-
Saturday, 27 June 2020، 11:01 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بحیثیت مجموعی، تمام سیاسی، معاشی، عسکری و ۔۔۔ شعبوں میں یہودی ریاست کی سیاست اور تزویری حکمت عملی ـ ابتداء سے لے کر آج تک ـ توسیع پسندی، استعمار اور حرص و لالچ کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سابقہ شمارے میں کہا، یہودی ریاست اسی حکمت عملی کی بنیاد پر اپنی معیشت کو رونق دینے اور دوسرے ممالک کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن کیا یہ اچھی خاصی معاشی ترقی اور وسیع پیمانے پر برآمدات ہی اس ریاست کے مادی مفادات کو پورا کررہی ہیں یا پھر مزید فوائد بھی ان مفادات میں شامل ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے، بہتر ہے کہ یہودی ریاست کے اہم معاشی ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔
یہودی ریاست کے معاشی ذرائع
صنعتیں: یہودی ریاست مغربی ایشیا کے ممالک کے درمیان صنعتی لحاظ سے نمایاں ریاست ہے جس کی صنعتوں میں تعمیراتی ساز و سامان، شیشہ گری، لکڑی کی صنعت، پارچہ بافی، الیکٹرانک اور برقی ساز و سامان، ہیرے کی صنعت، نہلائی دھلائی کا سامان، اشیاء خورد و نوش کی مشینری اور غذائی صنعت، فوجی سازوسامان کی تیاری شامل ہے۔ (۱) ان صنعتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس ریاست کی مجموعی قومی پیداوار کے ۸۵ فیصد حصے کو تشکیل دیتی ہے جس کے باعث یہودی ریاست کی ۱۶ فیصد آبادی صنعتوں کے شعبے میں سرگرم عمل ہو چکی ہے۔
درحقیقت، ذرائع آمدنی کے نجی شعبے کے سپرد کئے جانے کے باعث اس ریاست کی آمدنی فوجی صنعتوں اور برآمدات میں بڑھ گئی۔ بطور مثال ہیروں کی برآمدات ـ جو کسی وقت اس ریاست کی نصف برآمدات کو تشکیل دیتی تھیں، ایک چوتھائی تک کم ہوگئیں اور اس کے مقابلے میں الیکٹرانک مصنوعات کی برآمد میں دو گنا اضافہ ہوا۔
فوجی صنعتیں: یہودی ریاست نے امریکہ کی سائنسی اور تکنیکی مدد اور ماہر افرادی قوت کے بل بوتے پر اہم عسکری صنعتوں کی بنیاد رکھی اور دنیا کو اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں پانچویں رتبے پر جا کھڑی ہوئی۔ یہودی ریاست کی فوجی برآمدات میں مختلف قسم کے عسکری شعبے سے متعلقہ برقی آلات و وسائل، میزائل ہدایت کا نظام (Missile guidance system)، رات کو دیکھنے والے وسائل (Night vision equipment)، شور پیدا کرنے والا ساز و سامان (noise generating equipment) اور فوجی ساز و سامان شامل ہیں۔ ان صنعتوں کی حصولیابیوں میں مرکاوا ٹینک (Merkava) اور ریشف (Reshef) نامی تیزرفتار چھوٹی کشتیاں (Reshef speedboats) شامل ہیں۔ ۱۹۹۰ع کی دہائی میں یہودی ریاست کی عسکری برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی تین ارب ڈالر تھی، اور یہ صنعت ـ ہیروں کی صنعت کے سوا ـ یہودی ریاست کی مجموعی برآمدات کے ۲۰ حصے کو تشکیل دیتی تھی۔ (۲)
معدنیات: یہودی ریاست کے پاس تانبے، پوٹاشیئم، میگنیشیئم وغیرہ کی کانیں ہیں جن سے وہ اب بھی متعلقہ مواد نکال رہی ہے چنانچہ معدنیات کے لحاظ سے اس کی پوزیشن نسبتاً اچھی ہے۔ تانبے کے ذخائر صحرائے نقب کے جنوب میں واقع ہیں۔ بحیرہ مردار (بحرالمیت Dead sea) کی تہہ اور اس کے اطراف مختلف معدنی مواد کے ذخائر سے مالامال ہیں جن کے باعث مغربی کنارے میں آئیوڈین، پوٹاشئیم اور میگنیشئیم کے متعدد کارخانے قائم کئے گئے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود اس ریاست کو ایندھن کے ناقابل تجدید ذرائع ـ جیسے تیل اور گیس ـ کے لحاظ سے قلت کا سامنا ہے۔ “حیفا”، “کوکار” اور “برار” وغیرہ جیسے علاقوں سے تیل نکالا جارہا ہے لیکن تیل کا استعمال بہت زیادہ ہے چنانچہ یہودی ریاست توانائی کے شعبے کی قلتوں کو باہر سے پورا کرتی ہے۔ (۳)
بندرگاہیں: غاصب ریاست کی آمدنی کے دوسرے ذرائع میں بندرگاہیں شامل ہیں۔ لیکن حیفا، “تل ابیب”، “ایلات”، “اشکلون”، اور “اشدود” کی بندرگاہیں نہ صرف مسافروں کی آمد و رفت اور برآمدات و درآمدات کے لئے استعمال ہوتی ہیں بلکہ انہیں صنعتی علاقوں میں بدل دیا گیا ہے اور ان بندرگاہوں میں شیشہ گری اور سیمنٹ کے کارخانے، تیل کی ریفائنریاں، بجلی گھر وغیرہ بھی قائم کئے گئے ہیں۔ (۴)
ذرائع سے ۱۰۰ فیصد فائدہ اٹھانے کی اس پالیسی کے بدولت، ۲۰۱۶ع میں اچھی خاصی ترقی کی تھی اور اس کی معاشی پالیسی کچھ اس طرح سے ہے کہ ۲۰۱۷-۲۰۱۸ کے مالی سال میں اس ریاست کی ترقی تین فیصد تک پہنچ گئی۔ (۵)
لیکن مضمون کی ابتداء میں اٹھائے گئے سوال کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہودی ریاست نے معاشی ترقی میں اضافہ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر سیاسی تعلقات کی بحالی کے لئے اقتصادی مسائل سے بہتر کیا بہانہ ہوسکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اطراف کے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات اس ریاست کی پوزیشن کی تقویت و استحکام کے زمرے میں آتے تھے۔ لیکن مسئلہ صرف یہی نہیں تھا۔ یہودی ریاست کو پیداوار، برآمدات اور معاشی ترقی کے لئے یورپ اور امریکہ کے علاوہ، اپنی مصنوعات کی مزید فروخت کے لئے منڈی کی ضرورت تھی اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اس کو اپنی صنعتی پیداوار کے لئے خام مال کی بھی ضرورت تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سے بہتر کونسا راستہ ہوسکتا تھا جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے نچلی سطح پر ہیں؛ اور اسرائیلی اس روش سے توانائی کے سستے ذرائع تک بھی رسائی حاصل کرسکتے تھے اور اپنی مصنوعات بھی فروخت کرسکتے تھے۔ (۶)
تجارتی اور صنعتی علاقوں میں مصر اور اسرائیل کے مشترکہ اقتصادی منصوبے، یہودی ریاست سے مصر تک گیس پائپ لائن، اردن اور یہودی ریاست سے امریکہ کو ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالیت کی مشترکہ برآمدات کا منصوبہ اور آذربائیجان سے ـ ٹیکنالوجی اور اسلحے کی منتقلی کے بدلے ـ تیل اور گیس کی خریداری جیسے اقدامات، اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ادھر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر وغیرہ جیسے عرب ممالک بھی امریکی کی قربت حاصل کرنے اور اس کی سیاسی حمایت سے بہرہ ور ہونے کی غرض سے یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں گوکہ اندرونی سماجی اور عوامی ماحول کے پیش نظر، یہ تعلق اور تعاون رازدارانہ ہے۔
بہرصورت، ان معاشی تعلقات سے اسرائیل کا بنیادی مقصد ـ مختلف ممالک میں سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ بڑھانے کے علاوہ ـ ان ممالک کی معیشت کی مکمل تباہی اور انہیں مختلف شعبوں میں بیرونی وسائل سے وابستہ کرکے تنہا کرنا اور خطے میں اپنے اصلی دشمن “ایران” کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔ (۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹ھ ش، تہران، ناشر: شہید لیفٹننٹ جنرل علی صیاد شیرازی تعلیمی و تحقیقی مرکز، ص۷۲۔
۲۔ ساختار دولت صہهیونیستی اسرائیل، ج۲، موسسه الدراسسات الفلسطینیه، ترجمه علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تهران، موسسه مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۴۷۔
۳۔ کتاب “رژیم صہیونیستی”، (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، ص۷۳۔
۴۔ وہی مآخذ، ص۸۰۔
۵٫ http://nedains.com/fa/news/315026.
۶٫ http://www.persiangulfstudies.com/fa/pages/673.
۷- فصلنامہ علوم راہبردی (اسٹراٹجک سائنسز کی سہ ماہی)، اسرائیل و کشورهای پیرامونی؛ نفوذ امنیتی با پوشش اقتصادی، (اسرائیل اور پڑوسی ممالک، سیکورٹی دراندازی معیشت کے بھیس میں) وحیده احمدی، موسم گرما ۹۶ھ ش، شمارہ ۷۶، ص۱۳۶-۱۱۳٫
تحریر؛ میلاد پور عسگری