-
Friday, 3 April 2020، 01:11 AM
-
۸۷۹
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: راجر گیروڈی(Roger Garaudy) ایک فرانسیسی فلاسفر اور سیاستدان ہیں وہ ۱۷ جنوری ۱۹۱۷ کو مارسیلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک بے دین اور غیر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ۲۰ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ انہوں نے ۱۹۵۲ میں سوربن یونیورسٹی سے ادبیات میں ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔
راجر گیروڈی ان تین سو افراد میں سے ایک تھے جنہیں ہٹلر نے ایک بیابان میں جلاوطن کر دیا تھا۔ وہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۳ تک اس بیابان میں ایک کیمپ میں رہے۔ ایک دن کیمپ کے افسر نے اس میں رہنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دیا لیکن کیمپ کے محافظ مسلمان سپاہیوں نے جرمن افسروں کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے گولی چلانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اسیروں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد جب گیروڈی مسلمان سپاہیوں کی طرف سے گولی نہ چلائے جانے کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں پر گولی نہیں چلاتے جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کے بعد گیروڈی نے اسلام کے بارے میں تحقیقات کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حریت کی طلب اور حقیقت کی جستجو میں گزار دی۔
راجر گیروڈی ۳۹ سال تک فرانس کی کمیونیسٹ پارٹی کے فعال رکن رہے کہ اس دوران ۲۵ سال اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی سربراہی کے عہدہ پر فائز رہے۔ انہوں نے کیمپ کی اسیری سے رہائی پانے کے بعد الجزایر میں فرانس ریڈیو میں کام کرنا شروع کیا اور ۱۹۴۵ میں ہٹلر کی شکست کے بعد فرانس واپس چلے گئے۔
گیروڈی ۱۹۴۵ سے ۱۹۸۵ تک فرانسیسی پارلیمنٹ کے نمائندے اور ۱۹۵۹ سے ۱۹۹۲ تک فرانس کی پارلیمانی سناریو کے رکن تھے۔ انہیں یہ جملہ کہنے پر کہ “سوویت یونین قومی اتحاد ایک سوشیالیسٹ ملک نہیں ہے” کمیونیسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ “متبادل”، “زندوں کو آواز” اور “ابھی زندگی کا وقت” ان کی بعض کتابیں ہیں۔
انہوں نے انسانی معاشرے کی تمام سماجی اور اجتماعی مشکلات کا حل اور انحطاط و پسماندگی سے نجات کا واحد راستہ، دین اسلام قرار دیا۔ بنابرایں، انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف کتابیں تحریر کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں رسمی طور پر اسلام قبول کر لیا۔
وہ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں: “اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے۔ میں جو عیسائی تھا، یا مارکسیسٹ تھا تو اس وجہ سے مسلمان ہوا کہ میں نے دین اسلام کو عالمی اور جہانی دین پایا۔ لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپسی اتحاد کے ساتھ دنیا کے ستمگر حکمرانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھیں”۔ (۱)
پروفیسر راجر گیروڈی نے اپنے ایران سفر کے دوران قم موسسہ امام خمینی(رہ) میں ایک تقریر کی اور کہا: صہیونیوں نے سرزمین فلسطین کے عظیم منابع اور ذخائر پر قبضہ کر کے اس بڑے جرم یعنی فلسطین کو ہتھیانے کا ارتکاب کیا۔ اگر چہ صہیونیوں کی اس حرکت کی اقوام متحدہ اور حتی خود امریکہ نے بھی مذمت کی لیکن امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس اقدام پر دلچسپی نہیں دکھلائی۔ امریکہ اور صہیونی ریاست صرف اپنے مفاد کی تلاش میں ہیں اور جہاں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آئے وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں”۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرانسیسی مجاہد مسلمان راجر گیروڈی سے ملاقات میں، صہیونیت اور اس کے حامیوں سے مقابلے کو ایک عظیم الہی اور معنوی ذمہ داری قرار دیا اور اس جنگ اور مبارزے میں راجر گیروڈی کی شجاعت اور دلیری کو سراہا۔ آپ نے ۱۲ مئی سن ۲۰۰۰ کے نماز جمعہ کے خطبے میں فرانسیسی حکومت کے راجر گیروڈی کے خلاف اقدام (گیروڈی قائل تھے کہ جرمنیوں نے یہودیوں کا قتل عام نہیں کیا ہولوکاسٹ ایک خود ساختہ افسانہ ہے) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ مغربی سرزمین پر کوئی صہیونیزم کے خلاف بات کرے۔
سینیگال کے شہر ڈیکار میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی بنیاد، جنیوا میں مختلف تمدنوں کے درمیان گفتگو کے لیے ایک ادارے کا قیام، کورڈوا شہر میں ایک میوزیم قائم کر کے مشرق و مغرب کے درمیان روابط کی برقراری اس فرانسیسی مسلمان پروفیسر کی اہم سرگرمیوں میں شامل تھا۔
ان کی دیگر کتابوں ’’امریکہ انحطاط میں سب سے آگے‘‘، ’’اسرائیلی سیاست کے بنیادی افسانے‘‘ اور ’’اسراییلی فائل‘‘ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱)؛ میراث سوم (وعده های اسلام) روژه گارودی، ترجمه دکتر حدیدی،ص ۷ تا ۱۰٫