انہدام جنت البقیع سے بے گناہوں کے خون کی ہولی تک، شیطان کی ڈگڈگی پر تکفیریت کا ننگا ناچ. 1

بقلم سید نجیب الحسن زیدی


خیبر صہیون تحقیقاقی ویب گاہ؛ دنیا بھر میں موجود حریت پسند ہر سال  جنت البقیع کے انہدام کے جانگداز المیہ پر اس دن کی یاد میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں مختلف پروگرامز اور احتجاجی جلسوں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کراتے ہیں  گرچہ کرونا کی وبا کے پیش نظر اس بار یہ احتجاج نہ سڑکوں پر ہو سکتا ہے نہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہم کسی اجتماع کا حصہ بن سکتے ہیں  لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ انہدام جنت البقیع کے خلاف  احتجاج نہ ہو  ، احتجاج اس بار بھی ہوگا لیکن اسکا انداز بدل جائے گا  تمام تر حریت پسندوں کی کوشش ہوگی مذہب و مسلک سے ماوراء ہو کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس بار بھی پرزور طریقے سے اپنی بات کو دنیا تک پہنچا سکیں  اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے اپنے  بیدار ضمیر ہونے کی گواہی دیں ،ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس بار احتجاج کا پلیٹ فارم بدل جائے گا اور زیادہ تر احتجاج  کا حصہ ا س مجازی فضا میں ہوگا   جو اس وقت اتنی پر اثر ہے کہ حقیقی پلیٹ فارم  سے زیادہ  لوگ مجازی پلیٹ فارم  یعنی سوشل میڈیا ، ویب ،اور مجازی ذرائع ابلاغ پر متحرک نظر آتے ہیں ۔

احتجاج کیوں؟

ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں سوال ہو آخر ہر سال اس احتجاج کی ضرورت  کیا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہے تو ایسے لوگوں کو اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ  فرض کریں کسی کی پشتینی  ایسی زمین پر کوئی قبضہ کر لے جس سے خاندانی یادیں وابستہ ہوں خاندان کی کوئی نشانی ہو   اور ایسی زمین پر قائم عمارت کو منہد م کر دیا جائے تو انسان کا رد عمل کیا ہوگا ؟ کیا وہ چیخ چلا کر خاموش بیٹھ جائے گا یا پھر جب تک دوبارہ اسکی زمین اسے نہیں مل جاتی دوبارہ عمارت کی تعمیر نہیں ہو جاتی تب تک وہ احتجاج کرتا رہے گا ؟ کیا کسی کا حق مار لینےوالے بدکرادار و شاطر انسان کے سامنے یہ سوچ کر انسان خاموش بیٹھ جائے تو بہتر ہے کہ اب جو جانا تھا چلا گیا ا ب ہاتھ پیر مارنے سے کیا فائدہ یا پھر جب تک جان میں جان ہے انسان کو اپنے حق کے حصول کے لئے کوشش کرنا چاہیے ؟

یقینا انسان کا ضمیر بیدار ہے تو وہ یہی کہے گا اگر ناحق کسی جگہ پر قبضہ کیا گیا ہے اگر ناحق کسی عمارت کو ڈھایا گیا ہے اگر ناحق کسی یادگار کو مٹایا گیا ہے تو انسانی ضمیر کی آواز یہی ہے کہ جب تک  اسکی بھرپائی نہ ہو جب تک حق نہ ملے تب تک احتجاج ہونا چاہیے ۔

۸ شوال کو کیا ہوا ؟

 ۸ شوال کی تاریخ اس دردناک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے جب ۹۷ سال زیادہ عرصہ ہونے آیا وہابیت و تکفیریت نے اس تاریخی قبرستان کو منہدم کر کے آنے والے کل کے لئے اپنے خون خرابے کی سیاست کا اعلان کر دیا تھا۔

 یوں تو ایک صدی ہونے آئی لیکن جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم کر دینے کا غم آج بھی تازہ ہے وہ قبرستان جس میں رسول رحمت کی بیٹی شہزادی کونین (بروایتے)[1] اور ان کے ان فرزندوں کے مزارات مقدسہ تھے[2] جنہوں نے بشریت کو علمی ارتقاء و تکامل کا وہ وسیع و عظیم افق عطا کیا جس پر پہنچ کر آج انسان ان کے شاگردوں کے سامنے جھکا نظر آ رہا ہے کہ قال الباقر و قال الصادق کے موجزن علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کے کچھ قطرے جابر ابن حیان و ہشام ابن الحکم نے بشریت کے حلقوم تشنہ میں ٹپکا دئیے تھے ۔
کتنے عجیب خشک فکر اور کوڑھ مغز لوگ تھے جنہوں نے ان عظیم شخصیتوں کے مزارات مقدسہ کو زمیں بوس کر دیا جن سے کسی ایک مسلک و مذہب نے نہیں بلکہ بشریت نے استفادہ کیا اور آج تک کر رہی ہے ۔

 

حواشی :

[1]  ۔اختلفت الروایات فی موضع قبر فاطمة سیدة نساء العالمین علیها‌السلام ، فمنهم من روى أنها دفنت فی البقیع

من لا یحضره الفقیه نویسنده : الشیخ الصدوق    جلد : 2  صفحه : 572

[2]  ۔ ابن سعد، الطبقات الکبری،۱۴۱۰ه‍، ج۲، ص۴۴ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸.،شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۱۴۳.

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی