ڈونلڈ ٹرمپ شکست خوردہ جمہوریت کی پیداوار: امریکی تجزیہ نگار

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گا: امریکی دانشور کرس ہیجز (۱) کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ڈھانچہ زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ تنہائی اور خودکشی نے وبا کی صورت اختیار کی ہے۔ صارفیت (۲) نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔
جس معیار کے مطابق بھی حساب و کتاب کریں، لگتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس ملک میں دولت اور آمدنی کے لحاظ سے معاشرتی طبقات کے درمیان عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ امریکہ کا شمار دنیا کے صاحب ثروت ممالک کے زمرے میں ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑی عمر کے افراد کے درمیان بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی ناقص اور ناکافی ہے اور متوقع عمر کا رجحان کمی کی جانب ہے۔ ریاست ہائے متحدہ میں اسلحہ کے ذریعے قتل عام اور قیدیوں کی شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے ڈھانچے تباہی اور شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ یہاں بڑی بڑی کمپنیوں کو مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل رہتی ہے اور یہ کمپنیاں ماحولیات کو مکمل طور پر تباہ کررہی ہیں۔ تنہائی اور خودکشی کے رجحانات نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے، صارفیت نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔ منافرت پھیلانے والے سفید فام گروہوں اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے حالیہ چند عشروں میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یا زخمی کیا ہے۔ امریکہ کے اشرافیہ افراد اور دانشور و سیاستدان عوام سے مکمل طور پر دور اور ان کی رسائی سے خارج ہیں اور عوامی مطالبات سے لا تعلق ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک دیوالیہ جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن یہ ثقافتی اور تہذیبی بیماری اور یہ مرض ڈونلڈ ٹرمپ کا پیدا کردہ نہیں ہے؛ گوکہ ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا امریکہ کے تمام مسائل اور مشکلات کی علامت ہے جو انسانی ہیئت میں مجسم ہوئی ہے؛ لیکن وہ ہماری سماجی بیماری کی ایک نشانی ہے اور اس بیماری کا اصل سبب نہیں ہے۔
کرس ہیجز پولیٹزر انعام (۳) یافتہ صحافی ہیں جنہوں نے امریکہ کی سماجی اور ثقافتی بیماریوں کے بارے میں تحقیق کے سلسلے میں کئی برسوں سے مختلف قسم کے معاشروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب “امریکہ: الوداعی سیاحت” (۴) میں امریکی معاشرے میں گذشتہ کئی عشروں سے انجام پانے والے غلط اقدامات کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے ہم امریکیوں کو اس مقام پر پہنچایا گیا ہے کہ کہ کروڑوں امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے لئے ٹرمپ جیسے مطلق العنان شخص کو ووٹ دیتے ہیں!
کیا امریکہ کو نجات دلانا ممکن ہے؟ کیا جمہوریت میں امریکی تجربہ ناکام ہوچکا ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ آج عیسائی فسطائیت (۵) اور کمپنیوں کی مادر پدر آزاد طاقت امریکی سپنے (۶) کی ویرانی اور عوامی مفادات اور مصلحتوں کی نابودی کے لئے متحدہ ہوچکی ہیں؟ کیا امریکی عوام جمہوریت اور زیادہ صحتمند معاشرے کی بازیابی کے لئے اٹھیں گے؟
ہیجز مذکورہ بالا نئی کتاب کے علاوہ کئی دوسری اور بہت زیادہ بکنے والی کتب کے خالق اور انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی کاوشوں میں “وہم کی سلطنت: خواندگی کا خاتمہ اور سٹہ بازی کی فتح” (۷)، “لبرل طبقے کی موت” (۸)، “جنگ وہ طاقت ہے جو ہمیں بامعنی بنا دیتی ہے” (۹)، “امریکی فاشسٹ: دائیں بازو کے عیسائی اور امریکہ کے خلاف جنگ” (۱۰) اور “تباہی کے دن اور بغاوت کے دن”، (۱۱) جیسی کتابیں شامل ہیں۔
ہیجز نیویارک ٹائمز، (۱۲) کرسچئین سائنس مانیٹر، (۱۳) اور این پی آر (۱۴) کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت ٹروتھ ڈگ (۱۵) نامی اخباری اور تجزیاتی ویب سائٹ کے قلمکاروں میں شامل ہیں۔
انٹرویو لینے والا: چاؤنسی ڈی ویگا (۱۶)
انٹرویو دینے والا: کرس ہیجز
انٹرویو کا متن:
س: ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا تین برسوں سے صدر ہیں، اس عرصے میں حالات توقع سے بہتر ہوئے ہیں یا بد تر؟
جواب: حالات بد تر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے مکمل جنگجو اور نفرت انگیز شخصیت کا مالک رہا ہے۔ لیکن حتی میں اس تصور کے باوجود بھی یہ پیشنگوئی کرنے سے عاجز تھا کہ وہ اس قدر برا ہوگا۔ وہ بھی اور موجودہ صورت حال بَگ ٹُٹ اور ٹرمپ مکمل طور پر بے لَگام ہے۔ آپ ـ ریاست ہائے متحدہ میں سیاسی مباحثے کو کمزور کرنے سمیت ـ تفاعلی جمہوریت (۱۷) کے لئے جو بھی معیار مد نظر رکھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقتاً زوال اور تنزلی کی اس رفتار کو تیزتر کردیا ہے۔ وہ یوں کہ اس نے بڑے سرمایہ داروں کے ٹیکس میں کمی کردی، کوئلے اور رکازی یا حیاتیاتی ایندھن (۱۸) کی دوسری قسموں کو قوانین و ضوابط کی قید سے آزاد کیا، عوامی اراضی کے استعمال کو مجاز قرار دیا، سرکاری تعلیم و تربیت پر حملہ کیا، ماحولیات کے تحفظ کے ادارے کو ناکارہ بنا دیا اور ملکی عدالتوں کو وفاق پرَست انجمن (۱۹) کے نظریہ پردازوں (۲۰) سے بھر دیا؛ یا یوں کہئے کہ مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔
س: ڈونالڈ ٹرمپ کی ظہور پذیری اور ان لوگوں کا برسراقتدار آنا جن کی وہ نمائندگی کررہا ہے، میرے خیال میں حیران کن نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بحران کئی عشروں سے تشکیل پا رہا تھا؛ اس کے باوجود سرمایہ داروں اور کمپنیوں سے وابستہ امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپزم کے ساتھ بدستور ایک حیران کن اور غیرمتوقعہ واقعے کے طور پر پیش آرہے ہیں۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ ٹرمپ اس کی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نمائندگی کے سلسلے میں حقائق بیان کرنے کی طرف راغب نظر نہیں آرہے ہیں۔
جواب: متعدد دہائیوں سے یہ صورت حال بن رہی اور تشکیل پا رہی تھی۔ میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ابلاغی سرگرمیوں کا محرک وہی محرک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو مال کمانے اور پیسہ بنانے کی ترغیب دلاتا ہے اور ٹرمپ ایک ایسے غیر صحتمند اور بیمار تفریح کا حصہ ہے جس نے اس وقت ابلاغیات کی جگہ لے لی ہے۔ مثال کے طور پر آپ سٹارمی ڈینیل (۲۱) اور اس کے وکیل سے متعلق مسائل کو دیکھ لیں، یہ خبریں نہیں ہیں۔ یہ سطحی تشہیرات کا تبادلہ ہے۔ یہ ایک قسم کی تفریح ہے۔ یہ عمل کمپنیوں کی دولت کا خزانہ بھرنے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی این این (۲۲) نے گذشتہ سال سب سے زیادہ آمدنی کمائی: ایک ارب ڈالر۔ یہ عمل منافع کمانے کے لئے اچھا ہے، ٹیلی وژن کی درجہ بندی (۲۳) کے لئے بھی اچھا ہے لیکن صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ اعمال در حقیقت منافع پرستی کے چہرے پر نقاب کے مترادف ہیں۔ دیکھ لیں ان لوگوں کو جو کیبل ٹیلی ویژن چینلز کے لئے نیوز پروگرام تیار کرتے ہیں، دیکھ لیں یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ یہ پروگرام سیاسی میدان کے اشرافیہ کے مفاد کے لئے بنائے جاتے ہیں: پرانے اور مستحکم بنیادوں پر استوار سیاستدان یا سیاستدانوں کے لئے، ایک سابق جرنیل یا کئی سابق جرنیلوں کے لئے جو اسلحہ اور فوجی سازوسامان بنانے والی بڑی امریکی کمپنی “ریتھیون کمپنی” (۲۴) یا دوسری کثیرالقومی دفاعی کمپنیوں کے لئے کام کررہے ہیں؛ جاسوسی اداروں کے سابق سربراہ یا سربراہوں کے لئے، سی آئی اے (۲۵) کے سابق سربراہ جان او برینن (۲۶) کے لئے، جو ان دنوں ایم ایس این بی سی (۲۷) کا تنخواہ دار شراکت دار ہے۔
یہ مقرر شدہ وکالت کرنے والوں کی تصدیق شدہ آوازیں ہیں جنہوں نے امریکہ میں کمپنیوں کی بغاوت (۲۸) کو عملی جامہ پہنایا ہے جس کے بارے میں وہ ابھی تک اس کے بارے میں بیان بازیاں کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد جو واقعہ رونما ہوا وہ ان کے لئے ایک بڑا غیر متوقعہ واقعہ تھا، کیونکہ وہ عملی طور پر ریاست ہائے متحدہ میں زندگی بسر نہیں کررہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایسے ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کو [نیویارکر (۲۹) کے مطابق] ثروتستان (۳۰) کہنا چاہئے۔ یہ مراعات یافتگان ان تمام بلاؤں اور مصیبتوں سے پوری طرح محفوظ ہیں جو انھوں نے نولبرل (۳۱) اور صنعتی انہدام کاری (۳۲) پر اصرار کرکے امریکہ اور پوری دنیا پر مسلط کی ہیں۔
وہ معاشرے ـ اور بالخصوص مزدور طبقے کے ـ اس غیظ و غضب کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں جو امریکی معیشت اور وسیع سطح پر امریکی معاشرے کے نظم و ترتیب میں ان کے اقدامات سے جنم لینے والی خلل اندازی کے نتیجے میں ابھرا ہوا ہے۔
آپ کے پاس ایک ڈیموکریٹ جماعت ہے جو ہر وقت ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی (۳۳) یا جان پوڈسٹا (۳۴) کے ایمیل پیغامات یا ویکی لیکس (۳۵) یا روس کے بارے میں مسلسل بولے جارہی ہے، بغیر اس کے کہ اصل موضوع کے پر غور کرے جو کہ وہی وسیع اور ناقابل یقین سماجی عدم مساوات ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت بھی اس عدم مساوات کا ایک سبب ہے اسی بنا پر اس کے بارے میں بولنے سے گریز کرتی ہے۔ ڈیموکریٹ جس قدر بھی اپنے آپ کو یقین دہانی کرائیں کہ ٹرمپ آخرکار اندر ہی سے پھٹ کر دھماکے سے اڑ جائے گا، اور جس قدر بھی اس بات پر یقین کرنا چاہیں کہ روس دو سال قبل کی صدارتی انتخابات کا اصلی قصوروار ہے، صورت حال مزید خطرناک ہوجائے گی۔ ڈیموکریٹ اصلی اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دیئے بغیر روس جیسی بیرونی طاقتوں کو شیطان کی صورت میں مجسم کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ بنیادی مسئلہ وہ ہے جو امریکی تاریخ میں دولت کی اعلی طبقوں کی طرف عظیم ترین منتقلی کا سبب بنا ہوا ہے اور کمپنیوں کی بنیاد پر قائم زر پرست اشرافیہ کے ایک گروہ کو جنم دے چکا ہے جو اس نقطے پر امریکہ کے سنہری دور (۳۶) کے اشرافیہ سے بدتر ہیں۔
حواشی
۱۔ Chris Hedges (Christopher Lynn Hedges) ۔۔۔ کرس ہیجز امریکی صحافی، پریسبیٹیریَن کلیسا میں خادم دین اور پرنسٹن یونیورسٹی کے جزو وقتی استاد ہیں۔
۲۔ Consumerism
۳۔ Pulitzer Prize
٭ Elites
۴۔ America: The Farewell Tour
۵۔ Christian fascism
۶۔ American dream
۷۔ Empire of Illusion: The End of Literacy and the Triumph of Spectacle
۸۔ Death of the Liberal Class
۹۔ War is a force that gives us meaning
۱۰۔ American Fascists: The Christian Right and the War on America
۱۱۔ Days of Destruction, Days of Revolt
۱۲۔ New York times
۱۳۔ The Christian Science Monitor
۱۴۔ National Public Radio [NPR]
۱۵۔ Truthdig[.]com
۱۶۔ Chauncey Devega
۱۷۔ Functional democracy
۱۸۔ Fossil fuels
۱۹۔ Federalist society
۲۰۔ Ideologues
۲۱۔ Stormy Daniel
۲۲۔ Cable News Network [CNN]
۲۳۔ Rating  اور Ranking
۲۴۔ Raytheon Company
۲۵۔ Central Intelligence Agency [CIA]
۲۶۔ John Owen Brennan
۲۷۔ MSNBC [Microsoft and the National Broadcasting Company]
۲۸۔ Corporate coup
۲۹۔ New Yorker
۳۰۔ Richistan
۳۱۔ Neo-liberalism
۳۲۔ Deindustrialization
۳۴۔ James Brien Comey Jr
۳۵۔ John Podesta
۳۶۔ WikiLeaks

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی