‘دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل’ کا تعارف

  • ۵۱۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونی تحریک نے جنم لیا اور ۱۸۹۷ میں تھیوڈر ہرٹزل کی زیر سرپرستی پہلا اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس میں ہرٹزل اور ان کے ساتھی گر چہ بظاہر ایک مستقل یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے اکٹھا ہوئے تھے لیکن اندرونی طور پر اس اجلاس کا مقصد ایک عالمی حکومت کی تشکیل اور پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی تھا۔
اس اجلاس کے بعد صہیونی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ کہ جس کے بانی یہودی تھے استعماری اور سامراجی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور حتیٰ امریکہ میں دن بدن پروان چڑھنے اور پختہ ہونے لگا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے مختلف معاشروں میں نفوذ کرنا اور ان کے سیاسی، معیشتی اور ثقافتی قوانین میں تبدیلیاں لانا شروع کر دیا۔ ان کے ڈھانچوں کو اس طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ اقتصادی حوالے سے انہیں سامراجی طاقتوں سے وابستہ کریں، ان کی ثقافت اور کلچر کو انحراف اور بے راہ روی کا شکار بنائیں اور ان کی سیاست کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ آخرکار ان کی تلاش و کوشش نتیجہ بخش ثابت ہوئی اور ۱۹۴۸ میں سامراج نے اسرائیل نامی ایک ناجائز اولاد کو جنم دے کر اسلامی معاشرے کے لیے دائمی پریشانی اور مصیبت کا سامان فراہم کر دیا۔
اس ریاست کی تشکیل کے بعد، فلسطین کے عوام کو نہ صرف زبردستی ان کے وطن سے نکال باہر کیا بلکہ بہت ساروں کو انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا۔ پڑوسی ممالک جیسے لبنان، شام اور اردن بھی اس ریاست کے ذریعے مورد حملہ واقع ہوئے، نیز پوری دنیا میں بے شمار انسانوں کو صہیونی ریاست کی مخالفت کی وجہ سے آزار و اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر بغور دیکھا جائے تو علاقے میں صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد جنوب مغربی ایشیا کے ممالک یا دوسرے لفظوں میں تمام اسلامی ممالک کا امن و سکون چھن گیا اور ہر بار کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ لہذا عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن جیسا کہ خداوند عالم نے بھی قرآن کریم (۱) میں یہودیوں کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے یہ یہودی ریاست ہے۔ اور چونکہ اپنی جان و مال کا تحفظ انسان پر واجب ہے اور جو شخص انسان کے جان و مال پر حملہ آور ہو اس کا مقابلہ کرنا بھی واجب ہے اس عنوان سے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بخوبی پہچاننا اور اس کی صحیح شناخت حاصل کرنا بھی ضروری اور واجب ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے دشمن “صہیونی ریاست” کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی صحیح شناخت حاصل کریں۔
اسی مقصد کو لے کر ڈاکٹر “مجید صفاتاج” نے اسلام و انسانیت کے اس دائمی دشمن کے حوالے سے معلومات اکھٹا کیں اور چھے جلدوں پر مشتمل “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” کے نام سے انسائکلوپیڈیا تالیف کیا۔
ڈاکٹر صفاتاج اس دائرۃ المعارف کے مقدمے میں مذکورہ مقصد کے علاوہ دیگر اہداف و مقاصد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جو درج ذیل نکات سے عبارت ہیں:
۱؛ صہیونیت کو مختلف عسکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی حوالے سے پہچنوانا نیز مختلف معاشروں میں اس کے گہرے نفوذ کو پہچنوانا
۲؛ ایک معتبر تاریخی اور معلوماتی ماخذ اور منبع فراہم کرنا تاکہ اسلامی حکومتیں اس کی مدد سے ٹھوس منصوبہ بندی کر سکیں۔
۳؛ تاریخی تحریف اور صہیونیت کی طرف سے بیان کئے جانے والے جھوٹے دعوؤں کا مقابلہ کرنا۔
یہ دائرۃ المعارف دوہزار سے زائد مختلف موضوعات جیسے ممتاز شخصیتوں کا تعارف، اسرائیل کے جرائم، یہودی فرقے اور ٹولے، ان کے عقائد و رسومات، ان سے وابستہ ادارے، تنظمیں اور ذرائع ابلاغ، مختلف ممالک میں صہیونیت کا نفوذ، اسرائیل کا حکومتی ڈھانچہ وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔
لہذا “دائرۃ المعارف صہیونیت و اسرائیل” ایک علمی اور تحقیقی ماخذ و منبع ہے جو صہیونیت اور اسرائیل کے حوالے سے تحقیق کرنے والے اسکالروں کی علمی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔
(1) لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذینَ أَشْرَکُوا.(مائده/۸۲).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: میلاد عسگرپور

 

کتاب ’روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ‘ کا تعارف

  • ۳۴۶

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “روئے زمین کا سب سے بڑا ٰقید خانہ؛ مقبوضہ سرزمین کا تاریخچہ” (۱) مورخ ایلن پاپی (Ilan Pappé) کے ذریعے صفحہ قرطاس پر آنے والی گراں قیمت کتاب ہے جو انہوں نے ۲۰۱۷ میں قلم بند کر کے منظر عام پر پیش کی۔ پاپی ۱۹۵۴ء میں مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں پیدا ہوئے اور اِس وقت وہ برطانیہ کی اگزیٹر یونیورسٹی (University of Exeter) کے شعبہ سماجیات اور بین الاقوامی مطالعات میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
یہ کتاب ان افراد کے لیے جو مقبوضہ فلسطین کی تاریخ اور اس سرزمین میں ایک نئی ریاست کی تشکیل کے نظریات کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں بہت مفید اور دلچسپ ہے۔ مصنف اس کتاب میں کوشش کرتے ہیں کہ فلسطین پر ناجائز قبضے کے پشت پردہ عوامل کو برملا کریں۔ وہ قائل ہیں کہ صہیونی یہودی اپنے نسل پرستانہ عقائد کے پیش نظر دنیاوی مقام و منزلت کے حصول کی خاطر لاکھوں انسانوں کی جانیں لینے کو تیار ہیں۔ (۲)
کتاب” روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ” تیرہ فصلوں پر مشتمل ہے، اس کے مصنف اس کتاب میں مکمل دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صہیونیوں کا ارادہ ہے کہ وہ مختلف سیاسی اور قانونی بندشوں کا سہارا لے کر فلسطینیوں کو ان کے ابتدائی حقوق منجملہ آزادی سے محروم کر دیں۔ (۳)
جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ہی واضح ہے کہ مصنف نے مقبوضہ فلسطین کو روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ وہ قائل ہیں کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کو خود ان کی سرزمین میں قید رکھ کر ان پر مکمل تسلط قائم رکھنا چاہتی ہے۔
 
ایلن پاپی اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: فلسطینی اس عقوقبت خانے میں رہنا پسند نہیں کرتے اور نہ وہ اس قضیے کے مقابلے میں تسلیم ہیں لہذا انہوں نے اس قید خانے سے خود کو نجات دلانے کے لیے انتفاضہ برپا کیا ہے۔ لیکن صہیونیوں نے اعتراض کرنے والوں کو ایک خاص طریقہ کار سے دبا دیا ہے۔ صہیونیوں کا اگر یہی طریقہ کار جاری رہا تو فلسطینی اپنے حقوق حاصل کرنے سے خستہ ہو جائیں گے اور آزادانہ زندگی بسر نہیں پائیں گے۔ (۴)
پاپی اس کتاب میں تاریخ بشریت کی طولانی ترین اور خطرناک ترین جنگ کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی کتاب کی تالیف کا مقصد سرزمین مقدس پر قبضہ جمانے کے لیے صہیونی سیاستدانوں کی تزویری حکمت عملی سے پردہ چاک کرنا بیان کرتے ہیں۔(۵)
مصنف اس کتاب میں ۱۹۴۸ میں فلسطین پر قبضے کے ابتدائی ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کو مد نظر رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ صہیونیوں اور جعلی ریاست کے سربراہوں کا بنیادی مقصد پورے فلسطین پر تسلط اور فلسطینیوں کی ہمیشہ کے لیے نابودی ہے۔ (۶)
ایلن پاپی کتاب ” روئے زمین کا سب سے بڑا قید خانہ” میں صہیونی ریاست کے مظالم کے مقابلے میں فلسطینیوں کی تنہائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صہیونی نظام نے اپنے لیے ایک بین الاقوامی حصار قائم کر رکھا ہے اور مزاحمتی تنظیم حماس کو دھشتگرد قرار دے کر وہ مقبوضہ فلسطین میں عام افراد کو مسلسل اپنے تشدد و جارحیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ (۷)
۱٫ The Biggest Prison on Earth: A History of the Occupied Territories
۲٫https://www.palestinebookawards.com/reviews/item/the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe
۳٫ https://muse.jhu.edu/article/685925/pdf
۴٫https://www.middleeasteye.net/news/interview-ilan-pappe-44144233
. https://oneworld-publications.com/the-biggest-prison-on-earth.html۵
۶.https://www.middleeastmonitor.com/20171020-the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe/
۷.https://www.palestinebookawards.com/reviews/item/the-biggest-prison-on-earth-a-history-of-the-occupied-territories-by-ilan-pappe

 

کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ کا تعارف

  • ۳۶۴

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ (The Idea of Israel) پروفیسر ایلن پاپی (Ilan Pappé) کی کاوش ہے۔ وہ سنہ ۱۹۵۴ میں مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں پیدا ہوئے۔ ایلن پاپی برطانیہ کی اگزیٹرم یونیورسٹی (University of Exeterm, England) کے شعبہ سماجیات اور بین الاقوامی مطالعات کے استاد ہیں۔
کتاب ’’اسرائیل کا تصور‘‘ کا موضوع سخن اسرائیل اور صہیونیت کی تاریخ ہے۔ اس کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کلاسیکی صہیونیت کس طرح سے اپنے افکار میں ترقی لا کر جدید صہیونیت میں تبدیل ہوئی۔ در حقیقت صہیونی افکار کی ترقی کی تاریخ کو اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔
ایلن پاپی نے اس کتاب میں اسرائیل کی تشکیل، اس کی سیاسی پالیسی، اس کے تعلیمی نظام نیز میڈیا سے اس کے روابط میں صہیونی آئیڈیالوجی کے اہم کردار کا جائزہ لیا ہے۔
کتاب «The Idea of Israel» سنہ ۲۰۱۴ میں منظر عام پر آئی اس میں ۱۲ فصلیں پائی جاتی ہیں جن کے عناوین درج ذیل ہیں:
• ‘The Scholarly and Fictional Idea of Israel’
• ‘The Alien Who Became a Terrorist: the Palestinian in Zionist Thought’
• ‘The War of 1948 in Word and Image’
• ‘The Trailblazers’
• ‘Recognising the Palestinian Catastrophe: The 1948 War Revisited’
• ‘The Emergence of Post-Zionist Academia, 1990 – ۲۰۰۰’
• ‘Touching the Raw Nerves of Society: Holocaust Memory in Israel’
• ‘The Idea of Israel and the Arab Jews’
• ‘The Post-Zionist Cultural Moment’
• ‘On the Post-Zionist Stage and Screen’
• ‘The Triumph of Neo-Zionism’
• ‘The Neo-Zionist Historians’
• ‘The Scholarly and Fictional Idea of Israel’
• ‘The Alien Who Became a Terrorist: the Palestinian in Zionist Thought’
• ‘The War of 1948 in Word and Image’
• ‘The Trailblazers’
• ‘Recognising the Palestinian Catastrophe: The 1948 War Revisited’
• ‘The Emergence of Post-Zionist Academia, 1990 – ۲۰۰۰’
• ‘Touching the Raw Nerves of Society: Holocaust Memory in Israel’
• ‘The Idea of Israel and the Arab Jews’
• ‘The Post-Zionist Cultural Moment’
• ‘On the Post-Zionist Stage and Screen’
• ‘The Triumph of Neo-Zionism’
• ‘The Neo-Zionist Historians’
 
پروفیسر ایلن پاپی نے اس کتاب میں اس بات کا بخوبی جائزہ لیا ہے کہ کیسے اسرائیل کو معرض وجود میں لایا گیا۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ صہیونی حکومت کی تشکیل اور اس کے استحکام میں میڈیا کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے اس نکتہ کو بھی بیان کیا ہے کہ بہت ساری فلمیں صہیونیت کی تاریخ اور نئے اسرائیل کی تشکیل کے بارے میں بنائی گئی ہیں۔
ایلن پاپی قائل ہیں کہ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کو اوزار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی گندی سیاستوں کی توجیہ، فلسطینیوں کے قتل عام اور اسرائیل کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچایا۔
ایلن کا کہنا ہے کہ صہیونیت نے ان عوامل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی اخلاقی تصویر کشی کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں واحد ایسی ریاست قرار دیا ہے جو ڈیموکریسی کی حامل ہے! انہوں نے اسرائیل کی تشکیل میں ہم فکر حکومتوں کے کردار کو غیر موثر نہ گردانتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل مغربی سامراجیت کا محصول ہے۔

 

کتاب ’یہودی، دنیا اور پیسہ‘ کا اجمالی تعارف

  • ۳۷۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی قوم نے جب سے روئے زمین پر قدم رکھا ہے تب سے لے کر آج تک دو چیزوں سے اس قوم کی بے حد وابستگی دیکھی گئی ہے ایک پیسے سے اور دوسری اقتدار سے۔ یہودیوں نے طول تاریخ میں ان دو چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام طاقت صرف کی، گرم و سرد اسلحے کا استعمال کیا اور ہر اس حربے کو اپنانے کی کوشش کی جس کے ذریعے وہ پیسہ بٹور سکیں اور دنیا پر قبضہ حاصل کر سکیں، چاہے وہ حربہ دوسروں کے قتل و غارت کا ہو، یا من گھڑت واقعات اور قصوں کی تشہیر ہو۔ دنیا کو اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق چلانا یا بالفاظ دیگر دنیا پر قبضہ کرنا ایک اہم ترین اور متنازع ترین موضوع ہے جو حالیہ سالوں یہودی محفلوں کا اصلی موضوع سخن بن چکا ہے۔
یہودی قوم کے اس بنیادی مقصد کے حوالے سے سیر حاصل مطالعہ کرنے کے لیے کتاب “یہودی، دنیا اور پیسہ” کا مطالعہ کرنا مناسب ہے جو ایک معروف فرانسیسی محقق اور اسکالر “جیک اٹالی ” (فرانسیسی نام : Jacques Attali) کے ذریعے صفحہ قرطاس پر لائی گئی ہے۔ موصوف نے علم اقتصادیات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد چند ایک تحقیقی رسالے رقمطراز کئے جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
Perspectives – The Complete Chronicle of the Express
History of modernity
For a positive economy
Candidates Answer!
جیک اٹالی کتاب “یہودی، دنیا اور پیسہ” میں یہودیوں کی پیسے اور دنیاوی اقتدار سے بے حد محبت کو بیان کرنے کے بعد پیسے اور دنیا پر قبضے کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کرتے ہیں۔ اٹالی نے اس کتاب میں دنیا کی معیشت پر یہودیوں کے قبضے کو عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج کے طور پر بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قوم اپنی توانائی اور طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری دنیا پر پیسے کے زور سے قبضہ کرنے کا قصد رکھتی ہے۔
کتاب ہٰذا میں جیک اٹالی مسلسل ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں جو یہودی قوم کے استحکام کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کے ذریعے انجام پانے والے قتل و غارت کے واقعات کو بھی برملا کیا ہے۔
اٹالی نے اس کتاب میں یہودی قوم کی پیدائش کی تاریخ کو دو ہزار سال قبل مسیح قرار دیتے ہوئے اسے مورد بحث قرار دیا ہے اور بعد از آں، اقتدار کی خاطر سنہ ۷۰ء سے ۱۰۹۶ ء تک کے یہودیوں کی ہجرت کے واقعات اور حصول مال کے حوالے سے تلمود کے نظریات کا بھی جائزہ لیا ہے۔
 
اس کتاب کی اصلی زبان فرانسیسی ہے اور درج ذیل عناوین پر مشتمل ہے:
۔ قوم یہود کی پیدائش ۲۰۰۰ سال قبل مسیح سے ۷۰ عیسوی تک کہ جو شامل ہے سیم سے زر تک، مصر میں اسرائیل، زر سے سکے تک، مالداری سے فقیری تک جیسے موضوعات کو۔
۔ سنہ ۷۰ عیسوی سے ۱۰۹۶ء تک ہجرت کہ جو شامل ہے عیسائی اور یہودی مال و دولت کے مقابلے میں، تلمود اور پیسہ، بنی اسرائیل کے لیے نیا موقع، اسلام کا طلوع کے مانند موضوعات کو۔
۔ ۱۰۹۶ء سے ۱۷۸۹ء تک لاویان (Leviticus) کہ جو مشتمل ہے جانشین تجار، اٹھارہویں صدی میں قوموں کی زندگی اور موت، صنعتی انقلاب پر۔
۔ ۱۷۷۸ء سے ۱۹۴۵ء تک اعداد؛ عدد کا قانون اور صنعتی انقلاب کے شرکاء۔
۔ سنہ ۱۹۴۵ استثناء؛ اس حصے میں وطن سے باہر یہودی، ان کی سرزمینیں، کتاب مقدس اور مشرق سے مغرب کا سفر جسے موضوعات کو مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب ’’امام خمینی صہیونزم کے مقابلے میں‘‘ کا تعارف

  • ۴۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بیت المقدس کی غاصب حکومت کے بارے میں امام خمینی کے نظریات اور تقریروں پر مشتمل یہ کتاب ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کے مطالعے سے امام خمینی کی بالغ نظری، سیاسی بصیرت، ایمانی قوت، مردانہ لہجہ کی انا، اصابت فکر، صلابت رائے اور عزم محکم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے دنیا کے مسلمانوں کو متعدد مرتبہ اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سلاطین و شیوخ و استعماری ایجنٹ کی طرف دیکھنا وقت کی بربادی ہے، یہ سب اپنی چار روزہ حکومت کے لیے جی رہے ہیں ان کے ضمیر مردہ ہیں یہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں اور مسلمانوں کی پیشانی پر کلنگ کا ٹیکہ ہیں، ذلت و رسوائی کے نشان ہیں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ان کو اپنا تخت و تاج پیارا ہے۔


اس کتاب میں اس تقریر کا خلاصہ پڑھیں گے جب اسلامی دنیا کے سفیروں کے سامنے اس مخلص رہنما نے صدام سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا راستہ مانگا تھا اور اس نے جن شرائط پر راستہ دینے کا وعدہ کیا تھا، امام خمینی جیسا لیڈر کیا کوئی سچا معمولی انسان بھی ان شرائط کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔
بہر حال آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام خمینی کی پیشگوئی حرف بحرف صحیح صادق ہوئی، کاش دنیا کے مسلمان اب بھی حقیقت کو سمجھ لیں۔

 

تلمود (TALMUD) کا تعارف اور اس میں تصرف خدا

  • ۶۱۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں کی مقدس کتاب اس عنوان سے کہ وہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے بعد یہودیوں کے بزرگوں”خاماموں” کے درمیان توریت کے سلسلے میں کچھ بحث و مباحثے شروع ہوئے جس کے بعد انہوں نے توریت پر تفسیریں لکھنا شروع کر دیں۔ سب سے پہلے سن ۲۳۲ عیسوی میں ایک خاخام نے توریت کی تفسیر بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس کے بعد سن۵۰۱ میں دوسرے خاخام نے توریت پر دوسری تفسیر لکھی یہاں تک کہ ۱۴۵۷ عیسوی تک اس آسمانی کتاب پر مختلف تفاسیر لکھی گئیں۔ ان تفاسیر کے مختلف نام تھے اور مختلف لوگوں کے پاس پھیلی ہوئی شکل میں موجود تھیں۔ اسی سال “یوخاس” نامی ایک خاخام نے ان تمام تفسیروں کے مطالب جمع آوری کر کے “تلمود” نامی کتاب کا مجموعہ تیار کر دیا۔
لفظ “تلمود” دو لفظوں سے مرکب ہے۔ “تل” یعنی تعلیم و تربیت۔ اور “مود” یعنی دیانت۔ مجموعی طور پر تلمود کے معنی “دین و دیانت کی تعلیم و تربیت” کے ہیں۔
یہودیوں کی مقدس کتاب اس عنوان سے کہ وہ توریت کی تفسیر ہے اور یہودیوں کی من پسند بہت ساری بحثیں اس میں موجود ہیں جو توریت میں نہیں ہیں یہودیوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے حتیٰ کہ یہودی تلمود کے مطالعہ کو توریت کی تلاوت پر ترجیح دیتے ہیں اور اس پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ تلمود انسانوں کو یہودی اور غیر یہودی میں تقسیم کرتی ہے اور یہودی کی اذیت و آزار کو حرام قرار دیتی ہے تلمود میں غیر یہودیوں کے اموال کو غصب کرنا اور اس کا استعمال کرنا جائز ہے غیر یہودیوں کے ناموس کے ساتھ تجاوز ان کا حق ہے اور غیر یہودیوں کو اپنا غلام بنانا قرب الہی کا سبب ہے۔
تلمود حضرت عیسی(ع) کو نبی نہیں مانتی بلکہ انہیں معاذ اللہ ایک مرتد اور کافر یہودی مانتی ہے آپ کی مادر گرامی جناب مریم کے لئے نازیبا اور ناجائز الفاظ استعمال کرتی ہے۔
تلمود میں تصور خدا
یہ کتاب یہودیوں کے نزدیک بہت تقدس کی حامل ہے اور توریت و عہد عتیق کے مساوی حیثیت رکھتی ہے۔ ( بلکہ توریت سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے جیسا کہ گرافٹ نے کہا: جان لو کہ خاخام کے اقوال پیغمبروں سے زیادہ بیش قیمت ہیں)۔
یہودیوں کے نزدیک خدا کا تصور کیسا ہے اور وہ خدا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اس کتاب کے چند جملے بیان کر نے سے معلوم ہو جاتا ہے:
دن بارہ گھنٹوں پر مشتمل ہے۔ پہلے ۳ گھنٹوں میں خدا شریعت کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے بعد ۳ گھنٹے احکام صادر کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ پھر تین گھنٹے دنیا کو روزی دیتا ہے۔ اور آخری ۳ گھنٹے سمندری حوت جو مچھلیوں کی بادشاہ ہے کے ساتھ کھیل کود میں مصروف رہتا ہے۔
تلمود میں دوسری جگہ پر آیا ہے خدا کو ایک مرتبہ شوق ہوا کہ وہ ہیکل سلیمانی کو نابود کرے کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے کئے پر پشیمان ہو گیا اور نہ صرف اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا بلکہ رونا اور پیٹنا شروع کر دیا کہ میں نے کیوں اپنے بیٹوں کا خانہ خراب کر دیا ہے کہ میری اولاد (خدا کی اولاد سے مراد یہودی ہیں چونکہ وہ خود کو ابناء اللہ مانتے ہیں) میرا گھر نابود ہونے سے بے گھر و آوارہ ہو گئے ہیں اور ان کا مال ضائع ہو گیا ہے اس کے بعد خدا معاذ اللہ اپنے کئے پر خود کو لعنت بھیجتا ہے۔
خدا یہود کو اس حالت میں مبتلا کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ پشیمان ہے اور ہر روز اپنے چہرے پر تھپڑ مارتا ہے اور گریہ و زاری کرتا ہے کبھی کبھی اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے سمندر میں گر جاتے ہیں اور اتنی زور دار آواز ہوتی ہے کہ ساری دنیا اس کے گریہ کی آواز سنتی ہے۔ سمندر کا پانی متلاطم ہو جاتا ہے اور زمین لرز اٹھتی ہے۔
خداوند عالم بھی احمقانہ افعال، غیظ و غضب اور جھوٹ سے امان میں نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ)
مآخذ:
۱٫التل عبداله ، خطرالیهودیة العالمیة علی الاسلام و المسیحیة ،قاهره ۱۹۶۹ .
۲٫ http://palpedia.maarefefelestin.com/index.php?title=%D8%AA%D9%84%D9%85%D9%88%D8%AF
۳٫ http://palpedia.maarefefelestin.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کتاب’ قوم یہود کی جعلی داستان‘ کا تعارف

  • ۳۶۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “قوم یہود کی جعلی داستان”[۱] ۔شلوموسینڈ[۲] نامی یہودی محقق اور تل ابیب یونیورسٹی[۳] میں تاریخ معاصر کے استاد کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے شلومو کی پیدائش ۱۹۴۶ء میں آسٹریریا[۴] میں ہوئی ، پروفسر شلوموسینڈ کے اہم اثار کی طرف یوں اشارہ کیا جا سکتا ہے :
The Invention of the Land of Israel: From Holy Land to Homeland
How I Stopped Being a Jew
On the Nation and the “Jewish People”
“قوم یہود کی جعلی داستان” کو پروفسیر شلوموسینڈ (Shlomo Sand) کے اہم آثار میں اہم اثر کے طور پر شمار کیا جاتا ہے ، اور یہ کتاب تاریخ یہود و صہیونییت کے سلسلہ سے لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ بکنے والی اور اپنے موضوع کے لحاظ سے متنازعہ ترین کتاب ہے۔
پروفسیر شلوموسینڈ نے اپنی”قوم یہود کی جعلی داستان”نامی اس کتاب کا آغاز سر زمین مقدس سے یہودیوں کے انخلاء کا جائزہ لیتے ہوئے کیا ہے ، مصنف نے اس کتاب کا مقصد صہیونیوں کے ایک قوم کی تشکیل کے عقیدے کو چیلنج کرنا بیان کیا ہے یعنی کتاب کا مقصد اس صہیونی فکر کو چیلنج کرنا ہے جسکے بموجب صہیونی عقیدے کے مطابق ایک قوم کی تشکیل کی با ت کہی گئی ہے[۵] پروفسیر شلوموسینڈ کا ماننا ہے کہ یہودی کبھی بھی ایک خاص نسل یا مشترکہ نسل سے نہیں رہے ہیں اور مسلمانوں و عیسائیوں کی طرح مختلف نسلوں کے حامل رہے ہیں جبکہ اس کے برخلاف صہیونیوں کی کوشش ہے کہ یہودیوں کے نسلی اشتراک کے مسئلہ کو ایک دینی اصل وبنیادکے طور پر پیش کیا جا سکے ۔
 
پروفسیر شلوموسینڈ کا کہنا ہے ” میں نے اپنی “قوم یہود کی جعلی داستان” نامی اس کتاب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح صہیونیوں نے یہودیوں کے لئے ایک تاریخ گھڑنے کا کام کرتے ہوئے جھوٹی تاریخ بنائی ہے اوراس گڑھی ہوئی تاریخ کو فلسطین میں اپنے ذریعہ کئے جانے والے قتل عام[۶] اور اس علاقے پر قبضے کی توجیہ کا سبب بناتے ہوئے اس جھوٹی تاریخ سے اپنے مقاصدکے حصول میں فائدہ اٹھایا ہے ۔
مصنف نے اس کتاب میں یہ استدلال کیا ہے کہ اکثر یہودی ایسی سرزمین سے متعلق ہیں جو مشرق وسطی اور مشرقی یورپ کے علاوہ ہے ، پروفسیر شلوموسینڈ کا ماننا ہے کہ صہیونیزم کی پیدائش سے قبل فلسطین کی طرف بازگشت کے خیال سے یہودی اذہان مکمل طور پر بیگانہ تھے ۔اس لئے کہ کافی مدت تک یہودی مقدس سر زمین کے علاوہ دوسری جگہوں پر رہائش پذیر تھے ۔
پروفسیر شلوموسینڈ کی کوشش غالبا یہی ہے کہ اپنےآثار میں صہیونیت کے عقائد کو چلنج کرتے ہوئے انہیں رد کیا جائے چنانچہ سند نے اس کتاب میں بھی کوشش کی ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے کی ایک جدید روایت کو پیش کیا جائے ، سند تاریخ نگاروں کے برخلاف یہودی بشپس یا خاخاموں کو صہیونیت کے معماروں میں نہیں جانتے ہیں ۔
پروفسیر شلوموسینڈ نے ایک انٹر ویو میں اپنی کتاب “قوم یہود کی جعلی داستان” کے سلسلہ سے وضاحت کرتے ہوئے کہا : “صہیونیت کی کوشش ہے کہ یہودیوں کے درمیان ایک مشترکہ نسل کا فرضیہ بنایا جائے اور دین یہود کا ایک نیا نسخہ کچھ نئے عقائد و افکار کے ساتھ پیش کیا جائے [۷]”
پروفسیر شلوموسینڈ کے دعوے کے مطابق کتاب میں یہودیوں کے در بدر ہونے کا سبب انکی رومیوں سے شکست یا انکی دیگر شکستیں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ یہودیوں اور قدیمی یہودیوں کے ما بین نسلی اشتراک خود بہ خود ٹوٹ جاتا ہے اور یہ بات بے معنی ہو جاتی ہے کہ یہ لوگ ایک ہی نسل سے ہیں[۸] ۔
پروفسیر شلوموسینڈ کے عقیدے کے مطابق یہدیوں کی رومیوں کی ذریعہ ملک بدری کی بات مکمل طور پر بے جا غلط اور جعلی ہے اور صہیونیوں نے اسے بنا سنوار کر پیش کیا ہے اگر دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو صہیونیوں نے مقدس سرزمین سے یہودیوں کے اخراج کو جو کہ ایک الہی سزا سے عبارت ہے ، تحریف کر کے تاریخ اور دین یہودیت کو تبدیل کر دیا ہے ۔
حواشی :
[۱] ۔ The Invention of the Jewish People
[۲] ۔ Shlomo Sand
[۳] ۔ Tel Aviv, Israel
[۴] ۔Linz, Austria
[۵] ۔ https://www.nytimes.com/2009/11/24/books/24jews.html
[۶] ۔ https://www.alaraby.co.uk/supplementculture/2016/4/4
[۷] ۔ https://www.theguardian.com/books/2010/jan/17/shlomo-sand-judaism-israel-jewish
[۸] ۔ https://www.theguardian.com/books/2010/jan/09/invention-jewish-people-sand-review

 

صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد

  • ۴۸۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد‘‘ (A Threat from Within: A Century of Jewish Opposition to Zionism)  مصنف اور کنیڈا کی مونٹرال یونیورسٹی کے تاریخ کے استاد پروفیسر ’’یاکوو روبکین‘‘ (Yakov M. Rabkin) کے قلم سے صفحہ قرطاس پر آنے والی کتاب ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین روس میں پیدا ہونے والے مذہب کے اعتبار سے ایک یہودی نقطہ نظر کے حامل فرد ہیں، اور انہیں بین الاقوامی برادری میں یہودیوں اور عربوں کے اسپشلٹسٹ و ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
اس کتاب میں روبکین نے یہودیوں کے دینی متون اور انکے تعلیمات نیز انکے تاریخی شواہد کی روشنی میں صہیہونیوں کے اپنے آپ کو یہودی کہلائے جانے والے دعوے کو چیلنج کیا ہے اورانکی کوشش اس کتاب میں یہ ہے کہ صہیونیوں کو دین یہود کے مقابل قرار دے کر یہ ثابت کیا جا سکے کہ صہیونیوں نے یہودیوں کے دفاع کا نعرہ دے کر یہودیوں کی حمایت کے تحت ہرگز اپنی حکومت نہیں بنائی ہے اور فلسطین یہودیوں کا ملک نہیں ہے { یہ یہودیوں کا کھوکھلا نعرہ ہے کہ ہم نے یہودیوں کی حمایت و انکے دفاع میں اسرائیل کی صورت ایک ملک بنایا ہے}
 
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، میں کے مخاطبین اس کتاب کے ذریعہ صہیون مخالف تحریکوں سے آشنا ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے یہ بات واضح و ثابت ہو جاتی ہے کہ صہیونیت نہ صرف یہ کہ حقیقت میں زوال پذیر ہے بلکی خود یہودی متون میں بھی اسے نابودی پر محکوم کیا گیا ہے ۔
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب سات فصول اور چار مقدموں پر مشتمل ہے
اس کتاب کی پہلی فصل میں مصنف نے صہیونیت کی تاریخ کو بیان کیا ہے دوسری فصل میں آئین یہود میں ہونے والی تحریفات کو بیان کیا گیا ہے
گناہ اور یہودیوں کا مقدس سرزمین سے دربدر ہونا جیسے مفاہیم نیز صہوینی تفکر کی اساس و بنیاد اور انکی فلسطین کی طرف بازگشت کو تیسری فصل میں بیان کرتے ہوئے اسکا جائزہ لیا گیا ہے ۔
چوتھی فصل کا عنوان ” طاقت کا استعمال اور زور زبردستی “ہے اور ”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب کے ایک اہم حصے پر مشتمل ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اس فصل میں صہیونیوں کے ذریعہ اپنے مقاصدکے حصول میں جبر وتشدد کو قانونی حیثیت بخشنے اوو دین یہود میں زور زبردستی کو جواز فراہم کرانےکا تجزیہ کیا ہے نیز صہیونیوں کے اقتصادی و سیاسی تسلط کا بخیہ ادھیڑتے ہوئے اسکی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی پانچویں فصل میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے سلسلہ سے سے اخذ کئے جانے والے مواقف اور حکومت اسرائیل کے سلسلہ سے ماخوذہ فیصلوں کے پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف موقفوں کے درمیان کے فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ سے وہ کہتے ہیں “سرزمین اسرائیل پر بسنے والے بیشتر لوگ انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونیوں کے ظاہر ہونے کے سلسلہ سے نفرت کا اظہار کرتے رہے تھے { انکے خیال میں صہیونیوں کا انیسویں صدی میں ظہور نامبارک تھا اور وہ صہیونی تحریک سے ناخوش تھے } چنانچہ یروشلم کے مومن یہودی ان افراد میں تھے جنہوں نے سب سے پہلے حقیقت میں ان نو واردوں کے سلسلہ سے اظہار خیال کیا اور تورات کے خلاف شورش کرنے والوں کے طور پر انہیں پیش کرتے ہوئے شر انگیز و خطرناک قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی چھٹی فصل میں ان افکار و نظریات کو پیش کیا ہے جواسرائیلی حکومت کی تشکیل کی نسبت اور یہودیت کے دوام نیز یہود مخالفت کے سلسلہ سے بیان ہونے والے نظریات کی بہ نسبت بیان ہوئے ہیں ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے کتاب کے اس حصے میں اسرائیل کو خطرے کی دہلیز پر قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو یہودیوں کی بے ثباتی کا سبب بیان کیا ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اپنی کتاب ”صہیونیت کے خلاف یہودیوںکی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، کے آخر میں پروفیسر یوہن سلیمن اور بت مورشا فیکلٹی کے طالب علموں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔

 

کتاب ’فلسطین، امریکیوں کی نگاہ میں‘ کا تعارف

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکومت اور وہاں کے باشندوں کی فلسطین کے سلسلہ میں شناخت کی بنیاد کو امریکی رائے عامہ پر مسلط ،فرہنگی و ثقافتی ،اجتماعی اور سیاسی آئیڈیلس کی طرف توجہ کر کے دریافت کیا جا سکتا ہے ، (یعنی آج اگر کوئی چاہے کہ فلسطین کے سلسلہ سے امریکہ کے لوگوں اور وہاں کی حکومت کے موقف کو جانے اور یہ سمجھنا چاہے کہ فلسطینیوں کے سلسلہ سے امریکی شناخت کا مبنا کیا ہے تو ضروری ہے کہ وہ وہاں کی رائے عامہ پر مسلط آئیڈیلس کی طرف رجوع کرے )سرزمین فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قبضہ سے برسوں پہلے امریکہ کی رائے عامہ نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا، اس دو قطبی دنیا کے زاویہ دید میں جو بظاہر سامراجیت imperialism [1] امپریالزم کے خیر خواہانہ مفروضہ سے فروغ حاصل کر رہا تھا ، دنیا دو حصوں میں منقسم تھی ، ایک طرف وہ متمدن مغرب تھا کہ جو فنی مہارتوں کا حامل تھا ،دنیا کی پیشرفت کا نمائندہ تھا اور دنیا کے لئے ایک کار آمد ماڈل جسکی پیروی دنیا ایک آئیڈیل کے طور پر کر سکتی تھی ،دوسری طرف پچھڑا ہوا مشرق تھا جو اپنی ترقی و پیشرفت کے لئے رہنمائی و ہدایت کا محتاج تھا کہ کوئی اسکی انگلی تھام کر اسے ترقی کے زینوں پر گامزن کر سکے
دنیا میں بسنے والے انسانوں کی شرق و غرب کے محور پریہ تقسیم صرف امریکی عوام کے اذہان میں نہ تھی بلکہ امریکہ کے شعر و لٹریچر میں بھی اپنی پیٹھ بنا چکی تھی ، اور غیر مغربی ممالک کے سلسلہ سے انکی نظر یورپ کی طرح ایک ایسے دو قطبی تصور کائنات سے ماخوذ تھی جس میں دنیا دو حصوں میں امپریا لسٹی طرز فکر سے ماخوذ نتائج کے طور پر تقسیم ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں » [۲]ویسٹ چسٹر یونیورسٹی [۳]میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد لاورنیس ڈیوڈسان[۴] ، کے قلم سے سپرد قرطاس ہونے والی ایک تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں مصنف نے فلسطین اور صہیونزم کے سلسلہ سے امریکی حکام اور امریکی باشندوں کے درک و فہم اور اس مسئلہ کے سلسلہ سے انکے تصور کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، یہ کتاب نو فصلوں پر مشتمل ہے جن میں فلسطین کے اسٹراٹیجک محل وقوع کے سلسلہ سے عالمی صہوینزم و امریکہ کے نقطہ نظر کی مصداقی اور تاریخی حقیقت کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بین الاقوامی صہیونی سیاست کے ساتھ انکے طرز فکر خاص کرامریکہ کے زاویہ نظر کو اس سلسلہ سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں »، بیسوی صدی کے نصف میں لگے پیکر بشریت پر کاری و گہرے زخم کے سلسلہ سے انجام پانے والی ایک بیرونی و ابجیکٹیو objective تحقیق ہے ۔
 
کتاب کے مصنف لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، کا ماننا ہے کہ ۱۹۱۷ ء میں اعلان بالفور [۵]کے بعد ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل تک صہیونیت کی یہی کوشش رہی کہ فلسطین کو ایک یہودی نشین ریاست میں تبدیل کر دیا جائے ،اور اسی بنا پر صہیونیت مغرب کے فلسطین سے مذہبی و انجیلی رابطہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی ( یعنی صہیونیوں نے عیسائیوں کے فلسطین سے مذہبی رابطہ کا غلط فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے سلسلہ سے استعمال کیا ) مصنف کا ماننا ہے کہ یہی رجحان اس بات کا سبب بنا کہ امریکہ کے باسی صہیونیت کو ایک خیر خواہانہ اور اپنے حق میں مفید سامراجیت امپریالسزم imperialism کی حیثیت سے دیکھیں جس نے ایک تمدن اور شاد و آباد و زندگی کو پچھڑے ہوئے فلسطین پر ارزاں رکھا ( یعنی یہ خیر خواہانہ سامراجی امپریالسیٹی زوایہ دید سبب بنا کہ امریکہ کے لوگ اسے ایک تمدن کے پھلنے پھولنے اور اور خوشحالی و ترقی کا سبب جانیں اور انہوں نے پچھڑے فلسطین پر آباد اسرائیل کو مقدم جانا )
لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، اپنی اس کتاب میں امریکی حکام کے ذریعہ فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کر دینے کے مراحل اور اسکی سیر کی طرف بھی کتاب میں اشارہ کرتے ہیں اور انکا ماننا ہے کہ ۱۹۴۵ تک امریکی صہیونی اپنے اہداف تک پہچنے کے لئے جو مقدمہ چینی کر رہے تھے اس میں وزارت خارجہ کا روڑا اٹکا تھا اور خود امریکی وزارت خارجہ انکے اہداف کے حصول میں مانع بن رہی تھی ۔ چنانچہ مصنف نے اس کتاب میں فلسطین میں طرفین کی لڑائی کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مخاصمہ کی روز افزوں کیفیت کے سلسلہ سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح عالمی صہیونیت نے ایک طاقت ور اور عزم پیہم کے ساتھ نفوذ کر جانے والے گروہ کی صورت ایک امریکی خارجہ سیاسی پالیسی کو اپنے حق میں کر لیا، اور یہ گروہ کس طرح امریکہ کی خارجی سیاست کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال میں لانے لگا اور اسے اپنے مقاصد کے ہمراہ کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
.[۱] ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔
قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ زمانۂ سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ،فرانس، اٹلی، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔
[۲]۔ America Palestine: Popular And Official Perceptions From Balfour To Israeli Statehood
.[۳] ۔ Pennsylvania
[۴] ۔ لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، ، نے امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی روٹگیرز یونیورسٹی Rutgers University، سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں جارج ٹاون یونیورسٹی سےوابستہ ہوئے ۱۹۷۰ ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینڈا کی غرض سے ترک کر دیا اورقیام کینڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈیوڈسان ۱۹۸۹ ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہوگئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں رسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے ،
[۵] ۔اعلانِ بالفور اس اعلان کو کہا جاتا ہے جس کے بموجب برطانوی حکومت کی صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ ۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو ۲ نومبر ۱۹۰۱۷ء کو آرتھر جیمز بالفور (سیکریٹری خارجہ) نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو یہودی ریاست کی تشکیل میں مدد کا یقین دلایا تھا اس خط سے یہ بھی واضح تھا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں ۳۱ ,اکتوبر۱۹۱۷ کو ہو چکی ہےچانچہ اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جمی کارٹر کی کتاب ’’فلسطین، امن نہ کہ نسل پرستی‘‘

  • ۳۵۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “فلسطین، امن نہ کہ نسل پرستی” (۱) سابق امریکی صدر جمی کارٹر (۱۹۸۱ـ۱۹۷۷) کی تحریر ہے۔
یہ مشرق وسطی کا اہم ترین اور حساس ترین دور تھا جب امریکی خارجہ پالیسی جمی کارٹر کے ہاتھ میں تھی اور ان ہی کے زمانے میں مصر کے سابق صدر انورالسادات اور یہودی ریاست کے وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان کیمپ ڈیویڈ معاہدہ طے پایا۔
جیمی کارٹر کی صدارت کا دور ختم ہوا تو بھی انھوں نے مختلف سیاسی مشنز کے ضمن میں مشرق وسطی کے موضوع اور امن کے کئی علاقائی اور عالمی منصوبوں کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے رکھا۔ چنانچہ مشرق وسطی کے حالات اور تبدیلیوں کے بہتر ادراک کے لئے کارٹر کی آراء سے واقفیت مفید ہے اور ان کی کتاب کا مطالعہ صرف اسی لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ مشرق وسطی کے مطالعے کو زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھایا جاسکے۔
وہ اپنی کتاب میں ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی کے آغاز سے علاقے کے جائزے کا آغاز کرتے ہیں اور علاقے کے پیچیدہ حالات کی بنا پر اٹھائے گئے سوالات پیش کرکے ان کے لئے اپنی سوچ کی بنیاد پر مناسب جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کارٹر کہتے ہیں: “کوئی بھی خیالی افسانہ فلسطین ـ اسرائیل تنازعے کے خاتمے کی کوششوں سے زیادہ سنسنی خیز، غیر متوقع واقعات اور حیرت انگیز کرداروں سے بھرپور نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصر تاریخ کا دلچسپ ترین، اور حقیقتاً اہم ترین سیاسی اور عسکری فلسطین کا مسئلہ ہے”۔
کارٹر کی رائے کے مطابق مشرق وسطی دنیا کا غیر مستحکم ترین علاقہ ہے، اور یہ عدم استحکام عالمی سلامتی کے لئے دائمی ابدی خطرہ ہے۔
 
جمی کارٹر کی نظر میں، دو بنیادی اسباب نے علاقے میں تشدد اور عوامی اٹھان کو مدد بہم پہنچائی ہے:
٭ امریکہ ـ جو خود عالمی صہیونیت کا اطاعت گذار ہے ـ یہودی ریاست کے غیر قانونی اقدامات سے چشم پوشی کرتا ہے اور ان غیر قانونی اقدامات کا انتظام و انصرام حالیہ برسوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے ہاتھ میں رہا ہے۔
٭ بین الاقوامی راہنماؤں کو لالچ دلا کر انہیں سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرنا، جنہوں نے امریکہ کی اس غیر سرکاری پالیسی کو علاقے میں مسلط ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور ایک تاریخی قوم کی قدیم سرزمین پر ایک جعلی ریاست معرض وجود پر آئی ہے۔
کارٹر کا خیال ہے کہ امریکہ نے عالمی صہیونیت کے ہاتھوں سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے جیسے عمل کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ غاصبوں کے ساتھ پورا پورا تعاون بھی کیا اور یوں اس ملک نے اپنے بین الاقوامی اعتبار اور خیرسگالی کے اصولوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Palestine peace not apartheid