-
Wednesday, 8 July 2020، 01:56 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: پروفیسر بٹینا اپتھیکر(Professor Bettina Aptheker) امریکہ کے معروف کمیونیسٹ ’’مرحوم ہربرٹ اپتھیکر‘‘ کی بیٹی ہیں کہ جنہیں سوویت نظام کے خاتمے کا گہرا صدمہ لاحق ہوا۔ پروفیسر اپتھیکر نے کولمبیا یونیورسٹی سے تاریخ کے موضوع پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد از آں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی۔
پروفیسر بٹینا اپتھیکر نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک کمیونیسٹ ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ میں فیمی نیزم (Feminism) کے بارے میں University of California Santa Cruz UCSC)) میں کچھ کورس کیے اور اس کے بعد مارکس کی “تاریخی مادہ پرستی” کو اپنے مطالعہ کا موضوع قرار دیا۔
تاریخی مادہ پرستی، تاریخ کی ایک مادی اور فطری تفسیر کے معنیٰ میں ہے کہ جو سب سے پہلی مرتبہ کارل مارکس اور فریڈریچ انگیلس (Friedrich Engels) کے ذریعے بیان ہوئی اور اس کے بعد یہ مارکس ازم – لیننزم کی تعلیمات کا حصہ بن گئی.
اپتھیکر اپنی تدریس کے فلسفے کو “انقلابی آپریشن” کے عنوان سے پہچنواتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظریے کا اصلی مقصد ذہنی اور خارجی حقائق کے درمیان تمایز اور فرق پیدا کرنا ہے کہ جسے اپتھیکر ’دوئیت کا زوال‘ نام دیتی ہیں اور اپنے اس عمل سے یونیورسٹی میں انقلاب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اپتھیکر کہتی ہیں کہ اس نظریہ کی بنا پر خواتین کے بارے میں مطالعات کو اہمیت ملتی ہے چونکہ عورت کو مرکزی حیثیت دے کر اسے درسی نصاب میں جگہ دی جا سکتی ہے اور یونیورسٹی کے قدیمی نظام میں جو مرد محوری پائی جاتی ہے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اپتھیکر اگر چہ فیمی نیزم اور تاریخی مطالعات کے موضوعات میں (UCSC) میں ہمہ وقت بطور استاد مصروف ہیں لیکن ایک بھی علمی کارنامہ ان کے نام سے موجود نہیں ہے۔ ان کی اکثر کتابیں ” اندرونی سیاست، شاہد نامی زندگی نامہ، صبح کے وقفے، آنجیلا ڈیوس کا مقدمہ، اگر وہ صبح آئیں، اور مزاحمت کی آواز، وغیرہ کے عناوین سے ہیں جو مکمل طور پر سیاسی قلم سے تحریر کی گئی ہیں۔
“عورت کی میراث” امریکہ کی تاریخ میں نسل پرستی، سماجی طبقات اور شھوت پرستی کے بارے میں آپتھیکر کے مقالات کا مجموعہ ہے۔
سینٹا کروز یونیورسٹی کا ماحول کمیونیسٹی سیاست کو پروان چڑھانے کا بہترین موقع ہے اور اسی وجہ سے وہاں کے اکثر اساتید کو جرمنی حکومت کی جانب سے “لنین امن انعام” سے نوازا گیا ہے۔
اپتھیکر ۶۰ ویں دہائی میں جنگ مخالف تحریک کی رکن ہونے کی وجہ سے امریکی نظام میں دخالت کی نسبت اپنے مخالف کردار کو خفیہ نہیں رکھ سکی۔
اپتھیکر کا مخالف کردار اس وقت سامنے آیا جب ۲۰۰۳ میں عراق پر حملے کے خلاف UCSC میں منعقدہ اساتید کی نشست میں انہوں نے اعلان کیا کہ عراق میں جنگ چھیڑنا قباحت سے خالی نہیں ہے۔
اپتھیکر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جارج ڈبلیو بوش کی اسٹریٹجک، جرمنی کی نازی قوم سے شباہت رکھتی ہے۔ اپتھیکر کا کہنا تھا: جارج ڈبلیو بوش کی حکومت کی نوعیت ۱۹۳۰ کی دہائی میں ہٹلر کی نوعیت سے براہ راست شباہت رکھتی ہے۔ ہم اس میں کوئی شک نہیں کر سکتے اور یہ بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے UCSC کے طلبہ کو اعلان کیا کہ ہماری اہم ذمہ داری بوش کی سرنگونی ہے۔ اپتھیکر نے ۲۰۰۳ میں UCSC کے گروہ خواتین کے خبرنامے The Wave کے ایک شمارے میں بوش حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر نسل پرستانہ الزامات کے ساتھ ساتھ فاشسٹی پروگراموں پر عملدرآمد کا الزام عائد کیا اور پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہا کہ وہائٹ ہاؤس نے یہ وعدہ دیا ہے کہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سامراجی جنگوں کے بحران میں دھکیل دیں۔
اپتھیکر نے اسرائیلی نظام حکومت اور اس کی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کوشش کی ہے کہ UCSC یونیورسٹی کی فضا کو اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں تبدیل کر دیں۔
انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کو لکھے گئے اپنے ایک خط کے ذریعے اسرائیل کو کی جانے والی تمام امریکی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ سن ۲۰۰۲ میں انہوں نے جریدے The Wave میں اپنے ایک مقالہ میں فلسطینی مجاہدین کی حمایت کا اعلان کیا اور انہیں قابض حکومت کے خلاف سرگرم افراد کے عنوان سے جانا ہے۔
محقق: جان پارانزو