-
Saturday, 13 June 2020، 09:03 PM
-
۴۳۱
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ تاریخ ہمارے احساسات و نظریات سے اس قدر بے نیاز ہے کہ ہم واقعات کا اپنی مرضی سے انتخاب کریں تو اس سے کسی بھی طرح کے نتائج نکال سکتے ہیں۔ اگر ہم رجائی پہلو سے اپنے شواہد کا انتخاب کریں تو انسانی ترقی کے بارے میں ہمیں کافی اطمینان بخش نتائج حاصل ہو سکتے ہیں لیکن پہلے ہمیں یہ ضرور طے کر لینا چاہیے کہ ترقی سے ہماری مراد کیا ہے؟ اگر ترقی کا مفہوم انسانی خوشی میں اضافہ تصور کیا جائے تو بالکل سرسری نظر میں ہی اس بات کا علم ہو جائے گا کہ ہم اس بارے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ انسانوں کی غیر مطمئن رہنے کی صلاحیت تقریبا لامحدود ہی ہے خواہ ہم کتنی ہی مشکلات پر قابو پا لیں، کتنے ہی خوابوں کی تعبیر ہمیں مل جائے، ہم اپنے آپ کو انتہائی پریشان حال اور قابل رحم ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ اس دنیا میں اس میں بسنے والوں کو اپنا دشمن قرار دے کر ہمیں ایک پوشیدہ سی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ویسے بھی اگر ترقی سے مراد خوشی میں اضافہ ہی تصور کیا جائے تو اس سے یہ احمقانہ نتیجہ نکلے گا کہ بچہ ایک جوان یا ایک پختہ العمر شخص کے مقابلے میں زندگی کی زیادہ ترقی یافتہ شکل ہے کیونکہ ظاہر ہے زندگی کی ان تینوں حالتوں میں بچہ ہی سب سے زیادہ مسرور ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کی کوئی زیادہ معروضی تعریف ممکن ہے؟
اگر ہم ترقی کی تعریف زندگی کے اپنے ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ کی صورت میں کریں تو یہ انتہائی واقعیت پسندانہ ہو گی۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کا اطلاق حقیر ترین جاندار سے لیکر انسانوں تک سب پر ہو سکتا ہے۔
ہمیں ترقی کو اس بات سے مشروط نہیں کرنا چاہیے کہ یہ مسلسل اور عالمگیر ہو، جس طرح ایک ترقی کرتے ہوئے فرد کی زندگی میں ناکامی، تھکاوٹ اور آرام کے وقفے آتے ہیں اسی طرح تاریخ انسانی میں انحطاط یا تنزل کے ادوار بھی موجود رہے ہیں، تاہم اگر کسی مرحلہ میں ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو تو ہم یہ کہیں گے کہ اس دور میں حقیقتا ترقی ہوئی ہے اگر تاریخ کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تقریبا تاریخ کے ہر دور میں بعض قومیں ترقی کر رہی ہوتی ہیں اور بعض زوال پذیر ہوتی ہیں۔ جیسے آج کا روس ترقی کر رہا ہے اور انگلستان رو بہ زوال ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم زندگی کے کسی شعبہ میں ترقی کر رہی ہو اور کسی دوسرے شعبے میں زوال کا شکار ہو۔ جس طرح آج کل امریکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کر رہا ہے لیکن تصویر کشی و مصوری کے میدان میں انحطاط کا شکار ہے۔۔۔
آج کے دور کو بے حد تشویش ناک، پااختلال، اور ظالمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر ہم دور اندیشانہ نقطہ نظر اختیار کر کے اس دور جدید کے انسانوں کی حالت کا موازنہ قدیم زمانے کے لوگوں میں موجود جہالت، توہم پرستی تشدد اور بیماریوں سے کریں تو ہمیں موجودہ دور کے بارے میں کوئی مایوسی یا پریشانی نہیں ہو گی۔
گرچہ متمدن ریاستوں میں بھی پست ترین طبقات کی حالت عہد وحشت کے انسانوں سے ذرا ہی بہتر ہے لیکن ان طبقات سے اوپر کی سطح پر لاکھوں لوگ ایسے ذہنی اور اخلاقی معیار پر پہنچ گئے ہیں جو ابتدائی دور کے انسانوں میں شاذ و نادر ہی موجود ہو۔۔۔۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ محض انسانی حماقتوں اور جرائم کی یاددہانی اور ان کے خلاف تنبیہ سمجھ کر نہیں بلکہ تخلیق کاروں کی حوصلہ افزاء یاد آفرینی کے طور پر کریں تو ماضی افسردہ کن بھوت گھرنظر آنے کی بجائے ایک ملکوتی شہر نظر آتا ہے۔ ایک ایسی وسیع و عریض مملکت خیال جہاں ہزاروں ولی، مدبر، موجد، سائنس دان، شاعر، مصور، عاشق اور فلسفی ابھی تک زندہ اور مصروف عمل ہیں۔
مورخ کو اس امر پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے وجود انسانی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا سوائے اس کے جو انسان خود اپنے لیے طے کر لیتا ہے۔ بلکہ یہ تو ہمارے لیے باعث فخر ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کا مفہوم خود متعین کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس قدر اہم اور بامعنی ہوجاتا ہے کہ موت بھی اس پر غالب نہیں آ سکتی۔ وہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جو مرنے سے بیشتر جس قدر بھی ممکن ہو اپنے تمدنی ورثہ کو جمع کرے اور اسے اپنے بچوں تک منتقل کر دے۔ کیونکہ اسی میں انسانی بقا مضمر ہے اور یہی تہذیبی ورثہ ہی ابدی زندگی کی ایک صورت ہے۔
(ماخوذ از تاریخ عالم کا ایک جائزہ، ول ڈیورانٹ)