-
Sunday, 19 July 2020، 02:03 AM
ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ تحریر میں ہم نے جمہوریت میں سلسلہ مراتب کے ڈھانچے ادیان کے درمیان جنگ وغیرہ پر نظر ڈالی اور مالی فساد کے پھیلنے کی طرف اشارہ کیا اس تحریر میں ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مالی فساد و کرپشن کے علاوہ کچھ اور ایسی چیزیں ہیں جو اسی جمہوری نظام کی پیداوار ہیں جس میں طاقت بنیاد ہے، بیہودہ مصرف و دیگر آفتوں کے ساتھ ایٹمی مقابلہ آرائی دنیا میں شدت پسندی کا سبب بنی ہے اور جمہوریت کے ذریعہ دنیا میں آمریت و استبداد کی چولیں اور مضبوط ہوئی ہیں ۔
شدت پسندی: {Rudeness}
گزشتہ پچاس برسوں میں ایٹمی مقابلہ آرائی عصر جمہوریت میں شدت پسندی {Rudeness}کاسب سے بارز نمونہ ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آخر کی دہائیوں میں انسانوں کے قتل عام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت اور ڈیموکریسی کے نام پر لبوں پر مسکراہٹ سجاکر،آمریت اور استبداد سے زیادہ قتل عام کیا جا سکتا ہے ، یہ بات لائق توجہ ہے کہ آج کل کی جمہوریت کی اس جنگ میں جو ان سرزمینوں سے ہے جہاں جمہوریت کا فقدان ہے صرف لشکر اور فوج کو شکست دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس جنگ میں قوم کی طاقت کی بنیادوں کو نابود کر دینا بھی جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے ، اس مقام پر جمہوری نظام کے اندر ایٹمی مزاحمت درحقیقت انسانوں کو اسیر کرنے یا ان کے قتل عام کا آخری مرحلہ ہے ؛ اس لئے کہ اس میں ایسی طاقت کے استعمال کا اختیار ایک ایسے جمہوری اصولوں پر کوئی عقیدہ نہ رکھنے والے فرد کے ہاتھ میں ہے جس کے استعمال یا عدم استعمال پر تمام لوگوں کی زندگی و موت کا دارومدار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کی موت و حیات کا اختیار بظاہر ایک ڈیموکریٹ کے ہاتھوں میں دے دینا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے کیونکہ مزاحمت کی صورت میں تمام انسان یکساں ہوں گے اور جہاں تک ایٹمی حملہ کے اثرات ہوں گے وہاں تک سبھی لوگ اس مزاحمت کے دائرہ میں آئیں گے لہذا مزاحمت کے مقابل تمام انسانوں کا یکساں ہونا غلاموں کی آپسی برابری سے مشابہ ہے جس میں جتنے بھی لوگ ہیں سب کے سب غلام ہیں انسان رنگ و نسل قوم و قبیلہ کے اعتبار سے مختلف ہیں لیکن غلامی کے لحاظ سے سب غلام ہیں اسی طرح جب مزاحمت ہوگی تو انسان جتنے بھی مختلف کیوں نہ ہوں حملہ کے اثرات سب پر ہوں گے ، اگر جمہوری اصولوں کے مطابق بھی دیکھا جائے تو جو لوگ اس طرح کی صورت حال کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں اور وہ شخص جو لوگوں کے دفاع کی ذمہ داری کو اٹھائے ہوئے ہے دونوں ہی جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں ۔
اس موضو ع کو دوسرے زاویہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ایک مغربی انسان ان اقدار سے چشم پوشی کر لے جن کے بموجب دنیا میں جمہوریت کے اصولوں کی بالادستی کی بات ہوتی ہے اور جمہوریت کے نظریہ کو ساری دنیا میں پھیلانے کی بات ہوتی ہے اور جمہوری اقدار ونظریہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نظریہ کووجود بخشے یا تقویت دے کہ جسکی نتیجہ یہ ہے کہ عام اور غیر فوجی لوگوں کو نہ صرف یہ کہ اس نظر سے نہ دیکھا جائے کہ یہ عام لوگ ہیں بلکہ انہیں اس رخ سے دیکھا جائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جہیں بس نابود ہو جانا چاہیے ؛ اگر ایسا ہی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دور شدت پسندی {Rudeness} کا ایک ہولناک دور ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اس دور کو ڈھونڈ رہا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ شدت عمل اور سختی و درشتی نہ ہو بلکہ سختی اس طرح ہو کہ اس میں افراط نہ پایا جاتا ہو اور عدم افراط کے ساتھ پرائیوٹ، سرکار، اور پلیس کی شدت پسندانہ سخت کاروائیوں کو انفرادی شدت پسندی سے جدا کیا جا سکے، ان کاروائیوں کا ایک دوسرے سے متمائز اور آپس میں جدا ہونا اس لئے ہے کہ آج کی دنیا میں مجرمانہ عمل اور جنگ میں تمیز نہیں دی جا سکتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کے محکمہ میں مجرموں کا اثر و رسوخ فیصلہ کن حد تک رہتا ہے اور اسی بنیاد پر مسافر بردار طیارے کومار گرایاجاتاہے ، امن و سلامتی کو ذاتی اغراض و مقاصد کا بازیچہ بنا دیا جاتا ہے پلوٹونیم Plutonium} { کو چراتے ہیں البتہ ان دولت کی ریل پیل ان پتھر دلوں کو ان کی سفاکی میں اور بھی نڈر بنا دیتی ہے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ حتی یہ لوگ فقیر طبقے کو سالم غذائی مواد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی موت بھی نہیں مرنے دیتے بلکہ ان ادھ مرے لوگوں کو مشین گن سے بھون دیتے ہیں ،درحقیقت جمہوریت فقیر نشین علاقوں میں شدت پسندانہ کاروائیوں کو ختم یا محدود کر کے صحت و سلامتی کاربن باندھ کر حیات نو بخشنے میں ناکام رہی ہے ، اس لئیے کہ مبادلہ کاری کے جہانی ہونے ،تنظیموں کی تحریکوں کے وجود میں آنے ،اور عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کے وجود اور اگر ایک جملہ میں کہا جائے تو ڈیموکریسی کی ناتوانی ہی شدت پسندانہ کاروائیوں کے ختم نہ ہونے کا سبب ہے اور ڈیمو کریسی کے ناکار آمد ہونے ہی کی بنیاد پر شدت پسندانہ کاروائیوں کے خلاف ہونے والے اقدامات شکست سے دوچار ہوئے ہیں ۔
بیہودگی و ناکار آمدی کا دور
عصر جمہوریت میں انسان کو نہ صرف آزادی سے بلکہ ہر طرح آزادی فکر سے محروم کر دیتے ہیں ؛ چنانچہ ١٩٩١ ء میں ہونے والی عراق سے جنگ کے دوران امریکی ڈیموکریسی کاایک بڑا ہم و غم داخلی رائے عامہ {Public opinion} کو دھوکا دینا تھا ؛ اسی وجہ سے تاریخ جنگ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ویتنام کی جنگ سے سبق لیتے ہوئے امریکی فوجی کمانڈروں نے رائے عامہ کی جہت دہی کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی وہ جنگ کے لائحہ عمل کو اہمیت دیتے تھے ، دوسرے الفاظ میں اس جنگ کو ماہر افراد کے ذریعہ عظیم وبرتر ٹکنالوجی کے حامل کی شکل میں امریکہ نے اس طرح ہنڈل کیا جس طرح فوجی ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لئے آپریشن ہوتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حقیقت میں امریکہ کب تک اپنی ٹکنالوجی کو محفوظ رکھ سکے گا ؟ نتیجہ کے طور پر اگر اس موضوع کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ مغربی سیاسی نظام کا حاصل یہ ہے کہ وہ کہتا ہے آزادی ہونا چاہیے لیکن ڈیموکریسی کا وہ قائل نہیں ہے اس کے پاس آزادی کا جواب” ہاں” میں ہے اور ڈیموکریسی کا” نہ” اور یہ درحقیقت ڈیموکریسی کا بیہودہ مصرف کے طور پر شان و شوکت کے ساتھ پیش کیاجانا ہے یہ بالکل وہی چیز ہے جسے جان میری گیانو نے ترقی یافتہ استبداد کا نام دیا ہے ، اس توصیف کے ساتھ ڈیموکریسی، تاریخ کے اختتام کی مدعی ہے ؛ لیکن اب دنیا میں تاریخی حقیقتوں کو تلاش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں تاریخی حقائق کا سامنا کرنے کی تاب نہیں ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو یہ مانتے ہیں کہ: مغربی لوگ یا بہ الفاظ دیگر مارڈرنیسم کی طرف کوچ کرنے والے بغیر کسی وقفہ کے اس راستہ پر چلتے چلتے اب تھک چکے ہیں جس نے چند صدیوں قبل ترقی و پیشرفت کی فکر کو ان کے متھے جڑ دیا تھا، چنانچہ اب ان کی یہ آرزو ہے کہ کچھ دیر وہ ٹہر کر آرام کر لیں اور پیشرفت کے لدے ہوئے اس بوجھ کو زمین پر دھر کر خود چھٹکارا پا جائیں جسے وہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دیوانہ وار دوڑ کے مقابلہ میں اپنے ساتھ اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، ان کے سامنے ایک ایسا انقلاب ہے جسے انہیں انجام تک پہونچانا ہے یہ انقلاب ، انقلاب سیاست نہیں بلکہ معنویت کا انقلاب ہے اس لئے کہ گزشتہ چند صدیوں میں ترقی و توسیع کا عمل بے نظیر ہے ، کمپنیاں بڑی ہو گئی ہیں سنڈیکیٹ {Syndicate} اور کیمبرج میں توسیع ہوئی ہے …لیکن یہ تمام چیزیں ریت کے ڈھیر پر بنی ہوئی عمارتوں کے مثل ہیں ؛ لہذاب یہ کہنا ضروری ہے کہ ڈیموکریسی کو خطرہ لاحق ہے اور اس کی نجات کے لئے دو راہوں میں سے کسی ایک راہ کو منتخب کرنا ہوگا اول یہ کہ نابودی کے سرچشمہ کی طرف پلٹ جائیں اور چند جہان شمولی کے اصولوں پر باہمی اتفاق کے ذریعہ ان فطری حقوق کی ان نئی بنیادوں کی جستجو کا عمل شروع کیا جائے کہ جس کے بغیر حقوق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حقیقت کے روبروہوا جائے یعنی روشن گی کے اس دور سے سبق حاصل کیا جائے اور پھر یہ کوشش کی جائے کہ جن چیزیوں کو بچایا جا سکتا ہے انہیں بچایا جائے ۔
نتیجہ
مشرقی بلاک کے ٹوٹ جانے کے بعد ١٩١٧ء میں جس جدید دور ( کمیونسٹی انقلاب ) اور کچھ لوگوں کے بقول ١٩٤٥ ء ( دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ) جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جو دور ختم ہو رہا ہے وہ حکومتوں کا دور ہے ؛ چنانچہ آج دنیا قوموں کا منظر سیاست و حاکمیت پر ابھر کر سامنے کا مشاہدہ کر رہی ہے ، اس کا مطلب تاریخ کا اختتام نہیں ہے بلکہ اس کے معنی تو تاریخ جدید دور کے آغاز کے ہیں یہ دور قوموں کی حکومت کا دور ہے قوموں کے امپائر کا نظریہ ایسی دنیا کو ہمارے سامنے لاتا ہے جو بغیر کسی مرکزکے متحد ہے .
جان میری گیانو کے عقیدے کے مطابق یہ وہی دور ہے جسکا وعدہ جناب دانیال نبی نے کیا تھا ؛” اس کے بعد چوتھی سلطنت کا قیام ہوگا جو فولاد کی مانند مضبوط ہوگی ، اور اپنے سے ٹکرانے والی ہر چیز کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر دے گی ( کتاب مقدس ، دانیال نبی ، باب دوم، )وہ قوم جس کی سلطنت کا جان میری گیانو نے وعدہ دیا ہے اس سے مراد قدیمی مفہوم نہیں ہے بلکہ قوم کا جدید مفہوم ہے جس کے بعض خصوصیات یہ ہیں :
اول : مارڈن قوم میں سرزمین کا عنصر کسی قوم کے قوام و ثبات کی بنیاد نہیں ہے یعنی اس میں کسی سرزمین کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھنا اہم نہیں ہے۔
دوم : مارڈن قوم آج کل کی جمہوریتوں کے بر خلاف ٹیکس و لگان کی وصولی اور اسے مینیج کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔
سوم : کل آنے والی قوم اس بات سے باخبر ہوگی کہ کوئی بھی قوم امریکی قوم کے اندازے کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے ضروری سرچشموں اور ذخائر کو اپنے لئے فراہم نہیں کر سکتی ہے.
چہارم : کل کی آنے والی قوم صلح طلب اور امن پسند ہے لہذا دفاعی امور کے لئے کم بجٹ مخصوص کرے گی اور اس کی کوشش تعمیر آباد کاری پر زیادہ ہوگی ۔
پنجم : کل کی آنے والی قوم یہ جانتی ہوگی کہ وہ چاہے جتنی بھی طاقت ور ہو جائے عالمی ثبات کو برقرار نہیں کر سکتی ؛ جبکہ آج کی مغربی ڈیموکریسی کی نظر میں سرزمین قوم کے قوام کا بنیادی عنصر ہے ؛ ٹیکس و لگان کا حصول حکومت کے ہاتھ میں ہے انسانی حیات کے لیئے ضروری ذخائر و منابع کو حکومت پورا کرتی ہے ۔
حکومتیں اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دفاعی امور پر صرف کرتی ہیں ، اور ڈیموکریسی کے سایہ میں زندگی گزارنے والی قومیں مغربی اقوام کی طرح خود کو عالمی امن و ثبات قائم کرنے کی توانائی کا حامل سمجھتی ہیں ؛ لیکن آج اس طرح کے سیاسی نظام کے نا کار آمدی بالکل واضح ہو گئی ہے اور یہ امر اس بات کی نوید دیتا ہے کہ جمہوریت کا دور اب ختم ہوا چاہتا ہے اس لئے کہ بجائے اس کے کہ اسے رایہ عامہ کا خیال ہو یہ حکومت کا خیال رکھتا ہے عوام سالار ہونے کے بجائے یہ حکومت سالار ہے.
تنقیدی جائزہ
جمہوریت کے موجودہ بحرانوں کی ایک مغربی دانشور (جان میری گیانو)کی جانب سے بیان کی گئی توصیف قابل توجہ ہے ؛ لیکن یہ توصیف یا تنقید قبل اس کے کہ مغربی ڈیموکریسی نظام کی نظریاتی بنیادوں کو مد نظر رکھے ، مغربی معاشروں خاص کر امریکہ میں اس کے عملی نتائج کو بیان کر رہی ہے جبکہ علمی تنقید و تبصرہ میں سب سے پہلے نظریاتی بنیادوں پر تنقید ہوتی ہے اس کے بعد عملی نتائج کی موشگافی کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ پہلے نظریاتی بنیادی پر مشتمل اس کے نقائص کو واضح اور برملا کر دیا جائے اس کے بعد عملی پہلو پر نظر ڈالی جائے اور نظریاتی موشگافی کے بعد عملی تجزیہ کو پیش کرنے میں ہی صحیح طور پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ ؛ لیکن جان میری گیانو کے اس اثر میں جو چیز زیادہ توجہ کے لایق ہے وہ ان کی جانب سے پیش کیا ہواایسا راہ نجات ہے جسے انہوں نے جمہوریت کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے طور پر پیش کیا ہے، درحقیقت جان میری ڈیموکریسی کو یکسر رد نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے مستقبل کو ترسیم کرتے ہیں جس میں ایک ایسی جدید جمہوریت وجود میں آئے گی جس کا نام انہوں نے مارڈرن قوم یا امپریل عصر رکھا ہے ۔اس ڈیموکریسی کی بارز صفت معنویت کی طرف بازگشت ہے ساتھ ساتھ قوموں کا سیاست و حاکمیت پر پلٹنا ہے ؛ لیکن یہ معنویت ادیان آسمانی و الہی سے زیادہ زمینی ہے اور جدید بشری تصور کائنات سے فروغ حاصل کررہی ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ جان میری گیانو اس مذہبی قدامت پرستی کو جو انقلاب اسلامی ایران سے سرچشمہ سے انکی نظر میں وجود میں آئی ہے موجودہ مریض ڈیموکریسی کا متبادل نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جس زمینی معنویت کو گیانو نے پیش کیا ہے کہ اس کے بل پر بشری تصور کائنات جیسے ،لبرل ازم کے مشکلات کو حل کرنے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔
مجموعی طور پر ایک طرح کا ماہرانہ تضاد گیانو کے اس تنقیدی مقالے میں نظر آتا ہے جس کی منظر کشی عالمانہ انداز سے ہٹ کر سیاست مدارانہ انداز میں کی گئی ہے لیکن یہی چیز ان چاہے انداز میں فرانس کے دانشورو روشن فکر طبقے کے دینی تعلیمات سے روایتی تضاد کو بیان کر رہی ہے ، اس میں شک نہیں کہ دنیا معنویت کی ضرورت کو آج محسوس کر رہی ہے لیکن وہ معنویت جو آسمانی ہے اور زمینی غلاظتوں اور شیطانی کثافتوں سے مبراہے اور انسان کو دنیا و آخرت میں منزل کمال پر پہچانے پر قادر ہے ۔