-
Tuesday, 24 March 2020، 04:39 PM
خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ہیلن تھامس امریکہ کی ایک معروف صحافی اور کالم نگار تھی ۵۷ سال انہوں نے وہائٹ ہاؤس کے اخبار”یو پی آئی” میں کام کیا اور ۲۰۰۰ء میں اس اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد کہا: “میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال کو سنسر کر رکھا تھا اور اب میں آزاد ہوں اور خود سے پوچھتی ہوں کہ تم کس سے نفرت کرتی ہو” اگر چہ اس نے اپنی سروس کے دوران ہی امریکی صدور کے کارناموں کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا اور اس وقت جب جارج ڈبلیو بوش نے عراق پر حملہ کیا تو ہیلن تھامس نے بوش سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: “جناب محترم صدر صاحب! میں آپ سے عراق کی جنگ کے بارے میں کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ جو بھی دلائل اب تک آپ نے عراق پر حملے کے سلسلے میں بیان کئے ہیں عوام کی نگاہ میں غلط ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ سچ میں آپ کیوں عراق میں جنگ کے لئے گئے؟ آپ نے کہا کہ نہ ہی یہ جنگ تیل کی خاطر تھی، نہ اسرائیل کی وجہ سے تھی، نہ کسی دوسری چیز کے لئے تھی، تو پھر اس جنگ کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کیوں ایسا کیا؟
ہیلن تھامس پر زندگی کے آخری ایام تک صہیونی لابی کی طرف سے “اینٹی سامی” ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا جبکہ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں یہودیوں کی مخالف نہیں ہوں میرا یہ کہنا ہے کہ اسرائیلی اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین واپس کر دیں۔ سنہ ۲ دسمبر ۲۰۱۰ میں ایک کانفرنس کے دوران ایک یہودی ربی سے گفتگو کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف اپنے ایک انتقادی بیان میں انہوں نے کہا: یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں کو ان کے حقیقی مالکوں یعنی عربوں کے حوالے کر دیں اور خود جرمنی، پولینڈ یا امریکہ واپس چلے جائیں Jews should “get the hell out of Palestine” and “go home” to Poland and Germany)۔
اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد ہیلن تھامس اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد کینساس سٹی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ” مجھے اس بات کی تو اجازت ہے کہ میں اپنی کتاب میں امریکی صدر کو جس نام و لقب سے لکھنا چاہوں لکھ سکتی ہوں لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکوں!!”
تھامس کے صہیونی مخالف نظریات کو سراہتے ہوئے حزب اللہ لبنان نے ان کی گفتگو کو “شجاعانہ اور صداقت پر مبنی”گفتگو کا نام دیا اور حماس نے حقیقت کی عکاسی کرنے والے بیانات سے تعبیر کیا۔
اگر چہ ہیلن تھامس کو صہیونیوں کے خلاف بیان دینے کے ایک ہفتہ بعد معذرت خواہی کے لئے مجبور کر دیا گیا لیکن اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میری نظر وہی ہے جو میں نے کہہ دیا اگر چہ مجھے اس کا تاوان دینا پڑا۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکی کانگریس، وہائٹ ہاؤس اور وال اسٹریٹ ان سب کو صہیونیوں نے اجیر کر رکھا ہے۔ اور میں سے کوئی بھی ان کے سامنے زبان کھولنے کی جرئت نہیں کر سکتا۔