صہیونی تنظیم پروشیم(parushim) کا تعارف

  • ۴۰۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے سیاستمداروں پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فلسطین کے غاصب پیشواؤں کا تعارف

  • ۳۹۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامی ہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں درج ذیل افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود وباش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آجانے کے بعدمصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔
جنرل ایلن بی
آزادی خواہ عربوں کی حمایت میں امریکہ ، انگلینڈ ، اٹلی اور فرانس نے اپنی اپنی جو فوج بھیجی تھی جنرل ایلن بی اس کا سربراہ تھا اس نے جنرل ایلن بی (Allenby نے اپنی حکمت عملی سے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کیا ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ ؁ ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔(۱) اس جنرل نے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کے بعدبرطانیہ ایک خط بھیجا جس میں انقلابی عربوں کی خدمات کو سراہا ہے ، خط کا مضمون اس طرح تھا :
۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ ؁ ء :آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت سے جو جنگ لڑی جا رہی تھی وہ ہم نے جیت لی اس کامیابی کا سہرا عربوں پر ہے انہوں نے جی جان سے ہماری مدد کی ۔
جنرل ایلن بی کے اس اعتراف حمایت کے بعد بھی استعمار نے آزادی خواہ عربوں کو آزادی کے بجائے اس وقت سے یہودیوں کی اسارت واذیت کی آماجگاہ بنا دیا ۔
فلسطین پر فتح کے بعد جنرل ایلن بی نے اعلان کیا کہ فلسطین فوج کے کنٹرول میں ہے اس کا نظم و نسق آزادی خواہ عربوں کے بجائے فوج انگلستان انجام دیا کرے گی ۔
ممکن تھا کہ اس اعلان سے عربوں میں بے چینی و بے اطمینانی پیدا ہوں لہٰذا فوراً انگلینڈ و فرانس نے عوام کے ذہنوں کے شک و شبہ کو بر طرف کرنے کیلئے سربراہ فوج کی طرف سے یہ بیانیہ منتشرکیا ۔
انگلستان و فرانس کی مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی صرف اس لئے تھی کہ عرب کی مجبور وبیکس قوم کو ترکوں کی غلامی سے رہا کرائیں تاکہ یہ آزادانہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں ۔ انگلستان و فرانس جیسی عادل حکومت ان کی مدد سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں بھی انگلستان و فرانس کی عادل حکومت اسی طرح کی آزادی دلاتی رہے گی ۔ اس اعلان نے عربوں کے ذہنوں سے بچے کھچے شبہ کو بھی نکال دیا ۔
ڈاکٹر وائز مین
مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹ Chemist کا پروفیسر تھا عقیدے کے اعتبار سے کٹر یہودی تھا، اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے انگلینڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں اس شخص نے انگریزوں سے کہا تھا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سر زمین فلسطین پر یہودیوں کا قومی وطن قائم کردیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانے ان کے قدموں تلے قربان کر دئے جائیں گے ۔آخر کار ۱۹۱۷ ؁ ء میں انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا ، لہٰذا انگریزوں نے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ فلسطین کو ایک آزاد یہودی وطن بنا دیں گے ،لہٰذا جب کامیابی مل گئی تو انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ جال بچھایا جس میں آج تک فلسطین الجھا ہوا ہے اسرائیل کی غصبی حکومت کا یہ شخص پہلا صدر تھا ۔
عربوں نے جس وقت انگلستان کی در پردہ یہود نوازی کو بھانپا تو ان میں یہودیوں کے خلاف بغاوت و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، ہر عربی ملک نے فلسطین بچاؤ تحریک میں حصہ لیا اور یہودیوں کا بائکاٹ کیا ، اس بائکاٹ نے ساٹھ فیصد یہودیوں کو بے روزگار بنا دیا ، اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے یہودیوں کی پیغام دیا کہ تم لوگ اس وقت تاریخ کے نہایت سخت ترین دور سے گذر رہے ہو ، صبر وضبط کا مظاہرہ کرو ۔اس اعلان کے فوراً بعد شر پسند یہودیوں نے برطانیہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اسلحوں کا مطالبہ کیا ، بوڑھی برطانیہ نے پانچ ہزار قبضے توپ وتفنگ اور بم فلسطین کے غاصب یہودیوں کو روانہ کیا جسے پانے کے بعد انہوں نے گھنی آبادیوں ، سبزی منڈیوں میں عربوں پر حملے کئے ، انڈوں کی ٹرے اور سبزیوں کی ٹوکروں میں بم رکھے جس کے پھٹنےکے بعد پہلی بار چوہتر (۷۴) فلسطینی جاں بحق اور ایک سو تیس (۱۳۰)زخمی ہوئے ،اس دن سے آج تک بے گناہ عورتوں بچوں بیماروں ، مزدوروں اور طالب علموں کویہود خاک و خون میں آلودہ کر رہے ہیں ۔
بالفور (Balfour)
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ، ان پر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گے ان بڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل (Dr Theodore Hertzel)
ایک عام سا مقالہ نویس تھا رفتہ رفتہ اسی مقالہ نویسی سے لوگوں میں پہچانا جانے لگا ، کچھ دنوں بعد پیرس کے اخبار کا خبر نگار بنایا گیا لیکن اس کو شہرت تمام اس وقت حاصل ہوئی جب فرانس کے اسلحہ خانے کے دریفوس نامی یہودی افسر پر الزام تھا کہ اس نے فرانس کے خفیہ اسرار جاپان کو منتقل کر دئے ہیں ، اس خبر کے عام ہوتے ہی فرانسیسیوں میں یہودیوں کے خلاف غم و غصہ بھڑک اٹھا اور انہیں غدار و خائن کے لفظ سے پکارا جانے لگا ، جہاں کہیں یہودی ہوتے ان کو فرانسیسی حقارت ، نفرت ، اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ۔
ملکی پیمانے پر اس حقارت کے باوجود یہودی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ دس سال تک اس کوشش میں رہے کہ کسی صورت سے مقدمے کی دوبارہ اپیل کا موقع مل جائے ، آخر کار اس سلسلے میں یہودیوں کو کامیابی ملی اور اسناد جاسوسی کو پھر سے کھنگالا گیا اور آخر کار مجرم کو بے خطا ثابت کرا دیا ۔
اس پورے واقعہ کا پیرو یہی اخباری نمائندہ ڈاکٹر ہرٹزل تھا اس نے اپنے ایک یہودی بھائی کو نہیں بچایا تھا بلکہ یہودی برادری کو جس حقارت و نفرت سےفرانس میں دیکھا جا رہا تھا اس سے آزاد کرایا تھا ۔اس مقدمہ کی کامیابی نے ہرٹزل کو یہودیوں کا قائد و رہبر بنا دیا ۔
اسی ہرٹزل نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے کہا تھا کہ اگر وہ سر زمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں تو یہودی ترکی کے تمام قرضوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ، لیکن سلطان نے یہ کہتے ہوئے اس کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ جس سر زمین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون دیکر حاصل کیا ہے اس کو چنددرہموں کے بدلہ نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ہرٹزل نے اپنی کتاب ’’مملکت یہود‘‘ میں یہودیوں کو پیغام دیا :
یہودیو! تم لوگ دنیا میں پراگندہ ہو اسی لئے ان ممالک کی اذیت و ذلت برداشت کررہے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے ملک کی اذیتوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو اسے کسی ایسی جگہ ہجرت کرکے پہنچناچاہئے جہاں وہ مستقل اپنا ایک ملک بنا سکے ۔اس شخص نے یہودیوں کے درمیان باہمی رابطہ مضبوط کر نے کےلئے ایک تنظیم بنائی ،تاکہ یہودیوں کی اقتصادی ،سیاسی ،سماجی اطلاع رکھی جا سکے ۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
کانفرنس کی جو بنیاد ہرٹزل نے رکھی تھی آج تک یہودیوں میں جاری ہے۔
مآخذ: فلسطین خونبار تعارف اور جائزہ

 

یہودیت کے ناقد جیمز پیٹرس (James Petras) کا تعارف

  • ۴۶۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جیمز پیٹراس(James Petras) امریکہ کی بنگ ہمٹن (Binghamton) یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے پروفیسر تھے۔ ۱۷ جنوری ۱۹۳۷ میں آپ پیدا ہوئے۔ آپ نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پیٹرس نے سیاسی موضوعات میں لاطینی امریکہ، مشرق وسطی، شاہیزم، گلوبلائزیشن اور بائیں سماجی تحریکوں پر خصوصی اور جامع مطالعہ کیا۔ انہوں نے ۶۳ عناوین پر مختلف کتابیں تالیف کیں اور ۲۹ زبانوں میں ان کی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ علاوہ از ایں ان کے ۶۵۰ علمی مقالے مختلف تخصصی جرائد(۱) میں منظر عام پر آئے ہیں جبکہ ۲ ہزار کے قریب غیر تخصصی جرائد(۲) میں چھپے ہیں۔ امریکہ کے معروف پبلیکیشن سینٹروں جیسے روٹلیج (routledge) رنڈم ہاؤس (Random House) اور میک میلن (macmillan) نے پیٹرس کی کتابوں کو شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔(۳)
پیٹراس کے بعض قلمی آثار درج ذیل ہیں:
The Arab Revolt and the Imperialist Counterattack
War Crimes in Gaza and the Zionist Fifth Column in America
Zionism, Militarism and the Decline of US Power
The Power of Israel in the United States
Rulers and Ruled in the US Empire
جیمز پیٹراس قائل ہیں کہ امریکی یہودی اس ملک کی خارجہ پالیسی پر بے حد اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’امریکہ میں اسرائیل کی قدرت‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے یہودی اگرچہ ۲ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں لیکن ۳۰ فیصد سے زیادہ سرمایہ دار گھرانے یہودیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔(۴) جیمز قائل ہیں کہ یہودی اپنے سرمایہ سے بخوبی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی یہودی امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ۳۵ سے ۶۰ فیصد اخراجات پورا کرتے ہیں۔
۲۰۰۸ میں دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعلان کیا: تمام امریکی صدور ’’یہودی طاقت‘‘ کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہودی عالمی اور انسانی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
حواشی
[۱]American Sociological Review,British Journal of Sociology,Social Research
[۲]New York Times, The Guardian, The Nation, Christian Science Monitor, Foreign Policy, New Left Review, Partisan Review, Canadian Dimension
[۳]http://petras.lahaine.org/?page_id=4
[۴]http://vista.ir/article/114532
[۵]http://dissidentvoice.org/2008/06/a-disenchanted-james-petras

 

فلسطین کے اہم شہروں کا اجمالی تعارف

  • ۴۱۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ صوبہ ملک کا پائے تخت بھی ہے اب اس کے قدیم وبجدید نام کے دو حصے ہیں، قدیم بیت المقدس کے گرد ۱۵۲۴ ء میں دسویں عثمانی خلیفہ نے دیوار شہر تعمیر کرائی تھی اس قدیم حصہ میں ہی مسجد اقصیٰ اور دوسرے اہم تاریخی مقامات ہیں۔ یہیں پر ایک جگہ ہے کہ جسکے لئے عیسائی کہتے ہیں کہ وہاں زمانۂ قدیم میں وہ عدالت تھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی کا حکم سنایا گیا تھا اور یہیں سے وہ اپنے کاندھے پر صلیب لیکر اس مقام کی طرف بڑھے تھے جہاں انہیں سولی دینا طے کیا گیا تھا ، یہ بھی مشہور ہے کہ صلیب اتنی وزنی تھی کہ عدالت سے مقام قتل تک پہنچنے میں حضرت عیسیٰؑ بارہ جگہ تھک کر دم لینے کے لئے ٹہرے تھے۔ قرآن نے اس واقعہ کی تردید نہیں کی لیکن سولی پانے والے کو شبیہ عیسیٰ علیہ السلام قرار دیا ہے ۔
: غزہ فلسطین کا دوسرا صوبہ ہے یہاں حضرت ہاشم جد سرکار ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر ہے اسی جگہ شہر کا بڑا ایئرپورٹ بھی ہے کوزہ گری میں یہ شہر بڑی شہرت رکھتا ہے، خود غزہ صوبے کا پائے تخت بھی ہے، اس کے زیر انتظام حسب ذیل شہر ہیں:
(۱) خان یونس:
جنوب فلسطین کا آخری شہر ہے، یہاں کے کچے خرمے اپنی لطافت و ذائقے میں بہت شہرت رکھتے ہیں ۔
(۲) مجدل:
ریشم سازی اور روئی کی نمایاں کاشت کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ویران عسقلان شہر بھی اسی جگہ ہے ۔
(۳)بئر السبع :
زرعی علاقوں پر مشتمل ہے، اس کی مساحت ۱۲۵۷۶ کیلو میٹر مربع پر محیط ہے اس میں بہت ہی زرخیز حصے پائے جاتے ہیں اور پینے کے پانی کا ڈیم بھی بنایا گیا ہے، اگر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ نصف مساحت فلسطین صرف اسی بئر السبع پر محیط ہے ۔
اللّد
اس صوبے کا مرکز شہر ’’یافا‘‘ ہے صنعت و تجارت والا شہر ہے، یہاں مختلف پھل، سنگترے، مالٹے کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس صوبے کے ہی زیر نگیں مشہور شہر تل ابیب ہے یہاں صرف یہودی ساکن ہیں، اور یہ شہر شدید جنگ کا سماں پیش کرتا رہتا ہے ۔
سامرہ
اس صوبے کا مرکز نابلس ہے، صابن سازی میں اسے خاصی شہرت ہے، شہر جنین، طولکرم، قلقیلیہ، اور عنبتا، اسی صوبے کے اندر واقع ہیں۔
اس صوبہ کے دو شہر پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
الجلیل
ناصرہ اس صوبہ کا پائے تخت ہے، اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہائش تھی، یہاں کے دیرؔ بہت مشہور ہیں ۔
شہر عکا اسی صوبے کا تاریخی شہر ہے جس کے گرد مضبوط چاردیواری اور بڑے بڑے برج ہیں، مسجد’’ جامع الجزار‘‘بھی اسی جگہ ہے جس کی شہرت دور دور تک ہے ۔
اس وقت یہ شہر بہائیوں کامرکز ہے چونکہ قبر مرزا علی باب اسی جگہ ہے ۔
حیفا
اس صوبے کا پائے تخت خود اسی جگہ ہے ، بہت بڑی بندرگاہ ہے ،عراق کی تیل پائپ لائن یہیں پرہے جہاں پر صفائی ہوتی ہے، اسی جگہ سے تیل ساری دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔

 

تاریخ فلسطین پر اجمالی نظر

  • ۴۷۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  فلسطین اپنی خاص جغرافیائی جائے وقوع، حاصل خیز زمین، اور یہودیوں و مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پر تاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز کا حامل رہا ہے جناب ابراہیم کی عراق سے سرزمین فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد جناب سلیمان کی یہاں پر عظیم تاریخی حکومت سے لیکر بخت النصر کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان آپسی رسہ کشی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
مسلمانوں کے لئے آج بھی اس لئے فلسطین ایک مقدس جگہ کی صورت کعبہ دل بنا ہوا ہے کہ اس علاقہ سے مسلمانوں کا ایک اٹوٹ مذہبی رشتہ ہے اور صبح قیامت تک یہ رشتہ باقی رہنے والا ہے مسلمانوں کی دو سو سے زائد یادگاریں اسی علاقہ میں ہیں جہاں یہ مقام مسلمانوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے وہیں یہودیوں کی مذہبی یادگاروں کی بنا پر ہمیشہ سے یہ علاقہ دونوں مذاہب کی آپسی کشمکش کا سبب رہا ہے۔
فلسطین کی تاریخ پر اجمالی نظر
فلسطین کا قدیم نام کنعان ہے ، جغرافیائی اعتبار سے اسکو عرب ملکوں کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہے جو جسم کیلئے قلب کی ہوا کرتی ہے۔
ڈھائی ہزار سال قبل مسیح یعنی آج سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے جزیرۂ عرب کے چند قبیلے موجودہ فلسطین میں جاکر آباد ہوئے ، انھیں کو کنعانی کہتے ہیں ، اسی قبیلہ کے کچھ لوگ مدتوں بعد کوہ لبنان کے ساحل میں جاکر آباد ہوگئے جنھیں فینق کہا جانے لگا ۔
کنعانیوں نے کھیتی باڑی اور فینقیوں نے ملاحی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا اپنی حفاظت کیلئے شہر کے باہر چہار دیواری بنائی اور اپنی مذہبی تسکین کیلئے جو دین اختار کیا وہ تقریباً عبرانیوں کی بت پرستی سے ملتا جلتا تھا ۔ان کے بڑے بت کا نام بعل تھا، قرآن حکیم نے اس بت کا تذکرہ فرمایا ہے :
أتدعون بعلاً و تذرون احسن الخالقین
تم لوگ بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین خدا کو چھوڑ چکے ہو ۔
کنعانیوں کے مختلف قبیلے تھے ان میں سے ایک مشہور قبیلہ، یبوس تھا جوشہر قدس کے ارد گرد آباد ہوا اسی مناسبت سے آج بھی بیت المقدس کا ایک نام یبوس ہے ۔قبیلہ یبوس کی قیادت و سروری میں جو شہر اس وقت آباد ہوئے اس کے ناماریحا، بیسان ، شکیم ،نابلس ،مجد اور جازر ہیں۔
شہر اریحا کیلئے زمین شناسوں کا خیال ہے کہ تقریباً سات ہزار سال قبل تعمیر کیا گیا ہے اور دنیا کا سب سے قدیم شہر ہے ۔
ارض کنعان کا نام آخر فلسطین کیسے ہوا ؟
ارض کنعان کا نام بدل کر فلسطین کیسے ہوا اس سلسلہ میں مورخین کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد سے بارہ سو سال قبل پلست نامی ایک شخص مصر سے فرار کر کے ساحل جنوب میں آباد ہو گیا پھر اس کے نام کی مناسبت سے اصل نام بدل کر فلسطین ہوگیا ، اس شخص کے بعد فلسطین نام کی قوم کا ثبوت ’’فراعنہ مصر‘‘ اسکندر مقدومی …….کے زمانے کے پائے جانے والے آثار سے ملتا ہے ۔
مآخذ: فلسطین خونبار, تعارف اور جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت مخالف شخصیت ’’ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک‘‘ (David Ernest Duke) کا تعارف

  • ۵۷۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: طول تاریخ میں ایسے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے گوناگوں نظریات کے حامل ہونے کے باوجود صہیونیت کی فکر پر تنقید کی ہے، یہی وجہ ہے کہ محض فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں اور صہیونیوں کا ناقد و مخالف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بعض مغربی دانشورو اسکالرز نے بھی انسانی، نسلی ، قومی اور آئڈیالوجیکل بنیادوں پر صہونی فکر کا تجزیہ کیا ہے اور انکی فعالیت و سرگرمیوں پر تجزیاتی گفتگو کرتے آئے ہیں۔
انہیں مغربی دانشوروں میں صہیونی فکر کے خلاف بولنے والی ایک یہود ستیز شخصیت ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک David Ernest Duke” کی [۱]ہے
ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک کو ایک صہیون مخالف اور ماضی میں ’’کے کے کے۔k.k.k‘‘[۲]کے بلند پایہ رہبروں کے روپ میں جانا جاتا ہے۔
ڈیوڈ نے اوکلاھما [۳]ریاست کے شہر ’’ تالزا ‘‘ [۴]میں اس دنیا میں قدم رکھا ، ڈیوڈ کے اجداد و اسلاف جدید امریکہ کے معماروں اور بانیوں میں تھے۔
ڈیوڈ نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا بھی آغاز کر دیا۔
وہ اپنی کتاب ’’میری بیداری: امریکا میں یہودیوں کے سلسلہ سے ان کہی باتوں‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’نوجوانی میں ہی یہ بات میرے گھر والوں کے لئے واضح ہو گئی تھی کہ میں واعظ و مقرر تو بننے سے رہا ،اس لئے کہ میں ایک خاموش اور چپ رہنے والا شخص تھا اور ذرا بھی تقریر کے لئے مناسب نہ تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی میری مطالعہ کتب کے سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی، میرے والد کا اصرار تھا کہ روز کم سے کم میں ایک گھنٹے کا وقت تو مطالعہ کو دوں، شروع میں تو میں اس سے فرار کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی مجھے عادت پڑ گئی اور پھر میں دائم المطالعہ ہو گیا ‘‘
ڈیوڈ ماضی میں سیاہ فاموں اور قوم پرستوں کے سلسلہ سے خاص طور پر نسل پرستی کے سلسلہ سے شدت پسندانہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہجرت، و نسلی بھید بھاو جیسے موضوعات میں انکے شدت پسندانہ رجحان میں لچک پیدا ہوتی گئی، اور شدت پسندانہ نظریات کا پکا رنگ کچا ہوتا چلا گیا جسکی بنیاد پر مختلف النوع و مختلف الفکر لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی، اور ہر قسم کے لوگ ان سے جڑنے لگے ۔
ڈیوڈ ’’کے کے کے‘‘ نامی نسل پرست گروہ کے ان نو نازی اولین سربراہوں میں تھے جنہوں نے کلاں اور نازیوں کے مخصوص لباس پہننے پر روک لگائی ، اسی طرح انہوں نے ان تمام روایتی پہنے جانے والے کپڑوں کے پہننے کی میڈیا میں مخالفت کی جو نسلی تعصب کی علامت تھے اور جن سے نفرت پھیلتی تھی ، انہوں نے نفرت آمیز نسلی امتیاز کی ترجمان علامتوں کی کھل کر مخالفت کی، انہوں نے اپنے گروہ کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ شدت پسندی کے رویہ کو ترک کر دیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۲ء میں جعلی حکم ناموں اور تحریروں کے ساتھ ٹیکس سے فرار کے لئے اپنی سیاسی جدو جہد کے سلسلہ سے نقلی دستاویزات بنانے کی بنا پر پولس کو مطلوب رہے، اور چونکہ پولس انکے تعاقب میں تھی لہذا انہوں نے اپنا کچھ وقت روس اور کریمہ یوکرائن میں گزارا ان دونوں ہی مقامات پر قیام کے دوران انہوں نے یہودیوں پر اپنے تنقیدی سرگرمیوں کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھا ۔
۱۹۸۰ کی دہائی میں ڈیوڈ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکے تھے ، ۱۹۸۰ میں وہ پہلے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب امید وار کے طور پر کھڑے ہوئے ، اسکے بعد چار سال قبل ویلس کارتو کی جانب سے تاسیس پانے والی عوام پارٹی کی جانب سے صدر جمہوریہ کا انتخاب لڑنے کے لئے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ۔
۱۹۹۱ میں ریاست لویزانہ کے گورنر کے الیکشن میں بھی میدان رقابت میں امید وار کی طور پر انہوں نے اپنی قسمت آزمائی کی اور چونکہ انہیں لگتا تھا کہ سنا کے انتخابات میں انہوں نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں شاید یہ سیاسی نشیب و فراز اسی خاطر ہوں کہ وہ ہر جگہ ابھرتے نظر آئے ڈیوڈ نے اپنے الیکشن کی رقابت کے سلسلہ سے ہونے والی تشہیری مہم میں ایک مقام پر کہا: ’’یہودی اپنی نجات کے لئے تمام ثقافتوں کی نابودی کے درپے ہیں ‘‘انکا ماننا تھا کہ یہود و غیر یہود ایک قومی جنگ کے کگار پر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ’’ ان دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے درمیان جدید صدی کے آغاز کے باجود نہائی معرکہ بہت دور نہیں ہے اور ممکن ہے دونوں کے درمیان ایک نہائی ٹکراو پیش آ جائے[۵]‘‘
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے [۶]۔
حواشی :
[۱] ۔ David Ernest Duke ۔ ایک سفید فام قوم پرست امریکن مصنف جو اپنے یہود مخالف نظریات اور یہودی مخالف رجحان کی خاطر مشہور ہیں
[۲] ۔ The Ku Klux Klan (/ˈkuː ˈklʌks ˈklæn, ˈkjuː۔ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والی ایک ، کیتھولک مخالف امریکن تنظیم ، ۱۸۶۶ اور ۱۸۶۹ میں سیاہ فاموں کے امریکہ میں قتل عام میں اس تنظیم کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ لوگ مخصوص قسم کا لباس پہنتے اور ایک صلیب کے سامنے کھڑے ہو کر خاص مراسم انجام دیتے اس کے بعد ایک قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ مزید مطالعہ کے لئے رجوع کریں : Drabble, John, The FBI, COINTELPRO-WHITE HATE and the Decline of Ku Klux Klan Organizations in Mississippi, 1964-1971, Journal of Mississippi History, 66:4, (Winter 2004)
[۳] ۔ریاستہائے متحدہ امریکا کی ایک ریاست جو ۱۹۰۷ء میں وفاق امریکا میں شریک ہوئی۔ ایسی ریاست جہاں کپاس، گہیوں دوسرے اناج کا شت کیے جاتے ہیں۔ کانوں سے کوئلہ، سیسہ اور جست نکلتا ہے۔ مویشی پالنا لوگوں کا اہم پیشہ ہے۔ شمال مشرق میں تیل نکلتا ہے اور ریاست کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔یہاں امریکا کے قدیم باشندے ریڈ انڈین بھی آباد ہے۔ ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد پینسٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی رہی ہے
[۴] ۔ Tulsa، ریاست اوکلاما Oklahomaکا دوسرا سب سے بڑا اور امریکہ کا سینتالیسواں بڑا شہر
[۵] ۔ www.splcenter.org/fighting-hate/extremist-files/individual/david-duke
[۶] ۔ KKK’s David Duke Tells Iran Holocaust Conference That Gas Chambers Not Used to Kill Jews, Published December 13, 2006, Fox News
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قدس شریف اور اس کی سیاسی و جغرافیائی موقعیت

  • ۶۲۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف وحی کی حامل اور اسلامی نگاہ میں مسجد الاقصی کی وجہ سےغیر معمولی قدر و قیمت کا حامل ہے۔ قدس شریف کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ مقدس سر زمین انبیاء کی جائے سکونت اور ان کی بعثت کی جگہ ،مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور پیغمبر اعظم (ص) کے آسمانی معراج کی جانب جانے کی جگہ ہے ۔جیسا کہ بیت المقدس یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی دینی اور مذہبی لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے ۔
قدس شریف ایک مقدس شہر ہے کہ عمر بن عاص بن وائل نے صدر اسلام میں اس کو فتح کیا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ میں اس کو صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کروایا تھا سلیمان قانونی نے سولہویں صدی میں اس کی دیواریں تعمیر کی تھیں ۔یہ شہر مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ قبۃ الصخرۃ اور مسجد الاقصی دو مقدس مقامات ہیں جو اس شہر میں ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا یہ پہلا قبلہ اور دنیائے اسلام کا تیسرا حرم شریف اور پیغمبر اکرم ص کے معراج کی جانب عروج پانے کی جگہ ہے ۔
۱۹۶۷ میں جب سے قدس شریف پر صہیونیوں نے قبضہ کیا ہے اس کو اسرائیل کا دائمی پایتخت اعلان کر دیا گیا ہے۔ تمام نظریں قدس پر جمی ہوئی ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے دل اس پر ٹکے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے یہودی اس کوشش میں ہیں کہ اپنے لیے ایک تاریخ بنائیں اور انہوں نے اپنی پوری کوشش اس کو یہودی بنانے پر متمرکز کر رکھی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ دیوار ندبہ ان کی ہے ،قدس کو اس کے مقام اور مرتبے کے پیش نظر دنیا کو بہت اہم اور حساس شہر قرار دیا جانا چاہیے، اس طرح کہ اس وقت وہ اسرائیل کی غاصب حکومت اور مسلمانوں اور خاص کر قدس کے رہنے والوں کے درمیان تنازعے کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس شہر کی اصلی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ یہ تین آسمانی ادیان، اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا مرکز ہے ۔ یہ وہ مشترکہ نقطہ ہے جو اسلامی مقولے کو بیان اور مجسم کرتا ہے اور جو دوسرے ادیان اور مذاہب سے مختلف ہے ۔ خداوند عالم نے مسجد الاقصی کو اس شہر میں قرار دیا ہے اور اس کو مبارک قرار دیا ہے اور اس شہر کا انتخاب کیا ہے کہ یہ تین آسمانی ادیان کے اتصال کا مرکز بن جائے۔ لیکن اس کو یہودی بنانا اور اس میں یہودیوں کے رہائشی شہر تعمیر کرنا اور اسلامی اور وحی کے آثار کو مٹانے کی سیاست اس حکومت کی وسعت طلبی اور نسل پرستی کی سیاستوں کے ساتھ کہ جن پر اس وقت عمل ہو رہا ہے وہ بالکل اس شہر کی ماہیت اور اس مقدس شہر کے واقعی مفہوم کے ساتھ متضاد اور متعارض ہے ۔

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والا علماء/ شہید محمد مفتح

  • ۴۶۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مفتح جن کی شہادت کے دن کو حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کے درمیان اتحاد کا دن قرار دیا گیا ہے کا شمار ان مجاہد اور انقلابی علماء میں سے ہوتا ہے جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی پیروی میں زندگی بھر جبر و استکبار اور ظلم و ستم کے خلاف جنگ کی۔ اور آخر کار دشمنوں اور منافقوں نے ان کی مجاہدت اور ظلم مخالف جد و جہد کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں شہید کر دیا۔
امام خمینی (رہ) کے دیگر ساتھیوں اور شاگردوں کی طرح شہید مفتح کے نزدیک بھی عالم اسلام کے مسائل خصوصا مسئلہ فلسطین انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ رضا شاہ کے دور میں حکومت مخالف اور انقلابی سرگرمیوں کی بنا پر آپ کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور طرح طرح کی سزائیں دی گئیں تھی لیکن جب جیل سے رہا ہوئے تو نہ صرف اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ اپنی جد و جہد میں مزید اضافہ کر دیا۔ لبنان کے وہ شیعہ جو اسرائیل کے حملے کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے اور بھاری نقصان سے دوچار ہوئے تھے ان کے لیے آپ نے امداد جمع کرنا شروع کر دی۔ اور امداد جمع کر کے خود لبنان کا سفر کیا اور اپنے ہاتھوں سے ستم دیدہ افراد کو امداد پہنچائی۔ ۱
اسی طرح فلسطین کے عوام کے لیے ان کا دل بہت جلتا تھا اور ہمیشہ ان مظلوموں کو ظلم و ستم کی چکی سے نکالنے کے لیے کوشش کرتے اور صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۷۹ میں یوم القدس کے موقع پر جو پہلی قرارداد لکھی گئی وہ شہید مفتح نے لکھی تھی۔ آپ نے اس قرارداد میں جن اہم نکات کی طرف اشارہ کیا وہ درج ذیل ہیں:
۔ ہم ملت فلسطین کے اہداف کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جو قدس کی آزادی کی راہ میں پیش قدم ہیں اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے تجربہ سے یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ اگر اسلامی طرز کے مطابق ہو گی تو کامیابی سے دوچار ہو گی۔
۔ ہم فلسطینی مفادات کے خلاف ہر طرح کی قرارداد منجملہ ’کارٹر، سادات اور بیگن‘ نامی قراردادوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ۲
حواشی
۱۔ http://fa.wikishia.net/view/شهید محمد مفتح.
۲۔ http://www.irdc.ir/fa/news/4194.

 

صہیونیزم کے ناقد یہودی مصنف ’’آرتھر کویسٹلر ‘‘ کا مختصر تعارف

  • ۳۸۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آرتھر کویسٹلر (Arthur Koestler)  ایک یہودی مصنف اور محقق تھے۔ وہ ۵ ستمبر ۱۹۰۵ کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں اشکنازی یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ’ہنریک‘ ہنگری کا رہنے والا تھا اور ماں آسٹریا کی۔ (۱)
آرتھور نے مختلف ممالک کے سفر کا شوق اور تحقیق و جستجو کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے ہسپانوی، انگریزی، جرمن، روسی، عبرانی، اور فرانسیسی زبانوں پر مہارت حاصل کی تاکہ باآسانی مغربی ثقافت اور کلچر کا مطالعہ کر سکیں۔ انہوں نے اسی شوق کی بنا پر اپنے دادا سے ییدیش (۲) زبان بھی سیکھ لی تھی۔
کویسٹلر نے ویانا یونیورسٹی سے علم نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد صہیونی طالبعلوں کی ایک تنظیم کے صدر مقرر ہوگئے۔ جوانی میں صہیونیسم کے خیالی اہداف و مقاصد نے ان کے جذبات کو خوب بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے وہ فلسطین ہجرت کرنے والے یہودیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ اور یروشلم اور بعد میں تل ابیب میں سکونت اختیار کی۔ فلسطین میں زندگی ان کے لیے انتہائی دشوار ہو گئی شدید فقر اور فاقے انہیں گھیر لیا آخر کاروہ فلسطین کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور برلن چلے گئے برلن میں انہوں نے صحافت کا کام شروع کیا۔ کویسٹلر کی زندگی ۱۹۳۸ تک مختلف نشیب و فراز سے گزری۔ وہ پہلے جرمنی کی کمیونیسٹ پارٹی کے رکن ہوئے، اور اس دوران انہوں نے یوکرائن اور مشرقی ایشیا سے لے کر باکو اور افغانستان کی سرحدوں تک کی سیر کی اور ماسکو میں سابق سوویت یونین کے رہنماؤں سے کئی ملاقاتیں کی۔ (۳)
اس عرصے میں جو تجربات انہوں نے حاصل کئے تھے ان کے پیش نظر کمیونیسٹوں کی یہودی نما بہشت کو صرف دھوکا اور فراڈ پایا جس کی وجہ سے وہ کمیونیزم کے شدید مخالف ہو گئے، یورپ سے نکل کر لندن چلے گئے اور وہاں سٹالین کے خلاف ’’دن دھاڑے اندھیرا‘‘ ناول تحریر کر کے کمیونیسٹ کا پردہ چاک کیا اور اپنی وافر معلومات جو انہوں سے اس عرصے میں حاصل کی تھیں اور اپنے سلیس قلم کی بدولت لاکھوں لوگوں کو جو شک و تردید میں مبتلا تھے کو کمیونیزم کے جال میں پھنسنے سے بچا لیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آرتھور کویسٹلر صہیونیزم کے بھی سخت ناقدین اور مخالفین میں سے شمار ہونے لگے اور افسانہ ’’یہودی نسل کا خلوص‘‘ پر تنقید کر کے یہودیوں سے دشمنی مول لی۔ (۴)
کویسٹلر نے اپنی پرنشیب و فراز زندگی کے دوران چند اہم تصانیف بھی تحریر کیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
The Thirteenth Tribe: The Khazar Empire and Its Heritage
The Gladiators
Arrival and Departure
Thieves in the Night
The Age of Longing
The Call Girls
فرانس کے سماجی ماہر، فلاسفر، مورخ اور سیاسی مفسر رائمنڈ آرون (۵) اپنے مقالے ’’آرتھور کویسٹلر اور آدھے دن میں تاریکی‘‘ میں کویسٹلر کو زمانے کی ایک عظیم روشن فکر شخصیت کا نام دیتے ہیں کہ جس نے بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں عالم وجود میں قدم رکھا۔ (۶)
آرتھور کویسٹلر ۱ مارچ ۱۹۸۳ کو لندن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کے سلسلے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصہ بیمار رہے اور آخر کار اپنی بیوی کے ہمراہ خود کشی کر گئے لیکن بعض مورخین کہتے ہیں کہ صہیونی اپنے خلاف ان کے محکم دلائل اور ان کی مستند کتابوں کو برداشت نہیں کر سکے لہذا انہوں نے آرتھور کو زہر دے دیا اور یہی زہر ان کی بیماری اور پھر موت کا باعث بنا۔
۱٫    Arthur Koestler, Arrow in the Blue (AIB), Collins with Hamish Hamilton, 1952, p. 21.
۲٫    ایک زبان کا نام ہے جو یہودی اشکنازیوں کے بعض علاقوں میں بولی جاتی تھی.
۳٫ Hamilton, David. (Hamilton) Koestler, Secker & Warburg, London 1982 p. 14.
۴٫ http://teeh.ir/fa/news-details/2517/
۵٫ Raymond Aron
۶٫ https://en.wikipedia.org/wiki/Arthur_Koestler#cite_ref-15

 

برطانوی مصنف ویلیم شاکراس کا تعارف

  • ۴۰۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آزاد برطانوی مصنف اور اخبار نویس ولیم ہارٹلی ہیوم شاکراس (۱) ۲۸ مئی سنہ ۱۹۴۶ع‍ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سینٹ مارٹن آرٹ اسکول (۲) میں مجسمہ سازی کے شعبے میں سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔ (۳)
وہ مسلسل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جنوب مشرقی اور مشرقی یورپ کے سفر میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے کالمز اور مضامین وسیع سطح پر ٹائم، نیوز ویک، انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون، اسپیکٹیٹر، سنڈے ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، رولنگ اسٹون، وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں۔ (۴)
شاکراس زبردست لکھاری اور رزنامہ نویس ہیں جن کی کاوشوں کے انداز سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے لئے وسیع مطالعہ کرتے ہیں اور چونکہ وہ عام طور پر حال حاضر کے مسائل کے سلسلے میں مطالعہ، تحقیق اور تالیف و تحریر میں مصروف ہیں، لہذا جدید ذرائع تک رسائی ان کے لئے بالکل ممکن ہے۔ (۵)
ان کی ایک بہت ممتاز کاوش “روپرٹ مردوخ (۶) (ایک ابلاغیاتی سلطنت کی تشکیل) نامی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کاوش کے ذریعے ایک بڑے صہیونی (یہودی) مافیا، نیوز کارپوریشن (۷) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ اور مینجنگ ڈائریٹر، فاکس نیوز کے مالک اور فارسی ون نامی نیٹ ورک کے مالک کو ابلاغیاتی صنعت کی دنیا میں متعارف کرایا۔ وہ اس کتاب کی چودہویں فصل کے آغاز پر لکھتے ہیں: “اس کتاب کی تالیف گرد و پیش کے ممالک کے طویل سفر اور روپرٹ مردوخ کے ماضی حال اور مستقبل کے جائزے پر محیط ہے”۔
ان کی دوسری اہم کتاب “شاہ کا آخری سفر” (۸) ہے جس میں انھوں نے ایران کی پہلوی سلطنت کی وسیع بدعنوانیوں، عالمی سیاست میں اتحادوں کی دگرگونی اور وفاداریوں کی ناپائداری کو نہایت سلیس انداز سے تحریر کیا ہے۔
جس چیز نے ہمیں ویلیم شاکراس کا تعارف کرانے پر آمادہ کیا وہ ان کی مذکورہ دو کتابیں اور ان کتابوں میں شاکراس کا طرز فکر ہے۔
ان کی دوسری کاوشوں میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:
Dubcek: Dubcek and Czechoslovakia 1918–۱۹۶۸ (۱۹۷۰), a New York Times Book of the Year
Crime and Compromise: Janos Kadar and the politics of Hungary since Revolution (1974)
The Shah’s Last Ride: The fate of an ally (1988)
Kowtow!: A Plea on Behalf of Hong Kong (1989)
Murdoch: the making of a media empire. (1997).
Deliver us from Evil: Warlords, Peacekeepers and a World of Endless Conflict (2000)
Queen Elizabeth The Queen Mother: The Official Biography (2009)
Justice and the Enemy: Nuremberg, 9/11, and the Trial of Khalid Sheikh Mohammed (2011)
Counting One’s Blessings: The Selected Letters of Queen Elizabeth the Queen Mother (2012)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ William Hartley Hume Shawcross
۲٫ Saint Martin’s School of Art
۳٫ https://www.gov.uk/government/news/william-shawcross-reappointed-as-chair-of-the-charity-commission
۴٫ https://en.wikipedia.org/wiki/William_Shawcross
۵۔ شاوکراس، ویلیام، روپرت مورداک (امپراتوری رسانه‌ای)، ترجمه: امیر حسین بابالار، تهران نشر ساقی، ص ۳۴۱۔
۶٫ Keith Rupert Murdoch (Born: March 11, 1931 (age 87 years), Melbourne, Australia
۷٫ News Corporation
۸٫ The Shah’s Last Ride
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔