-
Friday, 26 June 2020، 09:17 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’یہودی و پارسی ثروت مند حکمران طبقہ، برطانیہ و ایران کا استعمار‘ نامی کتاب، ایک تاریخ نگار مصنف ومحقق ’’استاد عبد اللہ شہبازی‘‘ کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے۔ جناب استاد شہبازی آج کی دنیا کے ثروت مندوں کو ایک قبیلے اور خاندانی ڈھانچے کا حامل سمجھتے ہیں، لہذا اس کتاب کی تصنیف کے دوران مصنف کے ذہن کو جس چیز نے اپنے آپ میں مشغول کیا ہوا تھا وہ یہ بات تھی کہ، ’’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ (The British East India Company) کی بے پناہ ثروت اور اسکے سرمایہ کا انبار ۱۸۵۷ ء میں اسکے سرکاری طور پر تحلیل ہو جانے کے بعد کیا ہوا ؟ اور اس کمپنی کے باقی ماندہ مالکین، اسکے وارث اور اسکے چلانے والے کون لوگ ہیں؟
لہذا اپنے اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے مصنف نے اس پورے موومنٹ کے سرے کو پانے اور اسکے پورے ماجرے کے دقیق طور پر تجزیے کے لئے جینیاتی شناخت کے اسلوب یا علم الانساب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحقیق کے نچوڑ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کا ماحصل یہ ہے کہ اسے پڑھ کر قاری ثروت مندوں کے آپس میں ایک دوسرے سے جڑے اور پیوست شدہ ایک بڑے اوروسیع طبقہ کے زنجیری حلقہ یا نیٹ ورک کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور موجودہ دور میں بھی محض خاندانوں کی دولت کے سلسلہ سے جستجو یا بعض بڑی کمپنیوں کے بارے میں تحقیق و جستجو سے پتہ چلے گا کہ یہ بڑی کمپنیاں ایک بڑے خاندانی و اقتصادی نیٹ ورک سے جڑی ہیں لہذا ہماری جستجو ہمیں اسی منزل پر لے کر جائے گی جہاں ان اقتصادی و خاندانی طور پر ایک دوسرے سے جڑے چینلز کا ہم سامنا کریں گے، ہم ان اولیگارکی oligarchy[۱] اور ثروت مند طبقوں اور مالداوں سے جا ملیں گے جو سولہویں اور انیسویں صدی کے غارت گروں اور استعماروں کے بلا واسطہ یا با واسطہ وارث ہیں ۔
جناب شہبازی نے یہودی اولیگارکی طبقہ کو ایک دوسرے سے جڑا ایک ایسا مجموعہ قرار دیا ہے جو یہودیوں کی قیادت کو سنبھالے ہوئے ہے اور یہ وہ اولیگارکی ہیں جو عالمی سامراج و پورپین استعمار سے گہرے روابط کی بنا پر دنیا کی چند آخری دہائیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پیش آنے والے واقعات میں اہم کردار ادا کرنے کا سبب رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ مخصوص و متعین سیاسی و اقتصادی مراکز کے رول سے غفلت برتتے ہوئے صرف جدید مغربی دنیا کی تشکیل کی تاریخ کا تجزیہ اور وہ بھی محض علمی انقلاب اور فکر و تمدن جیسی چیزوں پر تکیہ کرتے ہوئے ان مباحث کی موشگافی ایک نامناسب قدم ہے ۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ رنسانس[۲] ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ’’مدیجی ‘‘ [۳]فیملی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ہی اس دور کے سیاسی و اقتصادی مراکز کے بارے میں کچھ جانتے ہیں یعنی ہمیں رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کے بارے میں تو بہت کچھ پتہ ہے لیکن رنسانس ( نشاۃ ثانیہ ) کو کھڑا کرنے والے اور اس تحریک کو دوش پر لیکر چلنے والوں، اسے سہارا دینے والوں کے سلسلہ سے ہماری واقفیت نہیں ہے ۔ہم سب نوبل کا انعام رکھنے والے ایلفرڈ نوبل [۴]کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
ہم میں سے کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ نوبل گھرانہ باکو [۵]کے تیل کے ذخائر کا مالک تھا جس نے تیل کے کنووں کو روچیلڈ [۶]یہودی ثروت مندوں کو بیچ دیا اور انجام کار یہ سارا سرمایہ مارکوس ساموئیل [۷]یہودیوں کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ’رویئل ڈچ شل[۸] کمپنی‘ کے سب سے پہلے بانیوں میں سے ایک اور کمپنی کے ڈائکٹر و سربراہ تک منتقل ہو گیا ۔ اس کتاب کی تالیف میں سات سال کے لگ بھگ وقت صرف ہوا، اسکے علاوہ جناب شہبازی نے ۱۷ مہینوں کا عرصہ منابع و مآخذ کی تقویت و مضبوطی میں صرف کیا تاکہ اس طاقت اور ثروت کے مرکز کی دقیق اور واضح تصویر مخاطبین کے سامنے آ سکے، انجام کار یہ کتاب پانچ جلدوں میں چھپ کر منظر عام پر آ گئی۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو محققین و رسچ اسکالرز کے لئے متعلقہ موضوع میں میں مفید اور رہ گشا ثابت ہو سکتی ہے۔
پہلی جلد:
اس کتاب کی پہلی جلد سمندر کے اس پار ’برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی ثروت کے اکھٹا ہونے کی کیفیت اور اس کمپنی کی غارت گری کو بیان کرتی ہے، اس کتاب کے اصلی اہداف میں ایک پارسی اولیگارچی کی شناخت اور یہ خاندان موجودہ سندوں اور ثبوتوں کے مطابق یہودی اولگارچیوں سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے لہذا آج کے یہودیوں کے طریقہ کار اور انکے موجودہ طرز عمل کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں قوم یہود کی قدیم و پرانی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری جلد:
دوسری جلد کے پہلے حصہ میں یورپ کے حکمرانوں کا یہودی ثروت مندوں اور اولیگارچیوں سے تعلق و رابطہ کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے دربار میں نفوذ پیدا کیا اور کس طرح مشرقی سرزمینوں اور امریکہ کو غارت کرنا شروع کیا، اور دوسری جلد کے دوسرے حصہ میں یہودیوں کے عرفان ’کابالا‘ اور اسکی عیسائیت میں تاثیر اور پر اسرار فرقوں کی تشکیل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس جلد کے آخری حصہ میں خاص طور پر یہودیوں کے برطانوی دربار سے تعلق اور ان کے کاموں کی نوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسکی موشگافی کی گئی ہے۔
تیسری جلد:
اس جلد کے مباحث دو حصوں میں بیان ہوئے ہیں ، پہلے حصہ میں ’اریسٹو کریٹ‘ طبقے کے مغرب میں سرچشمہ کو بیان کیا گیا ہے اور اسکے تجزیئے کے بعد دوسرے حصہ میں ’تالبوت‘، ’چرچیل ہاملٹن‘، ’سیسیل‘ وغیرہ کے گھرانوں پر روشنی ڈالی گئی ہے یہ وہ گھرانے ہیں جنہوں نے برطانوی اشرافیہ اور وہاں پر موجود ثروت مند طبقہ کے بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیا ہے اور اسے آج ہم بوڑھے سامراج و استعمار کے نام سے جانتے ہیں۔
چوتھی جلد:
اس جلد میں خاص طور پر ’فری میسن فرقہ‘ کے سلسلہ سے گفتگو کی گئی ہے جسکا یہودیت سے ایک گہرا تعلق ہے علاوہ از ایں اس میں موجودہ دور میں ثروت مندوں کے وجود میں آنے میں انکے کردار کو بیان کیا گیا ہے ۔
پانچویں جلد:
پانچویں جلد میں روایتی انتظامیہ جیسے حکومت عثمانی، روس کے تزاریوں کی حکومت کے اضمحلال میں ارسٹوکریٹ طبقے اور یہودی ثروتمند طبقے کے کردار اور سرمایہ داری سسٹم کے وجود میں آنے کو مورد گفتگو و مطالعہ قرار دیا گیا ہے ۔انجام کار کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اس اعتبار سے کہ یہودی خاندانوں کی تاریخ کا ایک تجزیہ پیش کر رہی ہے اور موجودہ مغربی دنیا پر انکے اقتدار کی کیفیت کو بیان کر رہی ہے، نیز اس سیاست کو بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو یہودی ہمارے مقابل استعمال کر رہے ہیں لہذا اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید اور رہ گشا ثابت ہوگا۔
حواشی :
[۱] ۔ Oligarchy یہ ایسا طبقہ ہے جس میں سیاست و اقتدار کی باگ ڈور مرکزی طور پر امیروں اور ثروت مندوں کے پاس ہوتی ہے اور یہ ثروت مند طبقہ یوں تو اپنے ہم نوعوں کی آبادی کا ایک مختصر اور چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے لیکن ان پر حاکم ہوتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر من مانے طریقے سے حکومت کرتا ہے اور اس پر کسی بھی طرح کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کوئی اس سے کچھ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں کام تم نے کیوں کیا ، یہ لوگ جو مرضی آٗئے انجام دیتے ہیں یہ اصطلاح افلاطون کے زمانے سے چلی آ رہی ہے یہ ایک ایسا تصور حکومت یے جس میں چند گنے چنے افراد اپنے مفادات کے حساب سے دیگر لوگوں پر حکومت کرتے ہیں
۲۔ نشاہ ثانیہ (: Renaissance قرون وسطیٰ میں یورپ خصوصاً اٹلی سے اٹھنے والی ایک ثقافتی تحریک جو ۱۴ ویں سے ۱۷ ویں صدی تک جاری رہی ۔
[۳] ۔ نشاہ ثانیہ کے دور میں ایک طاقت ور اطالوی گھرانہ
[۴] ۔ Alfred Bernhard Nobel ، الفریڈ نوبل سویڈن کے کیمیادان، انجینیئر، جنہوں نے ڈائنامائیٹ کی ایجاد کی ۔ اور مرتے وقت اپنی وصیت میں بے شمار دولت کا ایک بڑا حصہ نوبل انعام دینے کے لیے وقف کر دیا۔ مصنوعی تیار کیے گئے عنصر ” نوبلیئم” کا نام بھی انہیں کے نام پر رکھا گیا ہے ۔
[۵] ۔ باکو (انگریزی: Baku،آذری: Bakı) بحیرہ لیسپئین کے کنارے واقع آذربائیجان کا دارالحکومت اور سب وہاں کا سب سے بڑا شہر،
باکو تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں واقع ہونے کے باعث تیل کی صنعتوں کا مرکز ہے۔ باکو کا نام فارسی لفظ بادکوبہ (ہواؤں کا مارا ہوا) سے مشتق ہے اور اس کے محل وقوع کے لحاظ سے بہت موزوں ہے۔ قرون وسطٰی کے مورخین اسے باکویہ، بلاکوہ اور باکہ بھی لکھتے ہیں۔ تاریخ میں اس کا ذکر تیسری صدی ہجری کے بعد برابر آتا ہے۔ باکو عرصے تک شاہان شیروان کے ماتحت رہا۔ ۱۵۵۰ء میں صفوی سلطان طہماسپ اول کا اس پر قبضہ ہو گیا۔ ۱۵۸۳ء تا ۱۶۶۰ء یہ شہر عثمانی ترکوں کے ماتحت رہا۔ ۱۸۰۶ء میں روسیوں نے اسے ایرانیوں سے چھین لیا فی الوقت ملک آذربایجان کا پایتخت ہے ۔
[۶] ۔ روتھشیلڈ (Rothschild) ایک یورپی یہودی خاندان ہے جو نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک میں بینکاری کے نظام پر حاوی ہے بلکہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو کے بنیادی حصہ داروں میں بھی شامل ہے۔ اس کے مشہور لوگوں میں بیرن روتھشیلڈ شامل ہے جو برطانیہ میں یہودیوں کا نمائندہ تھا اور فلسطین پر یہودی قبضہ کو مستحکم کرنے میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں اور اس کا نام اعلانِ بالفور میں بھی آتا ہے
[۷] ۔ Marcus Samuel, 1st Viscount Bearsted
[۸i] ۔ Royal Dutch Shell
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔