-
Thursday, 11 June 2020، 07:29 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین اور اسرائیل کے موضوع پر ہمارے سماج میں شاذ و نادر ہی مطالعہ کیا جاتا ہے مسلمانوں کے اندر اس بارے میں سوچنا پڑھنا یا جانکاری حاصل کرنا گویا ایک امر مہمل ہے ۔ فلسطین کی چند خبروں کے کانوں میں پڑ جانے اور میڈیا کے بے بنیاد تبصرے سن لینے کے علاوہ نہ کوئی بنیادی کام اس بارے میں ہمارے سماج میں انجام پایا ہے اور نہ سماج میں اس مسئلے کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کا شعور ہے۔ البتہ سرزمین ایران میں پھر بھی چند ایک ماہر اساتید اور متخصص افراد ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کافی کام کیا ہے اور زحمتیں اٹھائی ہیں ہم ان کی زحمتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین کو خاص اہمیت کا حامل قرار دیا اور اس مسئلے کے خد و خال کو عوام الناس تک پہنچانا اور اس کے نشیب و فراز کی وضاحت کرنا ضروری سمجھا گیا۔ لہذا ڈاکٹر مجید صفاتاج جیسے اساتید کی علمی کاوشیں اس بات کا باعث بنیں کہ عوام کے اندر صہیونیت اور اس کے جرائم کو پہنچانے کا جذبہ پیدا ہو۔
ڈاکٹر صفاتاج نے فلسطین، اسرائیل، صہیونیت اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر ۸۰ سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں سے بعض کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ آپ نے ۱۹۷۹ میں شام اور لبنان کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران فلسطینیوں کے کیمپوں میں حاضر ہو کر فلسطینیوں کی مشکلات کو قریب سے محسوس کیا۔ آپ نے لبنان یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور تقریبا چالیس سال سے اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صفاتاج سے گفتگو ایک خاص اہمیت کی حامل ہے جو ذیل میں اپنے قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: مسئلہ فلسطین کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر مجید صفاتاج: مسئلہ فلسطین ان نسل پرست افراد کے ذریعے وجود میں لایا گیا جن کا پیشہ ہی ظلم و ستم ڈھانا تھا انہوں نے وسعت طلب دھشتگردوں کے تعاون سے اس جال کو مزید پھیلایا اور ابھی تک مسلمان اس کی ڈوریوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ لہذا صہیونی رژیم کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر ہم سب کا جمع ہونا ضروری ہے تاکہ عالم اسلام سرخرو صہیونیت کے پھیلائے ہوئے اس جال سے خود کو بچا کر باہر آ سکے۔
لہذا مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی ترین مسئلہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو گا دنیا کی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو عراق، شام اور یمن کے بحران وجود میں نہ آتے، علاقے کی مشکلات اور مصائب کی اصلی جڑ یہی قدس کی غاصب رژیم ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک اسرائیل کا نحس وجود صفحہ ہستی پر باقی ہے عالم اسلام کی ایک بھی مشکل حل نہیں ہو گی اور یمن جیسے مسائل ہمیشہ کے لیے علاقے میں رخ پاتے رہیں گے۔
خیبر: رہبر انقلاب اسلامی نے جو اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ رہبر انقلاب اسلامی نے یہ جو فرمایا کہ اسرائیل آئندہ ۲۵ سال نہیں دیکھ پائے گا یہ بات آپ نے بہت ساری تفسیروں کی بنیاد پر کہی ہے اور یقینا یہ اسرائیل کی نابودی کی طرف اشارہ ہے۔
اہم بات جو ہے وہ یہ کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی تک مسئلہ فلسطین فراموشیوں کے حوالے ہو چکا تھا لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس مسئلے کو آفاقی شہرت ملی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے اسرائیل نے مسلمانوں کا مزاق اڑاتے ہوئے چھے دن میں لبنان کا اہم حصہ اپنے قبضے میں لے لیا لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل کے زیر قبضہ اپنے علاقوں کو واپس لے لیا اور انقلاب اسلامی کے بعد اسرائیل مسلسل زوال کا شکار ہے اور انشاء اللہ اس کی موت قریب ہے۔
خیبر: ہمارے سماج میں دشمن شناسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے کیا آپ کی نگاہ میں دشمن کو پہچاننا ضروری ہے یا نہیں؟
۔ امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں کہ “العلم سلطان” علم طاقت ہے علم قدرت ہے۔ جب ہمارے مقابلے میں جابر اور سفاک دشمن کھڑا ہے جو ہمارے خون کا پیاسا ہے تو کیا ہمیں اس کو پہچانے بغیر اس سے ہاتھا پائی ہو جانا چاہیے یا پہلے اسے مکمل طور پر پہچاننا چاہیے، اس کی طاقت کا اندازہ لگانا چاہیے، اس کے ساتھ موجود لشکر کا اندازہ لگانا چاہیے؟ جیسا کہ واجب کا مقدمہ واجب ہے ایسے ہی صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کو ہر لحاظ سے پہچاننا ضروری ہے۔
صہیونی ریاست چونکہ نفسیاتی جنگ میں کافی مصروف کار ہے لہذا ہمیں اس کی کمزوریوں سے بھی آگاہی ہونا چاہیے تاکہ ہم دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکیں۔