کیا انسان نے واقعی ترقی کی ہے؟ (۲)

  • ۴۱۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ تاریخ ہمارے احساسات و نظریات سے اس قدر بے نیاز ہے کہ ہم واقعات کا اپنی مرضی سے انتخاب کریں تو اس سے کسی بھی طرح کے نتائج نکال سکتے ہیں۔ اگر ہم رجائی پہلو سے اپنے شواہد کا انتخاب کریں تو انسانی ترقی کے بارے میں ہمیں کافی اطمینان بخش نتائج حاصل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے ہمیں یہ ضرور طے کر لینا چاہیے کہ ترقی سے ہماری مراد کیا ہے؟ اگر ترقی کا مفہوم انسانی خوشی میں اضافہ تصور کیا جائے تو بالکل سرسری نظر میں ہی اس بات کا علم ہو جائے گا کہ ہم اس بارے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ انسانوں کی غیر مطمئن رہنے کی صلاحیت تقریبا لامحدود ہی ہے خواہ ہم کتنی ہی مشکلات پر قابو پا لیں، کتنے ہی خوابوں کی تعبیر ہمیں مل جائے، ہم اپنے آپ کو انتہائی پریشان حال اور قابل رحم ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ اس دنیا میں اس میں بسنے والوں کو اپنا دشمن قرار دے کر ہمیں ایک پوشیدہ سی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ویسے بھی اگر ترقی سے مراد خوشی میں اضافہ ہی تصور کیا جائے تو اس سے یہ احمقانہ نتیجہ نکلے گا کہ بچہ ایک جوان یا ایک پختہ العمر شخص کے مقابلے میں زندگی کی زیادہ ترقی یافتہ شکل ہے کیونکہ ظاہر ہے زندگی کی ان تینوں حالتوں میں بچہ ہی سب سے زیادہ مسرور ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کی کوئی زیادہ معروضی تعریف ممکن ہے؟
اگر ہم ترقی کی تعریف زندگی کے اپنے ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ کی صورت میں کریں تو یہ انتہائی واقعیت پسندانہ ہو گی۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کا اطلاق حقیر ترین جاندار سے لیکر انسانوں تک سب پر ہو سکتا ہے۔
ہمیں ترقی کو اس بات سے مشروط نہیں کرنا چاہیے کہ یہ مسلسل اور عالمگیر ہو، جس طرح ایک ترقی کرتے ہوئے فرد کی زندگی میں ناکامی، تھکاوٹ اور آرام کے وقفے آتے ہیں اسی طرح تاریخ انسانی میں انحطاط یا تنزل کے ادوار بھی موجود رہے ہیں، تاہم اگر کسی مرحلہ میں ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو تو ہم یہ کہیں گے کہ اس دور میں حقیقتا ترقی ہوئی ہے اگر تاریخ کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تقریبا تاریخ کے ہر دور میں بعض قومیں ترقی کر رہی ہوتی ہیں اور بعض زوال پذیر ہوتی ہیں۔ جیسے آج کا روس ترقی کر رہا ہے اور انگلستان رو بہ زوال ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم زندگی کے کسی شعبہ میں ترقی کر رہی ہو اور کسی دوسرے شعبے میں زوال کا شکار ہو۔ جس طرح آج کل امریکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہا ہے لیکن تصویر کشی و مصوری کے میدان میں انحطاط کا شکار ہے۔۔۔
آج کے دور کو بے حد تشویش ناک، پااختلال، اور ظالمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ہم دور اندیشانہ نقطہ نظر اختیار کر کے اس دور جدید کے انسانوں کی حالت کا موازنہ قدیم زمانے کے لوگوں میں موجود جہالت، توہم پرستی تشدد اور بیماریوں سے کریں تو ہمیں موجودہ دور کے بارے میں کوئی مایوسی یا پریشانی نہیں ہو گی۔
گرچہ متمدن ریاستوں میں بھی پست ترین طبقات کی حالت عہد وحشت کے انسانوں سے ذرا ہی بہتر ہے لیکن ان طبقات سے اوپر کی سطح پر لاکھوں لوگ ایسے ذہنی اور اخلاقی معیار پر پہنچ گئے ہیں جو ابتدائی دور کے انسانوں میں شاذ و نادر ہی موجود ہو۔۔۔۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ محض انسانی حماقتوں اور جرائم کی یاددہانی اور ان کے خلاف تنبیہ سمجھ کر نہیں بلکہ تخلیق کاروں کی حوصلہ افزاء یاد آفرینی کے طور پر کریں تو ماضی افسردہ کن بھوت گھرنظر آنے کی بجائے ایک ملکوتی شہر نظر آتا ہے۔ ایک ایسی وسیع و عریض مملکت خیال جہاں ہزاروں ولی، مدبر، موجد، سائنس دان، شاعر، مصور، عاشق اور فلسفی ابھی تک زندہ اور مصروف عمل ہیں۔
مورخ کو اس امر پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے وجود انسانی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا سوائے اس کے جو انسان خود اپنے لیے طے کر لیتا ہے۔ بلکہ یہ تو ہمارے لیے باعث فخر ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کا مفہوم خود متعین کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس قدر اہم اور بامعنی ہوجاتا ہے کہ موت بھی اس پر غالب نہیں آ سکتی۔ وہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جو مرنے سے بیشتر جس قدر بھی ممکن ہو اپنے تمدنی ورثہ کو جمع کرے اور اسے اپنے بچوں تک منتقل کر دے۔ کیونکہ اسی میں انسانی بقا مضمر ہے اور یہی تہذیبی ورثہ ہی ابدی زندگی کی ایک صورت ہے۔

(ماخوذ از تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ)

 

 

مسئلہ فلسطین کا حل عالم اسلام کی مشکلات کی کنجی ہے: ڈاکٹر صفاتاج

  • ۳۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین اور اسرائیل کے موضوع پر ہمارے سماج میں شاذ و نادر ہی مطالعہ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے اندر اس بارے میں سوچنا پڑھنا یا جانکاری حاصل کرنا گویا ایک امر مہمل ہے ۔ فلسطین کی چند خبروں کے کانوں میں پڑ جانے اور میڈیا کے بے بنیاد تبصرے سن لینے کے علاوہ نہ کوئی بنیادی کام اس بارے میں ہمارے سماج میں انجام پایا ہے اور نہ سماج میں اس مسئلے کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کا شعور ہے۔ البتہ سرزمین ایران میں پھر بھی چند ایک ماہر اساتید اور متخصص افراد ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کافی کام کیا ہے اور زحمتیں اٹھائی ہیں ہم ان کی زحمتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا اور اس مسئلے کے خد و خال کو عوام الناس تک پہنچانا اور اس کے نشیب و فراز کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا۔ لہذا ڈاکٹر مجید صفاتاج جیسے اساتید کی علمی کاوشیں اس بات کا باعث بنیں کہ عوام کے اندر صہیونیت اور اس کے جرائم کو پہنچانے کا جذبہ پیدا ہو۔
 
ڈاکٹر صفاتاج نے فلسطین، اسرائیل، صہیونیت اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر ۸۰ سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں سے بعض کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ آپ نے ۱۹۷۹ میں شام اور لبنان کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران فلسطینیوں کے کیمپوں میں حاضر ہو کر فلسطینیوں کی مشکلات کو قریب سے محسوس کیا۔ آپ نے لبنان یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور تقریبا چالیس سال سے اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صفاتاج سے گفتگو ایک خاص اہمیت کی حامل ہے جو ذیل میں اپنے قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
 
خیبر: مسئلہ فلسطین کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مجید صفاتاج: مسئلہ فلسطین ان نسل پرست افراد کے ذریعے وجود میں لایا گیا جن کا پیشہ ہی ظلم و ستم ڈھانا تھا انہوں نے وسعت طلب دھشتگردوں کے تعاون سے اس جال کو مزید پھیلایا اور ابھی تک مسلمان اس کی ڈوریوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لہذا صہیونی رژیم کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر ہم سب کا جمع ہونا ضروری ہے تاکہ عالم اسلام سرخرو صہیونیت کے پھیلائے ہوئے اس جال سے خود کو بچا کر باہر آ سکے۔
لہذا مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی ترین مسئلہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گا دنیا کی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو عراق، شام اور یمن کے بحران وجود میں نہ آتے، علاقے کی مشکلات اور مصائب کی اصلی جڑ یہی قدس کی غاصب رژیم ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک اسرائیل کا نحس وجود صفحہ ہستی پر باقی ہے عالم اسلام کی ایک بھی مشکل حل نہیں ہو گی اور یمن جیسے مسائل ہمیشہ کے لیے علاقے میں رخ پاتے رہیں گے۔
خیبر: رہبر انقلاب اسلامی نے جو اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ رہبر انقلاب اسلامی نے یہ جو فرمایا کہ اسرائیل آئندہ ۲۵ سال نہیں دیکھ پائے گا یہ بات آپ نے بہت ساری تفسیروں کی بنیاد پر کہی ہے اور یقینا یہ اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ ہے۔
اہم بات جو ہے وہ یہ کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی تک مسئلہ فلسطین فراموشیوں کے حوالے ہو چکا تھا لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس مسئلے کو آفاقی شہرت ملی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے اسرائیل نے مسلمانوں کا مزاق اڑاتے ہوئے چھے دن میں لبنان کا اہم حصہ اپنے قبضے میں لے لیا لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ اپنے علاقوں کو واپس لے لیا اور انقلاب اسلامی کے بعد اسرائیل مسلسل زوال کا شکار ہے اور انشاء اللہ اس کی موت قریب ہے۔
خیبر: ہمارے سماج میں دشمن شناسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے کیا آپ کی نگاہ میں دشمن کو پہچاننا ضروری ہے یا نہیں؟
۔ امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں کہ “العلم سلطان” علم طاقت ہے علم قدرت ہے۔ جب ہمارے مقابلے میں جابر اور سفاک دشمن کھڑا ہے جو ہمارے خون کا پیاسا ہے تو کیا ہمیں اس کو پہچانے بغیر اس سے ہاتھا پائی ہو جانا چاہیے یا پہلے اسے مکمل طور پر پہچاننا چاہیے، اس کی طاقت کا اندازہ لگانا چاہیے، اس کے ساتھ موجود لشکر کا اندازہ لگانا چاہیے؟ جیسا کہ واجب کا مقدمہ واجب ہے ایسے ہی صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کو ہر لحاظ سے پہچاننا ضروری ہے۔
صہیونی ریاست چونکہ نفسیاتی جنگ میں کافی مصروف کار ہے لہذا ہمیں اس کی کمزوریوں سے بھی آگاہی ہونا چاہیے تاکہ ہم دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکیں۔

 

کتاب ’روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ‘ کا تعارف

  • ۳۳۲

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “روئے زمین کا سب سے بڑا ٰقید خانہ؛ مقبوضہ سرزمین کا تاریخچہ” (۱) مورخ ایلن پاپی (Ilan Pappé) کے ذریعے صفحہ قرطاس پر آنے والی گراں قیمت کتاب ہے جو انہوں نے ۲۰۱۷ میں قلم بند کر کے منظر عام پر پیش کی۔ پاپی ۱۹۵۴ء میں مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں پیدا ہوئے اور اِس وقت وہ برطانیہ کی اگزیٹر یونیورسٹی (University of Exeter) کے شعبہ سماجیات اور بین الاقوامی مطالعات میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
یہ کتاب ان افراد کے لیے جو مقبوضہ فلسطین کی تاریخ اور اس سرزمین میں ایک نئی ریاست کی تشکیل کے نظریات کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں بہت مفید اور دلچسپ ہے۔ مصنف اس کتاب میں کوشش کرتے ہیں کہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے پشت پردہ عوامل کو برملا کریں۔ وہ قائل ہیں کہ صہیونی یہودی اپنے نسل پرستانہ عقائد کے پیش نظر دنیاوی مقام و منزلت کے حصول کی خاطر لاکھوں انسانوں کی جانیں لینے کو تیار ہیں۔ (۲)
کتاب” روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ” تیرہ فصلوں پر مشتمل ہے، اس کے مصنف اس کتاب میں مکمل دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صہیونیوں کا ارادہ ہے کہ وہ مختلف سیاسی اور قانونی بندشوں کا سہارا لے کر فلسطینیوں کو ان کے ابتدائی حقوق منجملہ آزادی سے محروم کر دیں۔ (۳)
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ہی واضح ہے کہ مصنف نے مقبوضہ فلسطین کو روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ وہ قائل ہیں کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کو خود ان کی سرزمین میں قید رکھ کر ان پر مکمل تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے۔
 
ایلن پاپی اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: فلسطینی اس عقوقبت خانے میں رہنا پسند نہیں کرتے اور نہ وہ اس قضیے کے مقابلے میں تسلیم ہیں لہذا انہوں نے اس قید خانے سے خود کو نجات دلانے کے لیے انتفاضہ برپا کیا ہے۔ لیکن صہیونیوں نے اعتراض کرنے والوں کو ایک خاص طریقہ کار سے دبا دیا ہے۔ صہیونیوں کا اگر یہی طریقہ کار جاری رہا تو فلسطینی اپنے حقوق حاصل کرنے سے خستہ ہو جائیں گے اور آزادانہ زندگی بسر نہیں پائیں گے۔ (۴)
پاپی اس کتاب میں تاریخ بشریت کی طولانی ترین اور خطرناک ترین جنگ کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی کتاب کی تالیف کا مقصد سرزمین مقدس پر قبضہ جمانے کے لیے صہیونی سیاستدانوں کی تزویری حکمت عملی سے پردہ چاک کرنا بیان کرتے ہیں۔(۵)
مصنف اس کتاب میں ۱۹۴۸ میں فلسطین پر قبضے کے ابتدائی ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کو مد نظر رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ صہیونیوں اور جعلی ریاست کے سربراہوں کا بنیادی مقصد پورے فلسطین پر تسلط اور فلسطینیوں کی ہمیشہ کے لیے نابودی ہے۔ (۶)
ایلن پاپی کتاب ” روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ” میں صہیونی ریاست کے مظالم کے مقابلے میں فلسطینیوں کی تنہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صہیونی نظام نے اپنے لیے ایک بین الاقوامی حصار قائم کر رکھا ہے اور مزاحمتی تنظیم حماس کو دھشتگرد قرار دے کر وہ مقبوضہ فلسطین میں عام افراد کو مسلسل اپنے تشدد و جارحیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ (۷)
۱٫ The Biggest Prison on Earth: A History of the Occupied Territories
۲٫https://www.palestinebookawards.com/reviews/item/the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe
۳٫ https://muse.jhu.edu/article/685925/pdf
۴٫https://www.middleeasteye.net/news/interview-ilan-pappe-44144233
. https://oneworld-publications.com/the-biggest-prison-on-earth.html۵
۶.https://www.middleeastmonitor.com/20171020-the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe/
۷.https://www.palestinebookawards.com/reviews/item/the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe

 

صہیونی اخبارات پر اہم تبصرہ

  • ۳۴۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ موجودہ دور میں انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخباروں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو گزشتہ سالوں میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر بھی دنیا کے ہر خطے میں اخبار پڑھنے والے افراد ابھی بھی موجود ہیں۔ لیکن اس اعتبار سے کہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سافٹ وار اور نفسیاتی جنگ کے لیے بہترین آلہ کار ہیں اور ان کے ذریعے سماجی، سیاسی، معیشتی اور ثقافتی انقلابات برپا کئے جاتے ہیں ان کی افادیت اور تاثیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیا کی اسی تاثیر کی وجہ سے صہیونی یہودیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں کی ایک خفیہ انجمن کہ جو اٹھارہویں صدی میں تشکیل پائی تھی کے آئین نامے کی چوتھی اصل یہ تھی کہ دنیا کے تمام طاقتور ذرائع ابلاغ پر اپنا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ (ص/۱۶۸)، یہاں تک کہ انیسویں صدی میں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو معمولا یورپ کے اخبار تھے پر صہیونیت کا قبضہ تھا۔ (ص/۱۶۹)
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود یہودی بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے انکار نہیں کرتے، مثال کے طور پر وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں: انہی اخباروں کی مدد سے ہم خون کی ندیاں اور آنسوؤں کے دریا بہا کر سونے کے ڈھیر لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ان اخباروں کو اس طرح سے چلائیں گے کہ یہ ہمارے لیے درآمد کا ذریعہ بنیں، اس طریقے سے ہم اخباروں کی جانب سے ہونے والے ہر ممکنہ حملے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ (ص/۱۶۹)
لیکن میڈیا کے میدان میں جو چیز حائز اہمیت ہے وہ خبر رسانی اور پیغام رسانی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی نیوز ایجنسی یا اخبار کے مالک ہیں تو یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ کیا سوچیں اور کس طرح سوچیں۔ یہ وہ چیز ہے جو صہیونیت سے منسوب بارہویں پروٹوکول میں درج ہے۔ اس پروٹوکول میں یوں آیا ہے: ’’کوئی خبر کہیں بھی درج نہیں ہوتی مگر یہ کہ ہم اس کی اجازت دیں، اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو بہت کم ہیں پر اپنا قبضہ جمانا ہو گا‘‘۔ لہذا بالکل تعجب نہیں کریں اگر آپ سے کہا جائے کہ دنیا کی اہم نیوز ایجنسیاں جیسے رائٹرز، بی بی سی، آسوشیٹڈ پریس، یونائیٹڈ پریس وغیرہ وغیرہ صہیونی یہودیوں کے ذریعے چل رہی ہیں۔
صہیونیت سے وابستہ اخباروں نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے ۵۰ سال قبل اس کے افکار و اہداف کو عام کرنا شروع کر دیا تھا۔ سب سے پہلا اخبار( Die welt)  کےنام سے تھیوڈر ہرٹزل جو صہیونیت کا موسس تھا کے ذریعے آغاز ہوا۔ لیکن خود اسرائیل میں ۱۹۴۸ سے پہلے یہودیوں کے ۱۰۰ سے زیادہ اخبار اور جریدے مختلف زبانوں میں شائع ہوتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریاست کے باشندے اپنے اخباروں پر ذرہ برابر اعتماد نہیں کرتے اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور اخبارات کو ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ روزانہ ۳۰۰۰ سے ۳۵۰۰ غیر ملکی اخبار اور ۸۰ ہزار جریدے فرانس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ کے اسرائیل میں بکتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا پر گہری نگرانی
صہیونی ریاست میں میڈیا آزاد ہے لیکن اس وقت تک جب تک اس ریاست کے سکیورٹی تحفظات کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ لہذا تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اپنی تمام خبروں کو شائع کرنے سے پہلے نگرانی بورڈ کہ جو فوجی افسروں پر مشتمل ہے کو ارسال کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ یہ نگرانی اندرونی سنسر کے علاوہ ہے جو خود اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹر انجام دیتے ہیں۔ (ص۱۸۶،۱۸۵)
اسرائیل کے معروف اخباروں کو تین کلی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کثیر الانتشار، پارٹی محور اور عربی زبان
اسرائیل کے کثیر الانتشار اخبارات
۱۔ جروزالم پوسٹ (The Jerusalem Post)؛ یہ اخبار صہیونی ریاست کے ابتدائی اخباروں میں شمار ہوتا ہے۔ ۱۹۳۲ میں یہ اخبار ’فلسطین پوسٹ‘ کے نام سے شروع ہوا اور ۱۹۴۸ میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ یہ اخبار زیادہ تر وزارت خارجہ سے وابستہ ہے اور اس کے طرفدار انتہا پسند اور فتنہ پرور قسم کے افراد ہیں۔
 
۲۔ یدیعوت آحرونوت (Yedioth Ahronoth)؛ یہ اخبار عرب فلسطینیوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے کارکنان اسرائیل کے سکیورٹی اداروں سے وابستہ ہیں۔ اور یہ بھی جان لینا مناسب ہو گا کہ اسرائیل کے ۴۰ فیصد عوام اس اخبار کو پڑھتے ہیں۔
 
۳۔ معاریو (Maariv)؛ یہ اخبار جو عصر کے وقت شائع ہوتا ہے اسرائیل کا کثیر الانتشار اخبار ہے یعنی عام دنوں میں یہ ۱۶۰ ہزار کی تعداد میں جبکہ سنیچر جو چھٹی والا دن ہے میں ۳۱۰ ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے۔ (ص۱۸۷) یہ اخبار دائیں بازو پارٹی لیکوڈ کا اخبار شمار ہوتا ہے۔
 
۴۔ ہاآرتض (Haaretz)؛ یہ اخبار روزانہ ۷۷ ہزار کی تعداد میں اسرائیل میں چھپتا ہے۔ در حقیقت یہ اخبار اسرائیل کے روشن فکر افراد سے متعلق ہے اور آزادی بیان میں دوسرے اخباروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس اخبار کے نامہ نگار فلسطینی عرب بھی ہیں اور عرب سماج کی مشکلات کو بھی منعکس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں رکھتا۔
 
پارٹی محور اخبارات
۱۔ داور ;(Davar) یہ اخبار Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے کہ جو صہیونی مقاصد کی تکمیل جیسے مہاجر یہودیوں کے لیے مکانات فراہم کروانا، یا دوسرے ملکوں میں موجود یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین ہجرت کی ترغیب دلانا وغیرہ، کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
۲۔ عل ہشمار؛ “ماپام” پارٹی سے وابستہ اخبار ہے جو زیادہ تر سوشلسٹ افکار کی ترویج کرتا ہے۔
۳۔ ہمفڈل: یہ اخبار قومی مذہبی پارٹی (National Religious Party) کا ترجمان اور لیکوڈ پارٹی سے وابستہ ہے جو معمول متعصب یہودیوں کے درمیان پڑھا جاتا ہے۔
عربی اخبارات
۱۔ الاتحاد؛ یہ اخبار کمیونیسٹ پارٹی ’راکاح‘ کا ترجمان ہے۔
۲؛ الانبار؛ یہ اخبار بھی Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے اور موجودہ حکومت کی اپوزیشن اس کی طرفدار ہے۔
خیال رہے کہ صہیونی ریاست کے اخبارات اور جرائد کی یہ کثیر تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے مختلف یہودی قبائل، زبانوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں کی وجہ سے ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ صہیونی معاشرہ اندرونی طور پر شدید اختلافات، منافرتوں اور دراڑوں کا شکار ہے۔
تحریر: میلاد پور عسگری

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ شہید مرتضیٰ مطہری

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری اسلام کے عظیم مفکر، عالم تشیع کے ایک بزرگ فلاسفر اور امام خمینی (رہ) کے خاص شاگرد تھے۔ یہ عظیم شخصیت اس قدر اسلام اور انقلاب کے لیے دلسوز تھی کہ امام خمینی(رہ) نے ان کی شہادت کے بعد انہیں اپنا بیٹا کہہ کر یاد کیا۔
امام خمینی (رہ) کی شاگردی اختیار کرنے سے شہید مطہری کے اندر اپنے استاد کی طرح، سامراجی طاقتوں اور صہیونی نظام کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا ہو گیا جس کا مشاہدہ آپ کے دروس، تقاریر اور بیانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے عالمی صہیونیت کے خلاف کس قدر جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کا مظاہرہ کیا اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے لوگوں سے پیسہ اکٹھا کر کے جہاد بالعمل کا ثبوت بھی دیا۔ فلسطینی عوام کی امداد رسانی کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنا اور ان سے امداد جمع کر کے فلسطینیوں تک پہنچانا آپ کا معمول بن چکا تھا۔
لیکن ایک مرتبہ ساواک نے ان کا اکاونٹ سیل کر کے سارا پیسہ ضبط کر لیا جو فلسطینیوں کے امداد کے طور پر جمع کیا ہوا تھا۔ شہید مطہری کو جب خبر ملی تو آیت اللہ شریعتمداری جن کے ساواک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے کے دفتر کے تعاون سے ان پیسوں کو ساواک سے واپس لیا۔ اور بعد میں مکہ سفر کے دوران ان پیسوں کو فلسطینی نمائندوں کے ذریعے فلسطین کے عوام تک پہنچایا۔ (۱)
شہید مطہری سے شہنشاہی نظام کو اس وقت شدید خطرہ محسوس ہوا جب انہوں نے عاشور کے دن ’’حسینیہ ارشاد‘‘ میں صہیونی ریاست کے خلاف کھلے عام سخت لہجے میں تقریر کی، جس کے بعد ساواک نے انہیں اسرائیل مخالفین کی فہرست میں قرار دے کر گرفتار کر لیا۔
شہید مطہری نے اپنی اس تقریر میں کہا: اسلامی پہلو کے علاوہ مسئلہ فلسطین کی کوئی تاریخ نہیں ہے مسئلہ فلسطین کا کسی ایک حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسئلہ فلسطین ایک ملت سے تعلق رکھتا ہے، ایسی ملت جسے بے گھر کر دیا گیا ہے جس کی زمین کو غصب کر دیا گیا ہے‘‘۔
آپ نے اس تقریر میں مسئلہ فلسطین کو واقعہ عاشورا سے جوڑتے ہوئے کہا: ’’اگر حسین بن علی(ع) آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کرو تو کن سا نوحہ پڑھنے کو کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو: ہائے میرا نوجواں اکبر۔۔۔؟
اگر حسین بن علی (ع) آج ہوتے اور کہتے میرے لیے عزاداری کرو، میرے لیے ماتم کرو اور زنجیر مارو، تو آج تمہارا نوحہ ’ہائے فلسطین‘ ہوتا۔ آج کا شمر ’موشے دایان‘ ہے، اپنے زمانے کے شمر کو پہچانو‘‘۔
شہید مطہری نے اس شبہہ کو بھی دور کرتے ہوئے کہ مسئلہ فلسطین عربوں اور اسرائیل کا مسئلہ ہے کہا:
ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا ہے کہ یہ مسئلہ تو اندرونی مسئلہ ہے، عرب اور اسرائیل کا مسئلہ ہے، عبد الرحمان فرامرزی کے بقول کہ اگر انہی کا مسئلہ اور مذہبی مسئلہ نہیں ہے تو کیوں دنیا کے دیگر یہودی ہمیشہ ان کے لیے پیسے بھیج رہے ہیں؟ ۳۶ ملین ڈالر ہمارے ملک ایران کے یہودیوں نے اسرائیل کو بھیجے ہیں۔ میں ان یہودیوں کو لعنت ملامت نہیں کرتا چونکہ وہ یہودی ہیں، میں خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں، انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کی مدد کی اور پورے فخر کے ساتھ ان کے لیے پیسہ بھیجتے ہیں، میرے پاس اخبار کا وہ ٹکڑا موجود ہے جس پر یہ خبر چھپی ہوئی ہے کہ امریکہ کے یہودی روزانہ ایک ملین ڈالر اسرائیل کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ ۲
حواشی
1 – http://motahari.org/index.aspx?pageid=186&p=1
2- https://www.tabnak.ir/fa/news/419362

 

اسرائیل میں بہائیت کے گہرے اثر و رسوخ کی چند مثالیں

  • ۴۱۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل میں سکونت پذیر حسین اقبال نامی ایک بہائی شخصیت صہیونی ریاست میں پائے جانے والے بہائیت کے گہرے اثر و رسوخ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شوقی افندی اسرائیلی حکومت سے جو تقاضا اور فرمائش کرتے تھے حکومت اسے فورا بجا لاتی تھی، اور اس کے نتیجہ میں ہم فلسطین میں رہنے والے بہائی، آرام و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔‘‘۔
بہائیوں کا اسرائیلیوں کے یہاں احترام اپنے یہودی شہریوں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ایرانی بہائی عبد اللہ رفیعی نے اپنے اسرائیل دورے کے بارے میں لکھا ہے: ’’تل ابیب کسٹم ڈیوٹی پر جب ہم خود کو بہائی کے عنوان سے پہچنواتے تھے، تو بہت احترام کے ساتھ وہ ہمیں بغیر تلاشی کے آگے بھیج دیتے تھے، جبکہ دوسرے لوگوں کی کافی سختی کے ساتھ تلاشی کرتے تھے۔۔۔‘‘۔
ایئرپورٹ کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ فریدون رامش کے بقول بعض یہودی ان پر اعتراض کرتے تھے۔ بطور مثال، ایک یہودی نے اعتراض کیا کہ کیوں ایرانیوں کی تلاشی نہیں کی جاتی اور ہم جو یہاں کے رہنے والے ہیں ہماری اتنی سختی سے تلاشی کی جاتی ہے۔
ایک اور نکتہ جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جا سکتا ہے یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے سیاسی وفود جس ملک میں بھی جاتے تھے قلت وقت کے باوجود اس ملک میں رہنے والے بہائیوں سے ضرور ملاقات کرتے تھے۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونیوں اور بہائیوں کے درمیان تعلقات صرف سیاسی تعلقات نہیں تھے بلکہ اس عنوان سے کہ صہیونیوں نے ہی بہائیت کو جنم دیا تھا اس وجہ سے اس نومولود فرقے کی بھرپور حمایت کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔
شوقی افندی کے تدفین کی رسومات بھی صہیونی حکومت کی کافی توجہات کا محور رہیں، ان کی موت کے بعد صہیونی ریاست نے برطانیہ میں اپنے سفیر کو حکم دیا کہ وہ بذات خود ان کے تدفین کی رسومات میں شرکت کرے۔
البتہ یاد رہے کہ صہیونی ریاست نے بلاوجہ شوقی افندی کو اتنی اہمیت نہیں دی یا فرقہ بہائیت کو بغیر کسی دلیل کے اپنی توجہ کا مرکز نہیں بنایا بلکہ اس کی ایک خاص وجہ اسرائیل کی تشکیل میں فرقہ بہائیت اور خاص طور پر شوقی افندی اور اس کے باپ دادا کی خدمات ہیں جنہیں اسرائیلی حکومت نے ہمیشہ یاد رکھا اور وقتا فوقتا ان کا صلہ دینے کی کوشش کی۔
ماخذ؛
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

نسل پرستی میں امریکہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کیا فلائڈ ان مشکلات اور مصائب کے بارے میں کچھ بتا پائے گا جو امریکی نسل پرست صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسوں نے سیاہ فام لوگوں کے لیے وجود میں لائے ہیں؟ کیا الحلاق ان غاصب اسرائیلی فوجیوں کے مظالم کی عکاسی کر پائے گا جو فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں اور بے کس فلسطینیوں پر ڈھا رہے ہیں؟
اب تو فلائڈ اور الحلاق دونوں ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں نہ ٹرمپ کی نسل پرستانہ حکومت ہے نہ نیتن یاہو کا ظلم و تشدد، جہاں نہ کوئی رنگ و نسل پر کسی کا خون بہاتا ہے نہ کوئی زبردستی کسی کو اس کے گھر سے باہر نکالتا ہے۔
جب فلسطینی معذور ایاد الحلاق کی لاش ان کے گھر والوں کو ملی اس کی ماں کے رونے کی آوازوں سے بیت المقدس کی دیواریں بھی چیخ اٹھی تھی، جب میں نے جارج فلائڈ کی بیٹی کو روتے ہوئے دیکھا تو میں نے اس ویڈیو کو اپنی آنکھوں کے سامنے لایا جس میں امریکی سفید پوست پولیس افیسر فلائڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دبا رہا تھا اور فلائڈ اپنی جان بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا لیکن جب تک اس کی آخری سانس نہیں نکلی پولیس آفیسر نے اس کی گردن سے گھٹنا نہ ہٹایا، اس منظر کو دیکھ کر میں نے یہ سوچا کہ کیا ایک دن اس کی یتیم لڑکی اس لعنتی کی اس حرکت کو بھول پائے گی؟ کیا کوئی چیز اس کے دل میں جلتی ہوئی آگ کو بجھا پائے گی؟
کیا ایاد الحاق کی ماں، گولیوں کی اس آواز کو بھول پائے گی جس نے اس کے بے گناہ بچے کو چھلنی کر دیا اور اس کی زندگی کے شیرازے کو لمحوں میں بکھیر دیا؟ وہ بھی ایسا بیٹا جس کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ ذہنی طور پر معذور تھا۔
یا خدا! یہ لوگ کیسے انسانیت سے دور ہو چکے ہیں؟ کیا ان کے اندر انسانیت نام کی کوئی بھی چیز نہیں بچی ہے؟ کیا ان کے چہروں پر جھوٹی نقاب چڑھی ہوئی ہے؟ اگر اس نقاب کو ہٹائیں گے تو ان کا اصلی چہرا سامنے آئے گا جو انسان کا چہرہ نہیں ہو گا، بلکہ کسی درندہ جانور کا چہرہ ہو گا۔
جی ہاں اسرائیل اور امریکہ کی نسل پرستی الحلاق اور فلائڈ جیسوں کے قتل میں واضح طور پر کھل کر سامنے آئی ہے۔ یہ دونوں جرم در حقیقت ایک ہی فکر اور سوچ کا نتیجہ ہیں اگر چہ ایک امریکی پولیس آفیسر کے ہاتھوں انجام پایا ہے اور دوسرا اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں، اور ظلم کا شکار بننے والے بھی دونوں بے گناہ اور لاچار تھے۔
جب امریکی مجرمین کے چہروں سے نقاب گری تو قدس کے غاصبوں کا اصلی چہرہ بھی سامنے آیا، ہاں دونوں نسل پرستی کا شکار بنے ہیں۔
یہ بات حقیقت ہے کہ صہیونیوں نے فلسطین کی زمین کو غصب کیا اور امریکی سفید فام لوگوں نے امریکی زمین کو۔ دونوں غاصب اور قابض ہیں دونوں مجرم اور جنایتکار ہیں، دونوں نے اپنی حکومتوں کی عمارتوں کو ان زمینوں کے اصلی مالکوں کی لاشوں پر کھڑا کیا ہے۔
لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب ایاد الحاق اور جارج فلائڈ کی جانیں لینے والی نسل پرستی امریکہ اور صہیونی ریاست کو لے ڈوبے گی، امریکہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں پاش پاش ہو گا اور صہیونی ریاست نابودی کا شکار ہو گی۔
بقلم فارس الصرفندی

 

نوآم چامسکی: ایران کی خودمختاری امریکیوں کی نفرت کا سبب/ امریکہ کے حلیف رجعت پسند ہیں

  • ۳۶۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو مشکوک اور متنازعہ حملوں میں نیویارک کی جڑواں عمارتیں زمین بوس ہوئیں تو وقت کے امریکی صدر جارج بش نے تو صلیبی جنگوں کے نئے آغاز کا تذکرہ کیا اور امریکی و یورپی ذرائع نے US under attack اور Why the muslims hate us جیسے عناوین سے مسلمانوں کے خلاف دل کھول کر زہرافشانی کی جبکہ بہت سے مسلم ممالک کے ذرائع نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن جو بات کبھی بھی مغربی ذرائع ابلاغ میں دیکھنے کو نہ ملی وہ یہ ہے کہ “امریکہ سمیت مغربی ممالک اسلامی ممالک سے نفرت کیوں کرتے ہیں” اور اب یہ بات بھی ایک امریکی دانشور “نوآم چامسکی” کے زبانی سننے کو ملی ہے کہ “امریکہ ایران سے کیوں نفرت کرتا ہے؟” انھوں نے خود ہی سوال اٹھایا ہے اور خود ہی اس کا جواب دیا ہے۔
نوآم چامسکی امریکی پروفیسر، ماہر لسانیات، نظریہ پرداز اور مفکر ہیں جنہوں نے ایک مکالمے کے دوران کہا ہے کہ ۱۹۷۹ع‍کے انقلاب کے بعد استقلال اور خودمختاری کی طرف حرکت شروع کی چنانچہ امریکہ کے سیاستدان تہران سے نفرت کرنے لگے اور اس نفرت میں مسلسل شدت آرہی ہے۔
انھوں نے ایران پر مغربی ممالک کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “مغربی ایشیا کے قدامت پسند ترین اور رجعت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ انھوں نے بطور نمونہ حجاز پر مسلط بنی سعود کی حکومت اور عرب امارات پر مسلط بنی نہیان کی حکومتوں کا تذکرہ کیا ہے جو امریکہ کی حمایت سے بہرہ ور ہیں۔
۹۰ سالہ چامسکی، جو ایم آئی ٹی اور ایریزونا یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں جو “جدید لسانیات کے باپ The Father of Modern Linguistics” اور علمِ ادراکیات (cognitive science) کے بانی کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ وہ عصر حاضر کے عظیم ترین بقید حیات مغربی دانشور مانے جاتے ہیں۔
انھوں نے ۷ اگست ۲۰۱۸ع‍کو ایریزونا یونیورسٹی میں اپنے دفتر میں ایک انٹرویو دیا ہے جو کل بروز جمعہ ۲۴ اگست کو شائع ہوا۔ انھوں نے اس مکالمے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مختلف مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔
پوچھا گیا ہے کہ اگر ۲۰۲۰ع‍کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ جماعت کے سیاستدان امریکی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ان کا موقف ایران کے خلاف کچھ نرم ہوگا؟ اور انھوں نے کہا: “یہ پیشنگوئی کرنا حقیقتا بہت مشکل ہے”۔
• رجعت پسند ترین ممالک امریکہ کے حلیف
انھوں نے کہا: میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ ایران سے نفرت کی جڑیں جدید امریکہ کی ثقافت میں بہت گہری ہیں اور ایران سے نفرت کی جڑوں کا اکھاڑ پھینکنا بہت دشوار ہے۔
انھوں نے ایران کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے سلسلے میں شائع ہونے والے نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون اور اس کی بنیاد پر امریکی سیاسی حلقوں میں ایران کے سلسلے میں جڑ پکڑنے والے تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس مضمون میں بیان ہوا ہے کہ ٹرمپ سوچتے ہیں کہ پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں تو ایران میں اسلحے کی تیاری کا سلسلہ رک جائے گا، ملک کے اندر نام نہاد جبر اور سرکوبی کا خاتمہ ہوگا اور مشرق وسطی میں ایران کی مداخلت میں کمی آئے گی۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ٹرمپ کی سوچ یہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ان کی سوچ نہیں ہے؛ پوچھتا ہوں کہ کیا اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں ذرہ برابر حقیقت بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرق وسطی کے رجعت پسند ترین اور قدامت پسند ترین ممالک وہ ہیں جن کی ہم [امریکی] حمایت کررہے ہیں۔
چامسکی کا کہنا تھا کہ اگر ایران کا سعودی عرب سے موازنہ کرایا جائے تو ایران کی جمہوری سطح ناروے کے برابر ہے۔ مشرق وسطی میں تشدد کے لحاظ سے بھی سعودی عرب اور امارات کے اقدامات ـ جن کی ہم حمایت کررہے ہیں ـ ہر چیز سے بدتر ہیں۔
• ایران سے نفرت کی جڑ
پوچھا گیا کہ امریکہ کے عالم سیاست کے دانشور و سیاستدان ایران سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اور ان کی نفرت کی جڑ کہاں پیوست ہے؟ تو انھوں نے کہا: اس کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ سنہ ۱۹۷۹ع‍میں ایران نے [انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے] استقلال اور خودمختاری کی سمت قدم بڑھایا؛ اور اس سے بڑھ کر ایرانیوں نے ایک مطلق العنان حکمران ـ جسے امریکہ نے متعین کیا تھا اور امریکی مفادات کی اساس پر اس ملک پر حکمرانی کررہا تھا ـ تخت شہنشاہی سے اتار پھینکا؛ اور ہمارے سیاستدان اور سیاست کے بارے میں سوچنے، بولنے اور لکھنے والے کبھی بھی اس واقعے کے نہیں بھولیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد امریکہ نے ایران پر عراق کے حملے کی حمایت کی جبکہ عراق کا حملہ تباہ کن تھا۔ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کی امریکی حمایت ایسے حال میں جاری رہی کہ عراق نے وسیع سطح پر کیمیاوی اسلحہ استعمال کیا اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کے اسباب فراہم کئے۔
انھوں نے کہا: عراق ایران کے خلاف کیمیاوی اسلحہ استعمال کررہا تھا اور لاکھوں انسان کو قتل کررہا تھا لیکن امریکہ نے جنگ کے پورے عرصے میں عراق کے ان اقدامات کی حمایت جاری رکھی۔
جُغرافیائی تَدبیر
• ڈونلڈ ٹرمپ چامسکی کی نظر میں
چامسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں ٹرمپ امریکہ کے سابقہ سیاسی معیاروں کے دائرے سے خارج ہیں؛ وہ جغرافیائی تزویرانی مسائل (geostrategic issues) کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کیا کررہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؛ اگر دنیا کی معیشت درہم برہم ہوجائے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر وہ نیٹو کو ختم کریں تو ان کے خیال میں اس کی کیا اہمیت ہے؟
نوآم چامسکی نے کہا: وہ واحد شیئے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اہم ہے، وہ ان کی اپنی ذات ہے اور جو کام بھی انجام دیتا ہے اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ “وہ ایک نرگسیت (Narcissism) میں مبتلا اور اپنی ذات سے محبت کا شکار، متکبر اور گھَمَنڈی شخص ہیں اور جو کام بھی انجام دیتے ہیں، خود ہی نمایاں رہنے کے قائل ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://fna.ir/boch26

 

فرقہ بہائیت کے تئیں اسرائیل کی ہمہ جہت حمایت

  • ۳۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے حوالے سے صہیونی ریاست کی حمایت صرف سیاسی میدان میں منحصر نہیں تھی بلکہ بہت سارے دیگر امور کو بھی شامل ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے سابق اٹارنی جنرل پروفیسر ’’نرمان نیویچ‘‘ نے اپنے دور میں بہائیت کو ادیان ابراہیمی میں شمار کرتے ہوئے یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ساتھ قرار دے دیا۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ جب بہائیت کے اندر اختلاف بھڑک اٹھا کہ جو کوئی نئی بات نہیں تھی، اور یہ فرقہ دو گروہوں میں بٹ گیا اور کچھ لوگ بہاء اللہ کی موت کے بعد عبد البہاء کی جانشینی کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے شوقی کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دئیے یہاں تک کہ بعض بہائی مراکز پر قبضہ کر لیا اس وجہ سے انہیں ’’ناقضین‘‘ یعنی عہد شکن کہا جانے لگا۔
لیکن اس بار صہیونی ریاست شوقی کی حمایت میں آگے نکلی اور ان کے مخالفین کو درکنار کر دیا۔
شوقی نے امریکی میں بہائیوں کے رہنما کی بن گورین سے ملاقات کے دو ماہ بعد ۱۱ جون ۱۹۵۲ کو بہائی معاشرے کو ایک خط لکھا، اور اس خط میں یہ خوشخبری دی: ’’بغاوت کرنے والے اور عہد شکن افراد کی دائما شکست جنہوں نے بہائی فرقے کی اکثریت کے خلاف قد علم کیا تھا خوشحالی کا سبب ہے‘‘۔
مثال کے طور پر اسرائیل میں ایک بہائی مرکز کے پڑوس میں مخالفین میں سے ایک شخص کا پرانا گھر تھا جسے توڑنے سے اس نے انکار کر دیا تھا جبکہ شوقی اور اس کے حامیوں کا اصرار تھا کہ یہ گھر مرکز کی خوبصورتی کو مدھم کرتا ہے لہذا سے مسمار کر دینا چاہیے۔ مخالفین نے شوقی اور اس کے حامیوں کی اسرائیل کی عدالت میں شکایت کی اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ان کی شکایت قبول نہیں کی۔
مخالفین نے جب شوقی کو دھمکانے کی کوشش کی تو شوقی صہیونی ریاست کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے متمسک ہوئے اور ایک ملاقات کے بعد حکومتی کارندوں نے مخالفین کے تمام عمارتوں کو مسمار کر کے انہیں کچل دیا۔
۲۷ نومبر ۱۹۴۵کو دنیا بھر کے بہائیوں کو لکھے گئے ایک خط میں شومی نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا:
’’حیفا کے گورنر کی پیشکش کے طور پر اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایک قرارداد پر دستخط کئے گئے جس کے بموجب ۱۳۰۰ مربع میٹر زمین کا ٹکڑا جو فرید خصم لدود کی بہن (عباس آفندی کی بہن) سے متعلق اور مرکز عہد میثاق کے نام تھا کو آزاد کروا لیا گیا۔ یہ تاریخی اقدام اس بات کا مقدمہ ہے کہ بہت جلد حکومت اسرائیل اس زمین کی سند مالکیت بہائی مرکز کے نام کر دے گی جہاں عالمی بہائی ادارہ زیر تعمیر ہے‘‘۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسرائیل بہائیوں کی تمام شاخوں اور فرقوں میں سے صرف شوقی اور اس کے پیروکاروں کو رسمی طور پر فرقہ بہائیت کے عنوان سے پہچانتا ہے اور شوقی اور اس کے مخالفین کے تمام جھگڑوں میں ہمیشہ شوقی کی حمایت کرتا رہا ہے۔
ماخذ؛
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ کا تعارف

  • ۳۵۳

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ (The Idea of Israel) پروفیسر ایلن پاپی (Ilan Pappé) کی کاوش ہے۔ وہ سنہ ۱۹۵۴ میں مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں پیدا ہوئے۔ ایلن پاپی برطانیہ کی اگزیٹرم یونیورسٹی (University of Exeterm, England) کے شعبہ سماجیات اور بین الاقوامی مطالعات کے استاد ہیں۔
کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ کا موضوع سخن اسرائیل اور صہیونیت کی تاریخ ہے۔ اس کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کلاسیکی صہیونیت کس طرح سے اپنے افکار میں ترقی لا کر جدید صہیونیت میں تبدیل ہوئی۔ در حقیقت صہیونی افکار کی ترقی کی تاریخ کو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔
ایلن پاپی نے اس کتاب میں اسرائیل کی تشکیل، اس کی سیاسی پالیسی، اس کے تعلیمی نظام نیز میڈیا سے اس کے روابط میں صہیونی آئیڈیالوجی کے اہم کردار کا جائزہ لیا ہے۔
کتاب «The Idea of Israel» سنہ ۲۰۱۴ میں منظر عام پر آئی اس میں ۱۲ فصلیں پائی جاتی ہیں جن کے عناوین درج ذیل ہیں:
• ‘The Scholarly and Fictional Idea of Israel’
• ‘The Alien Who Became a Terrorist: the Palestinian in Zionist Thought’
• ‘The War of 1948 in Word and Image’
• ‘The Trailblazers’
• ‘Recognising the Palestinian Catastrophe: The 1948 War Revisited’
• ‘The Emergence of Post-Zionist Academia, 1990 – ۲۰۰۰’
• ‘Touching the Raw Nerves of Society: Holocaust Memory in Israel’
• ‘The Idea of Israel and the Arab Jews’
• ‘The Post-Zionist Cultural Moment’
• ‘On the Post-Zionist Stage and Screen’
• ‘The Triumph of Neo-Zionism’
• ‘The Neo-Zionist Historians’
• ‘The Scholarly and Fictional Idea of Israel’
• ‘The Alien Who Became a Terrorist: the Palestinian in Zionist Thought’
• ‘The War of 1948 in Word and Image’
• ‘The Trailblazers’
• ‘Recognising the Palestinian Catastrophe: The 1948 War Revisited’
• ‘The Emergence of Post-Zionist Academia, 1990 – ۲۰۰۰’
• ‘Touching the Raw Nerves of Society: Holocaust Memory in Israel’
• ‘The Idea of Israel and the Arab Jews’
• ‘The Post-Zionist Cultural Moment’
• ‘On the Post-Zionist Stage and Screen’
• ‘The Triumph of Neo-Zionism’
• ‘The Neo-Zionist Historians’
 
پروفیسر ایلن پاپی نے اس کتاب میں اس بات کا بخوبی جائزہ لیا ہے کہ کیسے اسرائیل کو معرض وجود میں لایا گیا۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ صہیونی حکومت کی تشکیل اور اس کے استحکام میں میڈیا کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے اس نکتہ کو بھی بیان کیا ہے کہ بہت ساری فلمیں صہیونیت کی تاریخ اور نئے اسرائیل کی تشکیل کے بارے میں بنائی گئی ہیں۔
ایلن پاپی قائل ہیں کہ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کو اوزار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی گندی سیاستوں کی توجیہ، فلسطینیوں کے قتل عام اور اسرائیل کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچایا۔
ایلن کا کہنا ہے کہ صہیونیت نے ان عوامل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی اخلاقی تصویر کشی کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں واحد ایسی ریاست قرار دیا ہے جو ڈیموکریسی کی حامل ہے! انہوں نے اسرائیل کی تشکیل میں ہم فکر حکومتوں کے کردار کو غیر موثر نہ گردانتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل مغربی سامراجیت کا محصول ہے۔