برصغیر کا خاص جغرافیائی ـ سیاسی محل وقوع اور علاقے پر اس کے گہرے اثرات

  • ۴۰۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر برصغیر کا علاقہ خاص قسم کے جغرافیائی ـ سیاسی (Geopolitical) پہلؤوں اور سمتوں کا حامل ہے۔ جغرافیائی علاقوں کا تزویری وزن (Strategic Weight)، ثقافتی تنازعات کے جغرافیے، علاقائی امن و استحکام، علاقائی تنظیمیں، محفوظ / غیر محفوظ مقامات، وہ عظیم جغرافیائی اور جیوپولیٹیکل عوامل ہیں جو حتی کہ بر صغیر میں واقع ہر ملک کے قومی سلامتی کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر علاقائی ماحول میں ملک کے محل وقوع اور پوزیشن کی شناخت نیز تناؤ کی تقلیل اور خطرات کی تخفیف کو مد نظر رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
برصغیر کے اہم ترین جیوپولیٹیکل موارد کو در ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ برصغیر میں واقع سات ممالک جغرافیائی محل وقوع، سیاسی رجحانات نیز تاریخی اور معیشتی معاملات کے اعتبار سے آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر کا خطہ ایک ایسا اہم جغرافیائی ـ سیاسی خطہ ہے جس کے امن و استحکام یا بدامنی اور عدم استحکام سے پورا علاقہ متاثر ہوتا ہے۔ برصغیر کے روشن مستقبل کی امید اس خطے کے اندرونی حالات سے وابستہ ہے اندرونی صورتحال اگر امن و سکون کی راہ پر گامزن ہو گی تو پورے علاقے پر اس کے مثبت اثرات رونما ہوں گے لیکن اگر خلفشار اور باہمی کشمکش کا سلسلہ جاری رہے گا پورے علاقے کا امن و سکون متاثر ہو گا۔
۲۔ برصغیر کے اندرونی عدم استحکام اور اس کے جیوپولیٹیکل ممالک کے آپسی روابط کو مخدوش کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر ہی کافی ہے۔ اس لیے کہ برصغیر کی سلامتی دو پڑوسی ملک ہند و پاک کے باہمی روابط سے وابستہ ہے۔ بھارت اور پاکستان اس خطے کے دو اہم ممالک ہیں جو برصغیر کی تقدیر کو بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے جو بھی دوسرا ملک ان دونوں سے اپنے روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے سب سے پہلے دونوں کے کردار پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔
۳۔ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (SAARC) سارک جس نے برصغیر کے سات ممالک کو ایک غیر موثر تنظیم میں جمع کیا ہے تاہم اس کے علاوہ علاقائی باہمی تعاون کے استحکام کے لیے کوئی دوسری تنظیم تشکیل نہیں پائی ہے۔ علاقائی ممالک کے درمیان دوطرفہ معاہدوں نے بھی ہند و پاک کے نظریاتی اختلافات کو سلجھانے اور انہیں ایک دوسرے سے قریب کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس کے باوجود امید کی جاتی ہے کہ آئندہ سالوں میں دونوں ممالک کی حکومتیں جو اندرونی طور پر ناقابل انکار خطرات سے دوچار ہیں اپنے روابط میں بہتری لا کر علاقائی استحکام کو بحال کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ خطرات درج ذیل موارد میں بیان کئے جا سکتے ہیں:
زمین، پانی اور معدنی وسائل، توانائی، نسلی علیحدگی پسندی، تیزی سے آبادی کی ترقی، مالی گھوٹالے اور وسیع پیمانے پر رشوت خواری، دھوکہ بازی، سماجی اور سیاسی خدمات فراہم کرنے میں بے حد کوتاہی اور سیاسی و سماجی پارٹیوں اور تنظیموں میں اختلافات،  ماحولیاتی تباہی، سیاسی ظلم و ستم اور طاقت کی منتقلی کے لئے عملی طریقہ کار کی کمی.
۴۔ برصغیر ہائیڈروکاربن کی پیداوار اور اس کے استعمال کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے دو اہم ذرائع؛ آبنائے ہرمز جو ہائیڈروکاربن کی پیداوار کا مرکز اور آبنائے مالاکا جو اس کو دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ میں منتقل کرنے کا دروازہ ہے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہ خطہ عالمی اور علاقائی طاقتوں  کے مفادات کے حصول کا مرکز بنا ہوا ہے۔ برصغیر مذکورہ دو ذرائع سے متصل ہونے کے عنوان سے دنیا کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جہاں توانائی کی پیداوار اور اس کا استعمال دونوں عروج پرہیں۔ لہذا امریکہ، یورپی یونین اور چین کی لالچ بھری نظریں برصغیر پر جمی ہوئی ہیں اور وہ مختلف ذرائع اور بہانوں سے اس خطے کا سرمایہ لوٹ کر اپنی تیجوریاں بھرنے میں مصروف عمل ہیں۔
بقلم: ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

ہندوستان کی قدیم تہذیب کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار

  • ۵۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ہندوستان ایسی سرزمین کا نام ہے جس کی تہذیب و ثقافت تین ہزار سال پرانی ہے بلکہ اس دور سے ملتی ہے جب حضرت انسان نے اس کار گہہ حیات میں قدم رکھا اور خالق کائنات نے انسانی پیکر کو حیات بشری کا لباس پہنایا۔ تاریخ نے اس سرزمین کے دامن میں بے شمار گلہائے رنگارنگ کھلائے اور تہذیب و ثقافت کے بے بہا موتی بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو عجائب گھر کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی یہ قدیمی تہذیب و ثقافت مصری، سمیرین، آشوری، کلدانی، ایرانی اور یونانی تہذیبوں کے ساتھ آمیختہ ہو کر ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے اسی وجہ سے بھارتی تہذیب میں مذکورہ تہذیبوں کے مشترکہ نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس سرزمین کی انوکھی تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار بھی اپنی جگہ محفوظ ہے۔ دینی مدارس نے ہندوستانی تاریخ اور تمدن کو دینی تعلیمات کے ہمراہ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے میں بے حد سرمایہ لٹایا ہے۔ جہاں ہندوستان میں دینی مدارس نے اسلامی تہذیب کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا وہاں گنگا جمنی تہذیب کو بھی پروان چڑھایا۔ دینی مدارس چاہے اہل سنت و الجماعت مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں چاہے شیعہ مکتب فکر سے دونوں مکاتب کے مدارس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب کی یلغار اور سیاہ آندھیوں سے محفوظ رکھنے میں بے مثال کردار پیش کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس سرزمین کے دینی مدارس اور حوزات علمیہ نہ صرف مذہبی تعلیمات کی ترویج میں کوشاں رہے بلکہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں بھی موجود خلاؤں کو پر کیا اور معاشرے کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سدھار لانے کی کوشش کی۔ یہ علمی مراکز ممتاز طلاب کی تربیت کے ذریعے معاشرے کی ثقافت کو رونق بخشتے اور ایسے افراد کو معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو دینی اور ثقافتی یلغاروں کے مقابلے میں مضبوط ڈھال بن کر جہاں دین کی پاسبانی کرتے ہیں وہاں معاشرے اور ملک کی تہذیب کو بھی شرپسندوں اور انتہاپسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
دینی مدارس کا بھارت کی سرزمین میں روشن اور درخشاں ماضی پایا جاتا ہے بڑے بڑے مجتہد ان مدارس نے جنم دئے اور ایسے قیمتی اور گرانقدر کتب خانے وجود میں لائے جن میں ایسی بےبدیل کتابیں مہیا ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود نہیں ہیں۔ ہندوستان میں علم کلام اور فقہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ظہور اسلام کے ابتدائی ادوار سے آغاز ہو گیا تھا، اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ و نقلیہ کے فروغ کے لیے مختلف مدارس اور حوزات علمیہ وجود میں لائے گئے تاکہ دینی تعلیمات کے حصول کے شائقین ایک ساتھ مجتمع ہو کر علوم الہیہ سے اپنی تشنگی بجھائیں اور بھارت کی سرزمین پر توحید پرستی کا پرچم لہرایا۔
اگر ہندوستان کے دینی مدارس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں تمام مسلمان چاہے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل سنت و الجماعت سے، مشترکہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے اختلافات وجود میں آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور دینی مدارس شیعہ و سنی مدارس کی شکل میں پھیلتے گئے۔ بہر صورت دونوں طبقے کے دینی مدارس میں اپنے اپنے اعتبار سے اسلامی علوم کو ترقی ملتی گئی اور فقہ و حدیث و تفسیر کی تعلیم کے علاوہ علم ریاضیات، علم ہیئت، علم منطق اور اسلامی فلسفہ جیسے علوم بھی خصوصا شیعہ مدارس میں رائج ہو گئے۔ ہندوستان کے معروف شیعہ مدارس میں حوزہ علمیہ “سلطان المدراس” کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہل تشیع کے دینی مدارس میں علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم نے شیعہ ثقافت کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مدارس نے ایسے عظیم علماء اور دانشوروں کی تربیت کا سامان فراہم کیا جنہوں نے عالم اسلام کی فکری اور عقیدتی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ (۱)
برصغیر میں شیعہ نوابوں نے بھی دینی مراکز کی تعمیر اور ممتاز علمی شخصیات کی تربیت میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا یہاں تک کہ ہندوستان کے دینی مدارس اور علماء کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کی علمی اور مالی حمایت حاصل ہو گئی۔ یہ حمایت اس بات کا سبب بنی کہ ہندوستان کے علمی مراکز اور کتب خانے ایک قسم کی مرکزیت حاصل کر جائیں اور علامہ امینی جیسی شخصیت کو الغدیر کی تدوین کے لیے ہندوستان کا سفر کرنا پڑ جائے۔
اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہندوستان کے شیعہ مدارس کی حد اکثر تعداد ۲۰ عدد تھی لیکن اس وقت ہندوستان میں ۷۰ سے زیادہ دینی مدارس پائے جاتے ہیں۔ یہ دینی مدارس کہ جن میں سے بہت سارے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے تعمیر ہوئے ہیں بالعموم ہندوستانی معاشرے میں اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے اور بالخصوص شیعہ سماج میں بالیدگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شیعہ مدارس کے علاوہ اہل سنت و الجماعت کے دینی مدارس کو بھی ہندوستان میں بہت بڑی مرکزیت حاصل ہے یہاں تک کہ کئی دیگر ممالک کے طلاب بھی ان مدارس سے کسب فیض کرنے ہندوستان جاتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند اور جامعہ رضویہ بریلوی اس مکتب فکر کے دو اہم مدارس شمار ہوتے ہیں۔
۱ سفربه سرزمین هزار آیین، گزارش سفر آیت الله مصباح یزدی به هندوستان, ص ۱۵۲  تا ۱۵۴
بقلم: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

ہندوستان پر صہیونیت کا سایہ

  • ۳۹۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے قیام کے بعد جہاں دنیا بھر سے بہت سارے یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین کا رخ کیا وہاں ہندوستان سے بھی ہجرت کرنے والے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲۵۰۰۰ بتائی جاتی ہے۔
یہ تعداد اگر چہ ہندوستان کی آبادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہودی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اچھی خاصی ہے اس تعداد کے اسرائیل ہجرت کرنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ ملا۔
یہودی قومیں
ہندوستان کے یہودی تین قوموں پر مشتمل تھے:
الف: بنی اسرائیل؛ اس قوم کے کچھ گھرانے یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے مسمار کئے جانے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے تھے اور بمبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔
ب؛ کوچینی؛ یہودیوں کی یہ قوم گزشتہ صدیوں میں ’’مالابر سواحل‘‘ سے ہجرت کر کے جنوبی ہندوستان میں گئی تھی۔
ج؛ بغدادی؛ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ قوم بغداد، ایران اور افغانستان سے ہندوستان گئی اور اس بے کلکتہ اور بمبئی میں رہائش اختیار کی۔
صہیونی تنظیمیں
ہندوستان میں رہنے والے یہودی معاشرے میں صہیونیزم نے اپنے مراکز اور تنظیمیں قائم کیں جن میں سے بعض کی صہیونی ریاست براہ راست حمایت کرتی ہے۔ یہ تنظمیں ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں درج ذیل ہیں:
بمبئی صہیونی ایسوسیشن (Bomboy zioneSt Association)
کلکتہ صہیونی ایسوسیشن ((Calcutta Zionest Association
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل (united Israel appeal)
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل کمیٹی (united Israel AppealCommittee)
بنی اکیرا (Bnei akira)
ہابونیم انسٹیٹیوٹ ((Habonim Institute
یہودی ایجنسی برائے مشرقی ہند (Jewish Agency in For East)
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے عصر حاضر میں فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے میدان میں اسرائیل بھارت کا بہترین معاون ہے اور ہندوستان اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پاٹنر ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات جو ۱۹۹۲ میں اندراگاندھی کے دور حکومت سے خفیہ طور پر اور راجیوگاندھی کے دور میں علانیہ طور پر مضبوط ہوئے مودی سرکار میں عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ ہندوستان گزشتہ دور میں اسرائیل کے ساتھ شدید مخاصمت رکھتا تھا اور تقریبا ۲۵ سے ۳۰ سال تک وہ اسرائیل کو پاکستان کے تناظر سے دیکھ رہا تھا اگر چہ بہت سارے بھارتی حکمران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ سیاسی پالیسی رکھتے تھے۔ ان دو ملکوں کے درمیان گزشتہ دور میں پائے جانے والے مخاصمانہ رویہ کی اصلی وجہ انگریزوں کا کردار تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور ہند و پاک کی تقسیم کے بعد بھارتی انتہا پسند اسرائیل کو دوسرا پاکستان سمجھتے تھے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح بظاہر مذہبی بنیاد پر وجود میں لایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان پاکستان کو بھی اسرائیل کے ہمفکر قرار دیتا تھا! (۱)
راقم الحروف کی نظر میں بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فروغ سے نہ صرف بر صغیر میں مسلمان معاشرے کو کمزور بنایا جائے گا بلکہ قوم پرست ہندو سماج کو مزید تقویت ملے گی اور ممکن ہے مستقبل میں بر صغیر کے مسلمانوں کا وہی حال ہو جو اس وقت غزہ کے مسلمانوں کا ہے۔
یہودیوں کی فوق الذکر تنظیمیں ایک طرف سے بمبئی میں اسرائیلی قونصلٹ کی مکمل حمایت کے تحت ان دو ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری طرف میڈیا پر قبضہ جما کر کوشش کر رہی ہیں ابلاغیاتی فضا میں ان تعلقات کو عام سی بات بنا کر پیش کیا جائے(۲)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بسنے والے بعض ہندوستانی بطور دائم سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تاکہ اس ملک میں موجود صہیونی لابیوں کے تعاون سے برصغیر خصوصا بھارت میں اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکہ کا تعاون حاصل کریں۔ ان سیاسی سرگرمیوں کا واضح مصداق ’’آئی پیک‘‘ تنظیم ہے۔ یہ معاشرہ جو بھارتی امریکی معاشرہ معروف ہے آبادی کے لحاظ سے دو ملین سے زیادہ نہیں ہے اور امریکی یہودیوں کی بنسبت اقلیت میں ہے لیکن امریکہ اور ہندوستان میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت میں اسرائیلی پالیسیوں کو اجرا کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس حوالے سے جو دوسرا گروہ سرگرم عمل ہے وہ Confederation of Indian Industries کا گروہ ہے جو امریکہ میں تجارتی سرگرمیوں کے زیر سایہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔
حواشی
۱؛ ہند و اسرائیل تعلقات پر ایک نظر، اسٹیفن کوہن، ص ۱۰،۲۰
۲؛ بھارتی ادیان، ص ۷،۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور متاثرین کی بازآبادکاری

  • ۴۰۹

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
  دہلی کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اسکی تلافی جلد اور آسانی سے ممکن نہیں ہے،  جس ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے جس بیوہ نے اپنا سہاگ کھویا ہے جس بہن نے اپنا بھائی کھویا ہے اسکے زخم زندگی بھر کے ہو گئے  ،جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے تنکا تنکا اکھٹاکر کے آشیانہ بنانا کتنا کٹھن اور سخت ہوتا ہے  اور اسکے  بعد آشیانہ کو اپنے سامنے دھوں دھوں جلتے دیکھنا کتنا سخت ہوتا ہے  یہ وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اپنے گھر کو اپنے سامنے آگ کی لپٹوں میں جلتے دیکھا ہو ،خدا ہی ان لوگوں کو صبر دے جنکا گھر بار لٹا یا جنکے کسی عزیز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا  ،لیکن ایک چیز جس پر ہم سب کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان دہلی کے فسادات نے ہم سب کو یہ سبق بھی دے دیا کہ ہم خدا کے علاوہ کسی کی ذات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی باز آباد کاری کے ساتھ ہمی جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اپنی حفاظت ہے  ہمیں اپنی  حفاظت کا انتظام خود  ہی کرنا ہوگا ، اس لئے کہ واضح ہے پولیس جس کے ہاتھ میں ہے اسی کے اشاروں پر کام بھی کرے گی پولیس سے امید لگانا یا کسی حکومتی ادارے سے آس لگانا بے سود ہے حتی  خود اپنے ہی قومی لیڈروں سے بھی امید باندھنا فضول ہے خدا سے ہی لو لگانا ہے اسی سے امید باندھنا ہے اسی پر بھروسہ کرنا  وحدہ لاشریک  کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اب  جو دوسری چیز ہے وہ یہ ہے محکمہ انصاف میں چاہے جتنے بھی حالات خراب ہوں ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا ہے کہ  پکے ثبوتوں کے ساتھ ان لوگوں کو انصاف کے کٹگھرے میں لا کھڑا کریں جو ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ،اگر سب مل جل کر ایک فیصلہ لیں اور فسادات کے اصلی مجرموں کے بارے میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کریں تو یقینا یہ ایک مثبت قدم ہوگا ۔
امید کے ہم ان فسادات سے سبق لے کر آگے بڑھیں گے اور ہرگز ان باتوں میں نہیں آئیں گے جنکے ذریعہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ آپ سبھی کے لئے کر رہی ہے آپ سبھی ملک کے باشندے ہو آپ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہم سبھی مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے والے ہیں ، اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو یقینا نہ دہلی میں اتنے بھیانک فساد ہوتے اور نہ مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگتی اور نہ ہی آج ہماری مائیں بہنیں مختلف جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی ہوتیں ،
کونسی بڑی بات تھی پولیس کے لئے دنگائیوں کو لگام دینا جو پولیس چند طلباء کو پکڑنے کے لئے جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر آنسو گیس کے گولے داغ سکتی ہے لاٹھی چارج کر سکتی ہے وہ پولیس دنگائیوں کے سامنے بے بس کیونکر ہو جاتی ہے یہ وہ سوال ہے جسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جواب نہ ہونا ہی یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں تباہ کر دینے میں پولیس کے رول کا جواب نہیں ہے ان کے پاس کل یقینا مسلمانوں کی شہریت کے سلب کئے جانے کا بھی جواب نہیں ہوگا ۔لہذا ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے مل جل کر آگے آنے کی ضرورت ہے جنکا سب کچھ ان فسادات کی نذر ہو گیا ، ہم مشکل کشا کے ماننے والے ہیں مشکلوں سے گھرے لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہمدردانہ و دلسوزانہ نہ ہوگا تو کس کا ہوگا ، امید کہ ہم سب سے جو بھی بن پڑے گا ان لوگوں کے لئے کریں گے جنہیں ان فسادات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یقینا اگر ہم خلق خدا کی مدد کریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا انشاء اللہ ۔

 

سامراج کے ہاتھوں قیدی و بے بس میڈیا

  • ۴۶۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی عربی کے ایک رسالہ  میں ایک کہاوت پڑھی تھی  کہ ایک مصور دیوار پر نقش ونگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو  ایک نظر دیکھا۔ مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں!  تصویر اچھی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ میاں! اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہو منظر کشی کرو، ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا  ہے ۔ ابلاغ کے تمام تر ذرائع پرمغرب کا کنٹرول ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔ متعصب یہودی کا دماغ اورسیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہوچکے ہیں۔
سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہوکر مذہب کا راستہ روکنے کے لئے سیاست، معیشت، میڈیا لابنگ اور تحریف و تحریص کے تمام ذرائع استعمال کررہی ہیں اور عیسائی دنیا کے مذہبی لوگ بھی خود کو میڈیا کے آگے سرینڈر کر کے لادینت کا راگ الاپ رہے ہیں ،مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کےتلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات (آسمانی وحی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تعلیمات وسیرت) اصلی حالت میں موجود ومحفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے اسلام منطقی طور دنیا کے مستقبل کی واحد امید بنتا جارہاہے۔ چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی  صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہورہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کردی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کے متوقع بازگشت میں رکاوٹ بن سکے۔
اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار انسانی حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں جھوٹ کا یہ سبق اچھی طرح رٹایا جا رہا ہے  کہ “جھوٹ بولو!اور اتنی بار بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں”چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے عورتوں،اقلیتوں،اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جارہا ہے، دنیا میں اگر میراث و حجاب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک میں طلاق اور جہاد کی باتوں کو ایشو بنا کر گھنٹوں ٹی وی شو ہوتے ہیں جن میں لاحاصل بحث ہوتی ہے جبکہ کوئی ملکی ترقی کی بات نہیں کرتا کہ ملک کہاں تھا اور کہاں جا رہا ہے۔
آج آزادی کے چوتھے ستون میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ آپ تمام حضرات کے پیش نظر ہے  یہ کہیں مجرم کو منصنف تو کہیں منصف کو مجرم بنا کر پیش کر رہا ہے تو کہیں قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل ۔  ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تو انکا تو شیوہ ہی یہی ہے انکے اپنے مفادات ہیں ان کا  لحاظ نہیں کریں گے تو انہیں بجٹ کی فراہمی سے لیکر دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  لہذا وہ تو سچ اور جھوٹ کے پالے کو  درہم و دینار کی کھنک کے ساتھ تبدیل کریں گے ہی لیکن  یہ اب ہم پر ہے کہ اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو اتنا بڑھائیں کہ میڈیا کی خبروں کے درمیان اصل و نقل پہچان سکیں یہ جان سکیں کہ ذرائع ابلاغ کے پیچھے کونسی لابی کام کر رہی ہے اور دن بھر چلنے والی بریکنگ نیوز کے پیچھے کیا سیاست ہے ؟
میڈیا تو خیر میڈیا ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی پیسوں پر تل رہاہے تو اوروں کی تو بات ہی کیا  کون بھول سکتا ہے کہ پچھلے سال کس طرح اقوام متحدہ نے سعودی عرب کو بلیک لیسٹ میں قرار دیا پھر جب یہ دھمکی دی گئی کہ بجٹ کی فراہمی روک دی جائے گی تو اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے افسوس کے ساتھ اپنی مجبوری کی دہائی دیتے ہوئے اسے بلیک لیسٹ  سے نکال دیا  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے اور دولت کے بل پر کس طرح حق کو ناحق کیا جا رہا ہے۔
یہ تو دنیا کی  موجودہ  صورت حال ہے جبکہ اس صورت حال سے کہیں بدتر معاملہ ہندوستان کا ہے جہاں وہ سب کچھ تو ہے ہی جو اوپر بیان کیا گیا ،علاوہ از ایں مقامی میڈیا ہر چیز کو زعفرانی رنگ میں دیکھ رہا ہے اور چند گنے چنے منصف صحافیوں اور چند گنے گنے منصف چینلوں کے سوا ہر طرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف چوطرفہ زہر اگلا جا رہا ہے ،کہیں اشتعال انگیز تقریریں کرنے میں مشہور بعض مسلم عمائدین کو ٹی وی شو میں سجا کر پیش کیا جا رہاہے تو کہیں میدان سیاست سے بے خبر سیدھے سادے مولویوں کو سیاست کے تپتے اکھاڑے میں ہاتھ پیر باندھ کر ماہرین سیاست، و سیاسی مبصرین کے چبھتے سوالوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے جسکا لازمی نتیجہ عوام میں اس بات کا القاء ہے کہ انکے پاس کہنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے، انہیں جو کرنا تھا یہ اپنی تقریبا سات سو سالہ حکومت میں کر چکے اب ہمیں کچھ کرنا ہے اور ہندوستان کو بچانا ہے، ملک کی تخریب ہو چکی اب تعمیر کرنا ہے دوسری طرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اور بعض لوکل چینلز پر ڈھکے چپھے انداز میں مسلمانوں کو ایک خوفناک موجود کی صورت پیش کیا جا رہا ہےاور ان سے مقابلہ کے لئے گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ووٹوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
 ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے  انصاف کی آواز بلند کریں اور کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک اتنا جاگ جائیں کہ وہ کام نہ کریں جو دشمن ہم سے لینا چاہتا ہے اور کم سے کم اسکی سجائی دکان سے سامان نہ خریدیں اور اسکی مصنوعات کی مارکیٹنگ نہ کریں ۔اس دور میں جب کہ میڈیا سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر حق بیانی سے نہ صرف کترا رہا ہے بلکہ کھلم کھلا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور ملک میں شدت پسندانہ طرز فکر کی ترویج کر رہا ہے ایسے میں ہمارا کمترین وظیفہ یہ ہے کہ اگر خود میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والی خبروں کا تجزیہ نہیں کر سکتے  تو صاحبان فکر و نظر کی طرف  رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام یا کلپ فارورڈ کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کہیں دشمن کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دہلی کے حالیہ فسادات اور محکمہ انصاف کا خون

  • ۴۹۱

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہلی کے حالیہ فسادات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ایک سوچہ سمجھا منصوبہ تھا ان فسادات کے ذریعہ ایک واضح  پیغام یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہماری ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی اور اپنے اختیار کا استعمال ہمارے خلاف کیا تو تمہاری زندگی کو کیڑوں مکوڑوں کی زندگی میں بدل دیں گے ، ہم حق حیات بھی چھین سکتے ہیں اور اگر یہ حق دیں گے بھی تو زندگی کے حقوق کو سلب کر کے اور تمہیں اسی طرح جینا ہوگا  کہ اپنے کسی حق کے لئے کھڑے ہونے کے بارے  میں نہ سوچ سکو اور ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں انصاف مل سکے گا اس لئے کہ اگر کوئی انصاف کرنے  کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اقتدار میں  ہیں اس سے اسکا منصب چھین کر اسے شہر بدر بھی کر سکتے ہیں۔
 غرض منصف بھی تبھی تک منصف ہوگا جب تک ہم چاہیں گے اور جب تک وہ ہماری منشاء کے مطابق بولے تبھی تک عدالت میں اسکی بات معتبر ہوگی لیکن ہماری منشاء کے خلاف اگر کچھ کہا اور ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کیا تو ہمارا فیصلہ اسکے خلاف ہوگا جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت میں اسکی دسترس کو ہی ختم کر دیا جائے گا  ایسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں کی دنیا ہی الگ ہو معاملات ہی الگ ہوں ۔
یقینا دہلی کے فسادات دل دہلانے والے ایسے مناظر پیش کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان بے چین ہو جاتا ہے اور ایک ایسا کرب و اضطراب پورے وجود پر طاری ہو جاتا ہے کہ راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے بے ساختہ ظالموں اور قاتلوں کے لئے بدعاء کے جملے نکتے ہیں بے ساختہ مظلوموں کے لئے دعاء نکلتی ہے پروردگار ان لوگوں پر رحم فرما جو تیرے دین کی خاطر سخت ترین صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن تیرے دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں انہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ۔
جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے وہ قابل غور بھی ہے مقام عبرت بھی لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے  پاس اس جمہوری ملک میں  جو ایک آسرا محکمہ انصاف و عدالت کا تھا اب وہ بھی ان سے چھنتا جا رہا ہے  چنانچہ اگر آپ غور کریں گے تو  واضح ہوگا کہ دہلی کے حالیہ فسادات میں جہاں مسلمانوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا انکی پراپرٹی و انکے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا وہیں محکمہ انصاف کا بھی خون ہوا ہے ، اس عدالت  کی روح کو بھی تار تار کیا گیا ہے جس پر ملک کے حریت پسند یقین رکھتے ہیں اور اس کی دلیل  اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کو صاف طور پر بچا لے جانا ہے  اور الزامات کا نشانہ مخصوص انداز میں انہیں پر سادھنا  ہے جنہیں بلی کا بکرا بنا کر خود ہی از قبل تیار کیا جا چکا تھا ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا کل کتنا بھیانک اور خطرناک ہوگا اگر انہوں نے مل جل کر اپنی  تدبیر سے اپنے مستبقل کے بارے میں نہ سوچا تو   جو تباہی انکا مقدر ہوگی شاید وہ اس سے بھی بری ہو جو تقسیم کے وقت تھی ۔

 

ہندوستان کو طبقاتی و نسلی بھید بھاو سے ابھارنے میں مسلمانوں کا کردار

  • ۴۳۹

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہمارے ملک میں جو ہر طرف مسموم فضا چھائی ہوئی ہے اور بری طرح ہمیں چو طرفہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہوگا؟۔  مستقبل کے خطوط کی ترسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ  جتنا ہو سکے میڈیا کے ذریعہ قلم و بیان کے ذریعہ اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ہم نے مذہبی و نسلی بھید بھاو سے کس طرح اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں اور طبقاتی فاصلوں کی دیواریں ملک کی ترقی میں آڑے نہ آئیں ۔
 اگر ہمارے خلاف زہر بھرنے والی طاقتیں صرف اس چیز کو جان لیں کہ ہم نے نسلی و مذہبی و قومی ہماہنگی میں ایک لافانی کردار ادا کیا ہے تو انہیں خود اندازہ ہو گا کہ  اجتماعی و معاشرتی زندگی میں جس طاقت کو وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں  اگر مسلمان اس ملک میں نہ آئے ہوتے تو ہرگز وہ اس گندے گٹر سے نہیں نکل سکتے ہیں  جہاں اس وقت چھوا چھوت کے تعفن میں پوری قوم کو مبتلا کئے انسانی صلاحیتوں گا گلا گھونٹ رہے تھے۔
چھوت چھات کی ایسی بیماری اس ملک کو لاحق تھی کہ قومیت کا تصور ہی مشکل ہو چکا تھا، ہندوستان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ رہی کہ مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کا شعور دیا چونکہ اسلام کی نظر میں نہ طبقاتی نظام کی کوئی حیثیت ہے نہ نسلی و قومی برتری کا تصور، اس دور میں جب ہندو مذہب کا طبقاتی نظام دبے کچلے لوگوں کو مزید دبا رہا تھا مسلمانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر نہ تو ناپاک ہوتا ہے کہ اسے دھتکار دیا جائے اور نہ ہی جاہل ہوتا ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کاحق ہی نہ ہو اور نہ ہی خاص پیشے خاص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ ایک ساتھ سب ایک جگہ بیٹھ بھی سکتے ہیں کھا بھی سکتے ہیں ، امیر و غریب پہلو بہ پہلو بیٹھ بھی سکتے ہیں کام بھی کر سکتے ہیں ، ہندوستان کے طبقاتی نظام کے لئے یہ مساوات کا پیغام کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے بھی یوں کیا ہے''  مسلمانوں کے عملی مساوات کے نظام نے ہندوں کے ذہنوں پر بہت گہرا رنگ چھوڑا خاص طور پر وہ ہندو جو اونچ نیچ کا شکار تھے اور برابری کے حقوق سے محروم تھے اسلام کے مساوات کے نظام سے بہت متاثر ہوئے'' {جواہر لعل  تلاش ہند ، ص ۵۲۶-۵۲۵ Discoery off india }
ہندوستان کی موجودہ فضا میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بنیادی مسئلہ کی  طرف لوگوں کی توجہات کو مبذول کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ کو بھی جاری رکھیں، اور پر امن طریقے سے مظاہرہ و احتجاج کرتے رہیں، اور ملک کو تقسیم کرنے والوں کو یہ سمجھا دیں کہ جب ہم نے کل دبے کچلے لوگوں کو سہارا دیا تو کیوں کر آج ہم ہر طرح کا ظلم سہہ سکتے ہیں اگر ہم دوسروں کو ظلم کی چلتی چکی کے پاٹوں کے درمیان سے نکال سکتے ہیں تو یقینا ایسانہیں ہو سکتا کہ خود کو ظلم و ستم کی چکی کے حوالے کر دیں ،ہماری آواز احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہم آئین کی رو سے  حاصل حقوق کی روشنی میں اپنے حق کے لئے اس وقت تک لڑتے رہیں گے ہم تک ہمارا حق ہمیں نہ مل جائے ۔

 

 

 

دواؤں کی شیطانی تجارت کی عالمی منڈی

  • ۷۲۶


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دواؤں کی تجارت بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عالمی سطح پر شروع ہوئی۔ جس کے بعد دنیا میں دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے کیمیکل مواد کی پیداوار کے لیے بڑے بڑے کارخانے کھولے۔ دنیا کے آٹھ ممالک؛ جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، سوئٹرزلینڈ، اسپین، برطانیہ اور جاپان میں دنیا کی تقریبا ۸۰ فیصد دوائیں تیار کی جانے لگیں۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔ بعد از آں سوئٹرزلینڈ ہے جو ۳ فکٹریوں کے ذریعے ۸۹۷۴ ملین ڈالر اور برطانیہ چار کارخانوں کے ذریعے ۴۳۲۳ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کرتے ہیں اس کے بعد فرانس، جاپان، ہالینڈ اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۳۲ دوا ساز کمپنیاں سالانہ ۳۵ بلین ڈالر کی دوائیں عالمی منڈی میں سپلائی کرتی ہیں۔ سالانہ سیکڑوں ٹن کیمیکلز دواؤں کے نام پر جن میں پین کیلر، اینٹی بایٹک، سردرد کی دوائیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لوگوں کے جسموں میں وارد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیکلز  ہزاروں قسم کی دواؤں کے نام سے دنیا میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور عالمی تجارتی منڈی میں اس تجارت سے ناقابل تصور منافع کمایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک میں دوا ساز کمپنیوں کے گمراہ کن کردار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ سامراجی سرمایہ دارانہ معاشروں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر دوائیں نہ صرف جانوروں پر بلکہ اقوام عالم اور بسا اوقات اپنے ہی لوگوں پر بھی آزمائی جاتی ہیں۔
لیکن دواؤں کے تجربے کے اصلی چوہے تو تیسری دنیا کے بے خبر لوگ، خاص طور پر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اور اس جرم میں شریک وہ ڈاکٹر، ہسپتال اور ادارے ہیں جو رشوت  کے بدلے ان دواؤں کو تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے کو دوا ساز کمپنیوں تک پہنچاتے ہیں۔
اس قسم کے ٹیسٹ، جو خفیہ طور پر اور مریضوں کے علم کے بغیر کئے جاتے ہیں، نہ صرف بہت سارے موارد میں مریضوں میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات مریض کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت ساری ایسی دوائیں جو سرمایہ دار ممالک میں خطرناک منفی اثرات رکھنے کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں وہ دوائیں کثرت سے استعمال ہوتی رہتی ہیں اور تجارتی منڈی میں ان کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور یہاں تک کہ بعض ممالک میں وہ دائیں بھی کثرت سے بیچی جاتی ہیں جن کے استعمال کی تاریخ بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سن ۱۹۸۴ میں ۴۶ فیصد دوائیں جو عالمی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے ہندوستان میں استعمال کی گئیں ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی اور وہ اکسپائر دوائیں تھیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ میں ہزاروں قسم کی دوائیں اور ویٹامنز ایسے تقسیم کیے گئے جن میں الکحل (Alcohol) حد سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور جو لوگ ان دواؤں کو ایک دو بار استعمال کرتے تھے وہ انکے عادی ہو جاتے تھے اور اس طرح سے شیطانی تجارت کو خوب رواج ملتا تھا۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی ص163

 

بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تزویری تعلقات

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک سیاسی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔

 

ہندوستان میں بڑھتی مذہبی منافرت اور ہماری ذمہ داری

  • ۵۱۸

بقلم سید نجیب الحسن زیدی


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر ہم صفحہ گیتی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ملے گا کہ اس دنیا میں موجود۲۰۵ / ممالک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مل جل کر  محبت ، عزت تعاون و اشتراک کے ساتھ  رہ رہے ہیں اور تعاون و اشتراک کی وجہ بھی یہ ہے کہ  ایک دوسرے کے مزاج کو پہچانتے ہیں دینی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور قومی نفسیات کو جانتے ہیں  یہی سبب ہے مختلف مذاہب سے متعلق ہونے کے باوجود ایک ملک کے پرچم تلے  آئین میں دئیے گئے حقوق کی بنیادوں پر مل جل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں.
کبھی کبھی ضرور ایسا ہو جاتا ہے کہ کوئی مذہب کے جنون میں گرفتار فرد دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنا لے لیکن  اسکے لئے بھی ایسے قوانین موجود ہیں کہ اسکے جرم کی سزا اسے دیر یا زود مل جاتی ہے ، یہ محض دنیا  ہی کی بات نہیں ہے  بلکہ ایسے بہت سے اسلامی ممالک موجود ہیں جہاں  غیر مسلم عرصہ دراز سے جی رہے ہیں اور کوئی انہیں مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہیں بناتا، افسوس کہ حالیہ کچھ برسوں میں اس ملک میں اقلیتوں پر ایک خوف  و ہراس کی کیفیت طاری ہے جہاں ہمیشہ مختلف مذاہب کے ماننے والے مل جل کر ہنسی خوشی رہتے آئے تھے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں ہم کیا کریں کہ ملک بھی ترقی کرے اور مختلف مذاہب سے متعلق افراد بھی ملک کی ترقی میں حصہ ادا کریں اور کسی کے حقوق کو مذہب کی بنیاد پر نہ چھینا جائے۔
اسکا جواب یہ ہے کہ  پہلی منزل پر ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ آئین میں دئیے گئے حقوق کو جانیں اور دیکھیں کہ آئین نے ہمیں کیا تحفظ فراہم کیا ہے اور پھر اسی کی روشنی میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں اور اگر ملک کی انتظامیہ آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ مذہب کی بنیاد پر لیتی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کریں، نیز آئین ہی کی رو سے ہر اس فیصلہ کے خلاف مظاہرہ ہمارا حق ہے جس سے ہماری حق تلفی کی بو آتی ہےدوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ملک کے لئے کیا کیا ہے اور کتنی قربانیاں ہم نے دی ہیں تاکہ بعض منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ  ہمارے خلاف  بے بنیاد پھیلائی گئی باتوں کا ہم جواب دے سکیں، کیا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ  اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بتائیں کہ ہم نے  کلچر و تمدن ، علم و حکمت ، اور اقتصادی میدانوں میں اس ملک کو کیا دیا ہے ؟ یقینا اگر ہم اپنی خدمات صحیح طور پر لوگوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوں تو انسانی جذبہ کے تحت ہم بہت سے حریت پسند افراد کو اپنے  ساتھ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے  جو ہماری ہی طرح ہمارے حقوق کی بازیابی کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو تیار ہو جائیں گے جیسا کہ ابھی   شہریت کے متنازعہ قانون کو لیکر ہو رہا ہے۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود اپنی خدمات سے واقف ہوں ہمیں پتہ ہو ہمارا ماضی کس قدر درخشاں رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم منطقی انداز میں اپنی بات رکھ سکیں ، شک نہیں کہ سخت ترین حالات میں بھی اگر ہم جزوی اختلافات کو بھلا کر ایک وسیع النظر پلیٹ فارم تیار کریں گے تو آئین کی بالادستی کے محور تلے ہم بہت سے ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری طرح ہی ستائے ہوئے ہیں اور ان کا دم بھی ہماری ہی طرح اس زہریلی فضا میں گھٹ رہا ہے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم من و تو کے جھگڑوں سے باہر نکل کر مل جل کر عظیم مقصد کے لئے آگے بڑھیں ۔