فلسطین کا سیاہ ترین دن

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۲۹ نومبر فلسطین کے ساتھ عالمی یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ یہ وہ سیاہ دن ہےجس میں اقوام متحدہ نے سنہ ۱۹۴۸ء میں فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی۔ اقوام متحدہ کے فورم پر یہ قرار داد ۱۸۱ کہلاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے قرارداد نے ارض فلسطین اور فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسی قرارداد تھی جس نے فلسطینی قوم کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے ایک لا متناہی سلسلے کا آغاز کیا، جس کے بعد ارض فلسطین کے اصلی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کا نہ ختم ہونے کا نیا عمل شروع ہوگیا جو آج تک جاری وساری ہے۔ فلسطینیوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ مال، نہ عزت وآبرو اور نہ زمین وطن۔ سب کچھ صہیونی درندوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور اب اقوام متحدہ فلسطینیوں کو ان کےحقوق دلانے کے بجائے عالمی اوباشوں کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔
سنہ ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد ۱۸۱ منظور کی جس میں ارض فلسطین میں یہودیوں کو اپنا ملک بنانے کا حق دیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینی سرزمین کو یہودیوں اور فلسطینیوں میں تقسیم کرنے کا ظالمانہ فیصلہ کیا گیا۔ اس قرارداد میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کےقیام کی بھی اجازت دی گئی۔ صہیونیوں کی غاصبانہ ریاست تو قائم ہوگئی مگر فلسطینی قوم کو۷۱ سال کے بعد آج بھی یہ حق نہیں مل سکا ہے۔ زمین پرصہیونی ریاست موجود ہے مگر فلسطینی ریاست اب کاغذوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
تقسیم فلسطین کے روز عالمی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے۔ اس روز فلسطینیوں کے حقوق کو عالمی فورمز پرتازہ کیا جاتا اور ان کے ساتھ کیےگئے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم بیان کیے جاتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ تقسیم فلسطین کے ظالمانہ فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے محروم کردیا گیا۔ یہ لاکھوں فلسطینی آج بھی اندرون اور بیرون ملک در بہ در ہیں۔
عالمی برادری اور بین الاقومی تنظیمیں ۲۹ نومبر کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن تو مناتی ہیں مگر بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دوسری طرف عرب ممالک کے حکمرانوں کو اگرکوئی فکر ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلقات کےقیام کی ہے۔ آئے روز اسرائیلی وفود عرب ممالک کے سرکاری دوروں پر جا رہے ہیں۔
سنہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم فلسطین کے وقت فلسطینی آبادی آج کی نسبت بہت کم تھی مگر آج فلسطینی آبادی ۸ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ ۷۰ لاکھ کے قریب فلسطینی ھجرت کی زندگی گذار رہےہیں۔ عالمی طاقتیں اور امداد دینے والے ممالک اب فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ رہےہیں۔ آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کا دیرینہ حق، حق خود ارادیت نہیں دیا جاسکا۔ اقوام متحدہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں‌بسا سکتی ہے تو وہ فلسطینیوں کو بھی ان کے ملک میں ان کا حق دلانے کی ذمہ دار ہے مگر جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور یو این کے دیگر ادارے اب تک خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینی لٹ رہے ہیں۔ اسرائیل ان کے خلاف منظم ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
تقسیم فلسطین کی قرارداد میں اسرائیل کو ایک محدود علاقے میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہودی، صہیونی ریاست عالمی اوباشوں کی مدد سے تاریخی ارض فلسطین میں اپنے پنجے پھیلاتی چلی گئی۔ صہیونی دشمن نے وسعت پزیری اور توسیع پسندی کی پالیسی پرچلتے ہوئے نہ صرف فلسطین کے ایک بڑے حصے پرغاصبانہ قبضہ جمایا بلکہ پڑوسی عرب ممالک کو بھی نہ بخشا۔ اس طرح عبرانی ریاست اپنے توسیع پسندی کی لالچ میں آ کر دوسرے عرب ممالک پر بھی چڑھائی کرتی رہی۔ صہیونی ریاست نے فلسطین کے ۷۷ فی صد رقبے پرغاصبانہ تسلط جما لیا۔ پہلے مغربی بیت المقدس اور بعد میں مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔
صہیونی ریاست اور فلسطینیوں کے درمیان کئی مواقع پر نام نہاد مذاکرات کی میراتھن بھی ہوتی رہی۔ میڈریڈ، جنیوا، اوسلو، واشنگٹن اور کیمپ ڈیوڈ سمیت کئی دوسرے ملکوں میں عرب۔ اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ان تمام مذاکراتی ادوار میں صہیونی ریاست نے یہ ثابت کیا کہ وہ حقیقی امن نہیں چاہتی۔ وہ محض مذاکرات برائے مذاکرات کی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور اس طرح وہ صرف وقت گذارنے کی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی