-
Friday, 20 March 2020، 04:02 PM
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر ہم صفحہ گیتی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ملے گا کہ اس دنیا میں موجود۲۰۵ / ممالک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مل جل کر محبت ، عزت تعاون و اشتراک کے ساتھ رہ رہے ہیں اور تعاون و اشتراک کی وجہ بھی یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مزاج کو پہچانتے ہیں دینی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اور قومی نفسیات کو جانتے ہیں یہی سبب ہے مختلف مذاہب سے متعلق ہونے کے باوجود ایک ملک کے پرچم تلے آئین میں دئیے گئے حقوق کی بنیادوں پر مل جل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں.
کبھی کبھی ضرور ایسا ہو جاتا ہے کہ کوئی مذہب کے جنون میں گرفتار فرد دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنا لے لیکن اسکے لئے بھی ایسے قوانین موجود ہیں کہ اسکے جرم کی سزا اسے دیر یا زود مل جاتی ہے ، یہ محض دنیا ہی کی بات نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے اسلامی ممالک موجود ہیں جہاں غیر مسلم عرصہ دراز سے جی رہے ہیں اور کوئی انہیں مذہب کی بنیاد پر نشانہ نہیں بناتا، افسوس کہ حالیہ کچھ برسوں میں اس ملک میں اقلیتوں پر ایک خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہے جہاں ہمیشہ مختلف مذاہب کے ماننے والے مل جل کر ہنسی خوشی رہتے آئے تھے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال میں ہم کیا کریں کہ ملک بھی ترقی کرے اور مختلف مذاہب سے متعلق افراد بھی ملک کی ترقی میں حصہ ادا کریں اور کسی کے حقوق کو مذہب کی بنیاد پر نہ چھینا جائے۔
اسکا جواب یہ ہے کہ پہلی منزل پر ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ آئین میں دئیے گئے حقوق کو جانیں اور دیکھیں کہ آئین نے ہمیں کیا تحفظ فراہم کیا ہے اور پھر اسی کی روشنی میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں اور اگر ملک کی انتظامیہ آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ مذہب کی بنیاد پر لیتی ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کریں، نیز آئین ہی کی رو سے ہر اس فیصلہ کے خلاف مظاہرہ ہمارا حق ہے جس سے ہماری حق تلفی کی بو آتی ہےدوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ملک کے لئے کیا کیا ہے اور کتنی قربانیاں ہم نے دی ہیں تاکہ بعض منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ ہمارے خلاف بے بنیاد پھیلائی گئی باتوں کا ہم جواب دے سکیں، کیا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بتائیں کہ ہم نے کلچر و تمدن ، علم و حکمت ، اور اقتصادی میدانوں میں اس ملک کو کیا دیا ہے ؟ یقینا اگر ہم اپنی خدمات صحیح طور پر لوگوں کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوں تو انسانی جذبہ کے تحت ہم بہت سے حریت پسند افراد کو اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری ہی طرح ہمارے حقوق کی بازیابی کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو تیار ہو جائیں گے جیسا کہ ابھی شہریت کے متنازعہ قانون کو لیکر ہو رہا ہے۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے خود اپنی خدمات سے واقف ہوں ہمیں پتہ ہو ہمارا ماضی کس قدر درخشاں رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم منطقی انداز میں اپنی بات رکھ سکیں ، شک نہیں کہ سخت ترین حالات میں بھی اگر ہم جزوی اختلافات کو بھلا کر ایک وسیع النظر پلیٹ فارم تیار کریں گے تو آئین کی بالادستی کے محور تلے ہم بہت سے ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ہماری طرح ہی ستائے ہوئے ہیں اور ان کا دم بھی ہماری ہی طرح اس زہریلی فضا میں گھٹ رہا ہے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم من و تو کے جھگڑوں سے باہر نکل کر مل جل کر عظیم مقصد کے لئے آگے بڑھیں ۔