ پیدا ہو جسکی وضاحت یہ ہے کہ صناعت کے میدان میں جس پالیسی کا آغاز فلسطین میں تیسویں دہائی میں ہوا اور صنعت سازی کا دور شروع ہوا یہ دور اسرائیل کی جعلی و ناجائز حکومت کے بننے کے بعد ۶۰ کی دہائی میں وسیع تر ہو گیا جس نے سماج کے طبقاتی ڈھانچے میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کیں جسکی بنا پر زراعت و کھیتی باڑی کمزور ہوئی اور صنعتی اقتصاد پھولا پھلا اور آگے بڑھا ۔
۹۰ ء کی دہائی میں عبری و عربی معاہدہ کے وجود میں آنے کے بعد مجموعی قومی پیداوار ( جی ۔ڈی پی) ۸۰ کی دہائی کی نسبت ۸ برابر بڑھ گئی لہذا یہودی معاشرہ کا طبقاتی اختلاف ان اداروں اور انسٹی ٹیوٹس کے ساتھ بھی جڑا ہے جنہیں ہجرت کے دور میں یہودیوں کی رہایش کے لئیے بنایا گیا تھا ۔ اس لئیے کہ ان اداروں و مراکز کی بنیاد فلسطین میں ہجرت کر کے آنے والے یہودیوں اور وہاں کے اصل باشندوں کے درمیان عدم مساوات و اونچ نیچ اور نابرابری پر ہے ۔
یفتا حثیل کے بقول صہیونی رژیم میں ایسے مکانی سلسلہ مراتب اور تنظیمی حیثیتیں موجود ہیں جو نسلی طور پر دوسری جگہوں سے آکر یہاں بسنے والوں کے درمیان جغرافیا کی توسیع اور مہاجروں کی سکونت کے پیش نظر غیر عادلانہ تقسیم اموال کے اصولوں سے باہر آ رہی ہیں ،یعنی پھیلتے ہوئے وسیع خطے اور مہاجروں کی نسلی معیاروں پر انکی رہایش کی تعیین و اموال کی غیر عادلانہ تقسیم اس بات کا سبب بنی کہ کچھ سلسلہ مراتب و تنظیمی حیثیتیں وجود میں آئیں جنکی طرف رجوع کے بغیر کام نہیں چل سکتا ۔ جغرافیائی وسعت چار طرح کی آبادیوں کی بنا پر ۱۹۴۸ کی سرحدوں پر اس طرح وجود میں آئی :
الف: ایسے شہر اور ٹاون سٹیز جس میں اکثر مغربی یہودی اور وہ اشکنازی رہتے ہیں جو صہیونی حکومت کے موسس و بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اسی بنا پر انکے پاس ثروت و دولت کی بہتات ہے اور بہترین و مرغوب زمینوں کے مالک ہیں ان کے پاس اقتصادی و فرہنگی انفراسٹرکچر موجود ہے جن پر انکا قبضہ و تسلط ہے ۔
ب: مشرقی یہودی ( سفاردیم ) اور نئے ہجرت کرکے آنے والے جیسے روس کے یہودی اور سابقہ سوویت یونین سے جڑے ان ممالک کے لوگ جو بڑے مراکز و بڑے شہروں تک نہیں پہنچ سکے اور دوسرے درجہ کے شہری شمار ہوتے ہیں۔
ج: اتھوپیائی قومیت رکھنے والے افریقائی یہودی جنہیں فلاشا کہا جاتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انکے رنگ و نسل کی بنیاد پر حقارت جھیلنا پڑتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے شہروں کے مضافات میں یا سرحدوں کے نزدیک بنے ٹاون سٹیز میں رہایش پذیر ہیں اور نچلے درجہ کے کاموں میں مشغول ہیں ۔
د: وہ اعراب جو اسرائیلی حکومت کے ان علاقوں میں ہیں جہاں حکومت کا نفوذ ہے اور ان علاقوں کو ریاستی عمارتوں کی تعمیر اور اسٹیٹ بلڈگوں سے بہت دور رکھاگیا اور انہیں یہودی حکومت کے شدت پسند یہودیوں کی جانب سے شدید طور پر بھید بھاو کا سامنا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ صہیونی تفکر کے بھید بھاو پر مشتمل دنیاوی طرز فکر اور نسلی برتری کے نظریہ کی بنیاد پر یہ اجتماعی و معاشرتی شگاف مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ و سیکولر طرز فکر کے پاس اس شگاف سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قبالہ کی رکن یہودی لڑکی کے لرزہ خیز اعترافات

  • ۴۸۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایک بہت اہم اور دلچسپ واقعہ مئی ۱۹۸۹ میں ‘اوپرا’ کے عنوان سے براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں پیش آیا جس نے ناظرین کو حیران کردیا۔ پروگرام کے میزبان نے ایک نوجوان یہودی لڑکی “ویکی پیلن” عرف “ریچل” کا انٹرویو لیا۔ اس لڑکی کے اعترافات بہت دلچسپ اور غور طلب تھے۔
میزبان: میری اگلی مہمان شیطان کی پوجا سے تعلق رکھتی ہے اور اس نے انسان کی قربانی اور آدمخواری اور قبالہ کی رسومات میں شرکت کی ہے؛ وہ کہتی ہے کہ اس کا گھرانہ بھی کئی نسلوں سے اسی سلسلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس وقت اس کا علاج معالجہ ہورہا ہے اور ذاتی شخصیتی عدم توازن سے دوچار ہے۔ بچپن کی تمام ڈراؤنی یادوں کو کچل دینے کے مرحلے سے گذر رہی ہے؛ ریچل کو دیکھیں جس نے اپنے تحفظ کے لئے اپنا چہرہ تک بدل دیا ہے۔
سوال: کیا تم ان لوگوں کی نسل سے ہو جن کے ہاں بہت بھونڈی رسمیں رائج ہیں۔
جواب: جی ہاں! میرے خاندان کا ایک لمبا چوڑا شجرہ نامہ ہے۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کے اعداد و شمار کو بھی محفوظ کیا جاتا ہے جو اس قسم کی رسمیں بجا لاتے ہیں اور ان لوگوں کے اعداد و شمار کو بھی، جو ان رسموں کو بجا نہیں لاتے اور ان کا یہ کام سنہ ۱۷۰۰ع‍ تک پلٹتا ہے۔
سوال: کیا تمہیں بھی ان رسومات میں شریک کیا جاتا تھا؟
جواب: جی ہاں! میں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو اس عمل پر یقین رکھتا تھا۔
سوال: کیا باقی لوگ تصور کرتے تھے کہ تمہارا خاندان ایک اچھا یہودی خاندان ہے؟ کیا باہر سے تم ایک اچھی یہودی لڑکی دکھائی دیتی رہی ہو؟ کیا تم لوگ گھر میں شیطان کی پوجا کرتے تھے؟
جواب: بہت سے یہودی خاندان پورے امریکہ میں ایسے ہیں، صرف میرا خاندان ہی نہیں ہے۔
سوال: واقعی؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: کون اس سلسلے میں معلومات رکھتا ہے یعنی بہت سے لوگ؟
جواب: بہرصورت مین نے شکاگو پولیس کے تفتیشی افسر سے بات کی۔ میرے بہت سے دوست بھی جانتے ہیں اور میں نے اس سلسلے میں عام لوگوں سے بھی خطاب کیا ہے۔
سوال: گھرانوں کی رسومات میں کیا کچھ ہوتا ہے؟
جواب: وہ رسمیں جن میں بچوں کو قربان کیا جاتا ہے اور آپ مجبور ہیں کہ قربانی کی اس رسم کو دیکھ لیں۔
سوال: کن کے بچے؟
جواب: ہمارے خاندان میں ایسے لوگ تھے جو بچے پیدا کرتے تھے، کوئی بھی ان بچوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا؛ خواتین بہت موٹی ہوجاتی تھیں اور معلوم نہیں ہوتا تھا کہ حاملہ ہیں۔ یا وہ کچھ عرصہ غائب ہوجاتی تھیں اور پھر پلٹ کر آتی تھیں۔ دوسرا نکتہ جو میں بتانا چاہتی ہوں یہ ہے کہ سارے یہودی بچوں کو قربان نہیں کرتے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ رسم بہت رائج نہیں ہے۔
سوال: میں نے پہلی بار سنا ہے کہ یہودی بچوں کو قربان کرتے ہیں، لیکن تم بہرحال بچوں کی قربانی کی گواہ رہی ہو۔
جواب: درست ہے۔ جب میں بہت چھوٹی تھی تو انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ اس رسم میں شرکت کروں اور ایک شیرخوار بچے کو قربان کروں!
سوال: اس قربانی کا مقصد کیا تھا؟ تم کس لئے قربانی دیتے تھے؟
جواب: طاقت کے لئے۔
سوال: طاقت! کیا انھوں نے تم سے بھی کام لیا؟ یعنی تم سے بھی اس رسم میں استفادہ کیا؟
جواب: مجھے کئی مرتبہ ازار و اذیت اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
سوال: تمہاری ماں کیا کررہی تھی؟ اس ماجرا میں اس کا کیا کردار تھا؟
جواب: ابھی تک میں نے اپنی تمام یادیں بیان نہیں کی ہیں لیکن میری ماں کا خاندان ان رسومات میں مکمل طور پر ملوث تھا۔ میری ماں نے مجھے ان اعمال اور رسومات کی طرف کھینچ لیا؛ میرے ماں باپ دونوں نے مجھے اس کام میں ملوث کیا۔
سوال: تمہاری ماں اس وقت کہاں ہے؟
جواب: وہ شکاگو میں رہائش پذیر ہے اور شہر کے انسانی تعلقات کمیشن کی رکن اور قابل احترام شخصیت ہے۔
ریچل نے اوپرا کے پروگرام میں کہا: میں نے بچوں کو قتل کرتے اور کھاتے ہوئے دیکھا، صرف “طاقت” کے حصول کے لئے جو کھانے والے حاصل کرتے تھے۔ ان بچوں کو گھرانے کے اندر اور اسی مقصد کے لئے پیدا کیا جاتا تھا۔ ریچل نے کہا: مجھے کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اپنے باپ کی جنسی زیادتی کی وجہ سے مجھے پانچ بار اسقاط حمل کروانا پڑا ہے۔
ریچل کا معالج ڈاکٹر بھی اوپرا نامی اس پروگرام میں موجود تھا لیکن یوٹیوب میں نشر ہونے والے اس کلپ سے اس کی باتیں حذف کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اب تک وہ اس قسم کے فرقوں کا شکار ہونے والے چالیس مریضوں کا علاج کرچکا ہے جن کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کی مختلف ریاستوں سے ہے اور وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے لیکن ان سب کے تجربات بالکل ایک ہی طرح کے ہیں۔

 

کتاب ’یہودی، دنیا اور پیسہ‘ کا اجمالی تعارف

  • ۳۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی قوم نے جب سے روئے زمین پر قدم رکھا ہے تب سے لے کر آج تک دو چیزوں سے اس قوم کی بے حد وابستگی دیکھی گئی ہے ایک پیسے سے اور دوسری اقتدار سے۔ یہودیوں نے طول تاریخ میں ان دو چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام طاقت صرف کی، گرم و سرد اسلحے کا استعمال کیا اور ہر اس حربے کو اپنانے کی کوشش کی جس کے ذریعے وہ پیسہ بٹور سکیں اور دنیا پر قبضہ حاصل کر سکیں، چاہے وہ حربہ دوسروں کے قتل و غارت کا ہو، یا من گھڑت واقعات اور قصوں کی تشہیر ہو۔ دنیا کو اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق چلانا یا بالفاظ دیگر دنیا پر قبضہ کرنا ایک اہم ترین اور متنازع ترین موضوع ہے جو حالیہ سالوں یہودی محفلوں کا اصلی موضوع سخن بن چکا ہے۔
یہودی قوم کے اس بنیادی مقصد کے حوالے سے سیر حاصل مطالعہ کرنے کے لیے کتاب “یہودی، دنیا اور پیسہ” کا مطالعہ کرنا مناسب ہے جو ایک معروف فرانسیسی محقق اور اسکالر “جیک اٹالی ” (فرانسیسی نام : Jacques Attali) کے ذریعے صفحہ قرطاس پر لائی گئی ہے۔ موصوف نے علم اقتصادیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد چند ایک تحقیقی رسالے رقمطراز کئے جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
Perspectives – The Complete Chronicle of the Express
History of modernity
For a positive economy
Candidates Answer!
جیک اٹالی کتاب “یہودی، دنیا اور پیسہ” میں یہودیوں کی پیسے اور دنیاوی اقتدار سے بے حد محبت کو بیان کرنے کے بعد پیسے اور دنیا پر قبضے کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کرتے ہیں۔ اٹالی نے اس کتاب میں دنیا کی معیشت پر یہودیوں کے قبضے کو عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج کے طور پر بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قوم اپنی توانائی اور طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری دنیا پر پیسے کے زور سے قبضہ کرنے کا قصد رکھتی ہے۔
کتاب ہٰذا میں جیک اٹالی مسلسل ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں جو یہودی قوم کے استحکام کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کے ذریعے انجام پانے والے قتل و غارت کے واقعات کو بھی برملا کیا ہے۔
اٹالی نے اس کتاب میں یہودی قوم کی پیدائش کی تاریخ کو دو ہزار سال قبل مسیح قرار دیتے ہوئے اسے مورد بحث قرار دیا ہے اور بعد از آں، اقتدار کی خاطر سنہ ۷۰ء سے ۱۰۹۶ ء تک کے یہودیوں کی ہجرت کے واقعات اور حصول مال کے حوالے سے تلمود کے نظریات کا بھی جائزہ لیا ہے۔
 
اس کتاب کی اصلی زبان فرانسیسی ہے اور درج ذیل عناوین پر مشتمل ہے:
۔ قوم یہود کی پیدائش ۲۰۰۰ سال قبل مسیح سے ۷۰ عیسوی تک کہ جو شامل ہے سیم سے زر تک، مصر میں اسرائیل، زر سے سکے تک، مالداری سے فقیری تک جیسے موضوعات کو۔
۔ سنہ ۷۰ عیسوی سے ۱۰۹۶ء تک ہجرت کہ جو شامل ہے عیسائی اور یہودی مال و دولت کے مقابلے میں، تلمود اور پیسہ، بنی اسرائیل کے لیے نیا موقع، اسلام کا طلوع کے مانند موضوعات کو۔
۔ ۱۰۹۶ء سے ۱۷۸۹ء تک لاویان (Leviticus) کہ جو مشتمل ہے جانشین تجار، اٹھارہویں صدی میں قوموں کی زندگی اور موت، صنعتی انقلاب پر۔
۔ ۱۷۷۸ء سے ۱۹۴۵ء تک اعداد؛ عدد کا قانون اور صنعتی انقلاب کے شرکاء۔
۔ سنہ ۱۹۴۵ استثناء؛ اس حصے میں وطن سے باہر یہودی، ان کی سرزمینیں، کتاب مقدس اور مشرق سے مغرب کا سفر جسے موضوعات کو مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امام خمینی (رہ) کا عالم اسلام کو صہیونی ریاست کے خطرات سے انتباہ

  • ۳۴۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام خمینی (رہ) نے متعدد مقامات پر عالم اسلام کو اسرائیل کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑنے ہونے کی دعوت دی۔
’’شریعت مقدسہ کا دفاع، اسلامی حدود کی حفاظت، ظلم و جور کی بیخ کنی، ہر دشمن حریت و آزادی، ہر دشمن اسلام کے ساتھ معاہدوں کی رسوائی، اقطار اسلامیہ کی سیادت، اسرائیل اور اس کے مقامی ایجنٹوں سے جنگ، قتل، ملک بدری جیسے اقدامات پر شدید احتجاج، ظاہری و بناوٹی فیصلوں اور ان کے ناجائز احکام کی مخالفت، شہروں کی حالت، اقتصادی حالات جن کی چکی میں جمہور کو پسا جا رہا ہے اور اس قسم کے دیگر وہ حالات جو انسانی زندگی کے اجزاء رئیسہ ہیں، ان سب کا بیان کرنا علماء کے اصلی واجبات ہیں‘‘۔۔۔۔
(۱۵ خرداد ۱۳۴۲ کی مناسبت سے امام خمینی کے پیغام سے اقتباس)
’’اسرائیل اسلامی حکومتوں سے جنگ کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ شہنشاہی حکومت بڑی محبت کے ساتھ اس سے معاملہ کر رہی ہے اور پروپیگنڈہ و ذرائع ابلاغ کی اس کو سہولت بہم پہنچا رہی ہے۔ اس کی مصنوعات کو ملک میں وارد کر رہی ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ آگاہ کر دیا ہے کہ دین مبین اسلام خطرے میں ہے، ملک کی آزادی کو خطرہ ہے، ملک کی اقتصادیات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ میں تمام اسلامی حکومتوں اور مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ شیعہ مسلمان اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کے دشمن ہیں۔ شیعہ ان حکومتوں سے بھی اظہار برائت کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ ایرانی عوام کے لیے مبغوض اسرائیل کے ساتھ اختلاط و اتفاق ناممکن ہے۔ ایرانی عوام اس گناہ عظیم سے بری ہیں‘‘۔
(۱۹۶۴ میں کی گئی گرفتاریوں کی مناسبت سے امام خمینی کے پیغام سے اقتباس)
’’پوری دنیا اس بات کو جان لے کہ ایرانی عوام اور بقیہ شعوب اسلامیہ کے تمام مصائب کی ذمہ داری اجنبی استعماری طاقتیں اور خاص کر امریکہ ہے۔ اور شعوب اسلامیہ عموما تمام اجانب سے اور خصوصا امریکہ سے سخت ناراض ہیں۔ اسلامی حکومتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ اجنبی ان کے حالات میں اور ان کے مقدرات میں مداخلت کرتے ہیں اور یہی لوگ اسلامی ممالک کی بے پناہ ثروت کر لوٹ رہے ہیں‘‘۔ ۔۔۔
’’یہ صرف امریکہ ہے جو صہیونی و غاصب اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔۔۔ یہی ہے کہ جو اسباب بقاء مہیا کر کے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے اور مسلمان عربوں کو ان کے وطن سے ملک بدر کر رہا ہے‘‘۔
’’یہ وہی امریکہ ہے جو اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے اسی لیے اس کے نابود کرنے کی فکر میں ہے۔۔۔۔ علمائے اسلام کو اپنے استعمار کے راستے کا روڑا سمجھتا ہے اسی لیے ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم کرتا ہے‘‘۔
(جمادی الاخریٰ ۱۳۸۴ میں قانون اور امریکی پبلک کی حفاظت میں قانون بنانے کی مناسبت سے آپ کا پیغام سے اقتباس)

’’غاصب اسرائیل کی حکومت کے قیام میں اسلام اور اسلامی حکومتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور جس چیز کا مزید خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر مسلمان اس غاصب نظام کا پیچھا چھوڑ دیں اور اپنے ہاتھوں سے موقع گنوادیں تو اس کے بعد مسلمان پھر کچھ نہ کر سکیں گے اور چونکہ اسلام پر خطرہ ابھی منڈلا رہا ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں پر عموما اور اسلامی حکومتوں پر خصوصا واجب ہے کہ فساد کے جرثومہ کو ختم کر دیں، چاہے جس طرح ممکن ہو اس سلسلے میں کام کرنے والوں کی مدد میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ برتیں۔ اس مقصد کے لیے زکاۃ و تمام صدقات کا صرف کرنا جائز ہے ۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو مسلمانوں کی نظر میں اہمیت دے‘‘۔
(۳ ربیع الاخر، ۱۳۸۸ھ، ۱۹۶۸ء کو ایک خط کے جواب سے اقتباس)

 

 

امام خمینی (رہ) اور صہیونیت کا مقابلہ

  • ۳۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام خمینی کے فکری ادب میں ، لفظ "اسرائیل" کئی بار دہرایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ امام خمینی اسلامی انقلاب کے بنیادی مسائل جیسے ملک میں اسلامی حکومت کی تشکیل، علم و صنعت میں ترقی اور قوموں کی آزادی اور ان کے دفاع کے لیے ایک طاقتور فوج کی تشکیل، ان تمام مسائل کو اسرائیل کی نابودی سے متعلق جانتے تھے اور متعدد بار اپنے بیانات میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
مثال کے طور پر ، عالمی یوم القدس کا اعلان کرتے ہوئے آپ نے فرماتے ہیں: " میں برسوں سے مسلمانوں کو فلسطین پر اسرائیل کے قبضہ کرنے کے خطرے سے خبردار کرتا آ رہا ہوں۔" میں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جائیں ... ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل انسانیت کا دشمن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل کو لازمی طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے۔  
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو دشمنوں کے خلاف لڑنے کا حکم دیا ہے، اور اسرائیل عرصے سے مسلمانوں کے مقابلے میں کھڑا ہے اور ان سے برسر پیکار ہے۔ اسی طرح امریکہ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ لہذا قدس کو آزاد کروانا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ (۱)
حضرت امام خمینی امت اسلام کی وحدت کو ایک درینہ آرزو کے عنوان سے جانتے اور امت مسلمہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غاصب اسرائیل کو فلسطین سے نکال باہر کرنے کے لیے ایران کا ساتھ دیں۔ آپ نے فرمایا: ہم نے اپنے دفاع کے لیے کہ جو ایک الہی تکلیف اور واجب امر ہے قیام کیا ہے اور ہم کسی دوسرے ملک پر تجاوز کا ارادہ نہیں رکھتے ہم اسلامی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سب ایک ساتھ کھڑے ہوں تاکہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لیے غاصب اسرائیل کے جرائم کا مقابلے کرنے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کر سکیں۔ (۲)
صہیونی ریاست کے خلاف امام کا ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی مؤقف آپ کی وہ تقریر ہے جو جیل سے رہائی کے بعد آپ نے مسجد اعظم میں کی آپ نے فرمایا: اے قوم، ہمارے مذہب کا تقاضا ہے کہ ہم دشمنان اسلام سے متفق نہ ہوں ، ہمارے قرآن کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے دشمنوں کی صف میں کھڑے نہ ہوں۔ ہماری قوم شاہ کے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کی مخالف ہے۔ (۳)
اس کے ساتھ ساتھ، امام یہودیوں کو صیہونیوں سے بالکل الگ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: یہودی صیہونیوں سے الگ الگ حساب کتاب رکھتے ہیں۔ اگر مسلمان صہیونیوں کو شکست دیتے ہیں تو یہودیوں سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہو گا۔  وہ دوسری قوموں کی طرح ایک قوم ہیں، انہیں بھی زندگی کرنے کا حق ہے اور کوئی ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ (۴)
امام خمینی کے مؤقف اور بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونزم کے خلاف ان کی جدوجہد کا آغاز ایک واحد معیار یعنی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہوا،  جس نے اس کے حصول کے لئے اہداف اور ذرائع کو طے کیا۔ اس طرح ، امام خمینی اسرائیل اور امریکہ کی تباہی کے لیے جد و جہد کو، یا کم سے کم اسلامی امت کے اوپر سے امریکی تسلط کو ختم کرنے کو، انقلابی تحریک کا عروج اور اتحاد امت کا سبب سمجھتے ہیں ، اور اگر یہ جدوجہد ایسے اتحاد کا سبب بنے تو  اسرائیل اور امریکہ کا خاتمہ امت مسلمہ کی کامیابی ہو گی . (۵)
حواشی
[1]. صحیفه امام، ج 5، ص 186ـ187.
[2]. صحیفه امام، ج 16، ص 46ـ48.
[3]. صحیفه امام، ج 1، ص 77
http://yun.ir/pha9d3
[4]. صحیفه امام، ج 11، ص 3ـ4.
[5]. http://yun.ir/9m6yv2

 

کتاب ’’امام خمینی صہیونزم کے مقابلے میں‘‘ کا تعارف

  • ۴۶۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بیت المقدس کی غاصب حکومت کے بارے میں امام خمینی کے نظریات اور تقریروں پر مشتمل یہ کتاب ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کے مطالعے سے امام خمینی کی بالغ نظری، سیاسی بصیرت، ایمانی قوت، مردانہ لہجہ کی انا، اصابت فکر، صلابت رائے اور عزم محکم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے دنیا کے مسلمانوں کو متعدد مرتبہ اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سلاطین و شیوخ و استعماری ایجنٹ کی طرف دیکھنا وقت کی بربادی ہے، یہ سب اپنی چار روزہ حکومت کے لیے جی رہے ہیں ان کے ضمیر مردہ ہیں یہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں اور مسلمانوں کی پیشانی پر کلنگ کا ٹیکہ ہیں، ذلت و رسوائی کے نشان ہیں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ان کو اپنا تخت و تاج پیارا ہے۔


اس کتاب میں اس تقریر کا خلاصہ پڑھیں گے جب اسلامی دنیا کے سفیروں کے سامنے اس مخلص رہنما نے صدام سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا راستہ مانگا تھا اور اس نے جن شرائط پر راستہ دینے کا وعدہ کیا تھا، امام خمینی جیسا لیڈر کیا کوئی سچا معمولی انسان بھی ان شرائط کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔
بہر حال آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام خمینی کی پیشگوئی حرف بحرف صحیح صادق ہوئی، کاش دنیا کے مسلمان اب بھی حقیقت کو سمجھ لیں۔