پروفیسر لیزا اینڈرسن (Professor Lisa Anderson) کا تعارف

  • ۳۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، پروفیسر لیزا اینڈرسن مشرق وسطی اسٹڈیز ایسوسی ایشن یونیورسٹی کی سابق صدر اور ۱۹۸۶ سے کولمبیا یونیورسٹی میں سیاسی سائنس فیکلٹی کی رکن ہیں۔
اکیڈمک بیوگرافی (Academic Biography) کے میدان میں وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے شعبے میں ملک کی ایک اہم اسکالر کے عنوان سے متعارف ہوئیں۔ پروفیسر اینڈرسن نے صرف ایک کتاب “تیونس اور لیبیا میں سماجی اور ریاستی تبدیلیاں ۱۹۳۰ سے ۱۹۸۰ تک؛ (The state and social transformation in Tunisia and Libya, 1830-1980) تحریر کی ہے۔ وہ موجودہ دور میں کولمبیا انٹرنیشنل کالج کی چیف اور مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حالیہ سالوں میں ” مشرق وسطی اسٹڈیز میں ایڈورڈ سعید کے مقام” کی وجہ سے پروفیسر اینڈرسن کی آمدنی میں ۴ ملین ڈالر کا اضافہ ہوا جو بطور کلی عرب ذرائع سے حاصل کی جاتی تھی۔ اگر چہ ایڈورڈ سعید اسلام اور مشرق وسطیٰ کے محقق نہیں تھے لیکن ایک ادبی اور اسرائیل مخالف محقق کے نام سے معروف تھے۔
اینڈرسن نے عوامی تنقید اور اس چیز کے باوجود کہ نیویارک کے قوانین کے مطابق انہیں اپنی ساری آمدنی کی رپورٹ حکومت کو دینا پڑتی انہوں نے اپنے مالی منابع کو کافی عرصے تک پوشیدہ رکھا۔ اس مقام پر براجمان کے لیے انہیں پروفیسر رشید خالدی نے انتخاب کیا جو یاسر عرفات کے حامیوں میں سے تھے اور آزادی فلسطین تنظیم کے سابق رکن تھے اور انہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست کے نام سے متعارف کروانے کی کوشش کی۔
پروفیسر اینڈرسن کے لیے یہ عہدہ اس وقت تک پروفیسر رشید خالدی نے محفوظ رکھا جب تک وہ شیکاگو یونیورستی میں اپنے عہدے سے کنارہ گیری کرتے، انہوں نے کہا کہ انصاف سے کلمبیا یونیورسٹی میں ان سے بہتر کسی شخص کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا۔
پروفیسر اینڈرسن، جوزف میسیڈ (Joseph Massad )جو پی ایچ ڈی کے رسالے کی تدوین میں ان کے مشیر تھے کی مدد سے کلمبیا یونیورسٹی میں تدریس کے منصب کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ جوزف میسیڈ قائل ہیں کہ یہودی حکومت ایک نسل پرستانہ حکومت ہے لہذا اس کو جینے کا کوئی حق نہیں، اور یہ کہ فلسطینی خودکش حملے کرنے والے، سامراجیت مخالف مزاحمت کار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں یہودی نازیوں کی جو پناہ گزیں کیمپوں میں صورتحال تھی وہی صورتحال موجودہ دور میں اسرائیلی عقوبت خانوں میں فلسطینیوں کی ہے۔ کولمبیا کے انٹرنیشنل کالج کی سیاسی فیکلٹی نے پروفیسر اینڈرسن کی سرپرستی میں اسرائیلی حکومت کی مذمت میں متعدد پروگراموں کا انعقاد کیا۔
مثال کے طور پر، ستمبر ۲۰۰۲ میں اس کالج نے انسٹی ٹیوٹ برائے مطالعات افریقہ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار بعنوان ’اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے جنوبی افریقہ کے نظریات‘ کی سرپرستی کی۔ پروفیسر اینڈرسن نہ صرف صہیونی ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں بلکہ امریکہ پر بھی سخت تنقید کرتی ہیں۔ پروفیسر اینڈرسن نے ’دھشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ یہ صرف امریکہ کے پاس ایک بہانہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دوسرے ملکوں پر چڑھائی کرے ورنہ امریکہ خود ایک دھشتگرد ملک ہے اور اس کا یہ کہنا کہ وہ دھشتگردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ وہ امریکہ کو اس جنگ میں ایک متجاوز کے عنوان سے پیش کرتی ہیں اور افغانستان اور عراق میں امریکہ کی فوجی کاروائی کو پورے خطے پر حملے کے مترادف سمھجتی ہیں اور کہتی ہیں کہ امریکہ اس کوشش میں ہے کہ خطے کے نقشے کو بدل کر اپنی مرضی سے اسے ترسیم کرے۔
تحقیق: Hugh Fitzgerald

۔۔۔۔۔

امریکی جامعات کے پاکستانی نژاد پروفیسر محمد شاہد عالم کا تعارف

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، محمد شاہد عالم ان ہزاروں پروفیسروں میں سے ایک ہے جو مارکسی سوچ رکھتے ہیں اور امریکی جامعات میں سرگرم عمل ہیں اور سوچتے ہیں کہ امریکہ ایک بڑا شیطان ہے اور امریکہ کے دہشت گرد دشمن حقیقت میں “آزادی کے مجاہدین” ہیں۔
دسمبر ۲۰۰۴ع‍ میں ان کا ایک مضمون بعنوان “مخالف آواز” (امن و انصاف کے لئے جدوجہد کے سلسلے میں ایک بنیادپرست خبرنامہ) شائع ہوا، جس میں عالم نے محمد عطا اور ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو عالمی تجارتی مرکز پر حملہ کرنے والے القاعدہ کے دوسرے دہشت گردوں کو ان محب الوطن امریکیوں سے تشبیہ دی، جنہوں نے برطانویوں کا مقابلہ کرتے ہوئے لیکسنگٹن (Lexington) اور کانکرڈ (Concord) کی حفاظت کی اور امریکہ کی آزادی کی تاریخی تحریک کا آغاز کیا۔
پروفیسر عالم نے لکھا تھا: “۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ع‍ کو ۱۹ عرب ہائی جیکروں نے اپنے ہدف کے حصول کی راہ میں مارنے اور مارے جانے کے لئے اپنے اشتیاق کو ثابت کرکے دکھایا”۔
پروفیسر عالم کی اشتعال انگیز اور متعصبانہ تحریر انٹرنیٹ میں وسیع سطح پر شائع ہوئی۔ جب انہیں ایمیل کے ذریعے چیلنج کیا گیا تو انھوں نے یہود دشمنی پر مبنی تمسخر کے ساتھ جواب دیا کہ: “یہ کیسی بات ہے کہ میں جو دھمکی آمیز خطوط وصول کررہا ہوں ان سب پر لیوٹ (Levit)، ہوک (Hook) اور فریڈ مین (Friedman) کے دستخط ہیں؟”، اگر پروفیسر عالم نے اس طرح کے اہانت آمیز الفاظ افریقی نژاد امریکیوں یا ہمجنس بازوں کے بارے میں استعمال کئے ہوتے تو انہیں یقینا سزا ملتی اور یہ بھی امکان تھا کہ انہیں یونیورسٹی کے انتظامیہ کی طرف سے برخاست کیا جاتا؛ لیکن چونکہ ان کے الفاظ سے مراد صرف “یہودی” تھے چنانچہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے احتساب کی خواہش تک ظاہر نہیں کی۔
پروفیسر عالم نے جنوری ۲۰۰۵ کو اپنا تکمیلی مضمون Counterpunch.org نامی ویب گاہ پر (جو عراق میں امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کو امریکی سامراجیت کے غازی سمجھتی ہے) شائع کیا، جس کا عنوان تھا: “نفرت کی لہریں: امریکہ میں آزادی بیان کا امتحان (The Waves of Hate: Testing Free Speech in America)۔ اس مضمون میں انھوں نے اپنا تعارف ایسے شخص کے طور پر کرایا جو آزادی بیان کے سلسلے میں بندشوں کے تجربے سے گذر رہے تھے، اور (ان کے بقول) نفرت کی ویب گاہیں (یعنی القاعدہ کے خلاف سرگرم عمل ویب گاہیں www.jihadwatch.org اور www.littlegreenfootballs.com) انہیں حقیقت گوئی پر مجبور کرتی ہیں؛ یوں انھوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جو غلط فہمی کا شکار ہوکر اذیت و آزار کا نشانہ بنا ہے۔
عالم نے کاؤنٹر پنچ والے مضمون میں اپنے دعوے کی یوں وکالت کی: “ممکن ہے کہ امریکیوں نے اپنی جنگ آزادی میں عام شہریوں کو نشانہ نہ بنایا ہو لیکن وہ جرائم کے مرتکب ضرور ہوئے اور عام اور نہتے شہریوں کو ضمنی طور پر نقصان پہنچایا”۔ لگتا ہے کہ عالم کو اس بات سے حیرت ہوئی تھی کہ لوگ ان کے استدلال کے لئے استثناء کے قائل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا: مجھے حیرت ہے کہ میرے ان الفاظ نے ـ کہ “القاعدہ تنظیم (اپنے سے پہلے کے امریکی سامراجیوں کی طرح) ایک اسلامی تحریک میں بدل چکی ہے”ـ اس قدر تشدد آمیز حملوں کا طوفان بپا کیا ہے۔
پروفیسر محمد شاہد عالم /Professor M. Shahid Alam، مشہور پاکستانی ہواباز محمود احمد عالم (ایم ایم عالم) کے بھائی اور بنگالی نژاد پاکستانی ہیں۔
نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی
– بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر
-۱۱ ستمبر کے دہشت گردوں کو ایسے مَردوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں جو موت کو گلے لگانے کے لئے تیار تھے اس امید سے کہ شاید ان کے ملک کے عوام عزت اور آزادی کے ساتھ جی سکیں؛ وہ انہیں امریکہ کے بانیوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
– ان کا دعوی ہے کہ القاعدہ کا جہاد مغربی جارحین کے خلاف ایک دفاعی جہاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونیت مخالف پروفیسر “نورمین فینکلشٹائن” ( Norman Finkelstein) کا تعارف

  • ۳۴۱

ترجمہ سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر نورمین فینکلشٹائن (Norman Finkelstein) ایک یہودی مورخ اور محقق ہیں کہ جو ۱۹۵۳ میں امریکہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے نیوجرسی (New Jersey, USA) کی Princeton University سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نورمین کی تالیفات اور تصنیفات کا اصلی محور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں۔
پروفیسر نورمین فینکلشٹائن نے دسیوں کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں کہ جن میں سے پچاس کتابیں دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئی ہیں۔(۱) ان کی بعض تصنیفات کے نام درج ذیل ہیں:
•    From the Jewish Question to the Jewish State: An Essay on the Theory of Zionism (thesis), Princeton University, 1987
•    The Holocaust Industry: Reflections on the Exploitation of Jewish Suffering, Verso, 2000
•    Image and Reality of the Israel-Palestine Conflict (Verso, 1995; expanded paperback edition, 2003)
•    Knowing Too Much: Why the American Jewish romance with Israel is coming to an end (OR Books: 2012)
•    Method and Madness: The Hidden Story of Israel’s Assaults on Gaza, OR Books, New York, 2014
•    Gaza: An Inquest Into Its Martyrdom, University of California Press, Oakland, California, 2018
فینکلشٹائن قدس کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل اور صہیونیت کے سخت ترین مخالف ہیں وہ صہیونی ریاست کی انتہا پسندی اور اس کے قتل و غارت کے بارے میں کہتے ہیں: ایسے حال میں کہ ایک طرف مغرب سمیت پوری دنیا امن و امان قائم کرنے کی قائل ہے اسرائیل جنگ کا طبل بجا رہا ہے۔ (۲)
سنہ ۲۰۰۸ میں تل ابیب کے بن گورڈین (۳) ایئر پورٹ پر پہنچنے سے پہلے پروفیسر فینکلشٹائن کی پوچھ گچھ کی گئی اور اس کے بعد عدلیہ کے حکم سے دس سال کے لیے انہیں مقبوضہ فلسطین میں داخلے سے ممنوع کر دیا۔ انہوں نے ہاآرتض (۴) کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: “میں نے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھا اور ہر سوال کا جواب واضح لفظوں میں دے دیا ہے اور میرا کسی بھی دھشتگرد تنظیم سے کوئی رابطہ نہیں”۔ (۵) ایسا لگتا ہے کہ ان کی گرفتاری اور مقبوضہ فلسطین میں ان کے ممنوع الورود ہونے کی وجہ نورمین کی لبنانی گھرانوں کے ساتھ ملاقات اور سنہ ۲۰۰۶ میں اسرائیل لبنان کی جنگ کے دوران جنوبی لبنان ان کی حاضری ہے۔
فینکلشٹائن خود کو حماس اور حزب اللہ کا حامی سمجھتے ہیں اور ان دو مزاحمتی گروہوں کے ساتھ اپنی وابستگی کی وجہ، ان کا اپنی سرزمینوں کے تحفظ کے لیے دفاعی اقدامات انجام دینا قرار دیتے ہیں۔ (۶) وہ حزب اللہ کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: مجھے اس بات سے کوئی خوف نہیں ہے کہ میں حزب اللہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کروں۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی بنا پر لوگ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں اور جو ظلم و جور کے ذریعے ان کے ملکوں کو نابود کرنا چاہے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ (۷)
اس مولف کے علمی کارناموں میں “ہولوکاسٹ انڈسٹری” (The Holocaust Industry) معروف ترین اور اہم ترین علمی کارنامہ ہے۔ فینکلشٹائن اس کتاب میں ہولوکاسٹ کے موضوع پر اپنی تحقیق کے مقصد کو بیان کرتے ہیں اور یہودی نسل کشی کو ایک انڈسٹری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ انکا ماننا ہے کہ ہولوکاسٹ صرف ایک منظلم آئیڈیالوجی تھی جو ایک آئیڈیالوجیک اسلحے میں تبدیل ہو گئی تاکہ اس کے ذریعے ایک فوجی طاقت کہ جس کی تاریخ انسانی حقوق کی پامالی سے بھری پڑی ہے خود کو ایک مظلوم حکومت کے عنوان سے پیش کر سکے۔ (۸)
مآخذ
۱. http://normanfinkelstein.com/biography/
۲٫ https://web.archive.org/web/20141202160042/http://www.todayszaman.com/interviews_norman-finkelstein-israel-is-committing-a-holocaust-in-gaza_164483.html
۳ . Ben Gurion Airport
۴ . Haaretz
۵ . https://web.archive.org/web/20111016203328/http://www.haaretz.com/jewish-world/news/israel-denies-entry-to-high-profile-critic-norman-finkelstein-1.246487
۶ . http://www.counterpunch.org/finkelstein01132009.html
۷ . http://www.memritv.org/clip_transcript/en/1676.htm
۸ . http://earanian.blogfa.com/post/335
………

 

پروفیسر حمید ایلگر (Hamid Algar) ایک خطرناک پروفیسر!

  • ۵۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ عرصہ قبل امریکہ میں “ایک سو ایک خطرناک پروفیسر” کے نام سے ایک کتاب منظر عام پر آئی جس کا مقصد ان ایک سو ایک پروفیسروں کو متعارف کروانا تھا جن کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ اور یہودیت کی شان میں گستاخی کی اور اپنی کتابوں اور درس کی کلاسوں میں ہولوکاسٹ کا مسئلہ چھیڑا۔ (واضح رہے کہ صہیونی یہودیوں کے نزدیک ہولوکاسٹ کے موضوع پر گفتگو کرنا یا اس کے بارے میں شک و شبہہ ایجاد کرنا یا اس کا انکار کرنا سب سے بڑا اور ناقبل بخشش جرم ہے)۔ در حقیقت اس کتاب کے ذریعے یونیورسٹیوں کے دیگر اساتید کو بھی خبردار کیا گیا کہ ان اساتید نے چونکہ ریڈ لائن کراس کر دی ہے لہذا ان کے علمی آثار کو مورد استفادہ قرار نہ دیا جائے۔ مجموعی طور پر جب آزادی محدود ہو جاتی ہے تو مشکلات خود بخود جنم لیتی ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کے پہلے پروفیسر “حمید ایلگر” کا اجمالی تعارف پیش کیا جاتا ہے اور کتاب لکھنے والے نے خود جو کچھ ان کے بارے میں بیان کیا ہے اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین خود یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں کیوں ’’خطرناک پروفیسر‘‘ کا لقب دیا گیا۔
 
پروفیسر حمید ایلگر نے؛
۔ جرمنی کی فری برگ یونیورسٹی (Freiberg University) سے روس اور جرمنی کی تاریخ اور ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ ٹرینٹی کالج (Trinity College, Cambridge) سے مشرقی زبانوں (عربی و فارسی) میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ تہران یونیورسٹی سے ادبیات فارسی اور تاریخ ایران میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
۔ استبول یونیورسٹی سے تاریخ ترک میں ایم اے کی ڈگری اور
۔ کمبریج یونیورسٹی (Cambridge University) سے اسلامی مطالعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اعزاز حاصل کیا۔
دھشتگردی کے خلاف جنگ، در حقیقت عالم اسلام کے خلاف امریکہ کی جنگ ہے
حمید ایلگار ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۹۶۵ سے اب تک UC Brekely کالج میں تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رہ) کی سوانح حیات کو بھی رقم کیا ہے۔ اور آپ عالم اسلام کے بہترین مورخین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ زبان و ادبیات فارسی، تاریخ اسلام، شیعہ شناسی اور صوفیت شناسی کے موضوعات کی تدریس کرتے ہیں۔ اور ان موضوعات پر کئی کتابیں اور علمی رسالے بھی تحریر کئے ہیں۔ جن میں سے ۱۰۰ مقالے ایرانیکا دائرۃ المعارف (انسائکلوپیڈیا) میں چھپے ہیں۔ نیز آپ کا شمار امریکہ اور صہیونی ریاست کے خلاف سخت تنقید کرنے والوں میں بھی ہوتا ہے۔
 
پروفیسر ایلگر نے پیرس اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران میں متعدد بار امام خمینی (رہ) کے ساتھ ملاقات کی۔ انہوں نے امام خمینی (رہ) کی بہت ساری تقریروں اور تحریروں کا ترجمہ کیا اور ایک کتاب “ایران میں اسلامی انقلاب کی جڑیں” کے عنوان سے تصنیف بھی کی۔ پروفیسر الگر نے اسلامی انقلاب کو اسلام کی معاصر تاریخ کا اہم ترین اور موثر ترین انقلاب قرار دیا ہے۔
پروفیسر ایلگر نے ۱۹۹۴ میں امام خمینی (رہ) کی برسی پر عالمی جہاد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہا: آئیں اس عالمی جہاد کا آغاز کریں جو خود ہم سے شروع ہوتا ہے جو ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں شامل ہے۔ اور اگر اس بات کی ضرورت پڑے کہ ہم دشمنان اسلام کو شکست دینے کے لیے اسلحہ اٹھائیں تو ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ ایلگر مزید کہتے ہیں: آئیں مغرب کا صحیح تجزیہ و تحلیل کریں جو امام نے ہمیں سکھایا ہے۔۔۔ بین الاقوامی راہزنوں کے مجموعے کے عنوان سے۔۔۔ کہ جنہوں نے امام کی رحلت کے بعد خود کو متحد کر لیا۔ آئیں طفل کش اور جعلی ریاست اسرائیل کی مکمل نابودی کے بارے میں امام کے افکار کو بھی دہرائیں۔
 
پروفیسر ایلگر کے نزدیک اسلام اور مغرب کی جنگ کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں: یہ وہ بے معنی شعار ہے جس کے بارے میں لوگ سیمینار منعقد کرتے ہیں اور اس پر کتابیں لکھتے ہیں جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ لیکن جیسا کہ حال ہی میں جیمز وولسی( سی آئی اے کے سابق سربراہ) نے کہا: چوتھی عالمی جنگ ( اس فرض کے ساتھ کہ موجودہ دور میں جاری سرد جنگ تیسری عالمی جنگ ہے) اسی غلط سوچ سے رخ پا سکتی ہے۔ پروفیسر الگر امریکی حکومت کے اس دعوے پر بد ظن ہیں جو کہتی ہے کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ جو جاری ہے یہ اسلام کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ پروفیسر ایلگر کا ماننا ہے کہ چوتھی عالمی جنگ ممکن ہے مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں منحصر ہو۔
 
پروفیسر ایلگر کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی لحاظ سے کسی مذہب کے خلاف جنگ کرنا درست نہیں ہے لہذا مذہب کے ساتھ ایک صفت کا اضافہ کیا جائے تاکہ جنگ کا جواز فراہم کیا جا سکے؛ جیسے جنگ طلب اسلام، انتہا پسند اسلام، اسلامی دھشتگردی، بنیاد پرست اسلام اور سیاسی اسلام۔ امریکیوں نے ’’جنگ طلب اسلام‘‘ کو اپنا دشمن معین کیا ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ امریکہ نے اس عنوان کو مشرق وسطیٰ پر تطبیق دے کر عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ مشرق وسطیٰ طاقتور ہے، یا اس سے امریکہ کو کوئی خطرہ لاحق ہے بلکہ اس وجہ سے اسے اپنا دشمن منتخب کیا ہے چونکہ وہ انتہائی کمزور اور ناتوان دشمن ہے۔
محقق: Joseph Di Politto

 

بین الاقوامی یہودی تنظیم فری میسن (freemason) کا تعارف اور اس کے مقاصد

  • ۸۸۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فری میسن ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے۔ ہر ملک میں اس کے مراکز ہیں۔ جو لاج کہلاتے ہیں۔ اس کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کی رکنیت کے لیے کچھ شرائط ہیں اور ہر ڈگری کا رکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے ربط ضبط رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگڑی کے رکن کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گزری ہو انتہائی خفیہ اور راز داری میں رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کر لینا تقریبا ناممکن ہے۔ لاجوں کی روئدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے اراکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کر کے یکجا کی جا سکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈ میں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروازوں پر دقل الباب کرنے کا بھی ان کا ایک مخصوص انداز ہے اور یہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی فری میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لیے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوشل اجتماعات جلسوں یا تقریبات میں، مختلف ملکوں میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اور بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہنچان جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی اجنبی ماحول میں، کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اور کتنے افراد وہاں موجود ہیں تو وہ صرف اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوں سے مثلث بنائے اور دوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن پر ایسا ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فورا شناخت کر لیں گے اور انہیں کوئی لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
فری میسن عام طور پر ملک کے افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان اور عہدیداروں کو۔ رکن بننے کے لیے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنی گرفت پر لایا جاتا ہے۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کے درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیا جاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لیے اس کا حقدار بنا دیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین صرف ایک آدھ یہودی ہو یا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہودی نہ ہو لیکن اس کی تنظیم اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ بالآخر عالمی صہیونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہے۔
یہ تنظیم سب سے پہلے ۱۷۱۷ء میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنطیم کی چار انجمنوں(لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں انتظام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔
آئندہ مقالوں میں صہیونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ جہاں تک فری میسن کے ایک کام کی نوعیت کا تعلق ہے اس تنظیم کی قیادت صرف اور صرف یہودی ہاتھوں میں ہے۔
یہ دستاویزات بہت حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ مثلا یہ کہ خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔
عام طور پر لوگ اسے ایک عام سا کلب سمجھ کر اس کے رکن بن جاتے ہیں۔ شروع شروع میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کا شبہ بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہذا ان کی نیک نیتی و وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن (الہی) علوی اپنی کتاب “جادو کی حقیقت” میں فری میسن تنظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” اللہ تعالی نے حضرت سلیمان کے تابع کچھ شیاطین بھی کئے تھے۔ یہودیوں نے تورات میں جہاں بیشمار معنوی اور لفظی تحریفیں کی ہیں وہاں ان بدبختوں نے حضرت سلیمان کو جادو گر لکھ کر شیطان کو تابع بنانے کا جواز بھی پیدا کر لیا ہے اور اس عقیدے کی بنا پر دنیا بھر میں فری میسن کا جال پھیلا رکھا ہے۔ فری میسن لاج کو اسی بنا پر “جادوگر” بھی کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور تفریحی کلب ہیں اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہا مدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لیے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے۔ خصوصا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔ معاشرے کے یہی لوگ اپنے اپنے ملکوں کے اہم رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے جارج پنجم ( SUPREEM & GRAND WORSHIPFUL MASTER GRAND WORSHIPFUL) تھے افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان GRAND WORSHIPFUL تھے مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پورسر رضا علی خاں وغیرہ بھی اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈورشپ فل ماسٹر رہے۔ لاج کی ممبروں کو شراب کے استعمال کی طرف خاص طور سے مائل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں بے تکلفی پیدا کر کے ہی راز اگلوائے جا سکتے ہیں۔
اس تنظیم کے عہدے دار اور اعلی درجے کے ارکان کا WORSHIPFUL MASTER پرستش کے قابل آقا اور GRAND WORSHIPFUL MASTER عظیم پرستش کے قابل آقا وغیرہ عام اور زبان زد الفاظ کی وجہ سے نئے رکن کو جادو سیکھتے وقت شیطان کی پوجا کرنے میں کراہیت محسوس نہیں ہوتی۔ مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جب کسی شخص کو لاج کا مستقل ممبر بناتے ہیں تو کسی شیطان ہمزاد کو اس کا تابع کیا جاتا ہے۔ ( اس طریقہ کار کا جادو سیکھنے کے باب میں بیان ہوا ہے)۔ ہمزاد کو تابع کرتے وقت صرف یہی ایک کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ اس رکن کی نگرانی کرنے کے لیے ہمہ وقت مسلط رہے گا کہ وہ لاج کا کوئی راز افشا نہ کرنے پائے۔ فری میسن تا حیات اس شیطان سے نجات نہیں پا سکتا چاہے وہ کتنا ہی کہے کہ اب وہ فری میسن نہیں رہا”۔ (جادو کی حقیقت، صفحہ ۸۹ تا ۹۱)
پاکستان میں فری میسنری پر قانونی پابندی لگا کر اس کی لاجیں بند کر دی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اراکین کہاں گئے؟ وہ اب بھی بالکل اسی طرح نہ صرف تا حیات اس کے رکن رہنے پر مجبور ہیں بلکہ نئی رکن سازی کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فری میسن لاجیں بن کر دی گئی ہیں اور اب یہ کام زیر زمین ہو رہا ہے۔ دستاویزات میں ان کے طریقہ کار پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اقتباس: کتاب صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات

 

یہودی پروفیسر’’شلومو سینڈ‘‘(Shlomo Sand) کا تعارف

  • ۳۳۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شلومو سینڈ ایک یہودی محقق ہیں جو تل ابیب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ معاصر میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ آپ ۱۰ ستمبر ۱۹۴۶ کو آسٹریا کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
سینڈ نے دو سال ایک یہودی پناہ گزین کیمپ میں زندگی گزاری اور سنہ ۱۹۴۸ میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ مقبوضہ فلسطین کے شہر جافا میں ہجرت کی۔ ہائر اسکینڈری میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اسرائیلی نوجوانوں کی ایک تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے اسکول سے خارجہ لے لیا۔ اسرائیل کمیونیسٹ پارٹی نے تل ابیب یونیورسٹی کے ذریعے انہیں پولینڈ جانے اور سینما کے سبجکٹ میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا مشورہ دیا لیکن شلومو نے اسے قبول نہیں کیا۔
شلومو سینڈ نے ۱۹۷۵ میں پیرس کا رخ کیا اور ۱۹۸۵ تک وہاں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ پیرس یونیورسٹی سے انہوں نے ’فرانسیسی تاریخ‘ میں ایم اے اور ’’جارج سورل اور مارکسیزم‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
شلومو سینڈ کا یہودیوں اور سرزمین مقدس کے درمیان تعلق کے بارے میں کہنا ہے: ’’میں نہیں سمجھتا کہ ایک سرزمین سے مذہبی لگاؤ، اس کے تاریخی حق کا جواز فراہم کر دے‘‘۔ وہ قائل ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی عوام کو بہت اذیتیں دی ہیں اور اسرائیلی حکومت تشکیل دینے میں فلسطینی سماج کو نابود کیا گیا ہے۔ شلومو خود کو صہیونی نہیں مانتے اس لیے کہ وہ اس دعوے کے مخالف ہیں کہ مقبوضہ فلسطین اسرائیل کا تاریخی حق ہے۔ وہ نیز قائل ہیں کہ یہودی ایک قوم نہیں ہیں اور ایک قوم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
شلومو سینڈ کی اہم ترین علمی کاوش، کتاب ’’قوم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ ہے جو ۲۰۰۸ میں عبرانی زبان میں منظر عام پر آئی۔ عبرانی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ اس کتاب کے دوسری زبانوں میں ترجمے شائع ہوئے۔ شلومو اس کتاب میں کہتے ہیں: یہودی بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح مختلف نسلوں سے ہیں اور ان کی کوئی ایک اصل نہیں ہے‘‘۔
کتاب’’ قویم یہود کی بناوٹی کہانی‘‘ میں انہوں نے یہودی تاریخ اور ان کے عقائد کو اس قدر دقیق طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ’’بارنز ریویو‘‘ رسالہ اس کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ہمارے پاس جو تاریخ یہودیت کے بارے میں معلومات ہیں ممکن ہے صحیح نہ ہوں یا کم سے کم حقیقت اس چیز سے الگ ہو جو یہودی دین کے اصول میں پائی جاتی ہے‘‘۔
شلومو سینڈ کے دیگر قلمی آثار کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا سکتا ہے:
· The Words and the Land, Los Angeles, Semiotext, 2011
· The Invention of the Jewish People, London, Verso, 2009
· The Invention of the Land of Israel, London, Verso, 2012
· Intellectuals, Truth and Power: From the Dreyfus Affair to the Gulf War, Tel Aviv, Am Oved, 2000
· Historians, Time and Imagination, Tel Aviv, Am Oved, 2004
· How I Stopped being a Jew, London, Verso, 2014
· Twilight of History, London, Verso, 2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جینسا (JINSA) ریسرچ سینٹر کا تعارف

  • ۴۷۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دنیا میں بسنے والے خاص کر امریکی یہودیوں کو انکے کاموں کے حساب سے ایک چارٹ کے تحت منظم کیا گیا ہے، تقسیم کی بنیاد ہر ایک کا کام ہے، جو جس قسم کا کام کر رہا ہے اسی کے تحت اسے قرار دیا گیا ہے اور یہ لوگ محولہ چارٹ کے تحت اپنے اور صہیونی رژیم کے مسائل کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں، یہ لوگ مختلف تحقیقاتی مراکز میں در آئے ہیں اور انہوں نے بعض فکری حلقوں کو بھی اپنے آپ سے مخصوص کر لیا ہے، قومی سلامتی کا یہودی ادارہ JINSA (Jewish Institue For National Security offairs ان لوگوں سے مخصوص ہونے والے مراکز میں ایک ہے۔
جینسا (JINSA) اسرائیل کا حامی ایک ایسا رسرچ سینٹر ہے جو واشنگٹن میں واقع ہے اور ۱۹۷۶ ء میں قومی سلامتی پر فوکس کرتے ہوئے اس کی تاسیس ہوئی ۔ اس ریسرچ سینٹر کا ہدف امریکن کانگریس کے نمائندوں نیز امریکن قومی سلامتی کے ڈپارٹمنٹ میں عسکری و غیر عسکری پالیسی سازوں و قوت فیصلہ رکھنے والے افراد کی امریکہ کے اسٹراٹیجک ودفاعی مفادات کے شعبہ میں تعلیم و تربیت کرنا ہے جو غالبا مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کا حصہ ہے، اور ان تمام امریکن مفادات کا اصلی محور امریکہ و اسرائیل کے درمیان ایک مضبوط مشترکہ تعاون بھی اسی ہدف کے طور پر بیان ہوا ہے ۔ یہ مرکز امریکہ و اسرائیل کے مابین سلامتی سے متعلق مشترکہ تعاون کی سطح کے ارتقاء کے لئے مخصوص پروگرامز کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے انہیں تجویز کرتا ہے ۔
جینسا (JINSA) جہان اسلام میں رونما ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو ایک سیاسی تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے جسکا مقصد مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکہ و اسرائیل کے ساتھ انکے بہت سے حلیفوں سے مقابلہ آرائی ہے، چنانچہ اسی بنا پر کہ یہ تحریک امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لیے ایک اسٹراٹیجکل خطرہ ہے اور اسے وہ اپنے لئے ایک دھمکی کے طور پر دیکھتے ہیں اسی لئے انکی نظر میں اس سے مقابلہ بہت ضروری ہے ۔
اس مرکز کے اہم اہداف یہ ہیں :
بازار تلاش کرنا اور فوجی اسلحوں کو علاقے میں صہیونی رژیم کی عسکری و سیکورٹی ضرورتوں کے پورا ہونے کی خاطرعرب دنیا میں فروخت کرنا ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری توانائی و علمی فعالیتوں کی راہ میں روڑے اٹکانا اور ان سے مقابلہ ۔
مغربی ایشیا کے علاقے میں صہیونی رژیم کی عسکری طاقت کی بالا دستی کو قائم رکھنا۔
مشرق وسطی میں مزاحمت کے محاذ اور جہاد اسلامی سے جڑے لوگوں کی علمی، فرہنگی اور عسکری پیشرفت کا مقابلہ کرنا۔
 
اس مرکز کی اہم شخصتیں یہ ہیں:
Mark Broxmeyer, David P. Steinmann, Stephen D. Bryen, Anthony Cordesman, Tom Newman, Leon Edney, Micheal Ledeen, Eugene Rostow.
جینسا (JINSA) اپنے کام میں مہارت رکھنے والے باخبر صاحبان صلاحیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر متعلقہ کاموں کو سیکھنے والے افراد کو بھی خود سے جوڑے ہوئے ہیں جو اسکے اہداف کے تحت کام کرتے ہیں ۔
جینسا (JINSA) کے تین اکیڈمک سمسٹروں میں اسٹوڈنٹس کا داخلہ، خزان، بہار اور گرمیوں کے موسم میں، جولائی، مارچ، اور نومبر میں دی جانے والی درخواستوں کے بعد عمل میں آتا ہے اور اس مرکز میں خدمت کئے جانے کا فیصلہ درخواست کے دئے جانے کے چار ہفتوں کے بعد لیا جاتا ہے، امید وار اپنے تعلیمی مراحل کو طے کرنے کے بعد، عملی نفاذ سے متعلق حمایت، تحقیق و ریسرچ، سایٹ کے لئے مقالات کے تحریر کرنے مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی اور انکے تہیہ کرنے میں معاونت جیسی کارکردگیوں میں حصہ لیتے ہیں اور متعلقہ سمیناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں ۔
جینسا (JINSA) کی علمی اور ذرائع ابلاغ سے متعلق کارکردگی :
جینسا (JINSA) کی آن لائن سائٹ اس مرکز سے جڑی خبروں اور تحریر شدہ مقالات کو منظر عام پر لاتی ہے، جینسا (JINSA) کے چار جریدے ہیں جن میں اس مرکز کے اعضاء ممبران کے عسکری اور سیاسی موضوعات پر ہونے والے مطالعات کے حاصل اور نچوڑ کو پیش کیا جاتا ہے اور ان جرائد کے مندرجات میں جینسا (JINSA)سے جڑے ممبران کے مطالعات کا لب لباب ہوتا ہے۔
یہ چار جرائد حسب ذیل ہیں :
o Security Affairs
o National Securily Quarterly
o Viewpoints
Middle East Media Survey
منابع:
۔ www.jinsa.org
۔ http://nedains.com/fa/news/315949/
http://www.zien.maarefefelestin.com/index.php ۔
www.Jinsa.org/articles/print/html/8183.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’یسرائیل ڈیوڈ ویس‘ کی شخصیت کا تعارف

  • ۴۵۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یسرائیل ڈیوڈ ویس (Yisroel Dovid Weiss) ایک یہودی ربی (خاخام) اور صہیونیت مخالف بین الاقوامی یہودی یونین کے ترجمان ہیں۔ وہ ۱۹۵۶ میں نیویارک میں پیدا ہوئے۔
ڈیوڈ ویس صہیونیت کے مخالف اور ہولوکاسٹ کے منکر ہونے کے عنوان سے معروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہمارے پاس اپنا ایک ملک ہو۔ حتی ایک ایسی متروکہ سرزمین کو بھی ہم اپنا ملک نہیں بنا سکتے جہاں کوئی رہائش پذیر نہ ہو۔ نیز وہ قائل ہیں کہ واقعی یہودیوں کو چاہیے کہ وہ پرامن طریقے سے موجودہ صہیونی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کا مقابلہ کریں‘‘۔
ڈیوڈ ویس ہمیشہ کوشش کرتے ہیں یہودیت اور صہیونیت کے درمیان ایک سرحد قائم کر کے یہ ثابت کریں کہ صہیونیوں کا یہودیت سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ویس اس نکتے کو بیان کرنے کے ساتھ کہ یہودیوں کی دعاؤں کی کتابوں میں، اس قوم کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ملک بدر کر دیا گیا تھا، لیکن صہیونیوں نے اسرائیل کا قیام کر کے عہد شکنی کی‘‘۔ وہ کہتے ہیں: صہیونیوں نے دین یہودیت کو تحریف کیا ہے۔ وہ یہودی قوم کی سرزمین موعود میں بازگشت کے نظریہ کو مزاق سمجھتے ہیں۔
چند ایک وہ کانفرنسیں جن میں ڈیوڈ ویس کو میہمان خصوصی کے عنوان سے دعوت دی جاتی رہی ہے:
· اقوام متحدہ کی نسل پرستی کے خلاف کانفرنس، جنوبی افریقہ، سنہ ۲۰۰۱
· سامراجیت مخالف کانفرنس، ایران، سنہ ۲۰۱۷
· افق نو کانفرنس بعنوان ’’قدس فلسطین کا دائمی پایتخت‘‘ ایران، ۲۰۱۸
یسرائیل نے ۲۰۰۶ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں بیان کیا تھا کہ اسرائیلیوں نے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچا کر اپنی مظلومیت کو چرچا کیا اور اس کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کئے۔ ان کی اس تقریر کے بعد صہیونیوں نے ان پر شدید تنقیدی حملے کئے۔
ڈیوڈ نے ۲۰۱۷ میں ایران میں منعقدہ کانفرنس میں کہا کہ صہیونی ریاست کے جرائم کا دین یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسرائیل کا وجود پوری دنیا کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔
ڈیوڈ نے ایران میں منعقدہ اس سال ’افق نو‘ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے درج ذیل موضوعات پر روشنی ڈالی:
’’صہیونیوں نے خدا کے عہد کو نسل پرستی، قومی پرستی اور دین کے نام سے بدل دیا ہے۔ اسرائیلی خدا کی مالکیت کے منکر ہیں اور طاقت کو اسلحہ کے مفہوم سے ثابت کرتے ہیں‘‘۔
یسرائیل ڈیوڈ ویس نے اس کانفرنس میں مزید کہا کہ دین یہودیت صہیونیت کے لیے کسی طرح کے جواز کا قائل نہیں ہے اور یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینا ایک بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے ایرانی اور عربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح اعلان کیا کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ممکنہ جنگ میں کبھی بھی صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا: یہودی فقہ کے مطابق، ایک مستقل ملک رکھنا ہمارے لیے ممنوع اور ناجائز ہے۔ خدا نے ہمیں سرزمین مقدس سے باہر نکال دیا تھا تاکہ دو ہزار سال تک اس عہد کو پورا کر سکیں، لیکن صہیونیوں نے اس فرمان الہی کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مستقل ملک تشکیل دے دیا۔

 

صہیونیت مخالف شخصیت ’’لاورنیس ڈیوڈسان‘‘ کا مختصر تعارف

  • ۳۹۲

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: لاورنیس ڈیوڈسان[۱]، نے ۱۹۴۵ ء میں امریکہ کے چھٹے بڑی آبادی والے شہر فیلاڈالفیا[۲] میں، ایک سیکولر یہودی گھرانے کے یہاں آنکھیں کھولیں، لاورنیس ڈیوڈسان نے روٹگیرز یونیورسٹی [۳] سے تاریخ کے موضوع میں بے اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۶۷ء میں لاورنیس کو جارج ٹاون یونیورسٹی[۴] میں وہاں کے استاد کی حیثیت سے منظوری مل گئی اور بحثیت استاد انہیں قبول کر لیا گیا۔
ڈیوڈسان نے اپنے ان ایام کو یورپ میں جدید روشن خیالوں کی تاریخ کے سلسلہ سے مطالعہ میں بسر کیا اس دوران انکا ایک فلسطینی استاد سے کافی بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔
۱۹۷۰ء میں ڈیوڈسان نے امریکہ کو کینیڈا کی غرض سے ترک کر دیا اور یوں امریکہ سے رخت سفر باندھ کر وہ کینیڈا پہنچ گئے اور قیام کینیڈا ہی کے دوران انہوں نے جدید پورپ کی فکری تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔
ڈیوڈسان ۱۹۸۹ء کی دہائی میں ویسٹ چسٹر یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے مصروف عمل ہو گئے ساتھ ہی تاریخ ِعلم اور جدید یورپ میں روشن خیالی کی تاریخ بھی تدریس کرنے لگے نیز اسی موضوع میں ریسرچ و تحقیق سے بھی جڑ گئے، ۲۰۱۳ ء مئی کے مہینے میں یورنیورسٹی کی خدمت سے سبکدوش اور رٹائرڈ ہوئے۔
ایک معاہدے و پیمان کے طرف ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے غیر قابل بھروسہ اور ناقابل یقین ہونے کے سلسلہ سے ڈیوڈ سان کا کہنا ہے: اس سلسلہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مشرق وسطی اور علاقائی مسائل پر ہونے والی گفتگو منطقی اور حقیقت پر مبتنی گفتگو ہے [۵]۔
یمن کے سلسلہ میں ڈیوڈ سان کا ماننا ہے دوسری عالمی جنگ کی طرح آج بھی کچھ حکومتوں کی حماقت، مفاد پرستی و خود خواہی نے بین الاقوامی قوانین کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ یمن کچھ حکومتوں کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔[۶]
ڈیوڈ سان اسرائیل کی بین الاقوامی ثقافتی کمپین کے صدارتی بورڈ کے ایک رکن ہیں اور حامد داباشی[۷] ، ایلان پاپے[۸]، مائکل شیادہ[۹] ، دزموندٹوٹو[۱۰] جیسی ممتاز شخصیتوں کے ہمراہ عالمی صہیونیت اور انکے ظالمانہ افکار سے جنگ کر رہے ہیں [۱۱]
انکے بعض اہم آثار یہ ہیں :
The Alexian Brothers of Chicago: An Evolutionary Look at the Monastery and Modern Health Care
Islamic Fundamentalism
America’s Palestine: Popular and Official Perceptions from Balfour to Israeli Statehood
Foreign Policy, Inc: Privatizing America’s National Interest
Lawrence Davidson, and Tom Weiner. A Concise History of the Middle East
Cultural Genocide. New Brunswick
حواشی:
[۱] ۔ Lawrence Davidson
[۲] ۔ Philadelphia ، امریکہ کا ایک ایک ایسا شہرجو امریکہ کا سب سے پہلا پایتخت قرارپایا نیز امریکہ کا بنیادی دستور العمل بھی اسی شہر میں منظور کیا گیا ۔رجوع کریں : http://www.nps.gov/archive/inde/phila.htm
[۳] ۔ Rutgers University، امریکی ریاست نیوجرسی کی ایک معروف یونیورسٹی
[۴] ۔ Georgetown Universityواشنگٹن کی ایک کیتھولک نظریات کی حامل یونیورسٹی
https://middleeastpress.com/slideshow/. [5]
www.farsnews.com/news/13940219200165. [6]
Hamid Dabashi .[7]
[۸] ۔ Ilan Pappé
[۹] ۔ Michel Shehadeh
[۱۰] ۔ Desmond Tutu
[۱۱] ۔ www.usacbi.org/advisory-board/

 

موساد کی جاسوس ایجنسیوں میں عورت کا استعمال/ موساد کی ابابیلیں

  • ۵۲۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر جب لفظ “جاسوس” سامنے آتا ہے تو ذہنوں میں ایک خوفناک یا نقاب پوش مرد ابھر آتا ہے حالانکہ تاریخ میں کم نہ تھیں ایسی عورتیں جنہوں نے خفیہ معلومات منتقل کرکے جنگوں کا رخ موڑ لیا ہے اور ممالک کے مقدرات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ عورتوں کا جاسوسی کے لئے استعمال دو اہم دلیلوں پر استوار ہے:
۱۔ عورتیں بہت زیادہ حساسیت کا باعث نہیں بنتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر بدظن نہیں ہوا کرتے۔ بطور مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی مردوں کی تلاشی کا امکان عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسی بنا پر اس دور میں خاتون جاسوساؤں کی تعداد میں بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
۲۔ خواتین اپنی ظاہری جاذبیت اور دلفریبی کی بنا پر مردوں کو بہ آسانی دھوکہ دے سکتی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فاش کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔
جاسوس عورتیں دو قسم کی ہیں: معمولی جاسوسائیں اور وہ جاسوسائیں جنہیں چڑیوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
جاسوس عورتیں ـ جنہیں “ابابیلوںswallows” کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے ـ ضعیف نفس اور شہوت پرست جنسی حربے بروئے کار لاکر اپنے متعلقہ جاسوسی اداروں کے منصوبے پر عمل کرتی تھیں۔
گولڈا مائیر
گولڈا مائیر (‎(Golda Meir جو ماضی میں یہودی ریاست کی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم رہی ہے، کو اسرائیلی ابابیلوں کی بڑی اماں کہا جاتا ہے۔
مائیر ان ہی ابابلیوں میں سے ایک تھی جو روسی سیاح کے طور پر اردن میں داخل ہوئی اور اردن کے فوجی حکام اور اعلی افسروں کی رہائشگاہوں کے قریب قیام پذیر ہوئی؛ کچھ عرصہ بعد اور بہت زیادہ آمد و رفت کے بعد، ان افسروں کے ساتھ دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئی اور ان کی خصوصی محافل میں داخل ہوئی۔
گولڈا مائیر نے جسم فروشی کے حربے کے ذریعے یہودی ریاست پر اردن کے حملے کے منصوبے سمیت بہت اہم راز حاصل کئے۔ وہ اسی حربے کے ذریعے اردن کی کچھ فوجی تنصیبات تک میں بھی داخل ہوئی اور وہاں کی نہایت اہم معلومات حاصل کرلیں۔
زیپی لیونی
گولڈا مائیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک “ابابیل” تھی۔ لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم “اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی سیاستدان تھے۔ اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔
موساد نے مردخائے وانونو کی گرفتاری کے لئے بھی اسی روش سے فائدہ اٹھایا:
موساد نے اپنی جاسوسی کاروائیوں کی ایک مشہورترین کاروائی ـ جس میں اس نے عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use)  کیا ـ مشہور ایٹمی سائنسدان مردخائے وانونو (Mordechai Vanunu جو John Crossman کے نام سے بھی مشہور ہے) کی گرفتاری کے لئے ہونے والی کاروائی تھی۔ اس شخص نے یہودی ریاست کی عسکری ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق سرگرمیوں کو برطانیہ جاکر فاش کرتے ہوئے شائع کردیا تھا۔ وانونو موساد کے نشانے پر تھا۔ وہ اسے یورپ سے اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا چاہتی تھی۔ موساد کے گماشتوں نے اس کو بھی ان ہی ابابیلوں کے ذریعے پھنسا کر گرفتار کیا۔
چیریل بنتوف (Cheryl Bentov) جو چیریل ہنین (Cheryl Hanin) کے نام سے مشہور تھی نے کینڈییا سینڈی (Cindy) کوڈ نیم کے تحت وانونو کے قریب پہنچی اور اس کے اس جال میں پھنسایا جو موساد نے اس کے لئے پھیلایا ہوا تھا، چنانچہ اسے بےہوش اور اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین پہنچایا گیا تا کہ یہاں اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔
اور ہاں یہ حربہ یہودیوں کے درمیان بہت پرانا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں یہودی جاسوسوں کا ایک سیل نیلی (Nili) کے نام سے برطانیہ کی خدمت میں مصروف تھا اور انہیں بظاہر وعدہ دیا گیا تھا کہ ان کی ان خدمات کے بدلے میں جنگ کے بعد انہیں ایک یہودی ریاست بطور تحفہ دے جائے گی۔ سارا ارونسن (Sarah Aaronsohn) ان ہی جاسوسوں میں شامل تھی ـ جو ترک سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور موت کی سزا پانے سے پہلے اعتراف کیا کہ اس کی آخری آرزو یہودی ریاست کا قیام ہے ـ جس کو یہودی اپنی ہیروئن ابابیل کا نام دیتے ہیں۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ “ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے اور مغربی اخباروں نے بھی لکھا کہ: “Rabbi Ari Shvat declares sleeping with the enemy kosher” یعنی دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!
اس رپورٹ کے مطابق، شوات نے اعلان کیا ہے خاتون ایجنٹوں کے لئے دہشت گردوں (یعنی فلسطین کی آزادی کے لڑنے والے مجاہدین اور دیگر جنگجؤ‎وں نیز مخالفین) کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنا جائز ہے تاکہ یہ رابطہ ان کی گرفتار پر منتج ہوجائے۔ اس یہودی رابی کی تحقیقی کاوش بعنوان “غیر قانونی رابطہ قومی سلامتی کے سلسلے میں” بیت المقدس کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی “گوش عتصیون (Gush Etzion)” سے شائع ہوئی ہے۔
ایک یہودی جاسوسہ یائیل (شایدYeil) کا کہنا ہے کہ: “زنانہ ادائیں جاسوسی کے مشن میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں”۔
اس کا کہنا ہے: “عورت بعض اوقات جاسوسی مشنز میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہے؛ جو مرد ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونا چاہے تو اسے کامیابی کے لئے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں؛ جبکہ ایک جاذب نظر ہنستی مسکراتی عورت کے لئے کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں”۔
موساد کی اعلی خاتون آپریشنل کمانڈر “اِفرات Efrat” کہتی ہے: “ہم اپنی نسوانیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ہر کام جائز ہے”۔
واضح رہے کہ یہودی ادارے موساد کے دنیا بھر کے جاسوسی ادارے بھی اس روش کو بروئے کار لاتے ہیں۔