یہودی صیہونی تحریک کے لئے برطانوی سیاسی حمایت

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی عالمی صہیونی کانفرنس کے انعقاد کے بعد ، صہیونی ریاست کے قیام کے خواہاں یہودی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات اور اعلی برطانوی سرکاری عہدیداروں کی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔  اس میں سب سے زیادہ اہم کردار ’ولیم ہیشلر‘ کا تھا جس نے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔  

ہیشلر فرانس اور جرمنی کی جانب سے بھیجا ہوا نمائندہ تھا جو بعد میں 1885 میں ویانا میں برطانوی سفارتخانے میں ایک کاہن کے عنوان سے ملازمت کرنے لگا۔ اسی وجہ سے صہیونی تحریک کے لیے یہ منصب اسٹریٹجکی اہمیت کا حامل ہو گیا۔
 
یہودیوں کی فلسطین واپسی
 ہیشلر نے شفٹس بیری کے طرز زندگی پر پختہ یقین کے ساتھ 1894 میں "یہودیوں کی فلسطین واپسی" کے  عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی (اس کی کتاب ہرٹزل کی کتاب "ڈیر جوڈین اسٹیٹ" سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی)۔ اس نے اپنی کتاب میں کہا، "یہودیوں کی سرزمین فلسطین میں واپسی عہد قدیم کی پیش گوئیوں پر مبنی ہے۔"  اور مذکورہ شخص کو صیہونی ریاست کے قیام کے لئے ہرٹزل کے نزدیک ایک اہم عیسائی اتحادی کی حیثیت سے پہچنوایا گیا۔
وہ ان تین مسیحی رہنماؤں میں سے ایک ہے جنہوں نے عالمی صہیونی کانفرنس میں شرکت کے لئے دعوت نامے بھیجے تھے۔ ہرٹزل کوئی مذہبی شخص نہیں تھا ، لیکن توہم پرستی پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ڈائری میں 10/3/1896 عیسوی کو ہیشلر سے اپنی گفتگو کے بارے میں لکھا: "برطانوی سفارت خانے کے کاہن پادری ولیم ہیشلر مجھ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ نبیوں کی طرح نرم مزاج اور خاکستر آدمی تھے میں نے یہودیوں کے مسئلے کے لیے جو تجویز پیش کی انہوں نے اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا، اور یہ محسوس کیا کہ میں نے ان پیش گوئیوں کو سرانجام پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ پچھلے سال کہہ چکے تھے  ہیشلر کی توقع کی تھی کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کا آغاز1897 میں شروع ہو جانا چاہیے‘‘۔
ہرٹزل اپنے گھر میں ہشلر کے ساتھ ہوئی دوسری ملاقات کے بارے میں کہتا ہے: "مجھے حیرت ہوئی کہ ہیشلر کا کمرہ بائبل اور فلسطین کی جنگ عظیم کے نقشوں سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے بیت ایل میں نئے ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اپنے منصوبوں کے مطابق نئی حکومت کے دار الحکومت کے بارے میں میرے لیے وضاحت کی۔ اور مجھے کہا کہ میں قدیمی ہیکل کے نقشے پر غور کروں۔ اس کے بعد بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کہا: ہم نے یہ زمین تم لوگوں کے لیے آمادہ کر دی ہے۔ ۔۔۔ وہ ایک سادہ مزاج شخص تھے اور مجھے پورے خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے تھے۔ وہ اس کے باوجود کہ سادہ مزاج تھے بہت چالاک اور ذہین بھی تھے۔‘‘  
ہیشلر نے اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرتے ہوئے ہرٹزل کو جرمنی کے شاہ دوم ولیم سے بات چیت کرنے کو کہا۔
 
صہیونی عیسائیوں کے طرز افکار میں بنیادی تبدیلی
ہیشلر کی کاوشوں اور نقل و حرکت کے نتیجے میں صہیونی عیسائیوں کے طرز تفکر میں ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔  ابتدائی نقادوں جیسے اپرونک اور ڈرمونڈ کے خیالات سے قطع نظرکہ جو یہودیوں کی فلسطین واپسی کو یہودیوں پر مسلط بیرونی سیاستوں کا نتیجہ سمجھتے تھے،  ہشلر نے تب بھی یہ اصرار کیا کہ عیسائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کی حمایت کریں۔
ڈیوڈ لائیڈ جارج نے 1919 میں برطانوی وزیر اعظم کے دفتر پہنچ کر اعتراف کیا کہ وہ صیہونی تھا اور شفٹس بیری خیالات کا ماننے والا تھا۔
تحریر؛ حسین صلواتی‌پور
منبع؛ استفان سایزر – الصهیونیون المسیحیون علی طریق هرمجدون و  دکتر ریاض جرجور – صهیونیسم مسیحی یا صهیونیسم آمریکایی

 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی