کتاب ’فلسطین، امریکیوں کی نگاہ میں‘ کا تعارف

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکی حکومت اور وہاں کے باشندوں کی فلسطین کے سلسلہ میں شناخت کی بنیاد کو امریکی رائے عامہ پر مسلط ،فرہنگی و ثقافتی ،اجتماعی اور سیاسی آئیڈیلس کی طرف توجہ کر کے دریافت کیا جا سکتا ہے ، (یعنی آج اگر کوئی چاہے کہ فلسطین کے سلسلہ سے امریکہ کے لوگوں اور وہاں کی حکومت کے موقف کو جانے اور یہ سمجھنا چاہے کہ فلسطینیوں کے سلسلہ سے امریکی شناخت کا مبنا کیا ہے تو ضروری ہے کہ وہ وہاں کی رائے عامہ پر مسلط آئیڈیلس کی طرف رجوع کرے )سرزمین فلسطین پر غاصب اسرائیل کے قبضہ سے برسوں پہلے امریکہ کی رائے عامہ نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا، اس دو قطبی دنیا کے زاویہ دید میں جو بظاہر سامراجیت imperialism [1] امپریالزم کے خیر خواہانہ مفروضہ سے فروغ حاصل کر رہا تھا ، دنیا دو حصوں میں منقسم تھی ، ایک طرف وہ متمدن مغرب تھا کہ جو فنی مہارتوں کا حامل تھا ،دنیا کی پیشرفت کا نمائندہ تھا اور دنیا کے لئے ایک کار آمد ماڈل جسکی پیروی دنیا ایک آئیڈیل کے طور پر کر سکتی تھی ،دوسری طرف پچھڑا ہوا مشرق تھا جو اپنی ترقی و پیشرفت کے لئے رہنمائی و ہدایت کا محتاج تھا کہ کوئی اسکی انگلی تھام کر اسے ترقی کے زینوں پر گامزن کر سکے
دنیا میں بسنے والے انسانوں کی شرق و غرب کے محور پریہ تقسیم صرف امریکی عوام کے اذہان میں نہ تھی بلکہ امریکہ کے شعر و لٹریچر میں بھی اپنی پیٹھ بنا چکی تھی ، اور غیر مغربی ممالک کے سلسلہ سے انکی نظر یورپ کی طرح ایک ایسے دو قطبی تصور کائنات سے ماخوذ تھی جس میں دنیا دو حصوں میں امپریا لسٹی طرز فکر سے ماخوذ نتائج کے طور پر تقسیم ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں » [۲]ویسٹ چسٹر یونیورسٹی [۳]میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد لاورنیس ڈیوڈسان[۴] ، کے قلم سے سپرد قرطاس ہونے والی ایک تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتاب ہے ، اس کتاب میں مصنف نے فلسطین اور صہیونزم کے سلسلہ سے امریکی حکام اور امریکی باشندوں کے درک و فہم اور اس مسئلہ کے سلسلہ سے انکے تصور کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، یہ کتاب نو فصلوں پر مشتمل ہے جن میں فلسطین کے اسٹراٹیجک محل وقوع کے سلسلہ سے عالمی صہوینزم و امریکہ کے نقطہ نظر کی مصداقی اور تاریخی حقیقت کو پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بین الاقوامی صہیونی سیاست کے ساتھ انکے طرز فکر خاص کرامریکہ کے زاویہ نظر کو اس سلسلہ سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
«فلسطین :امریکیوں کی نگاہ میں »، بیسوی صدی کے نصف میں لگے پیکر بشریت پر کاری و گہرے زخم کے سلسلہ سے انجام پانے والی ایک بیرونی و ابجیکٹیو objective تحقیق ہے ۔
 
کتاب کے مصنف لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، کا ماننا ہے کہ ۱۹۱۷ ء میں اعلان بالفور [۵]کے بعد ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل تک صہیونیت کی یہی کوشش رہی کہ فلسطین کو ایک یہودی نشین ریاست میں تبدیل کر دیا جائے ،اور اسی بنا پر صہیونیت مغرب کے فلسطین سے مذہبی و انجیلی رابطہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتی رہی ( یعنی صہیونیوں نے عیسائیوں کے فلسطین سے مذہبی رابطہ کا غلط فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے سلسلہ سے استعمال کیا ) مصنف کا ماننا ہے کہ یہی رجحان اس بات کا سبب بنا کہ امریکہ کے باسی صہیونیت کو ایک خیر خواہانہ اور اپنے حق میں مفید سامراجیت امپریالسزم imperialism کی حیثیت سے دیکھیں جس نے ایک تمدن اور شاد و آباد و زندگی کو پچھڑے ہوئے فلسطین پر ارزاں رکھا ( یعنی یہ خیر خواہانہ سامراجی امپریالسیٹی زوایہ دید سبب بنا کہ امریکہ کے لوگ اسے ایک تمدن کے پھلنے پھولنے اور اور خوشحالی و ترقی کا سبب جانیں اور انہوں نے پچھڑے فلسطین پر آباد اسرائیل کو مقدم جانا )
لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، اپنی اس کتاب میں امریکی حکام کے ذریعہ فلسطین کو یہودی ریاست میں تبدیل کر دینے کے مراحل اور اسکی سیر کی طرف بھی کتاب میں اشارہ کرتے ہیں اور انکا ماننا ہے کہ ۱۹۴۵ تک امریکی صہیونی اپنے اہداف تک پہچنے کے لئے جو مقدمہ چینی کر رہے تھے اس میں وزارت خارجہ کا روڑا اٹکا تھا اور خود امریکی وزارت خارجہ انکے اہداف کے حصول میں مانع بن رہی تھی ۔ چنانچہ مصنف نے اس کتاب میں فلسطین میں طرفین کی لڑائی کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مخاصمہ کی روز افزوں کیفیت کے سلسلہ سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح عالمی صہیونیت نے ایک طاقت ور اور عزم پیہم کے ساتھ نفوذ کر جانے والے گروہ کی صورت ایک امریکی خارجہ سیاسی پالیسی کو اپنے حق میں کر لیا، اور یہ گروہ کس طرح امریکہ کی خارجی سیاست کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال میں لانے لگا اور اسے اپنے مقاصد کے ہمراہ کر لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
.[۱] ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔
قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ زمانۂ سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ،فرانس، اٹلی، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔
[۲]۔ America Palestine: Popular And Official Perceptions From Balfour To Israeli Statehood
.[۳] ۔ Pennsylvania
[۴] ۔ لاورنیس ڈیوڈسان Lawrence Davidson ، ، نے امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی روٹگیرز یونیورسٹی Rutgers University، سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں جارج ٹاون یونیورسٹی سےوابستہ ہوئے ۱۹۷۰ ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینڈا کی غرض سے ترک کر دیا اورقیام کینڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈیوڈسان ۱۹۸۹ ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہوگئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں رسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے ،
[۵] ۔اعلانِ بالفور اس اعلان کو کہا جاتا ہے جس کے بموجب برطانوی حکومت کی صیہونی یہودیوں سے ایک خفیہ معاہدے کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ ۔ اس اعلان کی علامت برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک خط کو سمجھا جاتا ہے جو ۲ نومبر ۱۹۰۱۷ء کو آرتھر جیمز بالفور (سیکریٹری خارجہ) نے صیہونیوں کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں برطانیہ نے صیہونیوں کو یہودی ریاست کی تشکیل میں مدد کا یقین دلایا تھا اس خط سے یہ بھی واضح تھا کہ اس معاہدہ کی توثیق برطانوی کابینہ کے ایک خفیہ اجلاس میں ۳۱ ,اکتوبر۱۹۱۷ کو ہو چکی ہےچانچہ اسی اعلان کے تحت اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی