نو لبرالیت سے فسطائیت تک کا تاریک راستہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ نو لبرالیت ـ ایک معاشی نظریئے کے طور پرـ ہمیشہ سے ایک کھوکھلا نظریہ تھا۔ ایک نظریئے (آئیڈیالوجی) کے طور پر سابقہ حکمران نظریات ـ منجملہ: بادشاہوں کا الہی حق، اور فاشیت کے حامیوں کے ایک “مستقبل میں ایک غیر معمولی مرد” [Übermensch]” پر اعتقاد، ـ کی طرح ہے۔ ان کے کسی بھی وعدے پر عملدرآمد کبھی بھی اور ذرہ برابر بھی، ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
ایسے حال میں کہ ایک عالمی مقتدر بھنیئے کے ہاتھ میں دولت کا ارتکاز ۔۔۔ آٹھ خاندانوں کے پاس دنیا کی پچاس فیصد آبادی کے برابر دولت مرتکز ہوئی ہے ۔۔۔ تمام تر کنٹرول اور قواعد و ضوابط کو ناکارہ بنا دیتا ہے، ہمیشہ کے لئے معاشی عدم مساوات اور طاقت کے شدید انحصار کو بھی جنم دیتا ہے اور سیاسی زیادہ روی اور انتہا پسندی کو بھی ہوا دیتا ہے اور جمہوریت کو تباہ کردیتا ہے۔ اس موضوع کے ادراک کے لئے تھامس پکیٹی (Thomas Piketty) کی ۵۷۷ صفحات پر مشتمل کتاب “سرمایہ اکیسویں صدی میں” (Capital in the Twenty First Century) کی مکمل ورق گردانی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن نولیبرالزم کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ معیشت کو معقول بنایا جائے، بلکہ مقصد طبقاتی طاقت کو بحال کرنا تھا۔
حکمران نظریئے کے طور پر نو لیبرالیت کو اچھی خاصی کامیابی حاصل رہی۔ یہ روش ـ جس کا آغاز ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی سے ہوا اور اس کے کینیزی (Keynesian) معیشت کے قائل مرکزی دھارے کے ناقدین کو جامعات، سرکاری اداروں نیز آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں سے نکال باہر کیا گیا اور ان کی آواز کو ذرائع ابلاغ میں دبا دیا گیا۔ ہمفکر درباریوں اور ملٹن فریڈمین (Milton Friedman) جیسے مفکرین کو، جو شکاگو یونیورسٹی جیسے مقامات پر خودنمائی کررہا تھا ـ تیار کیا گیا اور انہیں اہم پلیٹ فارم اور کمپنیوں کا فراہم کردہ سرمایہ دل کھول کر عطا کیا گیا۔ انھوں نے حاشیائی معاشی نظریات کو ـ جنہیں فریڈریک ہایک (Friedrich Hayek) اور تیسرے درجے کے مصنف “این رینڈ” (Ayn Rand) جیسے لوگ عوام کے بیچ لائے تھے ـ رائج کیا۔ جب ہمیں منڈی کے دباؤ اور سرکاری قوانین کے خاتمے کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑے، صاحب ثروت لوگوں پر مقررہ مالیہ کم کردیا گیا، سرحدوں کے اندر پیسے کی نقل و حرکت مجاز قرار دی گئی، انجمنین (Unions) تباہ کردی گئیں، اور تجارتی سودوں پر دستخط ہوئے، جن کی وجہ سے امریکی ملازمتوں کو چین کے بیگارخانوں میں منتقل کیا گیا، اور یوں دنیا زیادہ خوشحال، زیادہ آزاد اور زیادہ امیر ہوگی۔ یہ ایک دغابازی تھی جو چل گئی۔
نیویارک میں “نو لیبرالیت کی مختصر تاریخ” (Brief History of Neoliberalism) نامی کتاب کے مصنف ڈیوڈ ہاروی (David Harvey) نے مجھ سے کہا: “یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم اس منصوبے کے طبقاتی سرچشموں کو پہنچان لیں، جو ۱۹۷۰ع‍ کی دہائی میں سامنے آیا، اور یہ وہ وقت تھا جب سرمایہ دار طبقہ مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ ہر حکمران طبقے کی طرح انہیں بھی حکمران تفکرات کی ضرورت تھی۔ چنانچہ انھوں نے حکم دیا کہ منڈی کی آزادی، نجکاری، اپنے آپ کو کاروباری ادارے میں بدلنا، شخصی آزادی، اور ان جیسی دوسری چیزوں کو ایک نئے سماجی نظام کے حکمران خیالات، ہونا چاہئے اور یہ وہی نظام تھا جس کو ۱۹۸۰ع‍ اور ۱۹۹۰ع‍ کی دہائیوں میں نافذ کیا گیا”۔
ہاروی کا کہنا تھا کہ “نو لیبرالیت نے ایک سیاسی منصوبے کے طور پر بہت چالاکی سے عمل کیا اور اس کو بہت زیادہ عوامی اعتماد حاصل ہوا، کیونکہ اس میں شخصی آزادی اور انتخاب کی آزادی کی بات ہوئی تھی۔ وہ جب آزادی کی بات کرتے تھے تو مراد منڈی کی آزادی تھی۔ نولبرل منصوبے نے «اڑسٹھ کی نسل” (۶۸ generation) سے کہا: “اچھا، تو تم آزادی چاہتے ہو؟ طلبہ تحریک بھی آزادی چاہتی ہے۔ اگلی چیز جو تم چاہتے ہو سماجی انصاف ہے؛ بھول جاؤ اسے۔ لہذا ہم تمہیں شخصی آزادی دیں گے، لیکن تم سماجی انصاف کو بھول جاؤ۔ منظم ہونے سے پرہیز کرو»، کوشش یہ تھی کہ یہ تنظیمیں جو مزدور طبقے کی تنظیمیں تھیں، ختم ہوجائیں، بالخصوص انجمنیں اور وہ سیاسی جماعتیں جو معاشرے کی سلامتی کے لئے فکرمند تھیں، جڑ سے اکھڑ جائیں”۔
ہاروی نے کہا: “منڈی کی آزادی کے سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ موضوع بظاہر مساوات پسندانہ  نظر آتا ہے۔ لیکن کوئی بھی عدم مساوات اس سے زیادہ بری نہیں ہوسکتی کہ غیر مساوی لوگوں کے ساتھ یکسان برتاؤ روا رکھا جائے۔ منڈی کی آزادی مساوات کا وعدہ دیتی ہے لیکن اگر آپ بہت زیادہ امیر ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے بھی زیادہ امیر بن سکتے ہیں؛ نیز اگر آپ بہت زیادہ غریب ہیں تو یہ امکان موجود ہے کہ اس سے بھی زیادہ غریب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ منڈی کی آزادی نے سماجی عدم مساوات کے بڑی اور زیادہ سطوح کو جنم دیا”۔
نو لیبرالیت کا نظریہ عام طور پر ایک متحدہ سرمایہ دار طبقے نے مرتب کیا۔ سرمایہ دار اشرافیہ نے “تجارتی گول میز” (Business Roundtable)، ایوان تجارت، (Chamber of Commerce) نیز “ورثہ فاؤنڈیشن”، (The Heritage Foundation) جیسے فکری مراکز کو بجٹ فراہم کیا تا کہ اس نظریئے کو معاشرے پر مسلط کیا جاسکے۔ یہ سرمایہ دار یونیورسٹیوں کو بھی اس وقت تک دل کھول کر مالی امداد فراہم کرتے رہے، جب تک وہ وفاداری کے ساتھ مسلط نظریئے کی ترویج کرتی رہیں۔
انھوں نے اپنے اثر و رسوخ اور دولت نیز مختلف ابلاغی پلیٹ فارمز کو، ذرائع ابلاغ آلۂ کار بنانے کے لئے استعمال کیا۔ نیز انھوں نے ہر نئی آواز کو دبا دیا یا نئی تجاویز پیش کرنے والوں کے لئے روزگار کے مواقع کی تلاش میں مشکلات کھڑی کردیں۔ پیداوار کے بجائے حصص کی قیمتوں کی بڑھوتری کو معیشت کا نیا معیار بنایا گیا اور ہر شخص اور ہر چیز نے مال تجارت اور پیسے کی صورت اختیار کی”۔
ہاروے نے کہا: “قدر و قیمت کا معیار منڈی کی قیمت ہے؛ چنانچہ ہلیری کلنٹن بہت ہی زیادہ قیمتی ہے کیونکہ وہ گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) میں ایک ہی تقریر کے عوض ۲۵۰۰۰۰ ڈالر وصول کرتی ہے۔ اگر میں شہر کے مرکز میں ایک مختصر سے گروپ سے خطاب کروں اور اس کے عوض ۵۰ ڈالر وصول کروں تو اس صورت میں ہلیری کی قدر و قیمت میری نسبت بہت زیادہ ہے۔ ایک شخص کی قدر و قیمت اور اس کی اہلیت کی قیمت اس روش سے متعین ہوتی ہے کہ وہ منڈی میں کتنی رقم کما سکتا ہے”۔
ہاروی کے بقول: “یہ وہ فلسفہ ہے جو نو لیبرالیت میں مضمر ہے۔ ہمیں ہر چیز کے لئے ایک قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ وہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو مال التجارہ قرار دیا جاسکتا ہو۔ بطور مثال تحفظ صحت مال و اسباب میں بدل جاتا ہے۔ مکان ایک متاع میں بدل جاتا ہے۔ تعلیم سامان تجارت میں بدل جاتی ہے، لہذا طالبعلموں کو ـ اس لئے کہ مستقبل میں کوئی ملازمت تلاش کرسکیں ـ قرضہ لینا پڑتا ہے۔ نیولیبرالیت کا جوہر یہی دغابازی اور دھوکہ دہی ہے، وہی جو بنیادی طور پر کہہ رہی ہے کہ اگر آپ کارانداز (Entrepreneur) ہیں اور آپ جاکر اپنی تربیت کا انتظام کریں وغیرہ، تو آپ کو منصفانہ پاداش ملے گی، اگر آپ کو منصفانہ پاداش نہ مل سکے تو سمجھ لینا کہ آپ نے اپنے آپ کو مناسب تربیت نہیں دی ہے! آپ نے غلط سبق سیکھا ہوا ہے؛ آپ نے فلسفے یا کلاسیکی متون کے اسباق سیکھے ہوئے ہیں، تمہیں مزدوروں کے استحصال کی روشیں سیکھنے کی تربیت حاصل کرنا چاہئے تھی”۔
اس وقت نیولبرلیت کی عیاری اور دغا بازی اس وقت سیاسی شعبوں میں وسیع سطح پر طشت از بام ہوچکی ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، نو لیبرالیت کی لالچی اور غارت گر نوعیت کو چھپانا ـ بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ یہ عظیم سرکاری سبسڈی کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے ـ مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے؛ (بطور مثال، آمازون نے حال ہی میں نیویارک سے ورجنیا تک، ان صوبوں میں رسد کے مراکز قائم کرنے کے بہانے ٹیکس میں کمی کی درخواست کرکے، اربوں ڈالر ٹیکس پس انداز کرلیا ہے)۔ اس مسئلے نے حکمران اشرافیہ کو دائیں بازو کے عوام فریبوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ جو نسل پرستی، اسلاموفوبیا، تعصب اور زن بیزاری جیسی کچی چالوں (خام حربوں) کو بروئے کار لاتے ہوئے عمومی غیظ و غضب کو اشرافیہ سے دور کرکے محروم طبقوں کی طرف منتقل کریں۔ یہ عوام فریب لوگ لوٹ مار کو عالمی اشرافیہ کے لئے تیز تر کردیتے ہیں اور ساتھ ہی وعدہ کرتے ہیں کہ تنخواہ دار مردوں اور عورتوں کی حفاظت کریں گے۔
مثال کے طور پر ٹرمپ کی حکومت نے کئی قوانین کو منسوخ کردیا ہے: گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تخفیف (Greenhouse Gas Emissions Reduction) کے معاہدے سے لے کر انٹرنیٹ کی غیرجانبداری (Net Neutrality) کے قانون تک، نیز یہ کہ اس نے امیرترین افراد اور کمپنیوں پر نافذ ہونے والے ٹیکس میں کمی کردی ہے اور ملک کو اگلے ایک عشرے کے دوران ڈیڑھ ٹریلین سرکاری آمدنی سے محروم کردیا ہے، جبکہ اس کا لب و لہجہ بھی اور کنٹرول اور نگرانی کی روشیں بھی مطلق العنانیت پر استوار ہیں۔
نیو لیبرالیت بہت کم دولت پیدا کرتی ہے اور اس کے عوض دولت کو امیروں اور حکمران اشرافیہ کی طرف منتقل کرکے ان کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ ہاروی اس روش کو “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” (Accumulation by Dispossession) کا نام دیتا ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ “ضبطگی کے ذریعے دولت جمع کرنے کی منطق کا استدلال اس تصور میں مضمر ہے کہ جب اجناس کی پیداوار یا خدمات کی فراہمی کی عوامی اہلیت کا خاتمہ ہوجائے، تو وہ ایک ایسے نظام کو معرض وجود میں لاتے ہیں جس کے ذریعے دولت کو دوسرے عوام سے کشید (Extract) کیا جاتا ہے۔ دولت کشید کرنے کا یہ عمل عوام کی سرگرمی کا مرکزی نقطہ بن جاتا ہے۔ دولت کے استحصال یا کشید کرنے کے عمل کا ایک ذریعہ ایسی نئی اجناس کے لئے منڈی کی تخلیق ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھے۔ مثال کے طور پر جب میں آج سے کچھ زیادہ جوان تھا، تو یورپ میں اعلی تعلیم کا حصول ایک عمومی حق سمجھا جاتا تھا۔ جتنا ہم آگے آئے ہیں، یہ (شعبہ اور دوسری خدمات) کو ایک نجی سرگرمی میں بدل دیا گیا ہے۔ جیسے علاج معالجے کی خدمات۔ یہ بہت سے شعبے جنہیں انسان جنس اور سامان تجارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، آج اجناس اور ذریعہ آمدنی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کم آمدنی والی آبادی کی رہائش کے لئے مکان ایک سماجی مجبوری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج ہر چیز منڈی اور مارکیٹ میں پیش کی جاتی ہے اور وہیں سے ہر چیز کی فراہمی ممکن ہے۔ آج منڈی کی منطق ایسے شعبوں پر مسلط کی جارہی ہے جنہیں بازار میں پیش نہیں کرنا چاہئے”۔
ہاروی کہتا ہے: “میرے بچپن کے ایام میں پانی ایک سرکاری مال کے طور پر فراہم کیا جاتا تھا، تاہم یہی پانی بعد میں نجکاری کا شکار ہوا اور سب کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ برطانویوں نے نقل و حمل (Transport) کو نجی شعبے کے ہاتھ میں دیا۔ بسوں کا نظام ایک بدنظم اور ابتر نظام ہے۔ اس شعبے میں نجی شعبے کی کمپنیاں تمام دوسرے شعبوں کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جس کی واقعی کوئی ضرورت ہو۔ ریلوے کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک موضوع جو اسی وقت بھی برطانیہ میں دلچسپی کا باعث ہے، یہ ہے کہ لیبر پارٹی کہتی ہے: “ہم ان تمام چیزوں کو سرکاری ملکیت میں لانا اور قومیانا چاہتے ہیں، کیونکہ نجکاری مکمل طور پر نامعقول اور احمقانہ ہے اور اس کے نتائج بھی نامعقول اور بیہودہ تھے اور کسی بھی صورت میں کارآمد نہیں ہے۔”، آج برطانوی عوام کی اکثریت لیبرل پارٹی کے اس نعرے سے متفق ہیں”۔
نو لیبرالیت ـ جس نے بہت بھاری بھرکم مالی طاقت اپنے پیچھے جمع کر رکھی ہے ـ اثاثوں کی قدر گھٹانے اور پھر ان پر قابض ہونے کی غرض سے بڑے بڑے بحرانوں کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہاروی کا کہنا ہے کہ: “نیولیبرالیت کے تحت، “[دولت کی] انبارسازی بذریعۂ ضبطگی [یا بذریعۂ بےدخلی]” کا عمل فائنانشلائزیشن (۱) کے ہمراہ ہے۔
بےضابطہ بنانے کا عمل (Deregulation) مالیاتی نظام کو ـ پیشگوئیوں، قیاس آرائیوں، دھوکہ دہی، اور چوری کے ذریعے ـ نئی تقسیم (Redistribution) کے بنیادی مراکز تبدیل ہونے کا امکان فراہم کرتا ہے۔
ہاروی اپنی کتاب میں ـ جو شاید نو لیبرالیت کی مختصر ترین اور جامع ترین تاریخ ہے ـ لکھتا ہے: “حصص کی قیمت بڑھانا، [مالی دغابازی سے متعلق] پونزی اسکیموں کا اجراء، افراط زر کے ذریعے بنیادی اثاثوں کی تباہی، نقصان سے دوچار کی جانے والی کمپنیوں کی ملکیت حاصل کرنا اور ان کے اثاثوں پر قابض ہونا، قرضوں کی سطح کو وسیع سے وسیع تر کرنا ـ حتی کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی پوری آبادی کو بندھوا مزدوری (ِDebt peonage) کی حد تک تنزلی سے دوچار کر سکتا ہے۔ اگر ہم کمپنیوں کی شکل میں دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے بارے میں کچھ نہ بھی کہنا چاہیں پھر بھی اثاثوں کی مالکیت چھیننے، پینشن فنڈز سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور انہیں بازار حصص کے ذریعے تباہ کرنے نیز کمپنیوں کی قدر کو قرضوں اور حصص میں ہیر پھیر کے ذریعے گرانے جیسے افعال سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کی مرکزی خصوصیات میں تبدیل ہوچکے ہیں”۔
نیولبرلیت نے زبردست مالیاتی طاقت حاصل کرلی ہے، جس کے ذریعے وہ مالیاتی بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے اور ان بحرانوں کے ذریعے اثاثوں کی قدر گرا کر انہیں اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔
ہاروی نے کہا: “بحران پیدا کرنے کا ایک راستہ کریڈٹ کی فراہمی روکنا ہے۔ یہ واقعہ ۱۹۹۷ اور ۱۹۹۸ع‍‌ کو واقعہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں رونما ہوا؛ جب سرمائے کی فراہمی اچانک روک دی گئی۔ بڑے بڑے ادارے قرض دینے سے عاجز آگئے۔ بیرونی سرمایوں کا زبردست بہاؤ انڈونیشیا کی طرف تھا، انھوں نے [یعنی مغربی سرمایہ داروں نے] ٹونٹی بند کردی۔ بیرونی سرمایہ رک گیا۔ ان کے اس کام کا ایک محرک یہ تھا کہ جب تمام ادارے دیوالیہ ہوجاتے تو وہ ان اداروں کو خرید سکتے تھے اور دوبارہ فعال بنا سکتے تھے۔ ہم نے یہی کچھ امریکہ کے اندر مکانات کی فراہمی کے بحران (Housing crisis) کے دوران دیکھا۔ مکانات کی ضبطی کی وجہ سے بہت سارے مکانات خالی رہ گئے جنہیں کم قیمت پر خریدا جاسکتا تھا۔ بلیک اسٹون (The Blackstone Group) نے تمام خالی مکانات کو خرید لیا اور اب یہ گروپ امریکہ کا سب سے بڑا زمیندار بن چکا ہے۔ یہ کمپنی اس وقت دو لاکھ یا اس سے زیادہ مکانات اور املاک کی مالک ہے۔ اب [خالی شدہ املاک یا اداروں کی خریداری کے بعد] منڈی میں بہتری آنے کے انتظار میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ جب بازار کی صورت حال بہتر ہوجائے ـ جیسا کہ امریکہ میں بہت مختصر عرصے میں منڈی میں بہتری آئی ـ تو آپ مکانات کو بیچ کر یا کرائے پر اٹھا کر بڑا مال کما سکتے ہیں۔ بلیک اسٹون کمپنی نے ـ مکانات کی ضبطی کے بحران کے وقت، جس میں سب ہار گئے تھے ـ عظیم سرمایہ کمایا۔ یہ عظیم دولت کی منتقلی کی ایک روداد تھی”۔
ہاروی خبردار کرتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ شخصی (یا انفرادی) آزادی اور سماجی انصاف آپس میں ہم آہنگ ہوں، اور لکھتا ہے کہ “اس کے لئے سماجی یکجہتی ـ نیز  سماجی مساوات اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کے لئے بڑی سطح پر عمومی جدوجہد کی غرض سے انفرادی چاہتوں، ضرورتوں اور خواہشوں سے چشم پوشی ـ کی ضرورت ہوتی ہے”۔ نولبرل نعرے باز شخصی آزادی پر تاکید کے ذریعے، مؤثر طور پر آزاد رَوی، شناخت کی سیاست، (Identity politics)، ثقافتی کثرتیت اور نتیجے کے طور پر نرگسی صارفیت (Narcissistic consumerism) کے ذریعے ان لوگوں اور قوتوں کو میدان سے نکال باہر کرسکتے ہیں جو ریاستی طاقت کو فتح کرکے سماجی انصاف کے نفاذ کے لئے میدان میں آئی ہوئی ہیں”۔
ماہر اقتصادیات کارل پولانی (Karl Polanyi) اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آزادی کی دو قسمیں ہیں: بری آزادیاں، جو ہمارے گرد و پیش کے لوگوں کے استحصال اور عمومی مصلحتوں اور مفادات کو نظر انداز کرکے بھاری منافع کمانے کے لئے ہیں، منجملہ وہ برتاؤ جو ماحولی نظام (Ecosystem) اور جمہوری اداروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ بری آزادیاں اس لئے ہیں کہ کمپنیاں بھاری منافع کمانے کے لئے، جدید فنی اور سائنسی ترقی پر اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔ حتی کہ ـ جیسا کہ دواسازی کی صنعت میں رائج ہے ـ جو لوگ دواؤں کی بھاری قیمت ادا کرنے سے عاجز ہوتے ہیں، ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اچھی آزادیوں ـ یعنی ضمیر کی آزادی، بیان کی آزادی، جلسوں کی آزادی، پیشوں کے انتخاب میں آزادی ـ کو آخر کار بری آزادیوں کو ترجیح دیئے جانے کی وجہ سے کچل دیا جاتا ہے۔
پولانی لکھتا ہے: “منصوبہ بندی اور نگرانی پر اس لئے حملہ کیا جاتا ہے کہ انہیں آزادی سلب کرنے کا اوزار سمجھا جاتا ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ آزادی سرمایہ کاری اور نجی مالکیت کو آزادی کا جدا ناپذیر جزء ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ، جو دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوا ہے، آزاد کہلوانے کا مستحق نہیں ہے۔ جو آزادی قوانین کو جنم دیتی ہے، اس کو آزادی سے متصادم سمجھ کر قابل مذمت گردانا جاتا ہے؛ اس طرح کا [منضبط] معاشرہ جس انصاف، آزادی یا فلاح و بہبود کی تجویز دیتا ہے اس کو غلامی اور محکومی کی پردہ پوشی قرار دیا جاتا ہے”۔
چنانچہ آزادی کے نظریئے کو بگاڑ کر محض سرمایہ کاری کی آزادی تک محدود کیا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ بھرپور آزادی ان لوگوں کے لئے ہے جن کو اپنی آمدنی، فارغ اوقات اور امن و امان میں کسی قسم کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے [اور انہیں سب کچھ حاصل ہے]۔ اور ان لوگوں کے لئے صرف آزادی کا کچھ حقیر سا حصہ، جو جمہوری آزادی سے فائدہ اٹھانے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں تا کہ اس طرح جائیدادوں کے مالکوں سے نجات اور پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہاروی پولانی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے: “لیکن اگر صورت یہ ہو ـ جو کہ ہمیشہ ہے بھی ـ کہ کوئی بھی معاشرہ نہ ہو جس میں اقتدار اور مجبوریاں ناپید ہوں، اور نہ ہی کہیں ایسی دنیا ہے جس میں طاقت کی کوئی کارکردگی نہ ہو ـ تو صرف ایک راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے لبرل خیالی تصور، جسے طاقت کے استعمال، تشدد اور استبدادیت کے ذریعے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ پولانی کی نظر میں لیبرالیت اور نو لیبرالیت ناکام نظریہ ہے۔ پولانی کے مطابق اس کو استبدادیت یا حتی کہ اعلانیہ فسطائیت (Outright fascism) کے ذریعے ناکام ہوجانا ہے۔ اچھی آزادیاں ضائع ہوچکی ہیں اور بری آزادیاں غلبہ پا رہی ہیں۔
نو لیبرالیت بڑی تعداد کی آزادی کو معدودے چند لوگوں کی آزادی میں تبدیل کرتی ہے۔ نو لیبرالیت کا منطقی نتیجہ نوفسطائیت (Neofascism) ہے۔ نوفسطائیت شہری آزادیوں کو “قومی سلامتی” کے نام پر چھین لیتی ہے اور تمام گروپوں [اور تنظیموں] کو غدار، خائن اور ملک دشمن اور عوام دشمن کا لیبل چسپاں کرتی ہے۔ نو لیبرالیت ایک فوجیایا ہوا اوزار بن چکی ہے جس کو حکمران اشرافیہ ـ اپنا کنٹرول مستحکم رکھنے، معاشرے کو پارہ پارہ کرنے، لوٹ مار کو تیز تر کرنے، اور معاشرتی عدم مساوات کو وسیع سے وسیعتر کرنے کے لئے ـ استعمال کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ حکمران نظریہ، جو مزید معتبر نہیں سمجھا جاتا، اپنی جگہ [فسطائیت اور عسکری استبدادیت کے نشان طور پر] جوتوں کو دے دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: کرس ہیجز
ترجمہ: فرحت حسین مہدی

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی