پروفیسر راجر گیروڈی کا مختصر تعارف/ اسلام کب اور کیوں قبول کیا؟

  • ۸۶۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: راجر گیروڈی(Roger Garaudy) ایک فرانسیسی فلاسفر اور سیاستدان ہیں وہ ۱۷ جنوری ۱۹۱۷ کو مارسیلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک بے دین اور غیر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ۲۰ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ انہوں نے ۱۹۵۲ میں سوربن یونیورسٹی سے ادبیات میں ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔
راجر گیروڈی ان تین سو افراد میں سے ایک تھے جنہیں ہٹلر نے ایک بیابان میں جلاوطن کر دیا تھا۔ وہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۳ تک اس بیابان میں ایک کیمپ میں رہے۔ ایک دن کیمپ کے افسر نے اس میں رہنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دیا لیکن کیمپ کے محافظ مسلمان سپاہیوں نے جرمن افسروں کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے گولی چلانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اسیروں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد جب گیروڈی مسلمان سپاہیوں کی طرف سے گولی نہ چلائے جانے کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں پر گولی نہیں چلاتے جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کے بعد گیروڈی نے اسلام کے بارے میں تحقیقات کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حریت کی طلب اور حقیقت کی جستجو میں گزار دی۔
راجر گیروڈی ۳۹ سال تک فرانس کی کمیونیسٹ پارٹی کے فعال رکن رہے کہ اس دوران ۲۵ سال اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی سربراہی کے عہدہ پر فائز رہے۔ انہوں نے کیمپ کی اسیری سے رہائی پانے کے بعد الجزایر میں فرانس ریڈیو میں کام کرنا شروع کیا اور ۱۹۴۵ میں ہٹلر کی شکست کے بعد فرانس واپس چلے گئے۔
گیروڈی ۱۹۴۵ سے ۱۹۸۵ تک فرانسیسی پارلیمنٹ کے نمائندے اور ۱۹۵۹ سے ۱۹۹۲ تک فرانس کی پارلیمانی سناریو کے رکن تھے۔ انہیں یہ جملہ کہنے پر کہ “سوویت یونین قومی اتحاد ایک سوشیالیسٹ ملک نہیں ہے” کمیونیسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ “متبادل”، “زندوں کو آواز” اور “ابھی زندگی کا وقت” ان کی بعض کتابیں ہیں۔
انہوں نے انسانی معاشرے کی تمام سماجی اور اجتماعی مشکلات کا حل اور انحطاط و پسماندگی سے نجات کا واحد راستہ، دین اسلام قرار دیا۔ بنابرایں، انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف کتابیں تحریر کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں رسمی طور پر اسلام قبول کر لیا۔
وہ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں: “اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے۔ میں جو عیسائی تھا، یا مارکسیسٹ تھا تو اس وجہ سے مسلمان ہوا کہ میں نے دین اسلام کو عالمی اور جہانی دین پایا۔ لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپسی اتحاد کے ساتھ دنیا کے ستمگر حکمرانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھیں”۔ (۱)
پروفیسر راجر گیروڈی نے اپنے ایران سفر کے دوران قم موسسہ امام خمینی(رہ) میں ایک تقریر کی اور کہا: صہیونیوں نے سرزمین فلسطین کے عظیم منابع اور ذخائر پر قبضہ کر کے اس بڑے جرم یعنی فلسطین کو ہتھیانے کا ارتکاب کیا۔ اگر چہ صہیونیوں کی اس حرکت کی اقوام متحدہ اور حتی خود امریکہ نے بھی مذمت کی لیکن امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس اقدام پر دلچسپی نہیں دکھلائی۔ امریکہ اور صہیونی ریاست صرف اپنے مفاد کی تلاش میں ہیں اور جہاں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آئے وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں”۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرانسیسی مجاہد مسلمان راجر گیروڈی سے ملاقات میں، صہیونیت اور اس کے حامیوں سے مقابلے کو ایک عظیم الہی اور معنوی ذمہ داری قرار دیا اور اس جنگ اور مبارزے میں راجر گیروڈی کی شجاعت اور دلیری کو سراہا۔ آپ نے ۱۲ مئی سن ۲۰۰۰ کے نماز جمعہ کے خطبے میں فرانسیسی حکومت کے راجر گیروڈی کے خلاف اقدام (گیروڈی قائل تھے کہ جرمنیوں نے یہودیوں کا قتل عام نہیں کیا ہولوکاسٹ ایک خود ساختہ افسانہ ہے) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ مغربی سرزمین پر کوئی صہیونیزم کے خلاف بات کرے۔
سینیگال کے شہر ڈیکار میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی بنیاد، جنیوا میں مختلف تمدنوں کے درمیان گفتگو کے لیے ایک ادارے کا قیام، کورڈوا شہر میں ایک میوزیم قائم کر کے مشرق و مغرب کے درمیان روابط کی برقراری اس فرانسیسی مسلمان پروفیسر کی اہم سرگرمیوں میں شامل تھا۔
ان کی دیگر کتابوں ’’امریکہ انحطاط میں سب سے آگے‘‘، ’’اسرائیلی سیاست کے بنیادی افسانے‘‘ اور ’’اسراییلی فائل‘‘ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱)؛ میراث سوم (وعده های اسلام) روژه گارودی، ترجمه دکتر حدیدی،ص ۷ تا ۱۰٫

 

صہیونی تفکر کے ناقد اور فلسطینی مقاصد کے حامی اسرائیل شحاک کا تعارف

  • ۵۰۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل شحاک، اسرائیل کے ایک اہم اسکالر اور معروف محقق تھے وہ ۱۹۳۳ میں پولینڈ کے شہر ورسزاوا(۱) میں پیدا ہوئے۔ شحاک اشکنازی یہودی گھرانے کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔(۲)
شحاک نے اپنے بچپنے کے کچھ ایام بلسن (۳) کے جنگی اسراء کے کیمپ میں گزارے اور ۱۹۲۵ میں فلسطین ہجرت کر کے اس ملک کے مکین ہو گئے۔ نوجوانی کا دور فلسطین میں گزارا اور اس دوران عبری زبان پر بھی مہارت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہودی معاشرے کے اخلاق و اداب سے بھی بخوبی آشنا ہوئے۔


انہوں نے ۱۹۶۱ میں امریکہ کا سفر کیا اور “اسٹین فورڈ”(۴) یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ دو سال کے بعد واپس اسرائیل لوٹے اور “ہیبرو یروشلم(۵) یونیورسٹی میں ایک تجربہ کار استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔
اسرائیل شحاک ایک لیبرل مفکر اور انسانی حقوق کے حامی جانے جاتے تھے۔ صہیونی تفکر کی نسبت تنقید اور فلسطین کے مظلوم عوام کی نسبت حمایت کا موقف اختیار کر کے یہودیوں کے درمیان انہوں نے خاص شہرت حاصل کی۔ وہ ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ تک اسرائیل کے انسانی حقوق یونین(۶) کے چیئرمین مقرر ہوئے اور ہمیشہ اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے اس دوران متعدد بار فلسطینیوں کو “Apartheid ” (نسل پرستی کے ظلم کا شکار) کے عنوان سے یاد کیا۔ اور ان صہیونیوں کو جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے تھے متعصب یہودیوں کا نام دیا۔ شحاک صہیونیت پر تنقید کرنے کی وجہ سے یہودیوں کے درمیان “یہود ستیز” (یہودی مخالف) معروف تھے۔
پروفیسر شحاک اسرائیل نے بہت ساری کتابیں اور مقالے تحریر کئے ہیں کہ جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں: “عیسائیت کی نسبت یہودیوں کی نفرت”(۷)، الخلیل کے قتل عام کے پشت پردہ خفیہ سازشیں”(۸)، “تاریخ یہود اور تین ہزار سالہ یہودی دین”، “اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی”۔(۹)
امریکہ کے معروف رائٹر گورویڈل (۱۰) کتاب “تاریخ یہود” کے مقدمے میں شحاک کو ایک یہودی محقق کا لقب دیتے ہیں کہ جو اپنی پر نشیب و فراز زندگی کے تلاطم میں انسانیت کے حامی رہے اور اپنی توانائی کے مطابق یہودیت کے ظلم و جور کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔
اسرائیل شحاک نے ۱۹۹۰ میں شوگر کی بیماری کی وجہ سے یونیورسٹی میں تدریس کی سرگرمیوں کو ترک کر دیا اور آخر کار ۶۸ سال کی عمر میں ۲ جون ۲۰۰۱ کو اسی بیماری کی وجہ سے انتقال کیا۔
حوالے
۱ Warszawa
۲ catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13521443g
۳ Belsen or Belson
۴ Stanford University
۵ Hebrew University
۶ Israeli Human Rights league
۷ Jewish Hatred toward Christianity
۸ Idealogy behind the Hebron Massacre
۹٫The Jewish fundamentalism and its Profound Impact on Israeli Politics
۱۰ Gore vidal
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بیت المقدس کی تعمیر جدید

  • ۹۲۰

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: محدثین کہتے ہیں کہ ایک بار سرزمین بیت المقدس میں طاعون کی وبا آئی جس میں کثرت سے لوگ جان بحق ہوئے ، حضرت داوٗد کا زمانہ تھا انہوں نے لوگوں سے کہا : پاک و پاکیزہ ہو کر بیت المقدس کی پہاڑی پر چلو اور رو رو کر خدائے رحیم سے رحم کی التجا کرو ۔ قوم داوٗد علیہ السلام نے ویسا ہی کیا سجدے میں اسوقت تک روتی رہی جب تک خدا نے طاعون کی بلا ان سے اٹھا نہیں لی ۔
جب تین دن عافیت سے گذر گئے تو حضرت داوٗد نے دوبارہ ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا ‘اللہ نے تم لوگوں پر رحم وکرم کیا لہٰذا تم لوگ دوبارہ اس کا شکریہ ادا کرو ، اور بطور شکریہ اس پہاڑی بیت المقدس کی بنیاد ڈالو۔
لوگوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور اس طرح بیت المقدس کی تجدیدِ تعمیر کا کام شروع ہوا ، اس وقت اگر چہ حضرت داؤد کی عمر ایک سو ستائیس سال تھی لیکن اس کے باوجود اپنے کاندھوں پرپتھر اٹھا کر لائے اور قد آدم دیوار بلند کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وحی کے ذریعہ اللہ نے خبر دی کہ اس تعمیر کی تکمیل آپ کے بیٹے سلیمان ؑ کے ہاتھوں ہوگی ، ایک سو چالیس سال کی عمر میں حضرت داؤد کی رحلت ہوئی اور حضرت سلیمان نے خدا کے گھر کو مستحکم و دیدہ زیب بنانے کیلئے دریاؤں سے جواہرات نکلوائے ، پہاڑوں کو کٹواکر رنگ برنگے پتھر ترشوائے ، زمین کی تہوں سے لعل و جواہر اکٹھا کرائے ، جنات و انسان و شیطان سب مل کر کام کرتے رہے جب عمارت مکمل ہو گئی تو بہترین مشک و عنبر سے معطر کرایا ۔
روئے زمین پر اس وقت بیت المقدس سے زیادہ کوئی خوبصورت عمارت نہیں تھی، اندھیری رات میں جواہرات کی چمک دمک سے عمارت تو عمارت ماحول چودھویں رات کا منظر پیش کرتا تھا ۔
بیت المقدس اسی شان و شوکت سے سالوں باقی رہا بخت نصر نے جب حملہ کیا تو سارے جواہرات لوٹ لئے ، دیواریں منہدم کرادیں ، شہر کو تاراج کردیا ۔

 

مسجد ’’الخلیل‘‘ کا تعارف

  • ۷۶۹

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: فلسطین میں ناجائز آبادکاریوں کی دیواروں کے پیچھے ایک ویران مسجد پائی جاتی ہے۔ اسے مسجد کہیں یا حرم حضرت ابراہیم، مسجد الاقصیٰ کے بعد فلسطین کی یہ دوسری اہم ترین مسجد ہے۔
اس کے بعد کہ یونیسکو نے اس مسجد کو فلسطینیوں سے متعلق قرار دیا صہیونیوں نے یونیسکو کے اس فیصلے پر بہت اعتراضات کئے اور بجائے اس کے کہ اس مسجد کو فلسطینیوں کے حوالے کریں فلسطینیوں اس میں آمد و رفت پر قدغن لگا دی۔ یہ مسجد صدیوں سے آج تک پوری دنیا کے خداپرست یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی زیارت کا مرکز اور محل عبادت رہی ہے۔
مورخین کے مطابق، اس مسجد کی تاریخ حضرت ابراہیم کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اسی مسجد میں دفن ہیں اسی لئے اس مسجد کا نام بھی آپ کے نام یعنی الخلیل سے موسوم ہے۔ اس مسجد میں چھوٹے چھوٹے گنبد بنے ہوئے ہیں جو بعض تاریخی منابع کے مطابق، بعض پیغمبروں اور حضرت ابراہیم کے اہل بیت یعنی جناب سارہ، جناب اسحاق، جناب اسماعیل، جناب یعقوب، جناب یوسف سے منسوب ہیں۔
سن ۱۵ ہجری میں مسلمانوں نے اس مسجد کی تعمیر نو کی مورخین کا کہنا ہے کہ اسلام سے قبل یہ مسجد اہل عبادت کے لئے قبلہ کے عنوان سے بنائی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس کے باوجود کہ یونیسکو نے اس مسجد کو مسلمانوں سے متعلق قرار دیا اس بین الاقوامی ادارے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے مسجد الخلیل کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کیا اور مسجد الاقصیٰ کی طرح اس پر بھی ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے۔

 

ڈاکٹر عبد الوہاب المسیری کا تعارف

  • ۵۸۸

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: مشہور مصری مفکر اور انسائکلوپیڈیا (دائرۃ المعارف) کے مولف، ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری سنہ ۱۹۳۸ع‍ کو قاہرہ سے ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب شہر “دمنہور” میں پیدا ہوئے۔ سنہ ۱۹۵۹ میں ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرکے جامعہ اسکندریہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور سنہ ۱۹۶۹ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی رتگرز یونیورسٹی (۱) سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
المسیری نوجوانی کے دور میں کچھ عرصے تک جماعت اخوان المسلمین کے رکن رہے اور انقلاب جولائی (۲) (۳) کے بعد شورائے آزادی سے جا ملے۔ ۱۹۷۰ع‍ کے عشرے میں مغربی دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی اس تنقیدی تحریک سے متاثر ہوئے جو جدیدیت سے پیدا ہونے والے بحران کو ہدف تنقید بنا رہی تھی اور انسان کی ـ اپنے آپ سے بھی اور فطرت سے بھی ـ بیگانگی کو دستاویز بنا کر جدیدیت پر حملہ آور ہوچکی تھی۔ تنقیدی تفکرات سے متاثر ہونے اور مسلمانوں کے قدیم آثار و باقیات کا مشاہدہ اور مسلم علماء اور مفکرین کی کاوشوں کا مطالعہ کرکے فکری طور پر اسلام کی طرف پلٹ آئے۔ المسیری نے مادیت سے اسلام کی طرف طے کردہ راستے کو “من المادیۃ إلى الإنسانیۃ الإسلامیۃ (مادیت سے اسلامی انسانیت (۴) تک)” سے معنون کیا ہے۔ اس اسلامی انسانیت کا آغاز عالم وجود کی نسبت ردّ و انکار کی یک پہلو (۵) سوچ سے ہوتا ہے اور یہ انسان اور فطرت کی دوہریت پر تاکید کرتی ہے۔ یہ تصور اس مقام پر عروج کی طرف گامزن ہوجاتا ہے اور خالق و مخلوق، آسمان و زمین، جسم اور روح، حلال و حرام اور مقدس اور مُدَنِس کی دوہریت تک پہنچ جاتا ہے۔ المسیری کی نظر میں جس توحید کا تعارف اسلام کراتا ہے، سب سے زیادہ ترقی پسند اور سب سے زیادہ جدید ہے۔
المسیری کہتے ہیں: “میں نے محسوس کیا کہ اسلامی نظام (۶)، عالمی نظریئے (۷) کے طور پر، مجھے حقیقت کی مُرکّب اور کثیر الجہتی تفسیر فراہم کرتا ہے، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ انسانی مظاہر (۸) اور رجحانات کی صحیح تشریح میرے سامنے رکھتا ہے۔ غیر دینی نظام انسان کے مظاہر اور انفرادیتوں کی تشریح کی قوت و استعداد نہیں رکھتا”۔ (۹)
المسیری کی شائع ہونے والی کاوشوں کی تعداد ۵۷ تک پہنچتی ہے۔ انہوں نے تین بنیادی موضوعات پر تصنیف تالیف کا کام کیا ہے:
۔ مغربی معاشرے اور تہذیب پر تنقید: المسیری مغرب میں طویل عرصے تک قیام کے تجربے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مغربی تہذیب بالآخر انسان اور انسانیت کو مسخ کرکے اسے اعلی انسانی اقدار سے خالی کرکے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انسان کو اوزار میں بدل دیتی ہے، اور اس زمینی جنت کا انجام کار جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو انسان کے سر و پا کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔
۔ صہیونیت اور یہود کے بارے میں متعدد تحقیقات ـ جس کا المسیری نے اہتمام کیا اور اسے توسیع دی اور ان کی یہ کاوشیں صہیونیت کے بارے میں عربی مطالعات کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اور المسیری صہیونیت کو نازیت (۱۰) ہی کی ایک شکل سمجھتے تھے۔
۔ علمانیت (۱۱) پر المسیری کی تحقیقات جو مغربی جدیدیت کی فکری اور سماجی کثرتیت کے پہلؤوں کی نسبت ان کے نظریئے کی بنیاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Rutgers University
۲۔ ثورة ۲۳ یولیو ۱۹۵۲ July 23, 1952 Revolution.
۳۔ انقلاب جولائی در حقیقت اس فوجی بغاوت کا نام ہے جو مصری افواج کے “ضباط الحر یا آراد افسران” کہلوانے والے افسروں نے مصری بادشہای حکومت کے خلاف کی تھی اور اس کے سرکردگان محمد نجیب اور جمال عبدالناصر تھے۔
۴۔ Islamic humanity
۵۔ Unilateral
۶۔ منظومہ یا System
۷٫ Worldview
۸٫ Human phenomena
۹۔ الشیخ، ممدوح، عبدالوهاب المسیری من المادیة الی الانسانیة الاسلامی‍ة، ص۵۹٫
۱۰٫ نازیت (انگریزی: Nazism، جرمنی: Nationalsozialismus) ایک نسل پرست قومی تحریک جو جرمنی میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کے مطابق ایک جرمن قوم باقی سب پر فضیلیت رکھتی ہے۔ جرمن حکمران ہٹلر کا اس تحریک میں اہم کردار تھا۔
۱۱٫ Secularism

 

صہیونیت مخالف انٹرنیشنل تنظیم “نیٹوری کارٹا” کا تعارف

  • ۴۸۶

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر:  ” نیٹوری کارٹا” (Neturei Karta International Organization) کے نام سے آرتھوڈوکس یہودیوں کی صہیونیت مخالف انٹرنیشنل تنظیم سنہ ۱۹۳۵ میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب صہیونی لابی نے فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر کے ایک مستقل یہودی ملک وجود میں لانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
یہ تنظیم بطور کلی اسرائیلی حکومت کی نابودی کے لئے جد و جہد کرتی ہے اور اس بات کی معتقد ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” کے مطابق، “منجی عالم” کے ظہور سے پہلے یہودیوں کے لئے حکومت تشکیل دینا گناہ عظیم ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کا یہ ماننا ہے کہ صہیونیوں کو سرزمین فلسطین پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے یہودی قوم کو توریت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں سزا دی اور ان کی زمینوں کو ان سے چھین کر مختلف ملکوں میں انہیں منتشر کر دیا۔
اس تنظیم کا اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ صہیونیت یا صہیونی اصلاً یہودی ہی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ یہودیت اور یہودیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ چونکہ ایک حقیقی یہودی دوسروں منجملہ فلسطینیوں کی زمینوں کو غصب نہیں کر سکتا۔
حالیہ سالوں میں اس تنظیم کو “موشہ ہرش” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، موشہ ہرش در حقیقت یہودیوں کے وہ مرحوم خاخام ہیں جنہوں نے یاسر عرفات کے دور میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل میں ان کا ساتھ دیا اور بہت سارے عربوں سے زیادہ مسئلہ فلسطین سے جڑے رہے۔
اس تنطیم کے بعض اراکین مقبوضہ بیت المقدس میں زندگی بسر کرتے ہیں انہوں نے اسرائیلی شہریت کو قبول کرنا گوارا نہیں کیا اس وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ یہ بھی صہیونی ظلم و تشدد کا شکار رہتے ہیں۔ اور بہت سارے اراکین برطانیہ اور امریکہ میں رہتے ہیں اور وقتا فوقتا اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ صہیونی عناصر نے ان کے بعض اراکین کو دھشتگردی کا نشانہ بھی بنایا مثال کے طور پر ان کے ایک خاخام جنہوں نے بیلفور اعلانیہ کی سختی سے مخالفت کی تھی کو صہیونیوں نے مورد حملہ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔ موشہ ہرش پر بھی ایک زہریلے مواد کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نابینا ہو گئی۔
موشہ ہرش اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچا کر اسرائیل کو جنم دیا۔ اور اسرائیل کو وجود میں لانے کے لئے صہیونیوں نے ہزاروں یہودیوں کا قتل عام کیا تاکہ ان کے دلوں میں خوف و دھشت پیدا کرکے انہیں اسرائیل کی طرف ہجرت کے لئے مجبور کریں۔
موشہ ہرش نے سرزمین فلسطین پر صہیونی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: اگر ہٹلر کی جارحیت سے یہ سوچ پیدا ہوئی کہ یہودیوں کے لئے ایک الگ ملک وجود میں لایا جائے تو کیوں جرمنی کو ہی ہٹلر کی نابودی کے بعد اس کام کے لئے انتخاب نہیں کیا گیا؟
وہ ہیکل سلیمانی(Solomon’s Temple) کے بارے میں صہیونیوں کے اس دعوے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی ہے ہم اسے گر کر دوبارہ ہیکل سلیمانی بنائیں گے، کے بارے میں کہتے ہیں: ہیکل سلیمانی کو مسمار ہوئے تقریبا دو ہزار سال ہو چکے ہیں اور فلسطین میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
وہ مزید تاکید کرتے ہیں: اگر یہ طے ہو کہ ہر قوم اپنے دینی اور تاریخی آثار کو دوبارہ زندہ کرے تو بہت سارے ممالک کا نام و نشان ہی مٹانا پڑے گا۔
نیٹوری کارٹا تنظیم مسلمانوں کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی یہودیوں کو اذیت دی اور نہ ان کا قتل عام کیا بلکہ ہمیشہ اپنے ملکوں کے دروازے ان پر کھولے رکھے۔
یہ تنظیم سرزمین فلسطین میں دو ملکوں یعنی اسرائیل اور فلسطین کے باقی رہنے کی سخت مخالف ہے بلکہ اس جھگڑے کو مٹانے کے لئے اسرائیلی کی بطور کلی نابودی کی تمنا رکھتی ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کو وجود میں لائے جانے کا مقصد ہی اسرائیل کے خلاف اس وقت تک جد و جہد کرنا ہے جب تک یہ ناسور صفحہ ھستی سے مٹ نہ جائے۔

 

‘آمنون اسحاق’ صہیونیت مخالف یہودی خاخام

  • ۶۳۸

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: آمنون اسحاق اسرائیل کے دار الحکومت تل آبیب کے غیر مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے لیکن ۲۴ سال کی عمر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ صرف خود ایک مذہبی شخصیت ابھر کر سامنے آئے بلکہ عوام کو بھی دین و شریعت کی دعوت دینا شروع کر دیا۔
اسحاق اپنی شعلہ بیاں تقریروں اور دینی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک یہودی خاخام جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے بارہا اپنی تقریروں میں صہیونیزم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اپنی ایک تقریر میں اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں کہا کہ اگر چہ امریکہ خود کو بہت بڑی طاقت سمجھتا ہے لیکن اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے اور آج امریکہ کی یہ صورتحال ہے کہ ہر کوئی امریکہ کے آگے سر اٹھا رہا ہے اور امریکہ اسے کچھ نہیں کر پا رہا۔
الصباح اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسحاق نے امریکہ کے کمزور ہونے کی علامتوں کو گنواتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی کمزوری کی ایک علامت یہ ہے کہ ایران امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہے اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اسے شیطان بزرگ کے نام سے یاد کرتا ہے۔
اسحاق کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی امریکہ سے نہیں ڈرتا بلکہ یہ امریکہ ہے جو کوشش کر رہا ہے کہ بعض ملکوں پر پابندیاں لگا کر دنیا کی توجہ کو اپنی طرف موڑے۔

 

صہیونیت مخالف یہودی دانشور ‘ہاجو میئر’

  • ۳۷۲

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: “ہایو میئر “(Hajo G. Meyer) جرمنی کے ایک معروف دانشور تھے جو فیزیکس کے ایک ماہر استاد ہونے کے علاوہ صہیونی مخالف یہودی سیاست میں بھی کافی سرگرم تھے ۔ میئر صہیونی جرائم کے خلاف اور فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز اٹھانے کی وجہ سے دو مہینے جیل میں بھی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ۹۰ سال کی عمر میں ۲۰۱۴ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
میئر کئی سال پولینڈ میں “ایک مختلف یہودی آواز” نامی تنظیم کے سربراہ رہے اور ۲۰۰۳ میں انہوں نے “یہودیت کا خاتمہ” نامی ایک کتاب لکھی اور اس میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا ڈرامہ صرف فلسطینیوں پر جاری اپنے جرائم کی توجیہ کے لئے رچایا ہے۔
میئر اسی طرح “صہیونیزم مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” کے بھی رکن تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیزم تاریخی اعتبار سے فاشزم پر مقدم ہے اور صہیونیوں اور فاشسٹوں کے درمیان تاریخی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ اور اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ دنیا میں یہود ستیزی کا ڈھونگ رچا کر زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو اسرائیل جانے پر مجبور کرے۔
میئر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی فلسطینیوں کی نسبت نفرت جرمنیوں کی یہودیوں کی بانسبت نفرت سے کئی گنا زیادہ ہے اسرائیلی یہویوں کا گزشتہ ساٹھ سال سے برین واش(Brainwash) کیا جا رہا ہے اور اسرائیلی یہودی کسی بھی صورت میں ایک فلسطینی کو انسان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
میئر سے ایک انٹرویو کے دوران جب پوچھا گیا کہ آپ فلسطینیوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا:” فلسطینیوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ ہرگز مزاحمت سے پیچھے نہ ہٹیں اور پتھر، لاٹھی، اسلحہ ہر چیز سے ان کا مقابلہ کریں۔ اگر وہ اسرائیلیوں کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں ان کی کوئی عزت و آبرو نہیں رہے گی اور اسرائیلی ان کے لئے ذرہ برابر احترام کے قائل نہیں ہوں گے”۔
میئر اپنی ایک یاداشت میں لکھتے ہیں کہ جب میں فلسطینیوں کی موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہوں تو میں مجھے بہت درد و الم کا احساس ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ “صہیونی مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” جو امریکی یہودی جوانوں کے توسط سے کام کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے صہیونیزم کا مقابلہ کریں اور فلسطینی عوام کی حمایت کریں۔ اس لئے کہ اسرائیل نے اپنے مظالم کے ذریعے پوری یہودی کمیونٹی کو بدنام کر دیا ہے۔

 

صہیونیوں کو آڑے ہاتھوں لینے والی امریکی صحافی خاتون’ ہیلن تھامس’

  • ۳۸۷

خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ہیلن تھامس امریکہ کی ایک معروف صحافی اور کالم نگار تھی ۵۷ سال انہوں نے وہائٹ ہاؤس کے اخبار”یو پی آئی” میں کام کیا اور ۲۰۰۰ء میں اس اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد کہا: “میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال کو سنسر کر رکھا تھا اور اب میں آزاد ہوں اور خود سے پوچھتی ہوں کہ تم کس سے نفرت کرتی ہو” اگر چہ اس نے اپنی سروس کے دوران ہی امریکی صدور کے کارناموں کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا اور اس وقت جب جارج ڈبلیو بوش نے عراق پر حملہ کیا تو ہیلن تھامس نے بوش سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: “جناب محترم صدر صاحب! میں آپ سے عراق کی جنگ کے بارے میں کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ جو بھی دلائل اب تک آپ نے عراق پر حملے کے سلسلے میں بیان کئے ہیں عوام کی نگاہ میں غلط ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ سچ میں آپ کیوں عراق میں جنگ کے لئے گئے؟ آپ نے کہا کہ نہ ہی یہ جنگ تیل کی خاطر تھی، نہ اسرائیل کی وجہ سے تھی، نہ کسی دوسری چیز کے لئے تھی، تو پھر اس جنگ کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کیوں ایسا کیا؟
ہیلن تھامس پر زندگی کے آخری ایام تک صہیونی لابی کی طرف سے “اینٹی سامی” ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا جبکہ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں یہودیوں کی مخالف نہیں ہوں میرا یہ کہنا ہے کہ اسرائیلی اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین واپس کر دیں۔ سنہ ۲ دسمبر ۲۰۱۰ میں ایک کانفرنس کے دوران ایک یہودی ربی سے گفتگو کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف اپنے ایک انتقادی بیان میں انہوں نے کہا: یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں کو ان کے حقیقی مالکوں یعنی عربوں کے حوالے کر دیں اور خود جرمنی، پولینڈ یا امریکہ واپس چلے جائیں Jews should “get the hell out of Palestine” and “go home” to Poland and Germany)۔
اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد ہیلن تھامس اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد کینساس سٹی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ” مجھے اس بات کی تو اجازت ہے کہ میں اپنی کتاب میں امریکی صدر کو جس نام و لقب سے لکھنا چاہوں لکھ سکتی ہوں لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکوں!!”
تھامس کے صہیونی مخالف نظریات کو سراہتے ہوئے حزب اللہ لبنان نے ان کی گفتگو کو “شجاعانہ اور صداقت پر مبنی”گفتگو کا نام دیا اور حماس نے حقیقت کی عکاسی کرنے والے بیانات سے تعبیر کیا۔
اگر چہ ہیلن تھامس کو صہیونیوں کے خلاف بیان دینے کے ایک ہفتہ بعد معذرت خواہی کے لئے مجبور کر دیا گیا لیکن اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میری نظر وہی ہے جو میں نے کہہ دیا اگر چہ مجھے اس کا تاوان دینا پڑا۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکی کانگریس، وہائٹ ہاؤس اور وال اسٹریٹ ان سب کو صہیونیوں نے اجیر کر رکھا ہے۔ اور میں سے کوئی بھی ان کے سامنے زبان کھولنے کی جرئت نہیں کر سکتا۔

 

صہیونی تنظیم پروشیم(parushim) کا تعارف

  • ۳۹۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے سیاستمداروں پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.