یہودی پروفیسر’’شلومو سینڈ‘‘(Shlomo Sand) کا تعارف

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شلومو سینڈ ایک یہودی محقق ہیں جو تل ابیب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ معاصر میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ ۱۰ ستمبر ۱۹۴۶ کو آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
سینڈ نے دو سال ایک یہودی پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزاری اور سنہ ۱۹۴۸ میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ مقبوضہ فلسطین کے شہر جافا میں ہجرت کی۔ ہائر اسکینڈری میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اسرائیلی نوجوانوں کی ایک تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے اسکول سے خارجہ لے لیا۔ اسرائیل کمیونیسٹ پارٹی نے تل ابیب یونیورسٹی کے ذریعے انہیں پولینڈ جانے اور سینما کے سبجکٹ میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن شلومو نے اسے قبول نہیں کیا۔
شلومو سینڈ نے ۱۹۷۵ میں پیرس کا رخ کیا اور ۱۹۸۵ تک وہاں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ پیرس یونیورسٹی سے انہوں نے ’فرانسیسی تاریخ‘ میں ایم اے اور ’’جارج سورل اور مارکسیزم‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
شلومو سینڈ کا یہودیوں اور سرزمین مقدس کے درمیان تعلق کے بارے میں کہنا ہے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ ایک سرزمین سے مذہبی لگاؤ، اس کے تاریخی حق کا جواز فراہم کر دے‘‘۔ وہ قائل ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی عوام کو بہت اذیتیں دی ہیں اور اسرائیلی حکومت تشکیل دینے میں فلسطینی سماج کو نابود کیا گیا ہے۔ شلومو خود کو صہیونی نہیں مانتے اس لیے کہ وہ اس دعوے کے مخالف ہیں کہ مقبوضہ فلسطین اسرائیل کا تاریخی حق ہے۔ وہ نیز قائل ہیں کہ یہودی ایک قوم نہیں ہیں اور ایک قوم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
شلومو سینڈ کی اہم ترین علمی کاوش، کتاب ’’قوم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ ہے جو ۲۰۰۸ میں عبرانی زبان میں منظر عام پر آئی۔ عبرانی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ اس کتاب کے دوسری زبانوں میں ترجمے شائع ہوئے۔ شلومو اس کتاب میں کہتے ہیں: یہودی بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح مختلف نسلوں سے ہیں اور ان کی کوئی ایک اصل نہیں ہے‘‘۔
کتاب’’ قویم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ میں انہوں نے یہودی تاریخ اور ان کے عقائد کو اس قدر دقیق طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ’’بارنز ریویو‘‘ رسالہ اس کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ہمارے پاس جو تاریخ یہودیت کے بارے میں معلومات ہیں ممکن ہے صحیح نہ ہوں یا کم سے کم حقیقت اس چیز سے الگ ہو جو یہودی دین کے اصول میں پائی جاتی ہے‘‘۔
شلومو سینڈ کے دیگر قلمی آثار کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا سکتا ہے:
· The Words and the Land, Los Angeles, Semiotext, 2011
· The Invention of the Jewish People, London, Verso, 2009
· The Invention of the Land of Israel, London, Verso, 2012
· Intellectuals, Truth and Power: From the Dreyfus Affair to the Gulf War, Tel Aviv, Am Oved, 2000
· Historians, Time and Imagination, Tel Aviv, Am Oved, 2004
· How I Stopped being a Jew, London, Verso, 2014
· Twilight of History, London, Verso, 2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی