-
Monday, 25 May 2020، 06:48 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب “فلسطین، امن نہ کہ نسل پرستی” (۱) سابق امریکی صدر جمی کارٹر (۱۹۸۱ـ۱۹۷۷) کی تحریر ہے۔
یہ مشرق وسطی کا اہم ترین اور حساس ترین دور تھا جب امریکی خارجہ پالیسی جمی کارٹر کے ہاتھ میں تھی اور ان ہی کے زمانے میں مصر کے سابق صدر انورالسادات اور یہودی ریاست کے وزیر اعظم مناخم بیگن کے درمیان کیمپ ڈیویڈ معاہدہ طے پایا۔
جیمی کارٹر کی صدارت کا دور ختم ہوا تو بھی انھوں نے مختلف سیاسی مشنز کے ضمن میں مشرق وسطی کے موضوع اور امن کے کئی علاقائی اور عالمی منصوبوں کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے رکھا۔ چنانچہ مشرق وسطی کے حالات اور تبدیلیوں کے بہتر ادراک کے لئے کارٹر کی آراء سے واقفیت مفید ہے اور ان کی کتاب کا مطالعہ صرف اسی لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ مشرق وسطی کے مطالعے کو زیادہ بہتر انداز سے آگے بڑھایا جاسکے۔
وہ اپنی کتاب میں ۱۹۷۰ع کی دہائی کے آغاز سے علاقے کے جائزے کا آغاز کرتے ہیں اور علاقے کے پیچیدہ حالات کی بنا پر اٹھائے گئے سوالات پیش کرکے ان کے لئے اپنی سوچ کی بنیاد پر مناسب جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کارٹر کہتے ہیں: “کوئی بھی خیالی افسانہ فلسطین ـ اسرائیل تنازعے کے خاتمے کی کوششوں سے زیادہ سنسنی خیز، غیر متوقع واقعات اور حیرت انگیز کرداروں سے بھرپور نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ معاصر تاریخ کا دلچسپ ترین، اور حقیقتاً اہم ترین سیاسی اور عسکری فلسطین کا مسئلہ ہے”۔
کارٹر کی رائے کے مطابق مشرق وسطی دنیا کا غیر مستحکم ترین علاقہ ہے، اور یہ عدم استحکام عالمی سلامتی کے لئے دائمی ابدی خطرہ ہے۔
جمی کارٹر کی نظر میں، دو بنیادی اسباب نے علاقے میں تشدد اور عوامی اٹھان کو مدد بہم پہنچائی ہے:
٭ امریکہ ـ جو خود عالمی صہیونیت کا اطاعت گذار ہے ـ یہودی ریاست کے غیر قانونی اقدامات سے چشم پوشی کرتا ہے اور ان غیر قانونی اقدامات کا انتظام و انصرام حالیہ برسوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کانگریس کے ہاتھ میں رہا ہے۔
٭ بین الاقوامی راہنماؤں کو لالچ دلا کر انہیں سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ کرنا، جنہوں نے امریکہ کی اس غیر سرکاری پالیسی کو علاقے میں مسلط ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور ایک تاریخی قوم کی قدیم سرزمین پر ایک جعلی ریاست معرض وجود پر آئی ہے۔
کارٹر کا خیال ہے کہ امریکہ نے عالمی صہیونیت کے ہاتھوں سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے جیسے عمل کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ غاصبوں کے ساتھ پورا پورا تعاون بھی کیا اور یوں اس ملک نے اپنے بین الاقوامی اعتبار اور خیرسگالی کے اصولوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Palestine peace not apartheid