تعارف کتاب “اسرائیل کی سو ق الجیشی اہمیت اور اسکے اطراف و اکناف کا جائزہ”

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کی سوق الجیشی اہمیت و فن حرب کے اطراف و اکناف  کا جائزہ نامی کتاب، صہیونی مسائل  کے محقق جناب ڈاکٹر محمد تقی تقی پور کی ایک ایسی تحقیق ہے جو دو ہزار پانچ میں پہلی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی، اگر چہ اس کتاب کے پہلے اڈیشن کو شائع ہوئے عرصہ ہوا اور بعض لوگوں کی رائے کے مطابق اس کتاب کے تاریخی مطالب اب استفادہ کے لائق نہیں رہ گئے ہیں اور اتنے مفید نہیں ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو سکے۔
بہر کیف! اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہ کتاب صہیونی حکومت کی اطلاعاتی کار گزاریوں اور اس  جانب سے انجام پانے والی جاسوسی کاروائیوں، کو سامنے لانے کے علاوہ وسیع پیمانے پر فن حرب سے متعلق بعض ایسے طریقہ کار کو اپنے مخاطب کے سامنے پیش کرتی ہے جنہیں صہیونی حکومت مسلسل انجام دیتی رہتی ہیں، یعنی  کہا جا سکتا ہے کہ کتاب صہیونی حکومت کے فن حرب سے متعلق بڑے منصوبوں کو کتاب سامنے لاتی ہے۔
یہ قیمتی کتاب، ایک مقدمہ، ایک پیش لفظ اور کلی عناوین کے تحت سات فصلوں پر مشتمل ہے، مصنف نے اسی طرح کتاب کے اختتام میں  ضمیمہ کے عنوان سے ایک حصہ  مخصوص کیا ہے جس میں اسرائیل کی موساد اور ایرانی شہنشاہیت کی خفیہ ایجنسی ساواک کے درمیان  خفیہ اطلاعات، سیاسی اور اقتصادی  مشترکہ تعاون کو بیان کیا گیا ہے ۔
کتاب کے مقدمہ میں  ایران کی خصوصی اہمیت، اور اسرائیل کی ایران کو دیکھنے کی نوعیت کو بیان کیا گیا ہے اور آگے چل کر اسرائیل کی تشکیل میں استعمال شدہ حکمت عملی کو اسکی بقا کے ساتھ توسیع کے طریقوں کو مختصر انداز میں  ثبوتوں اورنمونوں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔  
کتاب کے پیش لفظ یا سر آغاز میں اسرائیل کی جانب  سے اس کے اہداف کے حصول اور اسکے اپنے طریقہ کار کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے دشمن تراشی اور مظلوم نمائی کی حکمت عملی کے اختیار کرنے کو بیان کیا گیا ہے)جسکے ذریعہ دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم مظلوم ہیں اور جو کر رہے ہیں اسکے لئے مجبور ہیں( توجہ کے لائق بات یہ ہے کہ یہ وہ طریقہ کار ہے جو صہیونی حکومت کے راہنماوں اور سربراہوں کے ذریعہ بیان ہوا ہے.
کتاب کی پہلی فصل میں موساد اور ساواک کے عنوان کے تحت، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے اہداف و مقاصد ، اسکےمعرض وجود میں آنے، اسکے ڈھانچہ، اسکی ذمہ داریوں، کے تحت موساد کی کارگزاریوں کو بیان کیا گیا ہے ، آگے چل کر موساد کے بعض سربراہوں ، اسرائیل کے وزیر اعظم ، اور صدر جمہوریہ کے عہدے پر رہنے والوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور اسکے آخر میں  ساواک کی تشکیل کی کیفیت اور اسکے موساد سے رابطہ کو بیان کیا گیا ہے ۔
دوسری   فصل میں  مصنف نے ترکی ، ایران اور اسرائیل کے مابین خفیہ اطلاعات کے تبادل کے معاہدے کو بیان کیا ہے ، اس حصہ میں  مسلم ممالک ہونے کے اعتبار سے ایران اور ترکی کی  اسرائیل کے لئے اہمیت کواجاگر کیا گیا ہے ، خاص طور پر یہودیوں کے ترکی کے ساتھ  اطلاعاتی معاہدے کے وجود میں لانے کے  کردار کو بیان کیا ہے نیز آگےچل کر تینوں ممالک کے ما بین انٹلی جنس بیورو کے مشترکہ تعاون کو  کمیٹیوں ، شوری، اور اطلاعات پر مشتمل سمیناروں کے  تحت   بیان کرنے کے ساتھ  افراد کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے ۔ یہاں پر جو چیز قابل غور ہے وہ یہ کہ  بہت سے بیان شدہ مطالب کو  ساواک کی رپورٹس سے مستند کیا گیا ہے ۔
تیسری فصل میں”  سہ طرفہ  مشترکہ اطلاعاتی اجلاس ” کو بیان کیا گیا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے مقابل اس طرح کے تعلق خاطر اور بندھن کے تاریخی سابقہ کی طرف اشارہ ہے
چوتھی فصل میں  پہلے تو اتھوپیا کی اہمیت اور اسکی جائے وقوع کو بیان کرتے ہوئے اس کی اسرائیل کی بہ نسبت اسٹراٹیجکل پوزیشن سے گفتگو کی گئی ہے  اور بعدہ اس ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی علت ،  اتھیوپیا   میں اسرائیل کے نفوذ  کی فضا کی فراہمی ،اور وہاں پر اسرائیلی اثر و رسوخ کی سطح  نیز ان تینوں ممالک کے  درمیان  اطلاعات کا مشترکہ تعاون  وغیرہ جیسے مسائل کو بیان کیا گیا ہے   ۔
پانچویں فصل میں مصنف نے اسرائیل کی اہم اسٹراٹیجی  مغربی ایشیا سے افریقا کے شمال تک اقلتیوں میں سیندھ لگا کر وہاں اپنی پکڑبنانا بیان کی ہے  یعنی مغربی ایشیاسے  افریقا کے شمال تک   اسلامی ممالک میں کی اقلتیوں میں گھسنے اوران میں اپنا رسوخ پیدا کرنے  کو ایک اسرائیلی حکمت عملی کے طور پر بیان کیا گیا ہے ،
علاوہ از ایں جہاں پر کردوں کے مسئلہ کی بات ہوئی ہے وہاں چونکہ مرکزی نقطہ  عراق میں کردوں کا  ہی کا مسئلہ ہے لہذا سلطنت ایران کے رول سے اس لئے گفتگو ہوئی ہے کہ سیا خفیہ ایجنسی اور موساد کے درمیان کرد قیادت اور ملا مصطفی بارزانی گفتگو کے سلسلہ سے ایرانی سلطنت حلقہ وصل ہے  ۔
چھٹی اور ساتویں  فصل میں  مولف نے جانبی ڈاکٹرین ،یا  اطراف واکناف سے ماوراء ڈکٹرین و نظریات پر مشتمل صہیونی  منصوبے کی وضاحت کی ہے ۔
یعنی  سرحد سے متصل اور سرحدوں کے پرے جیسے لبان، عراق، سعودی عرب ، اردن ، اور افریقائی اور لاتینی امریکہ کے ممالک کا نام لیا ہے ، ان کی اہمیت کی وجہ بھی انکی جانب سے انجام پانے والے سرگرمیوں کی نوعیت ہے ، اور انکے پیشرو اہداف کی وضاحت ہے جنکی معلومات اور اطلاعات کو کھول کر بیان کیا گیا  ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی