حقیقی دشمن کی پہچان ایک الہی فریضہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بے شک معرفت آگاہ انسانوں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ خدا کی معرفت، اپنے نفس کی معرفت، دوستوں کی معرفت، حقوق و فرائض کی معرفت، نیک اعمال، اخلاقیات کی پابندی اور اللہ کی بندگی اور اس کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہے۔ لیکن اس شناخت و معرفت اور دین کی پیروی اور حقوق کے حصول اور فرائض پر عمل کے لئے محفوظ ماحول فراہم کرنا ضروری ہے؛ جس کے لئے ہمیں پہلے مرحلے میں دشمن کی پہچان حاصل کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی چالیں سمجھنا ضروری ہے اور مقابلہ، تو تیسرے مرحلے میں آتا ہے کیونکہ دشمن کی عدم شناخت کی صورت میں دشمن کا مقابلہ ممکن ہی نہیں ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ دوسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ دشمن کی چالیں کیا ہیں اور وہ کن راستوں پر چل کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے؟ اور تیسرے مرحلے میں دیکھنا چاہئے کہ کن کن روشوں اور اقدامات کے ذریعے ہم دشمن کی سازشوں کا سد باب کرسکتے ہیں؟ اور کن کن راستوں پر چل کر ہم دشمن کی چلی ہوئی سازشوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اورکن راستوں پر چل کر ہم معاشرے کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟
دشمن ہے کیا؟ دشمن ہے کون؟ دشمن کا مختصر تعارف
لاطینی زبان میں Enemy اور دینی فرہنگ میں عَدُو جس کی جمع اعداء ہے اور اس کا مصدر “عَدْوٌ” ہے جس کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں۔
راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: “عَدْوٌ” کے معنی تجاوز اور جارحیت کے ہیں اور یہ لفظ “التیام” کے متضاد ہے۔
کبھی دشمنی قلبی ہوتی ہے جس کو “عداوت اور معادات” کہا جاتا ہے۔ کبھی راہ چلنے میں ہے اور اس حوالے سے “عَدْوٌ” کے معنی دوڑنے کے ہیں؛ اور کبھی لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی شکل میں ہے جس کو “عدوان” کہا جاتا ہے۔
“عَدُو” دشمن ہے جو دل میں انسان کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے اور عمل میں اس دلی کیفیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
ارشاد پرودگار ہے: “إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُواْ لَکُمْ عَدُوّاً مُّبِیناً” (یقینا کافر لوگ تمہارے کھلے ہوئے دشمن ہیں)۔ (۱)
یا ارشاد ہوتا ہے کہ “إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِینٌ” (یقینا شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے) (۲) (۳)
راغب اصفہانی کا کہنا ہے کہ دشمن کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ جو عداوت رکھتا ہے اور اس کا ارادہ بھی دشمنی کا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
” فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ” (اگر وہ کسی ایسی جماعت سے ہے جو تمہاری دشمن ہے) (۴)
۲۔ دوسری قسم کا دشمن وہ ہے جو عداوت کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کی حالت اور کیفیت کچھ ایسی ہے جس سے انسان کو اذیت پہنچتی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
” فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ” (بے شک وہ میرے لئے دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں سوائے عالمین کے پروردگار کے) (۵)
حالانکہ بے جان بت ابراہیم(ع) کے ساتھ دشمنی نہیں کرسکتے تھے؛ جمادات کہاں کسی کے ساتھ دشمنی کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کی حالت و کیفیت معبودوں کی تھی اور وہ حالت و کیفیت ابراہیم(ع) کے لئے تکلیف دہ اور آزار دہندہ تھی۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ وہ میرے دشمن ہیں۔
راغب مزید لکھتے ہیں: خداوند متعال کا ارشاد ہے:
” إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوّاً لَّکُمْ فَاحْذَرُوهُمْ” (یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں ایسے ہیں جو تمہارے دشمن ہیں تو ان سے ڈرتے رہو)۔ (۶) اور یہاں بھی دشمن کے معنی بظاہر وہی ہیں۔ یعنی جس طرح کہ دشمن سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ممکن ہے کہ بیوی بچے بھی تمہیں نقصان اور تکلیف سے دوچار کریں۔ یا ان سے بے تحاشا محبت اور ان کی طرف حد سے زیادہ جھکاؤ تمہیں دین کے کاموں سے باز رکھے۔
کبھی دشمنی دوسروں کے ساتھ لین دین اور تعامل میں عدل و انصاف کی عدم رعایت کی صورت میں ہے لہذا اس قسم کی دشمنی ظلم قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ہے:
” وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ” (اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو) (۷)۔
راغب کے بقول اس آیت میں عدوان کے معنی ظلم و زیادتی کے ہیں.
کبھی دشمن سے مراد وہ ہے جو ظاہری طور پر عداوت برتتا ہے اور یہ اس دشمن کے مقابلے میں آتا ہے جو قلبی اور باطنی طور پر دشمنی رکھتا ہے۔
میں ارشاد ہوتا ہے:
” وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَداً” (۸) (اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اور منافرت نمایاں ہوچکی ہے)۔
راغب کہتے ہیں:
اس طرح کے مواقع پر ظاہرا عداوت سے مراد دشمنی اور بغضاء سے مراد قلبی کینہ اور بغض ہے؛ اگرچہ عداوت سے قلبی تجاوز اور جارحیت بھی ہے لیکن کتاب “اقرب الموارد” کے مصنف کا کہنا ہے کہ عداوت کے معنی خصومت اور دوری کے ہیں جبکہ المنجد کے مصنف نے لکھا ہے کہ “عَدْوٌ” کے لغوی معنی “جنگ کے لئے دوڑنے، روکنے اور باز رکھنے، ظلم و ستم روا رکھنے، حدود سے تجاوز کرنے، دشمنی اور خصومت برتنے اور دشمنی اور منافرت پھیلانے” کے ہیں۔ (۹)
ڈاکٹر معین اپنی کتاب “فرہنگ معین” میں دشمن کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ جو دوسرے کا بدخواہ ہو، مخالف جو کہ دوست اور محب کا متضاد ہے، اور لفظ “دشمنی” قلبی خصومت اور دشمنی کے علاوہ “عداوت، کراہت (یا اردو میں کراہیت)، اور نفرت” کے معنی میں بھی آیا ہے۔ (۱۰)
علی اکبر دِہخدا اپنے لغت نامے میں لکھتے ہیں: “دشمن” “بدنفس” اور “کریہ الطبع” شخص کو کہا جاتا ہے۔ اور اصطلاح میں دشمن وہ ہے جو کسی شخص یا کسی ملک و قوم کا بدخواہ اور کینہ پرور اور اس شخص یا ملک کے خلاف برسرپیکار ہو۔ (۱۱)
مولانا روم کہتے ہیں:
دشمن آن باشد کہ قصد جان کند
دشمن آن نبود کہ خود جان می کند
دشمن آن باشد کزو آید عذاب
مانع آید لعل را از آفتاب (۱۲)
دشمن وہ ہے جو تمہاری جان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کرے
دشمن وہ نہیں ہے جو خود جانکنی کی حالت میں ہے
دشمن وہ ہے جو انسان کے لئے اذیت و عذاب کے اسباب فراہم کرے
اور آفتاب کی کرنیں لعل تک نہ پہنچنے دے اور تمہاری ترقی اور بالیدگی کے راستے بند کردے۔
پس ہمارے خیال میں دشمن وہ ہے جو قلبی طور آپ سے دشمنی کرتا ہے، عمل میں دشمنی کرتا ہے، جارحیت کرتا ہے، ظلم و ستم روا رکھتا ہے، آپ کے لئے تکلیف و اذیت و آزار کے اسباب فراہم کرتا ہے، آپ کو ترقی سے روکتا ہے اور آپ کی ترقی کے راستے بند کردیتا ہے۔ آپ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے، آپ کی ترقی کو ناپسند کرتا ہے اور آپ کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ آج کے زمانے میں دشمن کی تعریف یہ ہے کہ دشمن وہ ہے جو آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور آپ کو دوستوں سے لڑاتا ہے اور آپ کے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے۔ آپ کے دوستوں کو دشمن کے عنوان سے آپ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور خود دشمن ہوکر دوست کا لبادہ اوڑھتا ہے۔ یعنی یہ کہ آج کا دشمن منافق ہے اور اس کی پہچان قدرے مشکل ہے چنانچہ دشمن شناسی بھی آج کے مسلمان کے فرائص میں شامل ہے جبکہ پہلے زمانے کے دشمن کا محاذ آشکار تھا اور دشمن کی شناخت پر وقت اور سرمایہ صرف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
آج جو ہم اسلام دشمنوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی پہچان ہمارے لئے از روئے عقل و ہوش بہت ضروری ہے؛ ہر وہ ملک، طاقت یا ہر وہ شخص جو آپ کو اور آپ کے ملک کو، آپ کے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے آپ کی امت کو کمزور کرنے کے لئے اس میں اختلاف کا بیج بوئے، آپ کی ترقی میں رکاوٹ ڈالے، ان اقدامات کے راستے میں روڑے اٹکائے جو آپ کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ وہ دوست نہیں ہے بلکہ یا دشمن ہے یا دشمن کا آلہ کار۔
ہر وہ ملک، شخص، گروہ یا جماعت جو ملک کے اندر، امت کے اندر عوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرے وہ دشمن یا دشمن کا آلہ کار ہے۔
آج بہت سے ملکوں میں ہماری امت کے دشمنوں نے دوستوں کے بھیس میں ظاہر ہوکر دوستوں کو دشمن ظاہر کرکے ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ہر مسلمان کو الہی امتحان کا سامنا ہے کیونکہ اس زمانے کا مسلمان سمجھتا ہے کہ وہ صدر اول کے مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ بصیر اور آگاہ ہے اور یہ حقیقت بھی ہے لیکن اگر وہ اس کے باوجود دشمن کی چالوں کو نہ سمجھ سکے اور دوست کو دشمن سمجھ کر اس کا مقابلہ شروع کرے تو اس سے فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے اور دشمن کو فائدہ پہنچانا دشمن سے دوستی ہی کا دوسرا رخ ہے جو اللہ کو ناپسند ہے اور اس کے عوض ہمیں اللہ کو جواب دینا پڑے گا گوکہ اس دنیا میں بھی مکافات عمل کا سامنا رہے گا اور وہ یوں کہ دشمنان دین ہم پر مسلط رہیں گے اور وہ لوگ ہم پر حکمرانی کریں گے جو ہم پر رحم نہیں کرتے بلکہ ہماری جان و مال و ناموس اور ہمارے دین کے دشمن اور ہمارے دینی اور دنیاوی سرمایوں کو لٹیرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سورہ نساء آیت ۱۰۱۔
۲۔ سورہ یوسف آیت ۵۔
۳۔ قاموس قرآن، ج ۴، ص ۳۰۵، مفردات راغب، مادہ عدو.
۴۔ سورہ نساء آیت ۹۲۔
۵۔ سورہ شعراء آیت ۷۷۔
۶۔ سورہ تغابن آیت ۱۴۔
۷۔ سورہ مائدہ آیت ۲۔
۸۔ سورہ ممتحنہ، آیت ۴۔
۹۔ قاموس قرآن، ج۴، ص ۳۰۸۔
۱۰۔ فرہنگ معین، ج۲، ص ۸- ۱۵۳۷۔
۱۱۔ لغت نامہ دہخدا، ج۲۳، ص ۱۲۔
۱۲۔ مثنوی معنوی، دفتر دوم، بیت ۷۹۲ – ۷۹۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی