فرقہ بہائیت کے تئیں اسرائیل کی ہمہ جہت حمایت

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے حوالے سے صہیونی ریاست کی حمایت صرف سیاسی میدان میں منحصر نہیں تھی بلکہ بہت سارے دیگر امور کو بھی شامل ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے سابق اٹارنی جنرل پروفیسر ’’نرمان نیویچ‘‘ نے اپنے دور میں بہائیت کو ادیان ابراہیمی میں شمار کرتے ہوئے یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ساتھ قرار دے دیا۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ جب بہائیت کے اندر اختلاف بھڑک اٹھا کہ جو کوئی نئی بات نہیں تھی، اور یہ فرقہ دو گروہوں میں بٹ گیا اور کچھ لوگ بہاء اللہ کی موت کے بعد عبد البہاء کی جانشینی کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے شوقی کے راستے میں روڑے اٹکانے شروع کر دئیے یہاں تک کہ بعض بہائی مراکز پر قبضہ کر لیا اس وجہ سے انہیں ’’ناقضین‘‘ یعنی عہد شکن کہا جانے لگا۔
لیکن اس بار صہیونی ریاست شوقی کی حمایت میں آگے نکلی اور ان کے مخالفین کو درکنار کر دیا۔
شوقی نے امریکی میں بہائیوں کے رہنما کی بن گورین سے ملاقات کے دو ماہ بعد ۱۱ جون ۱۹۵۲ کو بہائی معاشرے کو ایک خط لکھا، اور اس خط میں یہ خوشخبری دی: ’’بغاوت کرنے والے اور عہد شکن افراد کی دائما شکست جنہوں نے بہائی فرقے کی اکثریت کے خلاف قد علم کیا تھا خوشحالی کا سبب ہے‘‘۔
مثال کے طور پر اسرائیل میں ایک بہائی مرکز کے پڑوس میں مخالفین میں سے ایک شخص کا پرانا گھر تھا جسے توڑنے سے اس نے انکار کر دیا تھا جبکہ شوقی اور اس کے حامیوں کا اصرار تھا کہ یہ گھر مرکز کی خوبصورتی کو مدھم کرتا ہے لہذا سے مسمار کر دینا چاہیے۔ مخالفین نے شوقی اور اس کے حامیوں کی اسرائیل کی عدالت میں شکایت کی اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش کی لیکن عدالت نے ان کی شکایت قبول نہیں کی۔
مخالفین نے جب شوقی کو دھمکانے کی کوشش کی تو شوقی صہیونی ریاست کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے متمسک ہوئے اور ایک ملاقات کے بعد حکومتی کارندوں نے مخالفین کے تمام عمارتوں کو مسمار کر کے انہیں کچل دیا۔
۲۷ نومبر ۱۹۴۵کو دنیا بھر کے بہائیوں کو لکھے گئے ایک خط میں شومی نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا:
’’حیفا کے گورنر کی پیشکش کے طور پر اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایک قرارداد پر دستخط کئے گئے جس کے بموجب ۱۳۰۰ مربع میٹر زمین کا ٹکڑا جو فرید خصم لدود کی بہن (عباس آفندی کی بہن) سے متعلق اور مرکز عہد میثاق کے نام تھا کو آزاد کروا لیا گیا۔ یہ تاریخی اقدام اس بات کا مقدمہ ہے کہ بہت جلد حکومت اسرائیل اس زمین کی سند مالکیت بہائی مرکز کے نام کر دے گی جہاں عالمی بہائی ادارہ زیر تعمیر ہے‘‘۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسرائیل بہائیوں کی تمام شاخوں اور فرقوں میں سے صرف شوقی اور اس کے پیروکاروں کو رسمی طور پر فرقہ بہائیت کے عنوان سے پہچانتا ہے اور شوقی اور اس کے مخالفین کے تمام جھگڑوں میں ہمیشہ شوقی کی حمایت کرتا رہا ہے۔
ماخذ؛
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی