-
Wednesday, 27 May 2020، 08:32 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد‘‘ (A Threat from Within: A Century of Jewish Opposition to Zionism) مصنف اور کنیڈا کی مونٹرال یونیورسٹی کے تاریخ کے استاد پروفیسر ’’یاکوو روبکین‘‘ (Yakov M. Rabkin) کے قلم سے صفحہ قرطاس پر آنے والی کتاب ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین روس میں پیدا ہونے والے مذہب کے اعتبار سے ایک یہودی نقطہ نظر کے حامل فرد ہیں، اور انہیں بین الاقوامی برادری میں یہودیوں اور عربوں کے اسپشلٹسٹ و ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
اس کتاب میں روبکین نے یہودیوں کے دینی متون اور انکے تعلیمات نیز انکے تاریخی شواہد کی روشنی میں صہیہونیوں کے اپنے آپ کو یہودی کہلائے جانے والے دعوے کو چیلنج کیا ہے اورانکی کوشش اس کتاب میں یہ ہے کہ صہیونیوں کو دین یہود کے مقابل قرار دے کر یہ ثابت کیا جا سکے کہ صہیونیوں نے یہودیوں کے دفاع کا نعرہ دے کر یہودیوں کی حمایت کے تحت ہرگز اپنی حکومت نہیں بنائی ہے اور فلسطین یہودیوں کا ملک نہیں ہے { یہ یہودیوں کا کھوکھلا نعرہ ہے کہ ہم نے یہودیوں کی حمایت و انکے دفاع میں اسرائیل کی صورت ایک ملک بنایا ہے}
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، میں کے مخاطبین اس کتاب کے ذریعہ صہیون مخالف تحریکوں سے آشنا ہو جاتے ہیں اور ان کے لئے یہ بات واضح و ثابت ہو جاتی ہے کہ صہیونیت نہ صرف یہ کہ حقیقت میں زوال پذیر ہے بلکی خود یہودی متون میں بھی اسے نابودی پر محکوم کیا گیا ہے ۔
”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب سات فصول اور چار مقدموں پر مشتمل ہے
اس کتاب کی پہلی فصل میں مصنف نے صہیونیت کی تاریخ کو بیان کیا ہے دوسری فصل میں آئین یہود میں ہونے والی تحریفات کو بیان کیا گیا ہے
گناہ اور یہودیوں کا مقدس سرزمین سے دربدر ہونا جیسے مفاہیم نیز صہوینی تفکر کی اساس و بنیاد اور انکی فلسطین کی طرف بازگشت کو تیسری فصل میں بیان کرتے ہوئے اسکا جائزہ لیا گیا ہے ۔
چوتھی فصل کا عنوان ” طاقت کا استعمال اور زور زبردستی “ہے اور ”صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، نامی کتاب کے ایک اہم حصے پر مشتمل ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اس فصل میں صہیونیوں کے ذریعہ اپنے مقاصدکے حصول میں جبر وتشدد کو قانونی حیثیت بخشنے اوو دین یہود میں زور زبردستی کو جواز فراہم کرانےکا تجزیہ کیا ہے نیز صہیونیوں کے اقتصادی و سیاسی تسلط کا بخیہ ادھیڑتے ہوئے اسکی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی پانچویں فصل میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے سلسلہ سے سے اخذ کئے جانے والے مواقف اور حکومت اسرائیل کے سلسلہ سے ماخوذہ فیصلوں کے پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف موقفوں کے درمیان کے فرق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ سے وہ کہتے ہیں “سرزمین اسرائیل پر بسنے والے بیشتر لوگ انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونیوں کے ظاہر ہونے کے سلسلہ سے نفرت کا اظہار کرتے رہے تھے { انکے خیال میں صہیونیوں کا انیسویں صدی میں ظہور نامبارک تھا اور وہ صہیونی تحریک سے ناخوش تھے } چنانچہ یروشلم کے مومن یہودی ان افراد میں تھے جنہوں نے سب سے پہلے حقیقت میں ان نو واردوں کے سلسلہ سے اظہار خیال کیا اور تورات کے خلاف شورش کرنے والوں کے طور پر انہیں پیش کرتے ہوئے شر انگیز و خطرناک قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔
پروفیسر یاکوو روبکین کتاب کی چھٹی فصل میں ان افکار و نظریات کو پیش کیا ہے جواسرائیلی حکومت کی تشکیل کی نسبت اور یہودیت کے دوام نیز یہود مخالفت کے سلسلہ سے بیان ہونے والے نظریات کی بہ نسبت بیان ہوئے ہیں ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے کتاب کے اس حصے میں اسرائیل کو خطرے کی دہلیز پر قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے وجود کو یہودیوں کی بے ثباتی کا سبب بیان کیا ہے ۔
پروفیسر یاکوو روبکین نے اپنی کتاب ”صہیونیت کے خلاف یہودیوںکی ایک صدی پر مشتمل جدو جہد ،، کے آخر میں پروفیسر یوہن سلیمن اور بت مورشا فیکلٹی کے طالب علموں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔