-
Monday, 20 July 2020، 01:13 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر Professor Leighton Armitage لیفٹن آرمیٹیج کیلیفورنیا میں فوتھل کالج (Foothill College) میں شعبہ سیاسیات کے ایک ماہر استاد ہیں۔
یوں تو ڈاکٹر ارمیٹیج یورپ اور جاپان کے سیاسی حالات پر تخصص رکھتے ہیں لیکن ان کی کلاسوں میں زیادہ تر گفتگو کا محور اسرائیل کا موضوع رہتا ہے چونکہ وہ اس ناجائز ریاست سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ یہودیوں کا نازی فرقہ امریکی حکومت پر مکمل قبضہ رکھتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ صہیونی ریاست کی موجودہ سرحد غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ظالمانہ ہے اور اس “گتو” دیوار کے مانند ہے جسے نازیوں نے سن ۱۹۴۰ میں یہودیوں کو ٹریبلنکا اور آشوٹز میں ابدی قید کے لیے ورشو میں تعمیر کیا۔ ڈاکٹر ارمیٹیج اپنے شاگردوں سے کہتے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہودی دنیا میں کس قدر نفوذ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل سے گہرے روابط کی بنا پر پوری دنیا کی نظر میں گر چکا ہے۔
پروفیسر آرمیٹیج امریکہ کے ہاتھوں عراقی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری اور اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی دھشتگردوں کے پرامن گھروں کی مسماری کو ایک ہی دلیل کے تحت مورد مذمت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کیا آپ نے سنا ہے کہ ہم عراق میں ان افراد کے گھروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں جن پر دھشتگردانہ کاروائیاں کرنے کا الزام عائد ہے؟ ہم انہیں دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیتے ہیں۔ اگر آپ پر دھشتگردی کا الزام عائد ہے تو آپ کا گھر دھماکہ سے اڑا دیا جائے گا۔ فرق یہ ہے کہ اسرائیلی اس کام کو بلڈوزر سے انجام دیتے ہیں جبکہ ہم دھماکہ خیز مواد سے۔ ہم زیادہ ترقی یافتہ عمل انجام دیتے ہیں!‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے بقول امریکی رنج و الم کو اس حقیقت سے نسبت دی جا سکتی ہے کہ یہودی امریکہ کے انتخابی سسٹم پر مکمل نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: وہ بہت اچھے تاجر ہیں۔ اور اگر آپ کے پاس ان کے احترام کے لیے کوئی بھی دوسری دلیل نہ ہو تو صرف اسی بات پر آپ کو ان کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔ البتہ وہ ہمارے انتخابات کو خرید لیتے ہیں۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو بہت واضح ہیں اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ جان لیں گے۔ کوئی بھی آپ کو یہ باتیں نہیں بتائے گا۔ اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ آپ یہ سب جانیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب کچھ سال قبل کانگرس میں کام کرتے تھے کانگرس کے ایک رکن نے انہیں یہودی لابی کے شیاطین کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کے ذہن میں ہمیشہ فلسطین کے مسائل الجھے رہتے ہیں کہ ’’اسرائیلی ہر آئے دن فلسطینیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں؟ سوائے قتل و غارت کے وہ فلسطینوں کے ساتھ کوئی دوسرا برتاؤ نہیں کرتے۔ یہ وہی کام ہے جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر آرمیٹیج کی باتیں اس قدر تلخ تھیں کہ فوتھل کالج کے سربراہ “برناڈین فونگ” کو مارچ ۲۰۰۴ میں ایک میٹنگ میں ان کی جانب سے معافی مانگنا پڑی۔ اس کے باوجود کہ وہ خود کو یہود مخالف کہتے تھے اور ان کی وجہ سے فوتھل کالج کو متعدد بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہیں کالج سے باہر نہیں نکالا گیا جبکہ اگر کالج کی مینیجمنٹ کمیٹی چاہتی تو انہیں کالج میں تدریس کے عہدے سے برطرف کر دیتی۔
تحقیق: لی کاپلان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲