-
Sunday, 12 July 2020، 12:32 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں نے ایک ایسے وقت فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا جب اس سرزمین کی ۹۵ فیصد آبادی مسلمانوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھی۔ وہ ایک الگ ملک کی تشکیل کے لیے دو چیزوں “زمین اور عوام” کے محتاج تھے لہذا انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو دو حصوں؛ اندرون ملک اور بیرون ملک میں تقسیم کیا۔
پہلی فرصت میں یہودیوں نے فلسطینیوں کی زمینوں کو خریدنا شروع کیا لیکن مسلمانوں کی ہوشیاری کی بنا پر وہ اس اقدام میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے لہذا انہوں نے دوسرے مرحلے میں دنیا بھر سے صہیونی یہودیوں کو ہجرت کے ذریعے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا کہ جس میں برطانیہ کا تعاون سر فہرست ہے، برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین کی زمین تحفے میں دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا اور اس سرزمین میں یہودیوں کی آبادی میں ۳۰ فیصد کا اضافہ کر دیا۔
یہودیوں نے اپنے مقصد کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے، مختلف دھشتگرد ٹولے جیسے “ایرگن”( Irgun) وجود میں لائے اور ان دھشتگرد ٹولوں نے مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں ان کی آبائی زمینوں سے نکال باہر کیا۔ البتہ اس درمیان برطانوی حکومت بھی ان جرائم سے مبرا نہیں تھی۔ یہ امور اس بات کا سبب بنے کہ برطانیہ ۱۹۴۸ میں فلسطین سے اپنی سربراہی سے دستبردار ہو جائے اور فلسطینیوں کی سرنوشت کے تعین کو اقوام متحدہ کے سپرد کر دے۔
چونکہ اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور قوانین میں سے ایک جمہوریت اور اپنی سرنوشت کا تعین خود کرنا تھا لہذا اقوام متحدہ کو یہ چاہیے تھا کہ وہ منصفانہ طور پر اس سرزمین میں انتخابات منعقد کرواتی تاکہ وہاں کے باشندے اپنی سرنوشت کا تعین خود کرتے۔ لیکن صہیونیوں نے مختلف ممالک پر دباؤ ڈال کر اور اپنی لابیاں تشکیل دے کر اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ وہ غیر متعارف طور پر فلسطین کی ۵۵ فیصد سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کر دیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ بہت سارے امریکی عہدیداروں کے مطابق، امریکہ کا یہ اقدام خود ریاستہائے متحدہ کے قومی مفاد کے برخلاف تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کیوں ایسا اقدام اٹھایا جو خود اس کے قومی مفاد کے خلاف تھا؟
امریکہ کی وزارت خارجہ بہت سختی سے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی ادارے کے سربراہ اور وزارت خارجہ میں افریقی معاملات کے ڈائریکٹر مسلسل اس منصوبے کی مخالفت کر رہے تھے اور اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کروا رہے تھے۔ لوئی ہنڈرسن (loy henderson) اس شعبے کی ڈائریکٹر بارہا خبردار کر رہے تھے کہ یہ منصوبہ امریکی مفادات کے لیے خطرے کی گھنٹی ہونے کے علاوہ فلسطینی عوام کی منشاء کے بھی خلاف ہے۔ وہ اس پر زور دے رہے کہ اگر امریکہ اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو امریکہ کی علاقے میں اخلاقی اور سیاسی حیثیت کو شدید دھچکا لگے گا۔
ہنڈرسن نے واضح طور پر کہا کہ “ہم اپنی حیثیت کو کھو جائیں گے اور ہمیشہ ہمیں جمہوری اصولوں کی نسبت خائن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، وہ اصول جو ہم نے خود دوسری عالمی جنگ کے دوران وضع کئے”۔ ان کے بقول” یہ ایسا منصوبہ ہے جو اپنی سرنوشت کے تعین کا حق اور اکثریت کی حکمرانی کا حق جیسے اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ یہ تجویز در حقیقت ایک دینی-قومی حکومت کے اصولوں کو قبول کرنے کے مترادف ہے جو مذہبی اور نسلی امتیاز کا سبب بن سکتی ہے”۔
بعد از آں، صہیونیوں نے ہنڈرسن کے گھر والوں کو دھمکی دی اور انہیں یہود مخالف (Anti-Semitic) ہونے کا لقب دیا۔ صہیونیوں نے امریکی وزارت خارجہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کی ٹرانسفر کر کے کسی دوسری جگہ منتقل کرے۔ اسی وجہ سے امریکہ کے اس دور کے صدر “ہیری ٹرومن” نے صہیونی یہودیوں کے دباؤ میں آکر، ہینڈرسن کو نیپال میں امریکہ کا سفیر بنا کر نیپال بھیج دیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے سیاسی ڈائریکٹر نے ۱۹ جنوری ۱۹۴۷ میں ایک خفیہ دستاویز شائع کی جس میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ امریکہ کی جانب سے اس منصوبہ کی حمایت کے نتیجے میں، علاقے میں امریکہ کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
گورڈن پی مریام (Gordon P.merriam) نے بھی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطیٰ کے سربراہ ہونے کے عنوان سے کچھ اخلاقی دلائل کے پیش نظر کہا کہ فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ عربوں اور یہودیوں کی رضامندی کی طرف توجہ کئے بغیر اس بات کا باعث بنے گا کہ اپنی سرنوشت کے تعین کے حق کے اصول کو پامال کیا جائے۔ وہ اصول جو اقوام متحدہ کے منشور اور Atlontic charter میں بیان ہوئے ہیں۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ۱۹۴۷ میں اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ صہیونی مقاصد سبب بنیں گے کہ مشرقی وسطیٰ میں سپرپاور طاقتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔
ہینری ایف گریڈی (Henry F grady) ایک امریکی سیاسی رہنما تھے کہ جنہوں نے مسئلہ فلسطین پر غور و خوض کرنے والے کمیشن کی سربراہی قبول کی، وہ اس بارے میں کہتے ہیں: “میں مختلف سرکاری کمیشنوں کی سربراہی کرتا رہا ہوں لیکن کہیں پر بھی میں نے ایسی خیانت اور پیمان شکنی نہیں دیکھی جیسی اس کمیشن میں دیکھی ہے”۔ گیراڈی اپنی گفتگو کے آخر میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ “امریکہ کو ذاتی طور پر عرب ریاستوں سے کوئی دشمنی نہیں، یہ صہیونی لابی کا دباؤ ہے جس کی بنا پر ایسے مسائل سامنے آئے ہیں”۔
اس کے مد مقابل “ہیری ٹرومن” ان تمام تجزیوں اور مخالفتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنے مشیر “کلیفورڈ” جو ایک یہودی زادہ تھے کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور آنے والے انتخابات میں کامیابی کی خاطر فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ نتیجۃً یہ چیز باعث بنی کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اس بات سے انتہائی غضبناک ہوں کہ ایک شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لاکھوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دے۔
ٹرومن نے بعد میں اپنی ایک یادداشت میں لکھا: “مجھے یاد نہیں ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں اس موضوع کے علاوہ کسی بات پر مجھے اتنا دبایا گیا ہو”۔ البتہ وہ اس سیاسی اور سماجی دباؤ کے علاوہ یہودیوں کی مالی امداد سے بھی بہرہ مند ہو رہے تھے۔ مثال کے طور پر وہ امریکہ میں اپنے ریاستی دوروں کے دوران پیسوں سے بھرے بریف کیس اور تھیلے وصول کیا کرتے تھے۔
اس معاملے میں ٹرومن کو بہت سارے دیگر افراد نے بھی متاثر کیا۔ ان افراد میں سے ایک “ابراہم فین برگ” (Abraham feinberg) تھے جو ایک سرمایہ دار تاجر ہونے کی حیثیت سے صہیونیوں اور ٹرومن کے درمیان واسطے کا کام کرتے تھے۔ درحقیقت یہ فین برگ تھے جو ٹرومن کے لیے پیسوں کی گٹھیوں کا انتظام کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ٹرومن انتخابات میں کامیابی کو فین برگ کا مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
دوسرا شخص “ڈیوڈ کی نایلز” تھا جو ایک قابل اعتماد مشیر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی خفیہ اطلاعات کو اسرائیل منتقل کیا کرتا تھا لیکن جاسوسی کا پردہ چاک ہونے کے بعد وہ اپنے منصب سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوا۔ علاوہ از ایں، “اڈی جاکویسن” اور “سم روزنمن” بھی امریکی صدر اور صہیونیوں کے درمیان رابطہ پل تھے۔ چنانچہ یہ تمام عوامل اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے فیصلہ سازاہم اداروں میں صہیونی لابی کسی قدر نفوذ رکھتی ہے!۔ در حقیقت صہیونیوں نے امریکہ کو یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اس درمیان یہ امریکی عوام تھے جنہوں نے اپنے حکمرانوں کے اس غلط تصمیم کا تاوان ادا کیا۔
منبع: انجم سری پروشیم، ویر، آلیسون، ترجمه: علیرضا ثمودی پیله رود، چاپ اول: ۱۳۹۴، تهران، خبرگزاری فارس، ص۷۵-۶۵
تحریر: میلاد پور عسگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔